Tuesday, April 16, 2024
Homeتبصرہقصیدتان رائعتان:تعارف وجائزہ

قصیدتان رائعتان:تعارف وجائزہ

قصیدتان رائعتان:تعارف وجائزہ (دوسری اور آخری قسط) قسط اول کے لیے کلک کریں۔

قصیدتان رائعتان:تعارف وجائزہ


قصیدتان رائعتان میں قرآنی تعبیرات
قرآن کریم فصاحت و بلاغت کی اعلی حد پر فائز ہے۔ اس میں معانی کی تعبیرات فصاحت و بلاغت کے اس معیار پر مرتقی ہے کہ عقلِ انسانی اس کا مثل پیش کرنے سے قاصر اور محوِ استعجاب ہے۔ قصیدتان رائعتان میں بھی قرآنی تعبیرات کو اپنے اندر جذب کرنے کی مکمل کوشش کی گئی۔
ذیل میں کچھ ایسی مثالیں ھدیہ قارئین کرتے ہیں۔

۔(١)اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَارَبُّھَا نَسْفَا، فَیَذَرُھَاقَاعًاصَفْصَفًا، لَاتَرَی فِیْھَاعِوَجًاوَّلَااَمْتًا“۔
ترجمہ:(اے محبوب!) یہ لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں، آپ کہ دیجیے، کہ میرا رب ان کو ریزہ ریزہ کرکے اڑادے گا، پھر انھیں ہموار بے آب و گیاہ بنادے گا جس میں آپ نشیب و فراز نہیں دیکھیں گے۔

اس آیتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں”  ان کان ارضی صفصفا قاعا فلا   باس ولا یاس من الاغصان
ترجمہ:اگر میری زمین بے آب و گیاہ ہےتو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ موسلادھار بارش سے ناامیدی ہے۔

۔(٢)ارشادِ باری تعالیٰ ہے :” اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمیْعًاوَّمِثْلَہ مَعَہُ لِیَفْتَدُوا بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم“۔
ترجمہ: کافروں کے پاس جو کچھ زمین میں ہے وہ اور اس کے مثل اور بھی ہو وہ اسے دے کر قیامت کے دن نجات چاہیں تو قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اس آتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرمایا:۔ ”  لو یفتدی من بؤسہ لکنہ لن یفتدی“۔
ترجمہ:اگر وہ(ضال ومضل) اپنے عذاب کا فدیہ دینا چاہیں تو ان کا فدیہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا (قصیدہ دالیہ، ش:۴١)۔

۔(٣)فرمانِ باری تعالی ہے:” اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًاثُمَّ یُاَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہُ رُکَامًافَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ“۔(النور، آیت:۴٣)۔
ترجمہ:کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادلوں کو آہستہ آہستہ چلاتاہے، پھر انھیں آپس میں ملاتاہے، پھر انھیں تہ بتہ بناتاہے تو تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے پانی نکلتا ہے!۔
اس آیتِ کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتےہیں:۔  الودق یخرج من خلال سحابہ :  فالرعد یندب این من ظمآن
ترجمہ:(ممدوح کے جودوسخاکے) بادلوں کے درمیان سے بارش نکلتی ہےاور کڑکنے والی بجلی پکارتی ہےکہ پیاسے کہاں ہیں؟ (کہ میں ان کو سیراب کردوں)۔

۔(۴)رب کریم ارشاد فرماتاہے:”وَمَالَھُمْ بِہِ مِنْ عِلْمٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا “(النجم:آیت:٢٨)۔

ترجمہ:اور ان کافروں کو اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور بیشک گمان حق کے مقابلے کسی کام نہیں آتا۔
اس آیتِ شریفہ سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔   ھذاک ظنھم الذی اردھم؛ والظن لا یغنی من الایقان۔
ترجمہ:یہی ان کا گمان ہے جس نے انھیں ہلاک کردیا، اور گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔(شعر:١۵۴)۔


حدیثی اشارات
۔(١)جامع ترمذی میں حضرتِ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”جب کسی مبتلا کو دیکھو تو یہ دعا پڑھو!”الحمد لللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ وفضلنی علی کثیرممن خلق تفضیلا ” تو جب تک وہ شخص زندہ رہے گا اس بلا سے محفوظ ومامون رہے گا”(جامع ترمذی، ٣۴٣١/٣۴٣٢)۔

اس حدیثِ پاک سے استفاده کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  لم اعتقد فیکم بسوء ساعۃ؛ الحمد لللہ الذی عافانی
میں نے آپ کے متعلق ایک لمحہ بھی برا اعتقاد نہیں رکھا اللہ رب العزت لائقِ حمد ہے جس نے مجھے اس سے عافیت دی۔

(٢)سننِ کبری میں حضرتِ عبد اللہ ابنِ عباس سے روایت ہے، کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”موتان الارض لللہ ولرسولہ فمن احیا منھا شیئا فہو لہ(السنن الکبری للبہیقی، ج:۶،ص:١۴٣)
ترجمہ:بنجر زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے تو جس نے اسے زندہ رکھاوہ اسی کی ہے۔
اس حدیثِ پاک سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  یاغوثنا قلبی یجود بنفسہ و ن: داک خیر ند علی الموتان

۔(٣)حضرتِ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لست من دد ولا دد منی “۔
ترجمہ: نہ میں لہوو لعب سے ہوں اور نہ لہو ولعب مجھ سے ہے۔(المجمع الزوائد، ج:٨،ص٢٢٩)۔
اس حدیثِ پاک سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اذ ماددمنی ولاانامن دد اذجئت رحلۃ لاوانی۔
ترجمہ:کیوں کہ نہ لہو ولعب مجھ سے ہے اور نہ میں لہو لعب سے ہوں، میں تو صرف اس ذاتِ گرامی کی مدح سرائی کے لیے آیا ہوں جو کائنات کے لیے مرجعِ خلائق ہے۔


۔(۴) حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: “انا عند ظن عبدی بی“۔(بخاری شریف، حدیث نمبر:٧۴۰۵)۔
اس حدیث شریف سے اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔  قد قلت انی عند ظن عبد بی : ظنی بک الاحسان یا منانی
ترجمہ:تیرا فرمان ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان پر ہوں۔تو اے میرے محسن! میرا تیرے متعلق احسان وکرم کا گمان ہے۔

محاورات کا استعمال

ان قصائد میں گاہے بگاہے امثال و محاورات بھی استعمال کیے گئے ہیں جو کلام کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں، ہم یہاں محض ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔
جب کوئی شخص کہیں بہت تیزی کے ساتھ جارہاہو تو عام طور سے اس کے کپڑے زمین پر گھسٹتے ہیں اس وقت اہلِ عرب بولتے ہیں:”جاء یجر ردائہ”کہ وہ اپنی چادر گھسیٹتاہوا آیا، اور اس سے مجازاً تیز آنا مراد لیتے ہیں۔

اس مختصر شرح کے بعد شعر ملاحظہ کریں۔اعلی حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے پیرو مرشد سید آلِ رسول احمدی مارہروی (تغمدہ اللہ بغفرانہ) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :۔
۔(١) یوما احاط بی العدی ودنی الردی : اذجاء یجر ردائہ فرعانی
ترجمہ:جس روز مجھے دشمنوں نے گھیرلیا اور ہلاکت قریب آگئی، تو اچانک وہ اپنی چادرِ مبارک کھینچتے ہوئے تشریف لائے اور میری مدد فرمائی ۔
شاعر نے یہاں “اذجاء یجر ردائہ”پر “اذ”داخل کرکے جو کلام کے حسن میں اضافہ کیا ہے وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے۔
اصنافِ بدیع کا استعمال
اسی طرح شاعر نے اپنے کلام میں بدیع کا استعمال کرکے کلام کے حسن کی رعنائی، دل کشی اور دل آویزی میں مزید اضافہ کیا ہے۔جن میں سے ہم یہاں صرف ایک دو شعروں پر اکتفا کررہے ہیں۔
اصنافِ بدیع سے تقابل
۔(١) شرقت شوارق لطفہ فتبلجت زھر الرشاد تبلج العتیان۔ ۔(٢) برقت بوارق سیفہ فتاجّجت ھام العناد تاجج النیران۔
ترجمہ:ان کے لطف وکرم می بجلیاں چمکیں تو رشدو ہدایت کے ایسے شگوفے چمکے جیسے خالص سونا۔ ان کی تلوار چمکی تو بغض و عناد کے سر بھڑک اٹھے جیسے آگ بھڑکتی ہے۔

۔(١)صنعتِ جناس کی ایک اور عمدہ مثال ملاحظہ ہو:  واللوز فیہ الفوزوالتفاح والرطب ولا تسال عن الرمان۔
ترجمہ:اور اس(شاخ) میں بادام ہے جس میں کامیابی ہے، سیب اور تر کھجوریں ہیں اور انار(کی مٹھاس) کے بارے میں مت پوچھو۔

نحوی ولغوی رموز

قصائد کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ شاعر کو عربی زبان وبیان پر کامل عبور ودسترس حاصل تھی۔اس لیے کہ عربی زبان و بیان پر عبور کے حصول کے بغیر ایسے قصائد منظم کرنا جس میں الفاظ وبیان کا تسلسل اور غیر مرئی سلکِ مروارید ہو ایک متعسر امر ہے۔

ایسے قصائد وہی منظم کر سکتا ہے جسے کثرتِ اطلاعِ لغت اور قواعدِ نحویہ وصرفیہ کا حصولِ تام ہو۔ہم یہاں صرف ایک مثال سپردِ قرطاس کرتے ہیں ۔شاعر نے شعر:١٣١ میں فرمایا:۔ ابدلھما دارا وجارا خیر من ھؤلاء الدور والجیران۔
ترجمہ:انھیں اس دنیا کے گھر کے بدلے (جنت میں) بہتر گھر اور پڑوس عطا فرما۔
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتاہے کہ “الدور” اور “الجیران“غیر ذوی العقول ہیں تو ان کے لیے اسمِ اشارہ “ھؤلاء“کیوں لایا گیا ؟ تو اس شبہ کا ازالہ حاشیے میں فرماتے ہیں:۔
۔ “اولاءربما یشار الی غیر ذوی العقول کماقال تعالی :” ان السمع والبصر والفؤاد کل اولائک کان عنہ مسؤولا ” قال ابو اسماعیل الجوھری ھذا “۔
ترجمہ:اولاء کے ذریعے کبھی غیر ذوی العقول کے لیے بھی اشارہ کیاجاتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” کل اولائک کان عنہ مسؤولا ” ابو اسماعیل جوھری نے یہی کہا ہے۔


کتبہ :محمد ایوب مصباحی

استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی بہادرگنج مراداباد، یوپی، ہند۔
١۶/ذی الحجہ، ١۴۴١ھ مطابق
٧/اگست، ٢۰٢۰ء بروز جمع

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن