ازقلم:- محمد فیضان رضارضوی علیمی حضور صدر الشریعہ اور خدمت حدیث
حضور صدر الشریعہ اور خدمت حدیث
اعلی حضرت امام احمدرضاخان قادری علیہ الرحمہ کے خلفاو تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے اور بحمدہ تعالی ہرایک اپنے دوروخطہکے یگانہروزگاراور باکمال شخصیت رہےہیں مگران سب میں کچھ ایسی ہستیاں ہیں جو ایک خطہ،ایک علاقہ یاایک زمانہ کےلیےنہیں بلکہ پوری دنیائےسنیت اور ہردوروزمانہ کے لیےباعث فخراورسرمایہ افتخار رہی ہیں ۔
انہیں شخصیات میں سے ایک حضورصدرالشریعہ،بدرالطریقہ،خلیفہ اعلی حضرت،قاضی القضاة،فقیہ اعظم ہندحضرت علامہ مفتی حکیم محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ کی ذات ہے۔ حضور صدرالشریعہ قدسسرہ نے علم حدیث کےمیدان میں جوکارنامے انجام دیےہیں وہ سنہرے حروف سے لکھےجانے کےقابل ہےاس کا اندازہ آپ کی شہرہ آفاق دو عظیم تصنیف سے لگانا نہایت آسان اور سہل ہوگا (۱)بہار شریعت (۲) کشف الاستارحاشیہ شرحمعانیالآثار۔
حضور صدر الشریعہ قدس سرہ اور ان کی شہرہ آفاق تصنیف بہار شریعت اس مضمون کا بھی مطالعہ کریں
آپ نے بڑی جانفشانی سے یہ دونوں کتابیں تصنیف فرمائی ہے ۔علم حدیث اور اصول حدیث کے جواہرپارے آپ نے ملک کے مخلتف بلاد وامصارمیں خوب بکھیرے ہیں اور تشنگان علم وفن کو علم دین مصطفے علیہ التحیہ والثناء کا ایساجام پلایا کہ انہیں بحرعلم وفضل بنادیا۔ بلاشبہ آپ اپنے وقت کے ایک عظیم محقق،مدرس،مفسر،مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ بلندپایہ محدث اور نادرونایاب فقیہ بھی تھے۔
ایسے تو بہارشریعت کاہرقاری اس کا اعتراف کرتاہے کہ آپ نے حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کو جس حسنوخوبی کے ساتھ بیان کیاہے وہ آپ کا ہی حصہتھا لیکن وہ تحقیقی میدان نہیں تھا اس لیے اس سے یہ اندازہ لگانا کہ آپ کو حدیث دانی پر کنتا مہارت تھا مشکل ہے۔
اس لیے میں آپ کے ۷٤ویں عرس مبارک کے موقعہ پر آپ کی خدمت حدیث اور علمی مہارت کودیکھانےکےلیے استاد گرامی ادیب شہیر حضرت علامہ عارف اللہ خان فیضی صاحب قبلہ شیخ الادب فیض العلوم محمد آباد گوہنہ مئو کے مقالہ ٫٫حضرت صدرالشریعہ کی علم حدیث میں مہارت ،، سے ایک اقتباس نقل کرتاہوں جس بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو حدیث دانی پر کنتاعبورتھا اور کیسی تحقیق فرماتےتھے
حدیثی اصول کے مطابق، حدیث کےموقوف ہونے پر اس کے مرفوع ہونے کوترجیح اور دوسرے ائمہ کارد
٫٫شہربنحوشب حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث : اَنَّرَسُوْلَاللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم تَوَضَّأَفَمَسَحَأذْنَیْهِ مَعَالرَّأسِ کےآخری ٹکڑے ٫٫وقال: الأذنان مِنَالرأس،، کےمتعلق امام ترمذی نے قتبیہ کایہ قول نقل کیاکہ حماد کاکہنا ہےکہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ نبی صلى الله عليه وسلم کاقول ہے یاابوامامہ باہلی کا۔
بہیقی نےکہا:حماد سے قتبیہ کی جو روایت ہے اس میں حماد کو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے ،اسی لیے وہ کہتےہیں کہ مجھے پتہ نہیں یہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا قول ہے یاحضرت ابوامامہکا۔ سیلمان ہی حرب اسے حماد سے روایت کرتےاور کہتےکہ یہ ابوامامہ کا قول ہے۔ اور شہربن حوشب کو ضعیف بھی قراردیاگیاہے۔
حضرت صدرالشریعہ اس کا جواب دیتےہوئےارقام فرماتےہیں حمادسے یہ مرفوعاًبھی مروی ہے اور موقوفاً بھی۔ چنانچہ ابوالربیع نے حمادسےاسے مرفوعاً روایت کیااور کہا:میں دانست کے مطابق جن جن لوگوں سے اس کا سماع کیاانہوں نے اس کو مرفوعاً روایت کیاہے،اسی طرح حماد سےمسدد کی روایت بھی مخلتف ہے ،ایک روایت مرفوع ہے تو دوسری موقوف ۔
اور ہے کہ جب کوئی ثقہ راوی ایک حدیث کو مرفوعاً روایت کرے اور دوسرا ثقہ راوی موقوف قراردے،یاایک ہی ثقہ راوی ایک ہی حدیث کو مرفوع اور موقوف دونوں طرق سے روایت کرے تو رفع کو تقدیم وترجیح حاصل ہوگی ، کیوں کہ یہ ایک ٫٫زیادت،، ہے ( باب حکم الاذان فی وضوءالصلوة ۷۷٦ /بحوالہ صدرالشریعہ اور خدمت حدیث مجموعہ مقالات سیمینار ۲۰۰۹ ص ۵۰)۔
حضور صدرالشریعہ نوراللہ مرقدہ کی خدمت حدیث کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایاجاسکتاہے اللہ کریم حضور صدرالشریعہ کے علمی فیضان سے ہمیں بھی فیض یابی عطاکرے آمین بجاہ سیدالمرسلین یارب العالمین وبجاہ سید المرسلین علیہ الصلوة والسلام
️محمد فیضان رضارضوی علیمی
نائب صدرجماعترضائےمصطفی سیتامڑھی
واستاد جامعہ شرفیہ رضویہ مدھوبنی بہار
faizanrazarazvi78692@gmail.com
۔ 2/ذیقعدہ1441ھ بروز بدھ بموقع عرس امجدی