از محمد احمد حسن سعدی امجدی ایک لمحہ فکریہ جلسے کو سیاست حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا
جلسے کو سیاست حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا
مجھے یاد ہے کہ وہ 2009 کا زمانہ تھا جب میرے اندر کچھ سمجھنے اور پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور یہ وہی مبارک سال ہے جس میں میں نے درس نظامیہ کی تعلیم کا آغاز کیا تھا , میرے والد محترم (اللہ ان کی عمر دراز فرمائے) نے میرا داخلہ میرے بڑے بھائی کے ساتھ ضلع گورکھپور میں واقع دارالعلوم اہل سنت انوارالعلوم بیلوں بازار میں کیا
تعلیم جاری تھی ، دیکھتے ہی دیکھتے پورا سال ختم ہونے کو پہنچا ، پھر سالانہ جلسے کا وقت بھی آن پڑا،جس کے لیے ایک لمبا چوڑا اشتہار چھپوایا گیا، ماشاءاللہ طول و عرض میں اتنا بڑا اشتہار شاید پہلی بار میری نگاہوں کی زینت بنا تھا
اسے دیکھ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اس اشتہار میں جہاں ایک طرف اعلی درجے کی پرنٹنگ اس کی خوبصورتی میں دوبالگی پیدا کر رہی تھی تو وہیں دوسری جانب ایک حسین پیرائے میں درجنوں بھر علماء اور شعراء حضرات کے اسمائے مبارکہ اسے پڑھنے کی طمع کو مزید اجاگر کر رہے تھے
خیرپورا پوسٹر پڑھنے کا شرف حاصل کیا ، پھر سب سے نیچے ایک لائن میں بری طرح پھنس کے رہ گیا اور وہ لائن تھی ، نوٹ جلسے کو سیاست حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ، کم سنی کے باعث وہ لائن سمجھنے سے قاصر رہا ، لیکن اپنے بڑوں سے استفسار پر الحمد للہ فوری طور پر وہ چیز مجھ پر واضح ہو گئی
اس کے بعد اب تک جتنے بھی جلسوں کے اشتہارات نگاہوں سے گزرے یہ لائن ان تمام اشتہارات میں ضرور پایا، اور ایک حد تک ہر انتظامیہ کی جانب سے شائع کردہ مذکورہ لائن پر خوب خوب عمل بھی ہوتا ہے ، اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ قریب قریب پوری رات بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں اور اس میں درجنوں علماء، شعراء حضرات نعت و تقاریر کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے ہیں جو کہ وقت کی ضرورت ہے لیکن جلسوں کو سیاست سے دور رکھنے کا قضیہ اب تک میرے سمجھ میں نہیں آیا
لوگوں کو ملک کے سلگتے ہوئے مسائل سے ناواقف رکھ کر آخر کیا ثابت کیا گیا؟ شاید اسی لائن کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم طبقہ سیاست میں قدم رکھنے سے کوسو دور بھاگتا ہے، ہماری عوام جلسوں کے ذریعے الحمدللہ ایک حد تک بہت سی گراں قدر دینی باتیں تو جان چکی ہے، لیکن مسلم پرسنل لا کیا ہے ہمیں نہیں معلوم، ہمارے ملک کے عزیز قانون کے حوالے سے ہمارے پاس ذرہ برابر علم نہیں، وہ کتنے آرٹیکلس ہیں جو مذہبی بھید بھاؤ کی بیخ کنی کرتے ہیں، انھیں ہم نہیں جانتے
آج ہمارے سامنے ہمارے اسلامی قانون میں بے جا مداخلت کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہماری عوام اس سے ناآشنا ہے، پورے ملک میں طلاق ثلاثہ کو ایک غلط زاویہ نظر سے پیش کرکے اس کے خلاف قانون پاس کیا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ہماری عوام کو اس سے کیا سروکار ؟ پردہ جیسی عظیم نعمت کو مسلم عورتوں کے گلے کا طوق بتایا جاتا ہے لیکن ہماری جانب سے کوئی خاص ردعمل نظر نہیں آتا ،
اور رہی بات سیاست کی تو سیاست کے میدان میں ہماری پسماندگی کا عالم تو یہ ہے کہ لوک سبھا کی 400 سے زائد سیٹوں میں مسلم ایم پی 15 16 سے زیادہ نہیں ہیں ،ودھان سبھا میں ہمارے مسلم لیڈران اتنے ہی ہیں جنہیں انگلیوں پر بآسانی شمار کیا جاسکتا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی عوام پر کوئی خطرہ آن پڑتا ہے تو علمائے ربانیین ہر طور سے ان کے دفاع کے لیے سامنے آتے ہیں اور اپنے ارشادات و توجیہات سے ان کی رہنمائی اور قیادت فرما کر بیچ منجھدار میں پھنسی ان کی امیدوں کی کشتی کو ساحل سمندر سے ہمکنار کرتے ہیں تو آج بھی ضرورت ہے علماء حضرات اس مسئلے پر کافی گہرائی اور گیرائی سے غور کریں اور اس کا حل تلاش کریں
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے جلسوں میں محفلوں میں کم از کم ایک تقریر حالات حاضرہ پر ضرور کروائیں، عوام کو مسلم پرسنل لا کیا ہے اس کی پوری معلومات دیں، مسلموں کو زیادہ سے زیادہ سیاست میں قدم رکھنے کی تلقین کریں تاکہ ہم اور ہماری قوم موجودہ حالات کے تلاطم سے نکل سکے اور ہمارے خلاف کیے جانے والی تمام سازشوں سے پردہ ہٹا کر اس کا منھ توڑ جواب دیا جا سکے ۔
محمد احمد حسن سعدی امجدی
متعلم، جامعة البركات علي گڑھ۔
مسکن، لکھن پوروا رودھولی بازار ضلع بستی یوپی الہند۔
رابطہ 8840061391
اس کو بھی پڑھیں تحریر براے مشق مضمون نگاری