Tuesday, December 10, 2024
Homeاحکام شریعتخدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

 از قلم: محمد مکی القادری الحنفی الازہری خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

مصیبت زدہ،تنگ دست وبے سہارا اور نادار افراد کی جانب دست  تعاون دراز کرنا  ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (سورہٴ البقرہ ۲۶۱)۔

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

   وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (البقرہ ۲۶۵)۔

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔

مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے وہ ہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبہ سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔

ایک دوسری جگہ ارشاد حق تعالی ہے:۔ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى۔ ترجمہ: تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو-(سورۃ المائد‏ۃ:2)۔

صدقات و خیرات سے مخلوق خدا کی ضرورتیں پوری  ہوتی اور محتاجوں کے فاقے رفع ہوتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی دین کا ایک ستون ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو اپنی محبت کا معیار اور آزمائش قرار دیا ہے۔

حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد  فرماتے ہیں کہ پوشیدہ صدقہ خدائے تعالیٰ کے غضب کو فرو کرتا ہے اور ظاہراً صدقہ دوزخ کی آگ کے لئے سپر کا کام دے گا‘ صدقہ بری موت سے بچاتا اور بلا کو ٹالتا‘ اور عمر زیادہ کرتا ہے اور فرمایا: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا۔  الصدقة في السر تطفئ غضب الرب مستدرک علی الصحیحین،حدیث نمبر: 6491-۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ  (جامع ترمذی،باب ما جاء فى فضل الصدقة. حدیث نمبر:666)۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ اﷲُ عزوجل : أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْکَ. وَقَالَ : يَدُ اﷲِ مَلْاٰی لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ، سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ. وَقَالَ : أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (بخاری و مسلم مسند احمد بن حنبل)۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے‘‘۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے

. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ اﷲُ : أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَيْکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (بخاری و مسلم و مسند احمد بن حنبل)۔

۔’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے

قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِي : وَالْمَعْنٰی : أَنْفِقِ الْأَمْوَالَ الْفَانِيَةَ فِي الدُّنْيَا لِتُدْرِکَ الْأَحْوَالَ الْعَالِيَةَ فِي الْعُقْبٰی، وَقِيْلَ : مَعْنَاهُ أَعْطِ النَّاسَ مَا رَزَقْتُکَ حَتّٰی أَنْ أَرْزُقَکَ أَيْ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبٰی، إِشَارَةٌ إِلٰی قَوْلِهِ تَعَالٰی : ﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ﴾ [سبأ، 34 : 39الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4 / 318، الرقم : 1862)۔

۔’’ملا علی القاری فرماتے ہیں : حدیث مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ فنا ہونے والے اموال کو دنیا میں خرچ کرو تاکہ آخرت میں اعلیٰ درجہ کے احوال پا سکو۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم لوگوں کو میرے دیے ہوئے رزق میں سے دے دو تاکہ میں تجھے دنیا اور آخرت میں رزق عطا کروں۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے : اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا۔‘‘۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے سخاوت کی عزت پائی اور جس نے بخل کیا ذلت اٹھائی

 حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

 جس آدمی میں یہ وصف ہو کہ مانگنے والوں کو دیا کرے وہ سخی نہیں ہے‘ بلکہ سخی وہ ہے جو حقوقِ خدائے تعالیٰ نے اہلِ طاعت کے لیے مقرر فرمائے ہیں ان کو بلاطلب پہنچادے

 اور نفس میں شہرت کی خواہش نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل ثواب عنایت ہونے کا یقین ہو۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں:  تم مستحق کو بھی دو اور غیر مستحق کو بھی‘ تاکہ اللہ تعالیٰ تم کو وہ عطا فرمائے  جس کے تم مستحق ہو اوروہ بھی عطا فرمائے جس کے تم مستحق نہ ہو۔

حضرت ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ علیہ کسی سائل کو روٹی کا ٹکڑا یا کوئی ٹوٹی ہوئی چیز یا مستعملہ کپڑا نہ دیتے اور فرماتے مجھے شرم آتی ہے کہ میرا اعمال نامہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو اور اس میں ردی اشیاء ہوں جو میں نے ان کی راہ میں دی ہیں۔

حکایت : سیدۃ النساء حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں‘ حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تمہارا دل کیا چاہتا ہے؟ بی بی نے کہا: انار۔ آپ زاہدوں کے سردار‘ بھلا آپ کے پاس کہاں کا پیسہ! کسی سے قرض لے کر انار خریدا‘ گھر آنے لگے تو ایک فقیر نے کہا: یا علی رضی اللہ عنہ! میں بہت بیمار ہوں اور میرا دل انار چاہتا ہے! ۔

تھوڑی دیر آپ نے سوچا کہ اگر انار اس فقیر کو دیتا ہو ں تو سیدہ کے لئے نہ رہے گا اور اگر نہ دوں تو اپنے پاس انار رکھ کر سائل کو محروم کیسے کروں؟ آخر فیصلہ فرمایا کہ کچھ بھی ہو‘ خدائے تعالیٰ کے نام پر انار دے دیا جائے‘ آپ نے اسی وقت انار توڑ کر فقیر کو کھلادیا‘ فقیر کو صحت ہوگئی‘ گھر آکر دیکھتے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی صحت یاب ہوچکی ہیں‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ندامت کے ساتھ ان سے یہ واقعہ بیان فرمانے لگے

حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس وقت آپ نے وہاں فقیر کو انار کھلایا اسی وقت میرے دل سے انار کی خواہش نکل گئی‘ ایسا معلوم ہوا جیسا کہ میں نے انار کھالیا ہے‘ اتنے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ایک ڈھکا ہوا طبق لے کر آئے‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت جنت سے بھیجا ہے‘ دیکھا تو اس میں نو (9) انار ہیں‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میرے نہیں ہیں‘ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیسے معلوم ہوا؟

 فرمایا کہ خداوند تعالیٰ نے دنیا میں ایک کا بدلہ دس (10) رکھا ہے‘ یہ نو (9) کیسے ہیں؟

 حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ہنس کر ایک انار جیب سے نکالا اور طبق میں رکھ دیا اور عرض کی کہ آزمائش کے لئے چھپا رکھا تھا۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔

 جو شخص تندرستی میں ایک درہم راہِ خدا میں دے اس سے بہتر ہے کہ بیماری میں سو درہم دے‘ اور زندگی میں اپنے ہاتھ سے ایک درہم دینا بہترہے‘ مرنے کے بعد اس کے نام پر ہزار درہم دینے سے

 حکایت :۔ حضرت ابو سہیل رحمۃ اللہ علیہ صدقہ و خیرات وغیرہ کسی شخص کے ہاتھ میں نہ دیتے بلکہ زمین پر رکھ دیتے اور محتاج خود اٹھالیتا

آپ سے مریدوں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں مناسب خیال نہیں کرتا کہ یہ چیزیں کسی مسلمان کے ہاتھ میں دی جائیں اس حال میں کہ میرا ہاتھ اونچا رہے اور اس مسلمان کا ہاتھ نیچا ہو۔

حکایت :۔ حضرت محمد بن علیان نسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سخی کی سخاوت اس وقت صاف ہوتی ہے جب کہ وہ اپنی عطاء کو حقیر سمجھے اور لینے والے کو اپنے سے بہتر جانے اور اس کا احسان مانے۔

اسلامی بھائیو! مذکورہ آیات کریمہ و احادیث شریفہ سے اور جب خصوصاََ  اِس فرمانِ خداوندی سے اس بات کی سند مل گئی کہ  جو خوش نصیب اپنے  مال  میں سے ایک روپیہ  راہِ خُدا میں خَرْچ کرے گا تو اللہ  کریم اپنے فضل واحسان سے  اُس ایک کے بدلے 700  گُنا  عطافرمائے گا تو کوئی نادان  ہی  راہ ِخدا میں خرچ کرنے سے جی چُرائے گا ۔

اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں

مگر افسوس! آج کل صَدَقہ و خَیْرات کے ذریعے غریبوں کی مَدَد کرنے اور نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کے بجائے فضول  اور غیر ضروری کاموں کے لیےتو اپنے خزانے کے مُنہ کھول دئیے جاتے ہیں، مگر اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ ہمارے اِرْد گرد مُعاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جن کے پاس نہ تو سر چُھپانے کے لیے مُناسب جگہ ہے،نہ تَن ڈھانپنے کے لیے لباس ہے اور نہ ہی پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیے بقدرِ ضرورت روٹی۔اگر ہم اپنی جائز خُوشیوں کے ساتھ ساتھ حتّی الامکان  ایسے سفید پوش لوگوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں اور اُن کے ساتھ ہم دردی بھرا سُلوک کریں تواللہ  پاک اپنی رحمت سے آخرت میں تو اس کاصِلہ عطا فرمائے گا،بسا اوقات  دنیا میں بھی اس کی جزا  ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرماے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ازقلم   محمد مکی القادری الحنفی الازہری گورکھ پوری

صدر المدرسین دارالعلوم اہلسنت نورالاسلام شریدتگنج بازار بلرام پور یو پی

اعلیٰ  حضرت قدس سرہ اور خدمت خلق : اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن