Friday, October 4, 2024
Homeعظمت مصطفیٰہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں

تحریر طارق انور مصباحی باسمہ  تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ  ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں

 اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں اپنے آخری رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمارے لیے آئیڈیل اورنمونہ بتایا ہے، پھر کسی دوسرے کی تلاش کیوں؟ راجح کی موجودگی میں مرجوح کو اختیار کرنے کا سبب کیا ہے ؟

افضل کی موجود گی میں مفضو ل سے وابستگی کی ضرورت کیا ہے؟  حضوراقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃوالثنا کا کلمہ پڑھ کرتم کسی اور کی جانب کیوں دیکھ رہے ہو؟اس بے نظیر وبے مثال رسول کو اپنا آئیڈیل کیوں نہیں بناتے جن کو آئیڈیل بنانے کاحکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں دیاہے؟

ارشاد خداوندی ہے  :   ولقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃحسنۃ  (سورہ احزاب:آیت21)۔

جس رسول کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں،انہیں کونمونہ عمل بنانے کاحکم قرآن مجید میں وارد ہوا۔حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور تعلیمات عالیہ سے واقف وآشنا ہوکر بھی فلاں فلاں کوآئیڈیل بنانے کی ضرورت کیا ہے؟

کیا یہ شیطانی فریب نہیں کہ اصل آئیڈیل سے منحرف کرکے کسی اور کی شخصیت کو تمہارے لیے آئیڈیل بنا دے اور پھر اس کے قابل اعتراض عمل پر تمہیں ورغلاکرحکم الٰہی سے برگشتہ کردے،یا دین خداوندی سے منحرف کردے۔اپنے آپ کو سنبھالو۔ 

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا آئیڈیل بنا نے کی کوئی ضرورت نہیں،بلکہ عہد حاضر میں نقصان دہ ہے۔ ہمارا اخلاقی معیاربھی بہت پست ہوچکا ہے اور ایمان بھی بہت مستحکم نہیں۔ کب کون ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے،معلوم نہیں۔ حدیث شریف میں آیا کہ لوگ صبح کومومن ہوں گے اور شام کوکافر۔ شام کو مومن ہوں گے اورصبح کوکافر۔ (مسند امام احمد بن حنبل -المستدرک للحاکم)۔

جب لوگ کسی عالم وفاضل یااستاذ و پیر کو اپنا آئیڈیل بنالیتے ہیں تو اس کا برا انجام یہ ہوتا ہے کہ اگروہ عالم وفاضل یااستاذو پیر کفر وگمرہی میں مبتلا ہوتا ہے تو متعلقین ومنسلکین اور تلامذہ ومریدین بھی کفر وگمرہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے مقتدا وپیشوا اوراستاذ وپیر کوچھوڑنا ان کے لیے شاق گزرتا ہے۔

اسماعیل دہلوی سنی صحیح العقیدہ خاندان کا چشم وچراغ تھا۔جب وہ گمرہی میں مبتلا ہواتو جو لوگ اس سے متاثر تھے،وہ بھی ضلالت وگمرہی کے دلدل میں جاپھنسے۔جو راسخ العقیدہ مومنین اسماعیل دہلوی کومحض ایک عالم واسلامی رہنما سمجھتے تھے،جب ان کو اسماعیل دہلوی کی ضلالت وگمرہی کی خبرملی تواس سے جدا ہوگئے۔

آپ عالم وفاضل اوراستاذوپیر کے حقوق اداکریں،ان کی تعظیم وتکریم اورآداب بجا لائیں۔ان سے شرعی احکام دریافت کریں۔اگرآپ غیرمجتہد ہیں تو باب فقہیات میں کسی امام مجتہد کی تقلید کریں۔باب اعتقادیات میں اہل سنت وجماعت کے علمائے معتمدین کی توضیح وتشریح کو اختیار کریں،لیکن حضور اقدس تاجدارکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مبارک کوہی اپنا آئیڈیل بنائیں اور سیرت نبوی کا مطالعہ کرتے رہیں۔

راہ سلوک طے کرنے والے اپنے شیخ ایصال کی رہنمائی میں تعلیمات مصطفویہ پر عمل کریں،اورعام مومنین اپنے امام مجتہدوفقہائے مذہب کی تخریجات کی روشنی میں۔شیخ اتصال کو شیخ ایصال یا امام مجتہدکا ہم رتبہ نہ بنایا جائے۔کسی کوشیخ اتصال بنانے سے قبل شیخ اتصال کے اندرشرائط اربعہ کودیکھ لیں،ورنہ بیعت برکت بے فائدہ ہوگی،بلکہ نقصان کی امید زیادہ ہے۔

شیخ اتصال کوچاہیے کہ اپنے مریدین کے روابط محبت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے قوی سے قوی تر بنانے کی کوشش کریں،نہ کہ مریدین کوحضرت موسیٰ وخضرعلیہما الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ سنائیں۔یہ حکم شیخ ایصال کا ہے،نہ کہ شیخ اتصال کا۔اپنی حقیقت کو سمجھیں۔

عہد حاضر میں فتنوں کی کثرت کے سبب عام مومنین حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھیں اور کسی شرعی مسئلہ سے لاعلمی کی صورت میں فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون پرعمل کریں۔اگر کسی عالم ومفتی یاشیخ واستاذ کے ذریعہ مسئلہ حق کی دریافت نہ ہوسکے تو دیگر اہل حق کی طرف رجوع کر یں۔

دیگراہل حق کی طرف رجوع اسی وقت آسان ہوگا،جب کہ آپ نے کسی کو اپنا آئیڈیل نہ بنایا ہو، ورنہ عقیدت مند عام طور پر اپنے آستانہ عقیدت کوچھوڑتا نہیں،گرچہ وہاں کفروارتداد اورضلالت وگمرہی تقسیم ہورہی ہو، اسی لیے کہتا ہوں کہ اپنے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کوہی اپنا آئیڈیل تسلیم کرلو۔

آپ کلمہ طیبہ ” لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ “پڑھ کر مسلمان ہوگیے،پھر رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اسی رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنے لیے نمونہ اور آئیڈیل بنالو تو پھرآپ اِدھر داُدھر کیوں جارہے ہیں؟ 

اسی رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ و حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور اس عظیم ہستی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ اپنی فکر کو بلند رکھیں۔ بلندی فکر انسان کوبلندرتبہ بناتی ہے۔بلند قد وقامت سے کوئی بلند رتبہ نہیں ہوتا،ورنہ عوج بن عنق کا رتبہ بھی بلند ہوتا۔

جب ہم اورآپ اپنے پیارے رسول علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اپنا آئیڈیل بنالیں گے تو بہت آسانی کے ساتھ حب مصطفوی کی شرط کی تکمیل ہوسکے گی،جو ایمان کی شرط اول ہے۔ ادھر ادھر چلے جانے سے عشق مصطفو ی اور محبت نبوی کی رفتارترقی متاثر ہوجاتی ہے،کیوں کہ آپ اس جانب متوجہ نہیں،حالاں کہ عشق محمدی دولت عظمیٰ اور نعمت کبریٰ ہے۔ حب نبوی تمام حسنات وبرکات کا وسیلہ اور دربار خداوندی میں قبولیت کا ذریعہ ہے۔

کی محمد سے وفاتونے توہم تیرے ہیں 

 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں 

 

 

غیر معصومین سے لغزش وخطا کا امکان بھی ہے اور صدو ر بھی ہوتا ہے۔اب غیرمعصومین میں کون محفوظ عن الخطا ہے اور کون غیر محفوظ؟اس کا ادراک مشکل امر ہے۔ 

بلعم باعور ولی تھا اور آج سے ہزاروں سال قبل دنیاوی دولت اور فانی جاہ وحشمت کے حرص وہوس میں ولایت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ آج کے عہد میں تو مادہ پرستی عام ہوچکی ہے۔

شیطان معلم الملائکہ تھا۔ اپنے غروروتکبر کے سبب دربار الٰہی سے نکالا گیا،پھر نہ جانے کتنوں کو راہ حق سے برگشتہ کردیا،یہاں تک کہ بہت سے اولیاے کرام کوبھی اپنے جال میں پھنسا لیا۔ آج بھی کبرونخوت کے سبب ترک حق کی گرم بازاری ہے۔جسے ہم دین پر امین سمجھتے ہیں،ممکن ہے کہ وہ خائن ہو۔

مشہور مقولہ ہے:     کل شیء یرجع الٰی اصلہ ۔ ہرچیز اپنی اصلیت کی طرف پلٹ جاتی ہے۔

گر چہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اتباع کے سبب ہم اپنے آس پاس کے علماوفضلا اور استاذ وپیر کو آئیڈیل بنا لیتے تھے، لیکن عہد حاضر میں خطرات بڑھتے جارہے ہیں،اس لیے قدم پھونک کر رکھنا ہوگا۔ 

افضل یہی ہے کہ افضل الخلائق علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنی زندگی کا آئیڈیل بنائیں۔

آمدہ بودیم از دریا بموج   

 باز ازموجے بدریا می رویم    

مسلک اعلیٰ حضرت یہی ہے کہ سنی مسلمان عشق نبوی میں مستغرق رہے۔ اس کی روحانیت اوراس کا باطن حضوراقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذات اقدس کا طواف کرتا رہے اور جملہ اہل حق کے حقوق و آداب کی پاس داری بھی کی جائے۔

جان ودل ہوش وخرد سب تومدینے پہنچے 

کیوں نہیں چلتے رضا سارا توسامان گیا 

انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام 

للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا 

 جب حضور اقدس تاجدار کائنات علیہ الصلوٰۃوالسلام کومان لیا تو سب کومان لیا،کیوں گہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہرایک اہل حق کوماننے کاحکم ہے۔جب ان کومانے گا تو ان کا کلمہ پڑھے گا۔کلمہ میں سب سے پہلے رب تعالیٰ کو مانے گا،پھر حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو۔ اسلامی کلمہ پڑھ کر جس مذہب میں انسان داخل ہوگا،اس میں ہر اہل حق کوماننے اوران کے حقوق وآداب کی بجا آوری کی تعلیم دی گئی ہے۔

تعلیمات مصطفویہ میں حضرات انبیاے کرام،ملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام، صحابہ کرام،اہل بیت عظام،علماے کرام واولیاے عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو ماننے اوران کے حقوق وآداب کی رعایت کا حکم ہے۔

اسی طرح جملہ مومنین کے حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں،خواہ وہ استاذہویاپیر، والدین ہوں یا آل واولاد،رشتہ دار ہو،یا پڑوسی۔ہرایک اہل حق کے حقوق وآداب کا بیان تعلیمات نبویہ میں موجود ہے۔ 

مذکورہ بالا شعر میں ” نہ رکھا غیر سے کام  “سے مراد غیر اہل حق ہیں کہ جن کے لیے تعلیمات نبویہ میں کوئی جگہ نہیں ہے، مثلاً معبودان باطل، کفار ومرتدین وغیرہ۔

 ہر قوم کے لیے اس کے نبی ورسول کو مرجع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ کی جانب سے دین ومذہب کے احکام نبی ورسول کے پاس آتے ہیں اوروہ نبی ورسول قوم کو ان احکام کی تعلیم دیتے ہیں تو قوم کو دین ومذہب سے متعلق سارے احکام اپنے نبی سے دستیاب وفراہم ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمام احکام نبی ورسول کے پاس آئے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی اسی نبی کے وسیلے سے اس قوم کو عطا ہوتی ہے۔ معرفت الٰہی کے تمام درجات،مثلاً صدیقیت،قطبیت،غوثیت وغیرہادرجات ومراتب اسی نبی کے وسیلے سے اس قوم کوعطا ہوتے ہیں۔

الحاصل ایمان اخروی نعمتوں کی شرط ہے،اور ایمان نبی کے وسیلے سے قوم کو حاصل ہوتاہے۔ تمام روحانی مراتب وباطنی درجات اسی نبی کے توسل سے اس قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ عام بند گان الٰہی کا براہ راست اوربلاواسطہ تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں۔

ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریعی امور کے ساتھ تکوینی امور میں بھی اللہ تعالیٰ کے نائب مطلق ہیں۔ دنیا وآخرت کی ساری بھلائیوں کے لیے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے،اور اللہ تعالیٰ سے بھی دعائیں کی جا سکتی ہیں،کیوں کہ مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔

طارق انور مصباحی

ایڈیٹر :ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی) ۔

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن