قصیدتان رائعتان تعارف و جائزہ ( قسطِ اول) قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں
قصیدتان رائعتان تعارف و جائزہ
جامع معقول و منقول، سیف اللہ المسلول، معین الحق والاصول علامہ فضلِ رسول قادری، عثمانی، بدایونی، ولادت 1213 ھ، وفات 1289 ھ، تَغَمَّدَہُ اللّٰہُ بِغُفْرَانِہِ کی ذات بر صغیر کے مشائخ میں ایک امتیازی مقام رکھتی ہے ۔ آپ ایک بہترین، متبحر عالمِ دین، حسنِ اخلاق کا مرکز، عشقِ رسول کا پیکر اور علم و عمل کا بحرِ بے کراں ہیں، احقاقِ حق وابطالِ باطل آپ کی زندگی کا اصل مقصد اور احیائے سنت آپ کا شعار ہے تھا۔
جب تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں کچھ باطل پرست لوگوں نے محمد بن عبد الوہاب نجدی کے باطل عقائد و نظریات اور اس کے ناپاک منصوبوں کو فروغ دینے کی سعی کی تو آپ نے برجستہ ان باطل عقائد نظریات کا ردِبلیغ فرمایا، اور باطل کی ایسی سرکوبی فرمائی کہ جاء الحق وزھق الباطل کی مثال صادق آئی ۔
آپ نے متعدد کتبِ متداولہ مثلاً “سوط الرحمان علی قرن الشیطان، المعتقد المنتقد، اور سیف الجبار “وغیرھم ان کے باطل عقائد ونظریات کے ردوابطال می تصنیف فرمائیں جن پر بر صغیر ہندوپاک کے غیر واحد علما نے حواشی وتعلیقات مرتب فرمائیں
انھیں شخصیات میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد فاضلِ بریلوی ہیں جن کی ذات محتاجِ تعارف نہیں جب آپ نے سیف اللہ المسلول علامی فضلِ رسول قادری کی حیات وخدمات کا بغور مطالعہ فرمایا تو آپ کے قلبِ ناز میں موصوفِ مذکور سے محبت و الفت، شخصیت شناسی اور علم دوستی کی قندیل فروزاں ہوئی اور جب آپ نے اس امرِ حقیقت کا اعتراف کیا تو دو قصیدے معرضِ وجود میں آئے ۔
سنِ تالیف و سببِ تالیف
حضرت سیدنا ومولانا سیف اللہ المسلول، معین الحق والاصول علامہ فضلِ رسول قادری، برکاتی، عثمانی دام ظلہ العالی کی وفات 1289 ھ کے بعد سے 1319 ھ تک آپ کا عرس مبارک یکم جمادی الاخری سے ہفتم جمادی الاخری تک ہفت روزہ منعقد ہوا کرتا تھا۔ جس میں ملک و ملت کے مشاہیر علماے ذوی الاحترام و مشائخِ عظام شریکِ اجلاس ہوا کرتے تھے، اس وقت درگاہ کےصاحب سجادہ تاج الفحول علامہ عبد القادر بدایونی تھے۔
اور جلسہ کے ناظم ومہتمم فضیلۃ الشیخ مولانا انوار الحق عثمانی، بدایونی رہاکرتے تھے ۔ ان اعراسِ مبارکہ میں اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شرکت ہوا کرتی تھی۔
جب 1300 ھ میں منعقد احتفال کا افتتاح ہوا تو آپ بھی شریکِ بزم ہوئے، اور آپ نے سیف اللہ المسلول علامہ فضلِ رسول قادری بدایونی نور اللہ مرقدہ کی بارگاہِ پرانوار میں منقبت کے طور پر دو قصیدوں کا خراجِ عقیدت پیش کیا ۔
جن میں پہلا قصیدہ دالیہ اور دوسرا قصیدہ نونیہ تھا یہ دونوں قصیدے بانتسابِ اہلِ بدر 313/ اشعار پر مشتمل تھے۔جیساکہ مصنفِ علام نے خود اس امرکی وضاحت مقدمہ میں فرمادی ہے۔
آپ فرماتے ہیں
قصیدتان مشتملتان علی 313 شعرا بعددِ اصحابِ بدر رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی مدح تاج الفحول، سیف اللہ المسلول علی اعداء الرسول العثمانی، القادری، الحنفی، البدایونی رحمہ اللہ تعالیٰ (مقدمہ قصیدتان رائعتان، ص:1) اس وقت کا معمول یہ تھا کہ جلسہ کے اختتام کے بعد شعرا کی جدید نعت و منقبت بنام جلسہ کی روداد شائع کردی جاتی تھی، یہ روداد بھی بنام “ماہِ تابانِ اوجِ مغفرت “شائع ہوئی لیکن اس میں قصیدہ دالیہ ہی شائع ہوسکا اور قصیدہ نونیہ بخوفِ کثرتِ طوالت شائع نہ ہوسکا۔
قصیدوں کے تاریخی نام
زیرِ نظر دونوں قصیدوں میں سے قصیدہ دالیہ کا نام “حماید فضلِ الرسول” اور قصیدہ نونیہ کا نام “مدایح فضلِ الرسول”تاریخی نام ہیں جن سے ان قصائد کی تاریخِ نظم برآمد ہوتی ہے اس لیے کہ ان قصائد کا مجموعی عدد 313 ہے۔
بعض حضرات نے قصیدہ دالیہ کا نام”مدائح فضل الرسول”اور قصیدہ نونیہ کا نام “حمائد فضل الرسول” رکھا جو محض باطل پر مبنی ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری نے اپنی تصنیفِ لطیف “المجمل المعدد” میں ان دونوں قصیدوں کا ذکر کیا ہے اور حمائد فضل الرسول کے آگے مطبوعہ اور مدائح فضل الرسول کے آگے مبیضہ لکھا ہے۔
اور یہ بات نیم روز سے زیادہ واضح ہے کہ اس وقت تک قصیدہ دالیہ ہی جلسے کی روداد بنام “ماہِ تابانِ اوج معرفت”طبع ہوا تھا اور قصیدہ نونیہ بخوفِ طوالت چھوڑ دیا تھا لہذا متعین ہوگیا کہ حمائد فضل الرسول قصیدہ دالیہ ہے نہ کہ نونیہ۔
دیگر بعض حضرات کا خیال یہ بھی ہے کہ قصیدہ دالیہ کا نام”مدائحِ فضلِ رسول “اور قصیدہ نونیہ کا نام“حمائدِ فضلِ رسول” بالہمزہ وبدونِ اللام فی الموضعین ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ “مدائحِ فضلِ رسول”اور “حمائدِ فضلِ رسول” کا مجموعی عدد 1259 برآمد ہوتا ہے جو اس کا سن نظم نہیں ہے اور اگر اسی کو “مدایح فضلِ الرسول” اور “حماید فضلِ الرسول” بالیاء واللام فی الموضعین پڑھیں تو اس کا مجموعی عدد 1300 برآمد ہوتا ہے اور یہی اس کا سنِ نظم ہے۔
اشعار کی تعداد
ان قصائد میں پہلا قصیدہ نون کی روی پر 243/ اشعار پر محتو و مشتمل بحرِ کامل میں ہے، اور دوسرا قصیدہ دال کی روی پر 70/اشعار پر مشتمل بحرِ کامل مجزو میں ہے۔
مخطوطے کا تعارف
اعلٰی حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان یہ اشعار پڑھنے کے بعد جناب گرامی قدر تاج الفحول عبد القادر بدایونی کو عطا کردیے، مولانا موصوف نے اس مخطوطے کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا، ان قصائد میں قصیدہ دالیہ جلسہ کی مختصر روداد بنام “ماہِ تابانِ اوجِ معرفت “طبع ہوچکا تھا
لیکن اس پر بھی ایک عرصہ دراز گزر گیا اور از سرِ نو طباعت نہ ہوسکی اور ہاں قصیدہ دالیہ تو ابھی تک تشنہ طباعت تھا، لہذا دونوں ہی قصیدوں پر تقریبا ایک قرن سے زیادہ کا وقت گزر گیا، لیکن پھر بھی یہ مخطوطہ طویل عرصے تک خانقاہِ قادریہ میں مصون ومحفوظ رہا ۔تمام روے زمین پر اس وقت یہ واحد نسخہ تھا کہ جسے عام علما تو درکنار خانقاہِ رضویات کے اہم کارکنان بھی اس سے نابلد تھے، یقینا اگر یہ نسخہ دست برد زمانہ کا شکار ہوجاتا تو ضرور دنیا ایک فن پارے اور بیش قیمت سرمایے سے محروم ہوجاتی۔
طباعت واشاعت
ادیبِ شہیر علامہ مولانا محمد احمد مصباحی (سابق پرنسپل الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ) جب 1988 ء میں فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحمید (صاحبِ سجادہ خانقاہِ قادریہ بدایوں) کے پاس تشریف لے گیے اور ان سے ملاقات کی تو صاحبِ سجادہ نے مصباحی صاحب کو اس مخطوطہ کی زیارت کرائی۔
آپ نے ان سے اس مخطوطے کے عکس کی خواہش کا اظہار کیا، تو صاحبِ سجادہ نے بسببِ علم دوستی ،دین پروری؛ اعلی ظرفی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو اس مخطوطے کا عکس عنایت کردیا، پھر مصباحی صاحب نے اسے جنوری، 1989ء میں مکتبہ “المجمع الاسلامی ” سے “قصیدتان رائعتان ” کے نام سے شائع کردیا۔
قصیدتان رائعتان کی مقبولیت
یہ قصائد بارگاہِ ممدوحین میں کچھ اتنے زیادہ مقبول ہوئے کہ جتنی ان کی امید بھی نہ تھی، خود فاضلِ بریلوی اس کا انکشاف اپنی کتاب “العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ” میں فرماتے ہیں، اور قصیدہ دالیہ کے کچھ اشعار بھی اس میں نقل کیے ہیں، فرماتے ہیں:۔
وَمِمَّاقُلْتُ قَدِیْمًافِیْ رَبِیْعِ الْآخَرِسَنَۃَ اَلْفٍ وَّثَلٰثِ مِئَۃٍ فَرَءَیْتُ الْاِجَابَۃَ فَوْقَ الْعَادَۃِ وَ فَوْقَ الْمَطْلَبِ وَالْاِرَادَۃِ سَرِیْعًا فِیْ السَّاعَۃِ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ اَبَدًا، وَاَرْجُوْ مِثْلَہُ سَرْمَدًا۔
ترجمہ: اور ان میں وہ(قصیدہ) ہے جو میں نے ایک زمانہ قبل 1300ھ میں نظم کیا تھا، تو میں نے حیرت انگیز طور پر مطلب و ارادے سے فزوں تر نہایت سرعت کے ساتھ اس کی قبولیت و اجابت کا مشاہدہ کیا، تمام تعریفیں ہمیشہ اللہ ہی کے لیے ہیں، میں امید کرتاہوں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے۔
قصیدتان رائعتان کا ایک اہم ہہلو
قصیدتان رائعتان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان قصائد کے درمیان کہیں بھی تکرار قافیہ نہیں ہے جیسا کہ ظاہراً وہم ہوتا ہے۔ ہم ذیل میں صرف تین مثالیں آپ کے سامنے ہیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ نفس الامر میں تکرار نہیں ہے۔
۔ (1)لفظِ اعیان شعر: 49،199،227 تین جگہ آیا۔ مگر پہلی جگہ “العین”بمعنی “سردارِ قوم”اور دوسری جگہ “اعیا”فعلِ ماضی اور”نی”ضمیرِ منصوب متصل ہے ۔اور تیسری جگہ “اعیانی”العین بمعنی آنکھ کی جمع ہے جو یاے متکل کی طرف مضاف ہے۔
۔ (2) لفظِ “آن”شعر: 156،59،16 تین مقامات پر ذکر کیا گیاہے۔مگر پہلے مقام پر “قریب”کے معنی میں ہے، دوسری جگہ “الآن“”اسی وقت”کے معنی میں اور تیسری جگہ “الآن“”گرم پانی کے معنی میں مستعمل ہے۔یہ دونوں مثالیں قصیدہ نونیہ کی تھیں، ایک مثال قصیدہ “دالیہ” کی دیکھیں۔
۔ (3)شعر:12میں لفظِ “احمد “مذکور ہوا، پھر شعر:28 میں بھی یہی لفظ مذکور ہوا جس سے تکرارِ قافیہ کا وہم ہوا۔اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :پہلے احمد سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے ، اور دوسری جگہ “احمد” سے معنی لغوی مراد ہے۔اس کو حاشیے میں اس طرح بیان کیا:” اَرَادَ الْمَعْنَی اللُّغَوِیَّۃَ فَصَحَّ قَوْلُہُ” یُوْصَفُ” وَلَمْ یَلْزَمْ تَکْرَارُ الْقَافِیَۃِ ، ترجمہ:یہاں لفظِ احمد سے مراد معنی لغوی ہے، لہذا شاعر کا قول” یوصف” کہنا درست ہے اور تکراتِ قافیہ بھی لازم نہیں آئی۔
چھ قسطوں پر مشتمل زبان کی تباہ کاریاں ضرور پڑھیں اس پر کلک کریں سارے قسط موجود ہیں
تحریر: محمد ایوب مصباحی
استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی، بہادر گنج
مرادآباد، یوپی
قصیدتان رائعتان:تعارف وجائزہ قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع