Saturday, October 5, 2024
Homeحالات حاضرہہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی

از قلم : محمد اشفاق عالم نوری فیضی ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی !۔

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی

         جنگ آزادی کا بنیادی اور اساسی سبب صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت اجنبیوں کی حکومت کی طرح تھی ۔ ابتدا میں انہیں مختلف دیسی حکمرانوں کے کارندے ، ایجنٹ اور مختار سمجھ کر قبول کیا گیا تھا ۔جب معلوم ہوا کہ انہوں نے غداری اور عیاری کر کے ساری چیزوں پہ اپنا تسلط جما لیا ہے تو ان کے خلاف ہمہ گیر نفرت کی لہر دوڑ گئی۔کوئی بھی غیرت مند محب وطن اجنبی تسلط کو قلب و جگر سے برداشت نہ کرسکتا

 تھا چوں کہ کمپنی کی عہدہ داروں میں ہندوستانی رعایا سے محبت کا جذبہ ہی نہ تھا اس لیے رعایا میں بھی و فاداری کا جذبہ پیدا نہ ہوا  تھا۔

      ایسے نازک حالات میں علما کا ایک گروہ ایسا بھی تھا  جس نے جنگ آزادی میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن ان کے سامنے ذاتی غرض  کوئی نہ تھی نہ ان میں سے کسی کی ریاست چھنی تھی نہ کسی کے مکان پہ قبضہ ہوا تھا نہ کسی کی پینشن ضبط ہوئی تھی نہ کوئی اور شکایت تھی لیکن ان کے اندر اپنے وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور قائدانہ صلا حیت بھی تھی۔

 مجاہدین آزادی کے چند اسماء  قابل ذکر ہیں خان عبدالغفار خان،اشفاق اللہ خان،حسرت موہانی ، مولانا محمد جعفر تھانیسری،مولانا محمد علی جوہر مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا شوکت علی و مولانا کفایت علی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی وغیرہ جو جنگ آزادی میں کافی سرگرم رہے ۔ سبھوں کی قربانیوں کو اس مختصر سے مضمون میں یکجا کرنا تو ناممکن ہےلیکن آیے علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے جنگ آزادی کی قربانی کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل کرتے ہیں۔

  ولادت : علامہ فضل حق خیرآبادی کی ولادت1212ھ مطابق 1797ء خیرآباد ضلع سیتاپور اودھ میں ہوئی۔

آپ کے والد کا نام مولانا فضل امام خیر آبادی ابن قاضی ارشد ہر گامی نسبا فاروقی تھے فیض وکمال کے ساتھ ساتھ منطق اور فلسفہ میں خاص تجربہ تھا ۔ دہلی میں  صدرالصدور کے فرائض انجام دیتے تھے ۔مگر اس کے ساتھ باپ دادا کا طریقہ بھی جاری تھا منتہی طلباء کو بالخصوص علوم معقول کا درس دیتے “مرقات ” حاشیہ ” أفق المبین ” آپکی عظیم یادگار میں سے ہیں ۔

علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنے والد مولانا فضل امام سے جملہ علوم و فنون کی تحصیل کی سند حدیث مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی سے لی 14 سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہو گئے اور والد گرامی کے تلا مذہ کو درس دینے لگے۔

ایک طالب علم مولانا فضل امام سے پڑھنےآیا آپ نے فرمایا کہ میاں جاؤ فضل حق سے سبق لے لو وہ انکے پاس پہنچا ۔غریب آدمی شکل س پراگندہ ،عمر زیادہ،علم کم ،ذہن کند ،یہ نازک طبع،ناز پرور ،جمال صورت و سیرت سے آراستہ و پیراستہ چودہ سال کی عمر،نئ ،نیا ذہن  میں جودت ،بھلا دونوں میں میل کھاے تو کیسے کھاے، راس آے تو کیسے آے  تھوڑا ہی سبق پڑھایا تھا کہ ان پر بگڑ گۓ ۔ فوراً اسکی کتاب پھینک دی اور غصہ ہو کر باہر نکال دیا۔ وہ روتا ہوا مولانا کے پاس پہنچا اور سارا حال کہہ سنایا۔

آپ کے والد گرامی فرمایا بلاؤ اس کو ،مولانا فضل حق خیرآبادی آے دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ آپ کے والد آپ کو زورسے  ایک تھپڑ رسید کیا جس کی وجہ دستار فضیلت کچھ دور جا پڑی پھر فرمانے  لگے کہ تم اب تک بسم اللہ کے گنبد میں پڑے رہے پھر ناز و نعم میں پرورش پائی جس کے سامنے کتاب رکھی اس نے خاطر داری کے ساتھ پڑھایا ۔ طالب علموں کی قدر و منزلت کو تو کیا جانتا ہے ؟ اگر بھیک مانگتا اور طالب علم بنتا تو تجھے  حقیقت معلوم ہو تی ۔طالب علموں کی قدر و منزلت  کیاہےتجھے پتہ ہے  ؟

           درازئ  شب   از     مژگاں   سن   پرس

  کہ یک دم خواب در چشم نگشت است

       اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر انگریزوں نے اسکیم بنائی تھی ۔  وہ مسلمانوں کے شریف ، اعلیٰ اور نامور خاندان کے لوگوں کو اپنی حکومت میں بڑا بڑا عہدہ دیتے تھے ۔ تاکہ عوام پر اچھا اثر پڑے  اور حکومت مقبول ہو چناں چہ مولانا فضل حق خیرآبادی کی کے والد گرامی جناب فضل امام صدر الصدور یعنی اعلیٰ درجے کے جج بناے گۓ۔

اس کے بعد مولانا فضلِ حق خیرآبادی مقرر کیے گئے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ تھا ابو ظفر ولی عہد سے دوستانہ مراسم تھے قلعہ میں آنا  جانا تھا مولانا بچپن سے نازک مزاج کے حامل تھے چناں چہ حکام سے نہیں بنی تو آپ نے کچھ دنوں کے بعد استعفی دے دیا اور  دہلی سے جھجر چلے گئے جہاں کے نواب فیض محمد خان نے انہیں بطور خاص بلایا تھا انگریزی حکومت میں ملازمت کے سبب تسلط کی خاطر وہ ان کی تمام شاطرا نہ چالوں سے واقف ہوگئے تھے جھجر میں ایک عرصہ

 گزارنے کے بعد مہارجہ الور  نے بلوا لیا کچھ عرصہ سہارنپور اور ٹونک میں بھی قیام رہا پھر نواب رام پور یوسف علی خان نے دعوت دی  خود تلمذ اختیار کیا اور محکمہ نظامت اور عدالتوں میں منسلک کر دیے گئے آٹھ دس برس بعد لکھنؤ چلے گئے وہاں صدرالصدور ہوگۓ

  فضل وکمال اور علمی حیثیت سے علامہ جس قدر و منزلت کے حامل تھے اس کی نظیر ہندوستان میں مشکل سے ملے گی ان کا دماغ حکیمانہ تھا قومی زوقال کے عینی مشاہد تھے اکبر ثانی کا عہد تھا بہادر شاہ ظفر کا زمانہ پایا ہنومان گڑھی کے واقعے سے خصوصی طورپر متاثر ہوئے انگریزی ملازمت میں رہنے سے انہوں نے بخوبی اندازہ لگالیا کہ انگریز ہندو مسلم منافرت سے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جنہیں وہ اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے اسی درمیان ان کی ملاقات آزادی کے  سرگم مجاہد مولوی احمد اللہ شاہ سے ہوئی ۔

مولانا فضل حق ان سے بہت متاثر ہوئے اس لیے کہ وہ داعی انقلاب تھے لکھنؤ کو خیر آباد کہہ کر الور چلے گئے اور اپنی نئی بساط بچھائی۔

یہ زمانہ 1856 عیسوی کا تھا ملک میں انقلاب آ رہا تھا مجاہدین حریت کھوئی ہوئی آزادی کے حصول کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا چکے تھے اور پھر اٹھارہ سو 1857 عیسوی کو  سردار بخت خان سے ملے جو مع فوج دہلی پہنچا ہوا تھا اور بہادر شاہ کے جھنڈے تلے انقلاب کی بازی میں سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار تھے مولانا نے فتوی دیااور  سلطنت کے لیے ” دستورالعمل”۔

 تیار کیا اور دل و جان سے انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے مگر سب تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔سقوط دہلی کے بعد مع أہل وعیال پانچ دن بھوکے پیاسے بند رہے اور پاپیا  بھیکم پور ضلع علی گڑھ پہنچے۔اٹھا رہ دن بعد رئیس بھکم پور نے سانکرہ کے گھاٹ سے دریا کے پار اتاردیا ۔ کچھ مدت روپوش رہے ۔ملکہ وکٹوریہ کے اعلان معافی کے بعد اس پر بھروسہ کر کے مولانا وطن خیرآباد پہنچ گئے۔   دو مخبروں کی اطلاع پر 1859 عیسوی  میں مولانا کو مغلیہ حکومت کی وفاداری اور انگریزوں سے

 سندھی انگریزوں سے  “بغاوت ” کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا مقدمہ چلا عبور دریائے شور کی سزا ہوئی حسب ضابطہ کچھ عرصہ ہندوستان کے جیل خانے میں رہے  مولانا نے اپنی کتاب  ” اَلثَّوۡرة الہندیہ ” میں ہندوستان کے جیل خانوں ، انڈمان اور وہاں کے مصائب کا ذکر تفصیل سے بیان کیا ہے ۔‌ برہنہ پا ،صرف ایک لنگی ، کمبل کا کرتا ، کوڑا کرکٹ صاف کرتے اور ٹوکرےمیں اٹھا کر پھینک آتے ۔

پھر جیل سپرنٹنڈنٹ کو مولانا کے فضل و کمال کا جب علم ہوا تو اس نے محرری کے کام پر لگا دیا کیا اور حکومت سے رہائی کی کوششوں میں مصروف رہے  ۔ کوششوں میں کام یابی ہوئی آپ کے صاحبزادے مولوی شمس الحق خیرآبادی والد گرامی کی  آزادی کا پروانہ لے کر انڈومان پہنچے جہاز سے جیسے ہی اترے تو کیا دیکھا کہ  سامنے ایک جنازہ چلا آرہا ہے اور اس میں لوگوں کا کافی ہجوم لگا ہوا ہے  دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ۔

“مولانا فضلِ حق خیرآبادی ” کا جنازہ ہے جو آج رات 20 اگست 1861 عیسوی کو ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ انہیں دفن کرنے جا رہے ہیں بیٹا بھی والد گرامی کے جنازہ میں شریک ہو گیا (غدر کے چند علماء،شاندار ماضی، آزادی کے مجاہد)۔

     ان آزادی ہندوستان کےمسلم مجاہدین اور قوم وملت کی اتنی ساری قربانیاں پیش کرنےکی وجہ سے ہی 15 /اگست 1947 عیسوی کو ہمارا ،دیش ہندوستاں آزاد ہوا لیکن اس کے باوجود ان کےساتھ سوتیلہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ اور مسلم قائدین مجاہدین کی تواریخ کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہے جبھی تو کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے ۔؀

        ورق ورق الٹ چکا تلاش میں کمی نہ کی

مگر کتاب حریت میں میری داستان نہیں

       لیکن افسوس صد افسوس ہندوستان کی آزادی میں اتنے سارے مسلم قائدین کی قربانی کے باوجود آج ہم سے ہندوستانی ہو نےکا ثبوت مانگا جا رہا ہے تو کبھی این آر سی کا قانون نافذ کر کے ہمارے اندر خوف وہراس پیدا کیا جارہا ہے تو کبھی لو جہاد،بیف کا بہانہ ،مآب لینچنگ، تین طلاق ،بابری مسجدکی جگہ رام مندر کی تعمیر،قدیم شاہراہوں ،اسٹیڈیموں کے نام کی تبدیلی آخر یہ سب کب تک ہوتا رہے گا۔ چند سالوں سے موجودہ حکومت بالخصوص بی،جے پی اور آر ایس ایس کے کچھ ایجینٹ

ہندوستان کی جمہوریت ،آئین و قوانین اور اسکے شبیہ کو بگاڑنے میں لگے ہو ے ہیں جبکہ کچھ جگہوں میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانےکا خواب دیکھا کر ووٹ حاصل کرنا اور اپنے مشن کو شب وروز بیان کرکے ہندو مسلم کے مابین منافرت کی آگ لگانا کچھ دنوں سے انکا شیوہ ہوگیاہے۔

جس  ہندوستان میں نیتاجی سبھاش چندر بوس نے امن کی بیج بویا ہو گاندھی نے امن آشتی کا پیغام دیا ہو رابندرناتھ ٹیگور،قاضی نذرالاسلام، سوامی ویویکانند ، مولانا ابو الکلام آزاد ،خواجہ غریب نواز ، سرسید احمد خان،گرو نانک ، گوتم بودھ اور بھیم راؤ رام جی امبیڈکر  جیسی شخصیات نے اپنے علم و فن اور بہتر کارکردگی سے ہندوستان کی سینچائی اور سیرابی کی ہو جن کی وجہ سے امن وآشتی،بھائی چارگی،گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہو آج وہی ہندوستان ہے جو آپ کے نظروں کے سامنے ہے 

اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی تعالی ہندوستان کی حفاظت فرمائے اور امن وسلامتی والی زندگی عطا فرمائے۔

  سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

  ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

  مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

   ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا   

از قلم: محمد اشفاق عالم نوری فیضی

رکن۔مجلس علماے اسلام مغربی بنگال

شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136

9007124164  رابطہ  

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن