پانچویں قسط مطالعہ:البریقہ شرح الطریقہ عنوان: زبان کی تباہ کاریاں لعنت کا بیان از قلم محمد ایوب مصباحی
لعنت کا بیان
زبان کی تباہی لعنت ہے جو نہایت قبیح اور عادتِ مذمومہ ہے
لعنت کسے کہتے ہیں؟
لعنت اللہ تعالی کی رحمت سے دور رکھنے سے عبارت ہے۔
لعنت کا حکم
جب تک ملعون کا کفر ثابت نہ ہو اس پر بطریقِ جزم علی التعیین لعنت بھیجنا جائز نہیں۔
قیود کے فوائد ۔”بطریق الجزم” کی قید سے لعانِ زوجین خارج ہو گیا اس لیے کہ یہ بطریقِ تعلیق ہوتا ہے ” ثبوتِ کفر” کی قید سے کافر و مبتدع کا لعن خارج ہوگیاجیسے ابو جہل وابلیس وغیرہ کوکہنا “لعنۃ اللہ علیہ”۔
اور “علی التعیین” کی قید سے وہ لعن خارج ہوگیا جو بطریقِ عموم ہوتا ہے جس کی مثالیں احادیث شریف میں کثرت سے وارد ہوئیں۔
کن لوگوں پر لعن طعن کرنا جائز ہے؟ جن کی موت کفر پر ثابت ہو ان پر لعن کرنا جائز ہے جیسے ابوجہل، ابولہب وغیرہ
کیا فرعون پر لعنت بھیج سکتے ہیں؟
فرعون پر لعن کرنا جائز یے کیوں اس کی کفر پر موت پر بے شمار نصوسِ ظاہرہ موجود ہیں۔ جیسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد :”فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُھُمْ اِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْ بَاْسَنَا“(غافر:40)تو ان کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا (کنزالایمان)۔
رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰی اَمْوَلِھِمْ (یونس:88) اے رب ہمارے! ان کے مال برباد کردے(کنزالایمان)۔
وَمَا اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ (ھود:97)اور فرعون کا کام راستی(درستی و امانتداری) کا نہ تھا (کنزالایمان)۔
یَقْدُمُ قَوْمَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (ھود:98)اپنی قوم کے آگےہوگا قیامت کے دن (کنزالایمان)۔
وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (ھود:99) اور ان کے پیچھے پڑی لعنت اس جہان میں اور قیامت کے دن(کنزالایمان)۔
فرعون کے ایمان کی دلیل کا تحقیقی جائزہ
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :قَالَ آمَنْتُ اَنَّہُ لٰااِلٰہَ اِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ آلْاٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ (ھود: 90/91) بولا:میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں ،کیا اب؟ اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا(کنزالایمان)۔
ابن عربی نے اس سے استدلال کیا کہ فرعون کا اس وقت ایمان لانا یاس وناامید کی وجہ سے نہ تھا بلکہ موسی علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر تھا، فرعون نے یہ ملاحظہ کیا تھا کہ حضرتِ موسی علیہ السلام نے دریا عبور کیا اور اس نے راستہ دے دیا لیکن جب میں دریا پار کررہا ہوں تو مجھے راستہ نہ ملا۔تو اسے آپ کے نبی ہونے کا یقین ہوگیا اور ایمان لے آیا اور ” آلْاٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ” کی تقدیری عبارت یوں ہے، ” مَاعَصَیْتَ یَافِرْعَوْنُ اَلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ” بطریقِ منفی جو استفہامِ انکاری سے مفہوم ہے؛ ان کی اتباع کی “داوانی” نے، اور اس کی ایک مستقل رسالے میں وضاحت کی، اور “ملا جامی” نے بھی آپ کی اتباع “شرح الفصوص” میں کی۔
لیکن “ابن الکمال” نے اپنے ایک مستقل رسالے میں متعدد جوابات سے اس کی تردید کی، پھر فرمایا:یہ تمام نصوص جو عدمِ قبولیتِ ایمانِ فرعون پر دال ہیں یا تو محکم ہیں یا مفسر تو ان کے منکر کی تکفیر کی جائے گی، یا نص اور ظاھر ہیں تو ان کے منکر کی تضلیل کی جائے گی ،اور بدعت سے انہیں منسوب کیا جائے گا، پھر فرمایا:فرعون کے معاملے میں توقف کرنا ;جیسے بعض خود کو شیخ ظاھر کرنے والے؛ دین میں ایک نئے قول کی ایجاد کے باوجود فی نفسہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ توقف دو دلیلوں میں قوت میں باہم برابر ہونے کے وقت ہوتا ہے ۔
یزید، حجاج بن یوسف اور ان کےاعو ان و مددگار پر لعن کے بابت محققین کی آراء
“فتاوی کردری” میں ہے یزید پر لعنت کرنا جائز ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ “امام الصفار” سے منقول کہ یزید پر لعن کرنے میں کوئی حرج نہیں اور حضرتِ امیر معاویہ پر لعن کرنا جائز نہیں۔ علامہ ابن الجوزی اور اسی طرح امام احمد ابن حنبل اور ایک جماعت سے منقول ہے کہ یزید پر لعن کرنا جائز ہے اور یہی موقف قاضی ابوعلی کا ہے۔
استدلال
یزید پر لعن کے جواز کے قائلین کی مستدل بہ حدیث یہ ہے “امام احمد نے اپنی مسند میں قاضی ابو یعلی سے روایت کی “جس نے اھلِ مدینہ کو ظلمًا ڈرایا تو اللہ تعالی اسے حراساں کردے گا اور اس پر اللہ ،فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
یزید کی اھلِ مدینہ کو ہراساں کرنے کی انتہا کیا تھی اور کس قدر اس نے مصائب و آلام کے پہاڑ ان پر ڈھائے یہ اس بحث کے آخر میں ہم ذکر کریں گے
علامہ سعد الدین تفتازانی اور علمائے متاخرین کے نزدیک یزید پر لعن کرنا جائز نہیں یہی موقف امام غزالی کا ہے اور یہی قوعدو اصول کے موافق ہے اس لیے کہ ممکن ہے اس نے توبہ کرلی ہو یا اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔
الصواعق المحرقہ میں ہے “رہا نفسِ قاتلِ حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور جس نے قتلِ حسین کو جائز رکھا یا اس سے راضی ہوا تو اس پر بالعموم لعنت بھیجنا جائز ہے”حاصلِ کلام یہ ہے کہ اکثر علما کے نزدیک اور مذھب مختار یہ ہے کہ یزید پر لعن کرنا جائز نہیں۔
یزید کے بارے میں مزید تحقیق
اب تک یزید کے بارے میں جو گذرا وہ سب کتاب “البریقہ شرح الطریقہ”کے اقتباسات تھے، اس بارے میں احقاقِ حق وابطالِ باطل کے لیے کچھ معتبر خارجی کتب کی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔
۔”بہارِ شریعت” حصہ اول میں “صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی” فرماتے ہیں:یزید پلید فاسق فاجر، مرتکبِ کبائر تھا ،معاذاللہ اس سے اور ریحانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امامِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا نسبت….؟! آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں:کہ”ہمیں ان کے معاملے میں کیا دخل؟ ہمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادے”۔ایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی مستحقِ جہنم ہے۔ ہاں! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہل سنت کے تین قول ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک سکوت،یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں نہ مسلمان
۔”فتاوی رضویہ”میں “اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا” ارشاد فرماتے ہیں:”یزید پلید قطعاً یقیناً باجماعِ اہلِ سنت فاسق و فاجر و جری علی الکبائر تھا اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق و اتفاق ہے صرف اس کی تکفیر و لعن میں اختلاف فرمایا۔امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اتباع و موافقین اسے کافر کہتے ہیں اور بہ تخصیصِ نام اس پر لعن کرتے ہیں اور اس آیتِ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں : ” فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْافِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَھُمْ” کیا قریب ہے کہ اگر والئ ملک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتے کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑدیں۔
شک نہیں کہ یزید نے والی ملک ہوکر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین و طیبین و خود کعبہ معظمہ و روضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں، مسجدِکریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبرِ اطہر پر پڑے، تین دن مسجدِ نبوی بے آذان ونماز رہی، مکہ ومدینہ وحجاز میں ہزاروں صحابہ وتابعین بے گناہ شہید کیے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلادیا، مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر مع ہمرائیوں کے تیغِ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گود کے پالے ہوئے تنِ نازنین پر بعدِ شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوانِ مبارک چور ہوگئے، سرِ انور کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایااور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوے رسالت قید کیے گیے، اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گیے۔
اس سے بڑھ کر قطعِ رحم اور زمین میں فساد اور کیا ہوگا ،ملعون ہے وہ جو ان حرکات کو فسق و فجور نہ جانےقرآن عظیم میں صراحۃًاس پر “لَعَنَھُمُ اللّٰہُ“( ان پر اللہ کی لعنت ہے)فرمایا، لہذا امام احمد اور ان کے موافقین اس پر لعنت فرماتے ہیں ۔
اور ہمارے امامِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے لعن و تکفیرسے احتیاطاً سکوت فرمایاکہ اس سے فسق و فجور متواتر ہیں کفرمتواتر نہیں اور بحالِ احتمال نسبتِ کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر ،اور امثالِ وعیدات مشروط بعدمِ توبہ ہیں لقولہ تعالیٰ (فَسَوْفَ یُلْقَوْنَ غَیَّااِلَّا مَنْ تَابَ) تو عنقریب دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوئے اورتوبہ تادمِ غرغرہ مقبول ہے
اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے مگر اس کے فسق و فجور سے انکار کرنا اور امامِ مظلوم پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہب اہلِ سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بد مذہبی صاف ہے بلکہ انصافًا یہ اس کے قلب سے متصور نہیں جس میں محبتِ سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شمہ ہو۔ انتھی۔
لعن کرنے میں رخصت کس حد تک؟
لعن وصفِ عام مذموم کے ساتھ جائز ہے جیسے لعنۃ اللہ علی الظالمین، لعنۃ اللہ علی الکافرین۔ لعنت وصفِ عامِ مذموم کے ساتھ احادیث میں کثرت سے موجود ہے بخاری شریف میں حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں :کہ “کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخصوص کیا ہو اور دوسرے مسلمانوں کو اس کے ساتھ مخصوص نہ کیا ہو، سوائے اس چیز کے جو میری تلوار کی نیام میں ہے
پھر(تلوار کی نیام سے) ایک نوشتہ نکالا جس میں یہ لکھا تھا کہ جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو ، جو زمین کی نشانی چرائے اس پر اللہ کی لعنت ہو، جو اپنے والدین پر لعنت کرے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ،جو کسی ایسے شخص کو ٹھکانا دے جس نے دینِ اسلام میں (عمل یا عقیدے کے اعتبار سے) کوئی نئی چیز نکالی ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
توضیح : اس حدیث شریف میں چار چیزیں بیان کی گئیں پہلا یہ کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا۔ جیسے قائل یوں کہے :”باسم الاتِ والعزی”یا”باسم اللہ وباسم محمد”؛ فتاوی قاضیخاں میں ہے “اسمِ الاہی کے ساتھ غیر کا نام اگر بطریقِ عطف ہو جیسے “باسم اللہ وباسم محمد رسول اللہ” تو یہ حرام ہے اور اگر بغیر عطف ہو تو مکروہ
دوسرا یہ کہ جو زمین کی نشانی چرائے اس پر اللہ کی لعنت ہو اس سے مراد اس کی وہ سرحدیں ہیں جو دو ملکوں کی حدوں کے درمیان واقع ہوں، تیسرا جو والدین پر لعنت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو یہ عام ہے اس سے کہ صراحۃً ہو یا تسببًا، چوتھا یہ کہ جس نے دینِ اسلام میں نیا طریقہ ایجاد کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ان چاروں مقام پر شرعِ مطھر نے بالعموم لعنت فرمائی۔
مسلم شریف میں حضرتِ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کا گواہ بننے والےپر لعنت فرمائی”۔
صحیحین میں حضرتِ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے، کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والی اور جوڑنے والے پر لعنت فرمائی”۔
صحیح بخاری میں حضرتِ عون بن ابی جحیفہ کے والد سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گودوانے والی پر لعنت فرمائی”۔
مناوی نے فرمایا:کہ گودنے کی حرمت پر اجماعِ مسلمین ہے یہ وہی ہے جس کا دورِ حاضر میں بہت چلن ہے انگریزی میں اسے ٹیٹو اور عربی میں اسے “وشم “سے تعبیر کیا جاتاہے، اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تغییرِ خلق اور ابطالِ حکمتِ باری تعالیٰ ہے۔
ابن ماجہ میں حضرتِ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں :” اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر لعنت فرمائی“۔
طلاقِ مغلظہ کے بعد زوجِ ثانی سے نکاح کے وقت شوہر اول شوہرِ ثانی کے لیے یہ شرط لگا دے کہ حلالہ کرنے کے بعد تمہیں طلاق دینا پڑے گی اور شوہر ثانی (محلل) اس پر راضی ہو جائے تو دونوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہے اور اگر عقد میں یہ شرط نہ ہو تو لعن ہے نہ کراہت بلکہ کبھی کبھی اس پر اجر دیا جاتا ہے ۔
مؤطا امام مالک میں حضرت عمرہ بنتِ عبد الرحمن سے روایت ہے، کہ “رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبروں کو (بد نیتی سے) اکھاڑنے والوں پر لعنت فرمائی”۔
سننِ ابی داؤد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں :کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”تین لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے جس نے لوگوں کی امامت کی حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اور ایسی عورت جس نے اس حال میں رات گذاری کہ اس کا شوہر اس پر ناراض ہو اور ایسا شخص جس نے آذان سنی اور اس کا جواب نہ دیا”۔
توضیح:لوگوں کے ناپسند امام کی امامت مکروہ اس وقت ہے جب امام میں از جہتِ دین کچھ کمی ہو ،اگر از جہتِ دنیا کوئی کمی ہو تو کراہت ہے نہ لعنت، اور ایسی عورت پر لعنت جس سے اس کا شوہر ناراض ہو اس وقت ہے جبکہ خاوند امرِ مباح میں ناراض ہو ورنہ عورت پر واجب ہے ناراض ہونا، اس لیے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔
صاحب تحفہ و بدائع کے نزدیک آذان کا جواب قول سے دینا واجب ہے اور صاحبِ ھدایہ و قاضیخاں کے نزدیک فعل سے، لیکن اولی یہ ہے قول و عمل دونوں سے جواب دیا جائے۔
جامع ترمذی میں حضرتِ عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے ،بیان کرتے ہیں:کہ “رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی”۔
رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے اگر دنیاوی نفع کے لیے ہو جیسے منصبِ قضاء و تدریس، اور اگر اپنی ذات سے دفعِ ضرر کے لیے ہو یا ایسا حق حاصل کرنے کے لیے ہو جس تک رشوت کے بغیر نہ پہونچا جاتا ہو تو یہ جائز ہے۔
بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”میرے پاس جبریل امین تشریف لائے، عرض کی اے محمد! صلی الله عليه وسلم بےشک اللہ عزوجل نے شراب، اس کے نچوڑنے والے، نچوڑوانے والے، اس کے پینے والے، اس کے اٹھانے والے، اور جس کی طرف یہ اٹھائی جائے، اس کے بیچنے والے، اس کے خریدنے والے، اس کا جام دینے والے اور اس کا جام لینے والے پر لعنت فرمائی”۔
اولیٰ یہ ہے کہ مومن سے مطلقا لعنت کا صدور نہ ہو اس لیے کہ ذکرِ الہی میں اشتغال اہم ہے، اور اگر ممکن نہ ہو تو سکوت میں سلامتی ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نے ہم پر کسی کی لعنت واجب نہیں کی اگرچہ وہ ابلیس ہی کیوں نہ ہو تو اس میں عبرت ہے عقل مند عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے، تو ترکِ لعن میں کوئی حرج نہیں اگرچہ ابلیس کے لیے ہو؛ رہا حضور صلی الله عليه وسلم کا لعنت فرمانا تو کہا گیا ہے کہ آپ یقینا اشیاء میں وہ بات جانتے ہیں جو دوسرے نہیں جانتے علاوہ ازیں یہ کہ یہ بات درست ہے کہ آپ کی لعنت امت کے حق میں دعا ہے ۔
امام نووی کی”حلیۃ الاولیاء” میں ہے لعنت کے قریب انسان کو بد دعا دینا ہے جیسے یہ کہنا کہ اللہ تعالی اس کے جسم کو صحیح نہ رکھے یا اللہ تعالی اسے سلامت نہ رکھے ۔
صحیحین میں حضرتِ ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:کہ مومن کی لعنت اسے قتل کرنے کی مانند ہے ۔
جامع ترمذی میں حضرتِ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن نہ بہت زیادہ طعنہ دینے والا ہے، نہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہے، نہ بدگو ہے اور نہ بے حیاء ہے۔
مسلم شریف میں حضرتِ ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:ببےشک لعنت کرنے والے روزِ قیامت گواہ ہوں نہ شفیع(نہ آخرت میں جو امت سے انبیاء کے حق میں لی جائے گی اور نہ دنیا میں )۔
“فتاوی تاتارخانیہ” میں ہے کہ “دشنام دہندہ ” یعنی گالی دینے والے کی شہادت مقبول نہیں،۔
ابوداؤد شریف میں حضرت ابودرداء سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں:کہ میں نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جب بندہ کوئی لعن طعن کرتا ہے تو اس کی لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے تو آسمان کے دروازے اس پر بند کردیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں وہ وہ دائیں بائیں اترنا چاہتی ہے لیکن جب وہ کوئی گنجائش نہیں پاتی تو اسی کی طرف لوٹ جاتی ہے جس پر لعن طعن کیا گیا اگر وہ اس کا اہل ہو ورنہ اس کے قائل کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ کسی کے لیے بد دعا کی گئی تو اگر مدعو علیہ اس کا مستحق ہے تو وہ اس کے حق میں قبول کرلی جاتی ہے ورنہ داعی کے حق میں مستجاب ہوتی ہے، تو اس سے یہ لازم آیا کہ جو شرعًا بددعا کا مستحق نہ ہو تو بددعا اس کے لیے مضر نہیں بلکہ بددعا کرنے والے کے لیے مضر ہے
لیکن بعض آثار و نصوص کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ کبھی کبھی بددعا غیرِ مستحق کے حق میں بھی قبول کرلی جاتی ہے جیسے بلعم باعور کا قصہ (کہ یہ ایک ولی تھا جو بد دعا کا مستحق نہ تھا لیکن اس کی بددعا خود اسی کے حق میں مستجاب ہوئی) تو بعید نہیں کہ یہ قضیہ کلیہ نہ ہو بلکہ جزیہ یا اکثریہ کی قوت میں ہو
حدیث شریف میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہتر یہ ہے کہ کسی طرح کی لعنت نہ کی جائے اگرچہ وہ اس کا اہل ہو اس لیے کہ یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ لعنت نفس الامر میں غیر مستحق ہونے کے باوجود اسی پر پلٹ آئے۔
صاحبِ بریقہ نے اپنے بعض رسائل میں ذکر کیا ہے کہ جو بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا کرناجائز ہے بلکہ مستحب ہے مگر یہ کہ بددعا اور الفاظِ لعن کے درمیان تفریق کی جائے۔
کتبہ: محمد ایوب مصباحی
استاذ دارالعلوم گلشنِ مصطفی،بہادرگنج، مراداباد، یوپی، الھند
Amazon Flipkart Havelles Bigbasket