از قلم: جاوید اختر بھارتی سرزمین کربلا خطبہ حسین شہادت حسین رضی اللہ عنہ
سرزمین کربلا خطبہ حسین
عاشورہ کی رات ختم ہوئی اور دسویں محرم الحرام کی قیامت نما صبح نمودار ہوئی سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل بیت اور اپنے تمام جانثاروں کے ساتھ فجر کی نماز ادا فرمائی
اب دسویں محرم کا سورج عنقریب نکلنے والا ہے حضرت امام حسین، ان کے اہل بیت اور تمام ساتھی تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں ایک لقمہ بھی کسی کی حلق کے نیچے نہیں اترا اور نہ ہی ایک قطرہ پانی حلق سے نیچے گیا ایسے لوگوں پر ظلم وجبر و جفا کے پہاڑ توڑ نے کے لیے بائیس ہزار کی تعداد میں تازہ دم لشکر موجود ہے
اور اس لشکر نے جنگ کا نقارہ بجادیا،، آقائے دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لال،، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نونہال کو مہمان بناکر بلانے والی قوم نے جانوں پر کھیلنے کی دعوت دیدی،، ۔
حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ میدان کارزار میں تشریف لائے اور ایک جامع تقریر فرمائی یعنی خطبہ دیا،، اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگوں میرے نسب پر غور کرو کہ میں کون ہوں،، پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچو کہ کیا تمہارے لیے میرا خون بہانا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی ﷺ کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا میں ان کے چچا زاد بھائی علی کا فرزند نہیں ہوں؟۔
غور کرو سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میرے باپ کے چچا اور جعفر طیار خود میرے چچا تھے کیا تم میں سے کسی نے یہ نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں میری یہ باتیں پوری طرح سچ ہیں اس لیے کہ میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا مجھے پہچانو میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں فاتح خیبر علی کا لخت جگر ہوں خاتون جنت فاطمہ زہرا کا نور نظر ہوں۔
میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو نہ رنگو
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کربلا والے یہ تو جانتے ہی تھے کہ یہ نبی کریم علیہ السلام کے نواسے ہیں پھر اپنا تعارف کرانے کی کیا ضرورت تھی لیکن نہیں امام عالی مقام کو نانا جان سے درس ملا ہے کہ دشمن کے سامنے پہلے اپنا نظریہ پیش کرو، اپنا کیریکٹر و کردار پیش کرو تاکہ کل وہ یہ نہ کہنے پائے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا جس طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو جمع کر کے پوچھا کہ بتاؤ میں کون ہوں تو سب نے کہا کہ آپ محمد ہیں، آپ سچے ہیں، آپ امانت دار ہیں۔
یعنی سب نے جب سچائی کا اعتراف کرلیا تب رسول کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ان پہاڑوں کے پیچھے ایک طاقت ور لشکر چھپا ہوا ہے جو اچانک تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم سچ مانوگے تو سب نے کہا تھا کہ ہاں ہم سچ مانیں گے کیوں کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے یعنی ایک بار پھر سب نے سچائی کا اعتراف کرلیا
تب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو اللہ ایک ہے،، اس کا کوئی شریک نہیں،، اور میں اللہ کا رسول ہوں،، آج سے تم بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دو بس اتنا کہنا تھا کہ وہی لوگ جو اب تک سچائی کا اعتراف کر رہے تھے سخت ترین مخالف ہوگئے گالیاں دینے لگے آج انہیں کا نواسہ کربلا کی سرزمین پر کہہ رہا ہے کہ ۔
کیا میں نے کبھی شریعت سے بغاوت کی ہے، کیا میں نے کبھی رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے منہ موڑا ہے، کیا میں نے کبھی کسی کا حق مارا ہے، کیا میں نے کبھی قوانین اسلام کی خلاف ورزی کی ہے، کیا میں نے کبھی امانت میں خیانت کی ہے، کیا میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو سب نے یہی کہا کہ نہیں تب امام عالی مقام نے کہا کہ تو پھر یہ بتاؤ کہ آل رسول پر پانی کیوں بند کیا گیا، ہمیں قتل کرنے کا منصوبہ کیوں بنایا گیا پانی تو اس کا بند ہونا چاہیے جو شریعت کا باغی ہوجائے، جو احکام خداوندی کا منکر ہو جائے سنجیدگی کے ساتھ غور کرو یزید کی بیعت کو ٹھکرا کر ہمارے ساتھ آؤ میں نانا جان سے کہہ کر تمہاری شفاعت کراؤں گا ۔
اتنا سننا تھا کہ وہ امام عالی مقام کو جنگ کے لیے للکارنے لگے،، ان کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا تھا وہ دنیا کی دولت و شہرت اور منصب کی لالچ میں اندھے ہوچکے تھے انہیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا تھا کہ ہم جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں انہیں کے نواسے کو بھوک اور پیاس سے تڑپا رہے ہیں اور قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں انہیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا تھا کہ ہم میدان محشر میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے،،۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ رسول کائنات نے فرمایا ہے کہ حسین منی وانا من الحسین یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں،، جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے حسین سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اب یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جس نے رسول سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جس نے اللہ سے دشمنی کی وہ لعنتی نہیں تو اور کیا ہے
اب آؤ معاملہ کیا تھا معاملہ تو یہی تھا کہ بیعت کرو جان بچاؤ یہ اعلان یزید کی طرف سے تھا لیکن یزید فاسق وفاجر تھا، اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا، حلال و حرام کی تفریق کو مٹا رہا تھا، دین اسلام کو جھٹلا رہا تھا، اور وہ امام حسین سے بیعت کا مطالبہ اس لیے کر رہا تھا کہ مجھے سند حاصل ہوجائے کہ میری حکومت اچھی ہے، میری حکومت معتبر ہے، میرا کردار اچھا ہے مجھے نواسہ رسول تک کی تائید و حمایت حاصل ہے
یقیناً اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کے ہاتھوں پر بیعت کر لیتے تو اس کو سند حاصل ہوجاتی لیکن نواسہ رسول ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ان کے ہاتھوں میں صداقت، عدالت، سخاوت، شجاعت کا پرچم تھا اور یہ پرچم میدان بدر میں خود اللہ و رسول نے بلند کیا ہے،، اور اسی پرچم اسلام کو ہاتھوں میں تھام کر عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آدھی دنیا فتح کرڈالی،،۔
آج وہ پرچم سرزمین کربلا میں کسی فاسق و فاجر کے ہاتھوں میں چلا جائے ایسا ہوہی نہیں سکتا،، یزید کے ظلم و دہشت گردی اور جور و جفا کے آگے امام عالی مقام صبر کی چٹان بن کر کھڑے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ یزید امام حسین کا خون بہا کر بھی اپنے مشن میں ناکام ہوگیا اور امام حسین نے اپنا پورا کنبہ قربان کر کے مذہب اسلام کے وقار اور معیار کو بلند کردیا اور صبح قیامت تک کے لیے عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لیے عقیدت و احترام و محبت کا مرکز بن گئے۔
یزیدی اتنے بڑے ظالم تھے کہ چھ ماہ کے ننھے بچے علی اصغر کی پیاس پر بھی انہیں ترس نہیں آیا امام حسین کی بیوی نے دیکھا کہ علی اصغر پیاس سے تڑپ رہے ہیں زبان باہر آچکی ہے انہوں نے امام پاک سے کہا کہ آپ علی اصغر کو لے کر جائیے شاید دشمنوں کو ان کا حال دیکھ کر ترس آجائے وہ پانی کے چند قطرے پلادیں
آخر کار امام حسین انہیں اپنے ہاتھوں میں لے کر میدان کارزار میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے یہ ننھا بچہ ہے اس پہ ترس کھاؤ پانی کے لیے یہ تڑپ رہا ہے لیکن ان ظالموں نے علی اصغر کا حال دیکھ کر بھی پانی نہیں دیا اور نہیں تو بدبخت حرملہ نے تیر چلایا جو علی اصغر کی حلق کو چیرتا ہوا امام حسین کے بازوؤں میں پیوست ہوگیا ننھے حضرت علی اصغر نے بھی جام شہادت نوش کرلیا امام نے خون ہاتھوں میں لے کر آسمان کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ الہ العالمین اس ننھے علی اصغر کی قربانی قبول فرما ۔
اٹھارہ سال کے جوان علی اکبر حضرت عباس، حضرت قاسم بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئے یزیدی دنیاوی لالچ میں اندھے ہوکر آل رسول اور اہل بیت کا خون بہاتے رہے
لیکن اللہ کی طرف سے حر ریاحی کو ہدایت ملی وہ امام پاک کے خطبے سے متاثر ہوئے ان کی آنکھوں سے پردہ ہٹا اور انہیں امام پاک کا مقام و مرتبہ نظر آیا گھوڑے کو ایڑ لگایا دوڑاتے ہوئے بارگاہ حسین میں پہنچے عرض کیا آقا میں آپ کی غلامی کرنے آیا ہوں میں نے آپ کا راستہ روکا یہاں تک لایا میرے امام مجھے معاف کردیجئے اگر امام پاک کہہ دیتے کہ میں نے معاف کیا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا اس لیے امام پاک نے فرمایا حُر تو تو جہنم سے آزاد ہوگیا
اب کیا پوچھنا تھا وہ حُر سے اب حضرتِ حُر ہوگئے امام سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی میدان میں گئے کتنے لوگوں کا سرقلم کردیا اور خود بھی جام شہادت نوش کیا کربلا کی تاریخ ہر اعتبار سے مکمّل و مرتب نظر آتی ہے انبیاء کرام علیہم السلام کے ادوار میں جتنے بھی مغرور اور ظالم گذرے ہیں جنہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کو ٹھکرایا وہ سارے تیور کربلا کی سرزمین پر موجود تھے
سب کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریعت مصطفیٰ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے صبر و استقامت سے لبریز ثابت قدم رہے اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں اپنا کنبہ قربان کرتے رہے جب کوئی نہیں بچا تو خود شہادت کے دولھا بن کر میدان کارزار میں پہنچے یزیدیوں نے کہا کہ اے حسین اب تو کوئی نہیں بچا ہے اب سے یزید کی بیعت کرلو تمہاری جان بچ جائے گی تو شہید ابن شہید،، سخی ابن سخی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بدبختوں میں جان بچانے نہیں آیا ہوں بلکہ نانا جان کا دین بچانے آیا ہوں
تم اگر اب سے میرے نانا جان کے دین کی طرف آجاؤ تو میں تمہیں معاف کردوں گا اور نانا جان سے شفاعت کی سفارش بھی کروں گا لیکن ان ظالموں پر امام پاک کے آخری خطبے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا چاروں طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی امام عالی مقام زخموں سے چور ہوگئے،،۔
وقت نماز آگیا امام نے کہا کہ ظالموں دیکھو اور سنو اذان کے کلمات میں کس کے نانا کا نام لیا جارہا ہے ابن سعد سے بھی مخاطب ہو کر امام نے کہا کہ ائے بدبخت ایک تیرا باپ تھا جو رسول اکرم کے اوپر آنے والے تیروں کو اپنے سینے پر روکا کرتاتھا ایک تو ہے کہ سب سے پہلا تیر تو نے آل رسول پر چلا یا ہے گھوڑے سے زمین پر اترے کہا کہ مجھے نماز ادا کرلینے دو تاکہ دنیا سے جاتے جاتے بھی میں اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اس کا شکر ادا کرلوں کہ۔
اے اللہ تونے مجھے ثابت قدم رکھا میں نے بچپن میں نانا سے کیا ہوا وعدہ نبھایا ائے اللہ میں اس حال میں بھی تجھ سے راضی ہوں بس یہی خواہش ہے کہ صبحِ قیامت تک دین اسلام کا ڈنکا بجتا رہے
اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں
تحریر : جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
محمدآباد گوھنہ ضلع مئو یوپی
8299579972 رابطہ
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع
باغِ نبوت کا پھول سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آج سے تقریباً 1384 برس قبل 61 ہجری میں جنتی نوجوان کا سردار نواسہ رسول ﷺ سیدنا امام حسین ابن علی حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق وباطل کے جدوجہد کے دوران میدان کربلا میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوئے ۔اناللہ واناللہ راجعون
دنیا میں حق و صداقت کی علمبرداروں کو ہرمشکل اور مصائب سے گزرنا پڑا ہے ،اور یہ سلسلہ آج کے دور میں جاری ہے اور یہ حق وباطل کی کشمکش دنیاکے آخر دن تک جاری رہے گی۔حق و صداقت کے شاہ سوار حسین ابن علی ؓ کا تذکرہ ہمیشہ ایک پاکباز ، حق پرست کے طور پر ہوتا رہے گا اسی کرتذہ کے ساتھ ساتھ یزید کا بھی ہوگا مگر ہمیشہ ایک ظالم اور جابرکی طرح ہوگا۔ شہادت حسینؓ ہر دورِ میںانسانیت کیلئے درسِ حیات ہے اورکردار حسین ؓکی عظمت میدانِ کربلا میں حق و باطل کے معرکہ آرائی میں آخری دم تک، دشمنوں کے محاصرے میں کربلا کے صحرا میں باغ نبوت کے ایک مہکتے گلاب کی ہے ۔ سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خصوصیات اوراوصاف وکمالات میں مصطفےٰ ﷺکا لعاب دہن خون بن کر دوڑ رہا تھا۔سیدنا حسینؓ فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود میں تربت پائی اور امیر ا لمومنین حضرت علی ؓ جیسی عظیم المرتبت ہستی کی رہنمائی میں زندگی کے بہترین ایام گزارے۔
سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک مقصد اور ایک نظریے کا نام ہے اور اسی طرح یزید کسی فرد کا نام نہیں ایک رویے کا نام ہے ۔سیدناامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کربلا کے مقام پر اپنے خاندان کی قربانی دے کر رہتی دنیا تک تمام انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ظاہری زندگی اصولوں اور حق کے سامنے ہیچ ہے اور جو عظیم لوگ اللہ کیلئے اور اس کے دین کے استحکام کیلئے جان کی قربانی دیتے ہیں وہ شہید ہو کر ہمیشہ زندہ جاویدرہتے ہیں۔اور اسی جگہ پر یزیدکا بھی تذکرہ ہوتا ہے مگر ظلم اور جابر کے ساتھ ہوگا۔ سیدنا حسینؓ نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور نہ بعیت کی اور یزید نے حکم دیا یا بعیت لو یا جنگ کرو۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدنا حسینؓ یزید کے فوج سے لڑے اور شہد ہوئے مگر بعیت نہ کی۔حسین ؓ ناس لئے اٹھے کہ خلافت کے اس معیار کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور اسی کے لیے میدان میں آگئے۔سیدنا حسینؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان و حضرت علی رضوان اللہ تعالی کی محنت، ایثار، قربانی اور جرت و حوصلہ کے ساتھ جو خلافت میں دیانت و اہلیت کا معیار قائم کیا تھا۔سیدنا حسینؓ کو اس میں کمی گوارا نہ تھی اورآپؓ اسی طرز خلافت اور مزاجِ حکمرانی کو باقی رکھنے کے لیے یزیدکی بعیت سے انکار کررہے تھے۔
اسی راہ میں اپنے خاندان سمیت جام شہادت نوش کی اور ظلم و جبر کے سامنے سربسجود ہونے کے بجائے رضائے الہی کو ترجیح دے کر حیات جایداں کی سعادت پا ئی جو کہ سب سے عظیم سعادت ہے۔انسان کےلئے یہی دو راستے ہیں یا سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب کیا جائے جہاں سعادت ہے۔ یا یزید کی صف میں کھڑے ہو کر دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کو اپنے حصہ میں شامل کریں یہ ہمارے لئے اہم ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں۔
شہادتِ حسین ؓ کا پیغام یہ ہے کہ حق و باطل کے دو فلسفوں جن کا آغازسیدنا امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کے شہادت سے ہوا تھا، یہی دو فلسفے آج تک چلے آرہے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ان دو فلسفوں میں سے کس کا ساتھ دینا پسندکریئگے اورواقعہ کربلا کے پسِ منظر میں یزید کی سوچ تھی کہ طاقت ہی حق ہے یعنی جس کے پاس طاقت ہے وہ حق پر ہے۔ اسی کی پیروی اور تابعداری کی جائے اور اس سے ہر صورت میں سمجھوتہ ہی بہتر ہے ۔یعنی طاقت کی تائید کرکے زندگی گزاری جائے۔یزید کی اس سوچ کے برعکس سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علیہ کی سوچ یہ تھی کہ طاقت حق نہیں بلکہ حق ہی طاقت ہے۔ لہذا نہ تو طاقت کی پرستش کی جائے اور نہ ہی اس کا ساتھ دیا جائے، بلکہ حق کا ساتھ دیا جائے۔ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر طاقتوور حق پرستوں کو قتل بھی کردے تب بھی یہ خسارے کا سودا نہیں بلکہ اس صورت میں راہِ حق کے مسافر زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یزید اور ابن زیادکی بد بختی ان کا مقدر بن چکی تھی اور ان کے آنکھوں پر پردے پڑے تھے اور دل پر مہر لگ چکی تھی اسلئے اُنہیںحق کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ورنہ اُنہیں معلوم نہ حسینؓکون ہے۔مگر ان دو کے ساتھ ساتھ کوفہ والوں کو بھی معلوم نہ تھاکہ حسین ؓکون ہے۔اس لشکر میں بہت سے ایسے تھے جو اس جنگ کو ہونے نہیں دیتے۔ مگربد بختی ان لوگوںکی مقدر بن چکی تھی جنہوں نے شہادت حسینؓ میں حصہ لیا ۔
میدان کربلاحق و صداقت کے علم بردار نواسہ رسول ِ ﷺ سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عمل سے ایک ایسا شمع روشن کیا جس کی روشنی سے قیامت تک حق پرستوں کے قافے آگے بڑھتے رہیں گئے ۔کیونکہ نا م حسینؓ عظمتوں،رحمتوں اور برکتوں کا امین ہے ۔شام کربلا آل رسول ﷺ کی حقانیت،حق وصداقت جرات اور عزت واستقامت کا باقی رہنے والا عنوان ہے۔میدان کربلا میں نواسہ رسول رحمت ِ ﷺسیدنا حسین ابن علیؓ نے عزیمت واستقامت کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ایک بامقدس ، زند ہ یادگا ر اور آنے والی نسلوں کےلئے قابل تقلیدہے سیدنا امام حسین ؓ دیگرشداءکربلانے اپنے مقدس لہوسے السلام کی آبیاری کرکے حق وصداقت کی گواہی دی اور دین کی اسکی اصل پر باقی رکھا۔سیدناامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پررہ کر باطل کی قوت سے مرعوب نہیں ہوتا اوریہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر کمزارہو جاتے ہیں، مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے،
مولانا احمد رضاخان ؒ فرماتے ہیں ۔ حضرت امام حسین ؓ کے حصہّ میں شہادت جہری آئی تھی اور جواعلان واظہار کو کہتے ہیں یہ وجہ ہے کہ رسول رحمتﷺ نے اس کا اعلان عام فرمادیا تھا۔ حدیث میں آیا ہے۔ ام المومنین حضرت عالشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔جبریل امین نے خبردی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد زمین لف میں قتل کردیا جائے گا اور جبریل میرے پاس” اس زمین کی“ یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے خبردی ہے کہ وہی ان کے لیٹنے ”مدفون ہونے“ کی جگہ ہے۔
قیامت کے دن سیدنا حسینؓ سے محبت کام آئے گی۔ یزیدیت کا کردار قیامت کے دن لعنت کا طوق بن کر متبعینِ یزید کی گردنوں میں ہوگا جبکہ حسینیت کا کردار قیامت کے دن شفاعت بن کر غلامانِ حسینؓ کے سروں پہ سایہ فگن ہوگا۔
سیدنا حسین ؓ ۵ شعبان المعظم ۴ہجری میں مدنیہ منور میں تولد ہوئے اور دس محرمرالحرام ۱۶ ہجری بمطابق ۸۲ اکتوبر ۱۸۶ءدین حق کی حفاظت کرتے ہوئے میدان کربلا میں خانوادہ سمیت اورجانثار ساتھیوں سمیت شہید ہوئے ۔ اناللہ واناا للہ راجعون
حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ان اشعار پر اختتام کرتا ہوں۔
شاہ است حسین ؓ بادشاہ است حسینؓ۔ دیں است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ۔ سر داد نہ داد دست در دست یزید ۔حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ۔
اللہ ہمیں شہادتِ امام حسین ؓ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق نخشے۔ آمین
ابو نعمان محمد اشرف بن سلام ۔اوم پورہ بڈگام 9419500008
طالب دعا:۔ ابو نعمان محمد اشرف بن سلام
اومپورہ بڈگام
9419500008 Kashmir