Saturday, April 13, 2024
Homeشخصیاتاعلیٰ حضرت اور اسلامی اخلاق و مساوات

اعلیٰ حضرت اور اسلامی اخلاق و مساوات

از محمدقمرانجم قادری فیضی اعلیٰ حضرت اور اسلامی اخلاق ومساوات

اعلیٰ حضرت اور اسلامی اخلاق ومساوات

اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی المولی عنہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ بوقت ظہر بروز دوشنبہ 10 شوال المکرم 1921 ھ مطابق 14 جون 1856ء محلہ جسولی بریلی شریف میں پیدا ہوئے،اور (1340 ) 25 صفرالمظفر بروزجمعہ

آپ کا وصال پرملال ہوا۔ بلاشبہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی  کو آج پوری دنیا میں بخوبی جانا جاتاہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بےپایاں علم وفضل فکر و دانش اور حکمت وتدبر سے نوازا تھا، دنیائے اسلام کے آپ ایک عظیم سپوت تھے، اور اسلام کی ہرجماعت آپکے علمی فقہی کمالات وخدمات نیز آپکے فقہی و اجتہادی طرزبیان کی کَل بھی معترف تھی اورآج بھی ہرصغیر وکبیر کو اعتراف حقیقت ہے، مگر اپنے تو اپنے ہیں غیروں کو بھی اعتراف ہے، 

آپ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سےبے پناہ محبت کیا کرتے تھے،آپ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کےہر قول وفعل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نظرآتے تھے، علامات محبت 

 علماءِ کرام نے حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے  8 علامات درج ذیل ہیں :۔     

۔(1) اقوال اور افعال میں حضورِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور  جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیزنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنا

۔(2) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔

۔(3)  بکثرت نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر درود شریف پڑھنا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرنا

۔(4 ) ذکرِ حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔     

۔5 ) جس سے سرکار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔     

۔( 6) جس چیز سے  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس  سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔

۔( 7 ) قرآنِ مجید سے محبت رکھنا۔     

۔( 8 ) رسول اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔

 یہ سچ اور حقیقت ہے کہ اہل سنت کی بےنظیر خدمات کے باعث اہل سنت والجماعت کو مسلک اعلی حضرت سے منسوب کردیا گیاہےمبنی بر حقیقت جملے کو اگر آپ کے دور میں اٹھنے والی متعدد باطل نظریات کے پیش نظر سمجھا جائے تو کسی بھی طرح کا کوئی خلجان باقی نہیں رہےگا۔

الغرض اعلی حضرت کا پیغام، اسلام و احکام قرآنیہ اور سنت رسول اللہ کی ترویج واشاعت ہے، اور اسی کو اپنی زندگی کا خاص مقصد سمجھتے تھے، اس لیے آپ نے اپنے اور اغیارکے مابین اسلام کی حقیقی اور بنیادی تعلیم پہنچانے کے لیےکسی بھی طرح اور کسی بھی حال میں گریز نہیں کیا۔

اس جہان آب وگل میں آپ کل 68 سال تک قیام پذیر رہےاپنی اس قلیل عمر میں جو علمی فقہی، اصلاحی اور تجدیدی کارنامے انجام دیئے، وہ ایک حیرت انگیز اور ناقابل فراموش کارنامے رہتی دنیا تک ہمارے لئےمشعل راہ رہیں گے۔

آپ کیا تھے؟اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک دفتر بھی ناکافی ہوگا،آپکی فقہیانہ اور عالمانہ شان وشوکت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایاجا سکتاہے آپ پچاس س زائد علوم وفنون پر کامل عبور رکھتے تھے،اور کم وبیش آپ نےنو 9 سو سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں۔جن میں فتاوی رضویہ 12 جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد کی ضخامت تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل ہےآپ نے اپنے تفکر وتدبر ست ایک عہد کو متاثر کیا ہی ہے اور کرتے رہیں گے،

 تحقیق وتدقیق کے ذریعے افکارواذہان کی دنیا میں صالح انقلاب پیدا کیا آپ کی زندگی کا ہر ورق ورق پاکیزہ، قابل رشک اور لائق اتباع ہےآپ نے بہرصورت مسلمان سےچھوٹے بڑےکافرق مٹانے کی کوشش کی ہے، چونکہ آپ تعلیمات محمدیہ  اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کےنظریہ اتحادکےسچے پیروکار تھے  آپ مسلمانوں کے بیچ اسلامی مساوات کس درجہ قائل تھے اور کتنے کوشاں رہتے تھے اس کا اندازہ آپ کی حیات مبارکہ کے تابندہ نقوش اور اس تاریخی واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو آپ کے مساویانہ

 نظر یہ پر ایک مسلٍّم دلیل ہے،ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔

ایک مرتبہ آپ  اُن کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو صاحبِ خانہ کی اس روش سے سخت  تکلیف پہنچی مگر کچھ  فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا خط بنانے کے لیے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیہ نے فرمایا: بھائی کریم بخش! کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔وہ بیٹھ گئے، پھر نواب صاحب کے غصے کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہے،اور فوراً اٹھ کر چلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، ۱/  ۱۰۸)  ۔

اس واقعہ کے بعد آپ کی زندگی کا یہ خو ش گوار پہلو عیاں اور بیاں ہے کہ آپ اسلامی مساوات کے حقیقی داعی تھے، بالآخر آپ کی برگزیده شخصیت پورے معاشرے کے لیے ایک آئیڈیل ہے، آج ضرورت اس امرکی ہے کہ آپ کے ماننے والے چاہنے والے تمام مسلمان اس خوش فکر نظریہ کو اپنائیں تاکہ موجودہ خانہ جنگی کے شکار سماج سے متکبرانہ مغرورانہ روش، ذاتی عصبیت، علاقائی مفاخرت، لسانی تفاوت کا خاتمہ ہوکر ان سب چیزوں کا سد باب بھی ہوسکے، چوں کہ آپ نے ہمیشہ انسانوں کے غموں کا مداواکیاہے

سماج کے ہر ایک شخص خواہ غریب ہو یا امیر ہوسب کو آپ ایک نظر سے دیکھتے تھے آپ نے معاشرہ میں ہمدری بھائی چارگی، آپسی الفت ومحبت مودت پیدا کرنے کےلیے اسلامی اخوت وبھائی چارگی درمندی دادرسی، اور اسلامی رواداری اور اسلامی مساوات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

سیّد المرسَلین صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اَخلاق

حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اَخلاق میں  برائی کو بھلائی سے ٹال دینے کی انتہائی عالی شان مثالیں  موجود ہیں  ،ان میں  سے یہاں  دو واقعات ملاحظہ ہوں

  • حضرت عبداللہ بن عبید رَضِی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں  :جب (غزوہِ اُحد میں ) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوئے اور آپ کا چہرہِ انور لہو لہان ہو گیا تو عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  کے خلاف دعا فرمائیں ۔
  • تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں  بھیجا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے، (پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی)۔
  • ۔(2)     اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو (دین ِاسلام کی) ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے جانتے نہیں  (شعب الایمان،الرابع عشر من شعب الایمان) ۔

 حضرت علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس حدیث ِپاک پر غور کرو کہ اس میں  کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسنِ خُلق،بے انتہا صبر اور حِلم جیسے اَوصاف جمع ہیں  کیونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف ان سے خاموشی اختیار کرنے پر ہی اِکتفانہیں  فرمایا بلکہ ان (زخم دینے والوں ) کو معاف بھی فرما دیا،پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لیے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کو ہدایت دے ، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرمادیا کہ یہ میری قوم ہے ،پھر ان کی طرف سے عذر بیان فر ما دیا کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔  بد کریں  ہر دم برائی تم کہو ان کا بھلا ہو،۔

۔(2) حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :میں  ایک مرتبہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے، اتنے میں  ایک اَعرابی ملا اور اس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا یہاں  تک کہ میں  نے حضور ِاَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کندھے پر زور سے چادر کھینچے جانے کی وجہ سے رگڑ کا نشان دیکھا۔ اس اَعرابی نے کہا :اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

 اللہ تعالیٰ نے جو مال آپ کو دیا ہے وہ میرے ان اونٹوں  پر لاد دو کیونکہ آپ نہ مجھے اپنے مال سے دیتے ہیں  اور نہ ہی اپنے والد کے مال سے دیتے ہیں ۔سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے اور صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے اور میں  تو ا س کا بندہ ہوں ،پھر ارشاد فرمایا کہ اے اَعرابی: کیا تم سے اس کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ؟اس نے عرض کی :نہیں  ۔ارشاد فرمایا ’’کیوں  نہیں  ؟۔

اَعرابی نے عرض کی :کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں  کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے لیں ۔اس کی یہ بات سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: ’’اس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کوکھجور سے بھر دو۔ ۔

دین ِاسلام کی شاہ کار تعلیم

ترجمۂ کنز العرفان- اور اچھائی اور برائی برابرنہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی وہ اس وقت ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے، 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام میں  مسلمانوں  کو اَخلاقیات کی انتہائی اعلیٰ، جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی طرف سے تکلیف پہنچنے تو اس پر صبر کرو ، کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تو اس پر حِلم و بُردباری کا مظاہرہ کرو اور اپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عَفْوْ و درگُزر سے کام لو، اسی سے متعلق یہاں  دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،

  • حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  :میں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی اور عرض کی کہ مجھے افضل اعمال کے بارے میں  بتائیے۔ارشاد فرمایا’’جو تجھے محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے رشتہ داری توڑے تم اس کے ساتھ رشتہ داری جوڑو اورجو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔ 
  •  

فتاویٰ رضویہ کو خریدنے کے لیے کلک  کریں

۔(2) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں  کوئی کمی نہیں  کرتا اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرمائے گا۔

یعنی صدقے سے مال کم نہیں  ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں  برکت وغیرہ کے ذریعے اضافہ کرتا ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجودکسی کا قصورمعاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت بڑھادیتا ہے اور جو اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں  بلندی عطا فرماتا ہے۔

اعلی حضرت سرکار نے توحیدورسالت کا معترف بناتے ہوئے امن وسکون کی زندگی گزارنے کاسلیقہ اور طریقہ دونوں سکھایاہے آج اگر موجودہ دودر میں اس پر عمل کریں تو مکمل معاشرہ جہالت ولاعلمی کے دلدل سے نکل کر عروج وارتقاء کی نئی نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے  نیز آنے والی نسلوں کے لئے بھی فلاح وظفر لائق تقلید تاریخ مرتب کرسکتاہے۔

نیز حضورسیدنا سرکار اعلی حضرت رضی المولی عنہ کا پیغام یہی ہے کہ امن وسلامتی صلہ رحمی  انسانی دوستی  باہمی اتحاد واتفاق، کے درس کو عام کیا جائے اور آپسی صلح، باہمی محبت کا ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ جس سے صرف اور صرف ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی اصلاح وتریبت کی فضا پرامن طریقے سے ہموارہو اور دیگر اقوام بھی حلقہ اسلام میں جوق در جوق شامل ہوں۔

امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کے امن بخش ارشادات وفرمودات کی تبلیغ وارسال کی جانب توجہ مبذول کرنے اور امام اہل سنت اعلی حضرت کے ناچاہنے والوں کو کشادہ قلبی کے ساتھ آپکی سیرت طیبہ پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ آپکے علمی، فقہی، روحانی، فیوض وبرکات سے مالامال ہوسکیں،

مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگرکےنامہ نگار ہیں۔

رابطہ ۔6393021704

اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور خدمت خلق    اس کو بھی پڑھیں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن