قرآن و حدیث میں تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم اوراس کی اہمیت وترغیب
از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی
تقویٰ ایک انتہائی جامع لفظ ہے، اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع ہے، موٹے لفظوں میں تقویٰ خوف الٰہی کا دوسرا نام ہے، اللہ عزّوجل سے ڈر کر عبادت کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت اور گناہوں سے کنارہ کش ہونا تقویٰ کی حقیقت ہے، جب ایک بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کے منہیات سے رک جائے اور اللہ تعالیٰ کے مامورات کی بجاآوری شروع کر دے تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور اس کا تقویٰ اختیار کیا
تقویٰ اور پرہیزگاری کی تعلیم یقیناً اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے، تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے حساب اور جزا وسزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے تمام برے کاموں اور بری باتوں سے بچاجائے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلا جائے،یعنی جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں اور اپنے جن بندوں کے جو حقوق ہم پر لازم اور مقرر کئے ہیں ان کو ہم ادا کریں اور جن کاموں اور جن باتوں کو حرام اور ناجائز کردیا ہے ہم ان سے بچیں اور ان کے پاس بھی نہ جائیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہیں
قرآن وحدیث میں بڑی تاکید کے ساتھ اور بار بار اس تقوے کی تعلیم دی گئی ہے،ہم صرف چندآیتیں اور حدیثیں یہاں درج کرتے ہیں، سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:۱۰۲)۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنا چاہییے(اورآخری دم تک اسی تقوے کے تحت اس کی فرمانبرداری کرتے رہو)یہاں تک کہ تم کو اسی فرمانبرداری کی حالت میں موت آئے۔
اور سورۂ تغابن میں فرمایا فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا (التغابن:۱۶)۔ اللّٰہ سے ڈرواور تقویٰ اختیارکروجس قدر بھی تم سے ہوسکے اور اس کے سارے حکم سنواورمانو۔ اور سورۂ حشر میں فرمایا گیاہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (الحشر:۱۸)۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو(اورتقویٰ اختیارکرو)اور ہر شخص کو چاہییے کہ وہ دیکھے اورغورکرے کہ اس نے کل کے لیے (یعنی آخرت کے لیے)کیا عمل کئے ہیں، اور دیکھو اللہ سے ڈرتے رہو،وہ تمہارے سب عملوں سے پوری طرح خبردار ہے۔
قرآن شریف ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور تقویٰ اورپرہیزگاری کے ساتھ زندگی گزاریں،ان پر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی بڑی مدد کرتاہے۔ وَمَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ (الطلاق:۲)۔
اور جولوگ ڈریں اللہ سے(اورتقوے والی زندگی گزاریں) تواللہ تعالیٰ ان کے لیے مشکلات سے نکلنے کے راستے پیدا کرتا ہے اور ان کو ایسے طریقوں سے رزق دیتا ہے جس کا ان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
قرآن مقدس ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں میں تقویٰ ہوتا ہے وہ اللہ کے ولی ہوتے ہیں اور پھر ان کو کسی دوسری چیز کاڈر اور رنج وغم بالکل نہیں ہوتا۔
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (یونس:۶۲)۔
خبردار!بےشک اللہ کے جو ولی ہوتے ہیں انہیں کوئی خوف اورغم نہیں ہوتا،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سچے مومن اورمتقی ہوں،ان کے واسطے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی۔
ان متقی اورپرہیزگارلوگوں کو جو نعمتیں آخرت میں ملنے والی ہیں ان کا کچھ ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ وَاللہُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ (آل عمران:۱۵)۔
(اے رسولﷺ ان لوگوں سے)آپ کہئے کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں جو تمہاری اس دنیا کی تمام مرغوب چیزوں اورلذتوں سے بہت بہتر ہے؟ (سنو)ان لوگوں کے لیے جو اللہ سے ڈریں اورتقوے والی زندگی اختیار کریں،ان کے مالک کے پاس ایسے باغہائے جنت ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے
اور ایسی بیبیاں ہیں جو بہت صاف ستھری ہیں(اوران کے لیے) اللہ کی رضا مندی اور خوش نودی ہےاور اللہ تعالیٰ خوب دیکھتا ہے اپنے سب بندوں کو(سب کے ظاہر وباطن کا حال اس کی نظر میں ہے)۔
اس سلسلہ میں سورۂ ص کی یہ آیت اورپڑھ لیجیے وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُ مُتَّکِــــِٕیْنَ فِیْہَا یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ ھٰذَا مَاتُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍ “(ص:۴۹-۵۴)۔
اوریقینا متقی بندوں کے لیے بہت ہی اچھا ٹھکانہ ہے، باغ ہیں سدابہار ہمیشہ رہنے کے ،کھلے ہوئے ہیں ان کے لیے دروازے،بیٹھے ہیں ان میں تکئے لگائے،منگاتے ہیں خادموں سے میوے اورشربت اور ان کے پاس عورتیں ہیں نیچی نگاہ والیاں، سب برابر عمر کی،یہ وہ انعام ہےجس کا وعدہ کیا جارہاہے تم سے روز حساب کے لیے ،بے شک یہ ہے ہمارا رزق جس کے لیے کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
اور قرآن مجید ہی میں متقی بندوں کو یہ بھی خوش خبری سنائی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کا خاص الخاص قرب ان کو نصیب ہوگا
جیساکہ سورۂ قمر کی آخری آیت ہے اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ(القمر:۵۴،۵۵)۔
متقی بندے(آخرت میں) جنت کے باغات اورنہروں میں رہیں گے،ایک عمدہ مقام میں کامل اقتداررکھنے والے کائنات کے حقیقی بادشاہ کے قریب۔
قرآن مجید میں یہ بھی اعلان فرمایا گیا ہے کہ اللّٰہ وحدہ لاشریک کے نزدیک عزت وشرافت کا مدار بس تقوے پر ہے ” اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ ” (الحجرات:۱۳)۔
تم میں سب سے زیادہ باعزت اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سےزیادہ تقویٰ والاہو۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نےبھی ایک حدیث میں فرمایاہے: “مجھ سے زیادہ قریب اور مجھے زیادہ پیارے وہی لوگ ہیں جن میں تقویٰ کی صفت ہے؛خواہ وہ کسی قوم ونسل سے ہوں اور کسی بھی ملک میں رہتے ہوں”۔(مسند احمد،حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْه)۔
تقویٰ(یعنی خداکاخوف اورآخرت کی فکر)ساری نیکیوں کی جڑہے،جس شخص میں جتنا تقویٰ ہوگا اس میں اتنی ہی نیکیاں اور اچھائیاں جمع ہوں گی اور اتنا ہی وہ برے کاموں اور بری باتوں سے دورہوگا۔
حدیث شریف میں ”رسول اللہﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی رحمت ﷺ سے عرض کیا کہ: حضور میں نے آپ(ﷺ ) کے بہت سے ارشادات اور بہت سی ہدایات سنی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ یہ ساری ہدایتیں اور نصیحتیں مجھے یاد نہ رہ سکیں اس لیے آپ(ﷺ ) کوئی ایک جامع نصیحت فرمادیں جو میرے لیے کافی ہو؟
تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنے علم اور واقفیت کی حد تک خدا سے ڈرتے رہو(اور اسی ڈراور فکر اورتقوے کے ساتھ زندگی گزارو)”۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَة)۔
یعنی اگریہ ہی ایک بات تم نے یاد رکھی اور عمل کیا تو بس یہی تمہارے لیے کافی ہے،ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: “جسے خوف ہوگاوہ سویرے چل پڑے گااور جو سویرے چل دے گا وہ بروقت منزل پر پہونچ جائے گا” (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ)۔
پس خوش نصیب اور کامیاب وہی ہیں جو خداسے ڈریں اورآخرت کی فکر کریں،خداکے خوف سے اور اس کے عذاب کے ڈرسے اگر ایک آنسو بھی آنکھ سے نکل آئے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی بڑی قدرہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ ۔اللہ تعالیٰ کو انسان کے دوقطروں اور اس کے دونشانوں سے زیادہ کوئی چیز پیاری نہیں ،پس دوقطرے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں ان میں سے ایک تو آنسو کا وہ قطرہ ہے جو اللہ کے خوف سے کسی آنکھ سے نکلاہو۔
اور دوسرا خون کاوہ قطرہ ہے جو راہ خدامیں کسی کے جسم سے بہاہواور جودونشان اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں ان میں ایک تو وہ نشان ہے جوراہ خدا میں کسی کو لگاہو(یعنی جہادمیں زخم لگا ہو اور اس کا نشان رہ گیا ہو)اوردوسراوہ نشان جو اللہ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے سے پڑگیا ہو(جیسا کہ بعض نمازیوں کی پیشانیوں اورگھٹنوں میں ہوجاتا ہے)”۔ (ترمذی،باب ماجاء فی فضل المرابط)۔
ایسا آدمی کبھی دوزخ میں نہیں جاسکتا،جواللہ کے خوف سے روتا ہے(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْغُبَارِ )۔
الغرض خداکا سچاخوف اورآخرت کی فکراگرکسی کو نصیب ہو تو یہ بہت بڑی بات ہے اور اس خوف اورفکرسے آدمی کی زندگی سونابن جاتی ہے۔
اوپر درج کی گئی قرآنی آیات اور احادیث طیبات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسی لیے قرآن و حدیث میں جابجا تقویٰ کا ذکر آیا ہے، کہیں اس کی افادیت کا بیان ہے تو کہیں اس کی ضرورت کا اعلان ہے، ایک جگہ اس کو اپنانے کی تعلیم ہے تو دوسری جگہ اسے برتنے کی تلقین-۔
غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے مختلف پیرایوں اور مختلف مقامات پرتقویٰ کی ترغیب دی ہے، جس کی بنیادی وجہ ایک یہ ہے کہ مقصدِ زندگی تو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے
جیسا کہ قرآن کریم میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُون (الذاریات:۵۶)۔
اور میں جنات وانسانوں کو اس کےسوا اورکسی کام کے لیے نہیں پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں-۔
لیکن مقصدِبندگی خودقرآن کے اعلان وحکم کے مطابق تقویٰ اورپرہیزگاری ہے
جیساکہ ارشادربّانی ہے یا ایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتّقون (البقرہ: ۲۱)۔
اے لوگو!اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اوران لوگوں کوپیداکیا جوتم سے پہلے گذرے ہیں،تاکہ تم متّقی بن جاؤ۔
اس سے ثابت ہواکہ تمام عبادات واعمال کی اصل جڑ تقویٰ ہے- حتّیٰ کہ ایک حدیث میں تو یہاں تک ارشادہے کہ “اگر تم نمازپڑھتے پڑھتے کمانوں کی طرح ٹیڑھےہوجاؤ،اورروزہ رکھتے رکھتےسوکھ کرکانٹا ہوجاؤ،پھربھی نفع توتقویٰ ہی سے ہوگا“(تنبیہ الغافلین مترجم/ص:۴۶۹)۔
اور مشکوٰة شریف میں ترمذی کی روایت منقول ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت کاتذکرہ ہوا،اور دوسرے کےتقویٰ کا،توحضورنے فرمایا لَاتَعدِلُ بالرِّعة،یَعنِی اَلوَرَعَ (رواہ الترمذی،مشکوٰة/۴۴۱،کتاب الرّقائق)…تقوے کے برابر کوئی عبادت وعمل نہیں۔
اور خود قرآن مقدّس میں ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے”ولٰکِنَّ البِرَّ مَنِ اتَّقیٰ“(البقرہ:۱۸۹)…بلکہ اصل نیکی کی راہ یہ ہے کہ بندہ تقویٰ کی راہ اختیار کرے۔
قارئین کرام !
بلاشبہ اس چندروزہ دنیا میں جوخدا سے ڈرتارہے گا مرنے کے بعدآخرت کی زندگی میں اس کو کوئی خوف اور رنج وغم نہ ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیشہ ہمیشہ خوش وخرم اور بڑے چین وآرام سے رہےگا اور جویہاں خدا سے نہ ڈرے گا اور آخرت کی فکر نہ کرے گا اور دنیا ہی کی لذتوں میں مست رہے گا وہ آخرت میں بڑے دکھ اٹھائے گا اور ہزاروں برس خون کے آنسو روئے گا۔
تقویٰ یعنی خوف خدا اور فکر آخرت پیدا ہونے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ اللّٰہ کے ان نیک بندوں کی صحبت ہے جو خدا سے ڈرتے ہوں اور اس کے حکموں پر چلتے ہوں،دوسرا ذریعہ دین کی اچھی و معتبر کتابوں کا پڑھنا اور سننا ہےاور تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنی موت کا خیال کرے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں پرجو ثواب اور گناہوں پر جو عذاب ملنے والا ہے۔
اس کو یاد اور اس کا دھیان کیاکرے اور اپنی حالت پر غورکیاکرے اور سوچا کرے کہ قبر میں میرا کیا حال ہوگا؟
اور قیامت میں جب سب بندے اٹھائے جائیں گے تو میری کیا حالت ہوگی؟ اور جب خداکے سامنے پیشی ہوگی اور میرانامۂ اعمال میرے سامنے کھولاجائے گا تو میں کیا ٰجواب دوں گا؟اور کہاں منہ چھپاؤں گا؟
جوشخص ان طریقوں کو استعمال کرے گا ان شاء اللہ اس کو ضرور تقویٰ نصیب ہوجائے گا،اللہ تعالی ہم سب کو تقویٰ نصیب کرے۔آمین
از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم:دارالعلوم شمصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر، (راجستھان)