تحریر محمد مجیب احمد فیضی۔ بلرام پوری قرآن وحدیث کی روشنی میں چاند و سورج گہن کی حقیقت
چاند و سورج گہن کی حقیقت
میرے پیارے عزیزو !! اس رنگ برنگ بھری دنیا میں انسانوں کی کمی نہیں ہے۔ اس نیل گگن کے نیچے اور اس پرتھوی کے اوپر بنی آدم کی ہر گز ہر گز کمی نہیں ۔مختلف لوگ ہیں,الگ الگ ان کی فکر ہے,مختلف ان کی سوچویں ہیں۔
کسی چیز کے متعلق کوئی کچھ کہتا ہے,کوئی کچھ کہتا ہے۔ کسی کا نظریہ قرآن وحدیث سے میل جول کرتا ہے۔ اور کسی کا اس کے ایک دم بر عکس ابھی گزشتہ مہینے کی بات ہے غالبا سورج گہن لگا ہوا تھا۔میں بھی نماز ظہر کے لیے اپنے غربت خانے سے خانۂ خدا کی جانب میانہ روی چال کے ساتھ جا رھا تھا۔
مسجد سے کچھ پہلے چند لوگوں کی اجتماعیت اور ان کے اول فول کی بکواس نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا ۔آپس میں کچھ لوگ سورج اور چاند گہن کے متعلق اپنااپنا نظریہ پیش کر رہے تھے۔اور شاید ان کے اس نظریے نے ہی مجھے اس تحریر کو لکھنے پر بر انگیختہ کیا۔
ورنہ شاید! اس سے پہلے اس چیز کی جانب میری باالکل توجہ ہی نہیں تھی۔ان حضرات کی جہالت آمیز گفتگو سن کر مجھے بڑا ہی افسوس ہوا,کف افسوس ملتے ہوئے میں یہ شعر کہنے پر باالکل مجبور ہو گیا کہ, شعر
آہ !!! اسلام ترے چاہنے والے نہ رہے
جن کا تو چاند تھا افسوس وہ ھالے نہ رہے
مجھے ان کے نظریے پر بڑی حیرت ہوئی,
کوئی کہہ رہا تھا
- سورج بہت زیادہ قرض دار ہوگیا ہے
- اور کوئی کہہ رہا تھا
- بادل اس کا پیچھا کر رہے ہیں
- ایک صاحب نے تو احتیاط کی ساری حدیں پار کرکے کہا
- لگتا ہے قیامت آنے والی ہے
میں نے دل ہی دل میں آہ! کرتے ہوئےکہا ” اسلام کی صحیح سمجھ نہ رکھنے والے نام نہاد مسلمانوں کی ابھی بھی ایک بڑی جماعت موجود ہے” جواپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں,لیکن ایک مسلمان کے لئے کن کن اصولوں کا پابند ہونا ضروری ہے یہ انہیں نہیں معلوم۔اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو افراط وتفریط کے مابین ہے,اس میں اس طرح کی جہالت آمیز نظریات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
چاند یا سورج گہن کیوں ہوتا ہے سورج وچاند گہن کے متعلق الگ الگ مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں۔سائنسی اعتبار سے اگر اس کو دیکھا جائے تو ارباب سائنس کا کہنا ہے ,کہ چاند سورج کے گرد کردش کرتا ہے,اور چاند زمین کی طرح غیر روشن ہے,وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے, جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمیں درمیان ( حائل) آجاتا ہے تو سورج کی روشنی زمین پر پہونچنے سے رک جاتی ہے جس سے سورج گرہن واقع ہوتا ہے۔اور جب زمیں بیچ میں آجاتی ہے
اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی تو چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔
چنانچہ خالق کائنات “قرآن حکیم میں” ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:۔ سنریھم آیتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لہم انہ الحق ولم یکف بربک انہ علی کل کل شئ شہید ○(القرآن)۔
ترجمہ:ہم عںقریب انہیں اپنی نشانیاں اطراف عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دکھادیں گے یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے گا ان پر کہ وہی حق ہے اور کیا تمہارا رب تمہارے ۔ (حقانیت کی تصدیق کے لیے )کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں جن نشانیوں کا تذکرہ اللہ جل مجدہ الکریم نے کیا سورج اور چاند گہن بھی انہیں نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔
اور چوں کہ عرب کے لوگوں میں یہ بھی شائع وذائع تھا, کہ سورج اور چاند گہن تبھی لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہوا ہو, اور بر صغیر میں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عورتیں جو امید سے ہوں چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں ان کے پیٹ میں موجود بچہ صحیح وسالم پیدا ہو ۔
کیوں کہ ان کی فکر انہیں اس بات کی لے جاتی ہے کہ سورج یا چاند گرہن لگنے کے باعث حاملہ عورتوں کا چھری وغیرہ استعمال کر نا ایک طرح سے نقصان سے خالی نہیں۔ جبکہ اس کا شریعت مصطفوی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں نہ ازروئے شرع اور نہ از روئے سائنس۔ بلکہ یہ محض ایک جاہلانہ فکر کے علاوہ کچھ بھی نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زندگی ہم سب کے لئے ایک نمونہ ہے ۔
اگر سورج یا چاند گہن کا ان امور سے کوئی تعلق ہوتا تو اللہ کے حبیب جناب احمد مجتبی محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء امت محمدیہ کو ضرور اطلاع فرماتے۔ اور ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں جب آپ کے ننھے صاحبزادے حضرت ابراہیم بن رسول اللہ داعئ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں تو کچھ لوگوں نے بظاہر طعنہ دینا شروع کردیا کہ گرہن کا وقوع ان کی موت کی وجہ سے ہے۔
چنانچہ: پیغمبر خدا یعنی حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بدویانہ وہم کی سخت تردید فرماتے ارشاد فرمایا ان الشمس والقمر لا یخسفان لموت احد ولا لحیاتہ ولکنھما آیتان من آیات اللہ فاذا رأیتموھا فصلوا. ○الصحیح البخاری•
ترجمہ: بلاشبہ چاند اور سورج کے انکساف وانخساف کا تعلق کسی کے موت وحیات سے نہیں ہے لیکن وہ دونوں اللہ رب العزت کی نشانیوں میں سے دواہم نشانی ہیں پس جب تم اس کو دیکھو تو رب کی عبادت کرو۔
,اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی نماز ادا کی مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عمدہ تعلیم پر آج بھی امت اسلامیہ کا مکمل عمل ہے۔
چاند سورچ گہن لگنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئیے
رب تعالی کی اس پیدا کردہ وسیع وعریض دنیا میں ایک عظیم الشان نظام قدرت بھی موجود ہے۔مثلا :وقت پر چاند وسورج کا نکلنا, اور ڈوبنا, بغیر کسی واسطے کے ستاروں کا خلاؤں میں موجود ہونا,ہواؤں کا چلنا,چاند و سورج سے روشنی کا ملنا,زمین کے اندر بیش بہا خزانوں کا ہونا,زمیں کے اوپر بلند پہاڑوں کا ہونا,بادلوں سے بارش کا ہونا,پھلوں میں مختلف ذائقوں کا ہونا,چرندو پرند کا موجود ہونا,ذوی العقول اور غیر ذوالعقول سب کا وقت مقررہ تک اس دنیا میں رہنا,اس کے بعد مرنا
یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ دنیا نظام قدرت سے عاری وخالی نہیں ,بلکہ کوئی ایک ایسی ذات ہے جس نے سب کو پیدا کیا اور وہی ذات سب کو روزی دیتا ہے۔
کیا آپ قمر الحسن قادری قمر بستوی کی یہ کتاب خریدنا چاہتے ہیں قیمت صرف تو کتاب پر کلک کریں
آج ہم بغیر مقصد کے ایک چھوٹا سا کام تک نہیں کرتے اور اس کام کے لئے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔اور پھر آہستہ آہستہ ایک دن وہ چیز ختم بھی ہو جاتی ہے۔ جس طرح ایک غریب فقیر بعد موت دو گز زمیں پاتا ہے ایسے ہی بڑے بڑے ریاستوں کے مالک بھی دو گز زمیں پاتے ہیں۔مضبوط عمارتیں کھنڈرات میں بدل جاتی ہیں۔خوبصورت محلات ویران ہو جاتے ہیں۔
یقینا وہ اللہ رب العزت کی ہی ذات با برکت ہے جس نے نہ صرف انسان وجنات کو پیدا کیا بلکہ وہ پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔اس کائنات رنگ وبو میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ہم اورآپ اس چیز کی حقیقت نہ جاننے کے بعد بھی اس کی حقانیت تسلیم کرتے ہیں۔
اسی طرح بلا تشبیہ وتمثیل ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن یہ ہمارا عقیدہ وایمان ہے کہ اتنی بڑی کائنات نہ خودبخود بن سکتی ہے, اور نہ خودبخود قائم رہ سکتی ہے۔شمس وقمر کا نظام کتنا تعجب خیز ہے کہ کئی سو سالوں کے گزرنے کے باوجود بھی ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں ملتا۔پد جس طرح وقتی طور پر اللہ کے حکم سے چاند اور سورج کو گرہن لگتا ہے
ایک دن ایسا آئے گا کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا ختم ہو جائے گی۔ پھر انسانوں کے کئے ہوئے اعمال کی جزا یا سزا دی جائے گی۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ سورج یا چاند گہن میں نہ کسی انسان کا عمل دخل ہے اور ناہی پوری کائنات مل کر اس کو روک سکتی ہے۔اس لیے سورج یا چاند گہن کے وقت صرف رب کی پناہ مانگی جائے,اسی کے سامنے سر بسجود ہوا جائے,اسی سے مدد مانگی جائے کیوں کہ حقیقی معین کی تن تنہا اسی کی ذات ہے۔وہی خالق عالم ہے ,وہی رزاق ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورج گہن لگنے پر مالک حقیقی کو یاد فرماتے تھے ہم امت مسلمہ کے لئے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر ہم بھی مساجد میں اپنے اپنے گھروں میں مصروف عبادت ہوں۔
محمد مجیب احمد فیضی۔ بلرام پوری
استاذ : دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ
رابطہ نمبر :8115775932
اس کو بھی پڑھیں سورج اور چاند گرہن کی حقیقت از قلم مفتی غفران رضا قادری