بڑھتا الحاد اور ہماری ذمہ داری تحریر: محمد شاہد علی مصباحی
بڑھتا الحاد اور ہماری ذمہ داری
الحاد اور بے دینی ایسے لفظ ہیں جن کو سنتے ہی ذہن منتشر ہونے لگتا ہے، عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے یہ دیکھ کر کہ کیسے لوگ غفلت اور لالچ کی بھینٹ چڑھ کر ایمان جیسی قیمتی شی سے ہاتھ دھوتے جارہے ہیں۔ آئیے ہم ایمان اور الحاد کے درمیان کا فرق اور مسلموں میں اس کی شرح آج کیوں بڑھ رہی ہے اس کو سمجھتے ہیں، سب سے پہلے ہم بیان کریں گے کہ ایمان کیا ہے؟ اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟۔
ایمان کیا ہے؟
ایمان کی لغوی تعریف : ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ (لسان العرب)۔
ایمان کی اصلاحی تعریف
مذہب اسلام کے مطابق ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ کی طرف لائے اس کی تصدیق کرنا۔
الحاد کیا ہے ؟
الحاد/Atheism)
الحاد کا عربی زبان میں لغوی معنی انحراف یا راستے سے ہٹ جانا ہے۔الحاد کو انگریزی زبان میں
atheism
کہا جاتا ہے جس کا اردو زبان میں مطلب لامذبیت یا لادینیت لیا جاتا ہے۔الحاد اسلامی مضامین میں استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے جو کافروں(خدا کے ناماننے والوں) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
(ملحد/Atheist)
الحاد کے پیروکاروں کو ملحد،دہریے،مادیت پرست یا
atheists
بھی کہا جاتا ہے۔الحاد کے ماننے والوں کی تعداد ماہرین سماجیات
Ariela Keysar
کے الحاد پر متعدد عالمی مطالعہ اور
Juhem Navarro rivera
کے جائزے کے مطابق،ایک ارب ملحد اور
agnostics
دنیا بھر میں ہیں(دنیا کی آبادی کا 7 فیصد)،اور دنیا میں سب سے زیادہ ملحد چین میں ہیں جن کی تعداد 40 کروڑ ہے۔
(عقائد/Beliefs)
ملحدین کا خیال ہے کہ دنیا کسی خدا نے نہیں بنائی بلکہ خودبخود وجود میں آئی ہے یا پھر پہلے سے موجود تھی اور مختلف اشکال میں ہمیشہ موجود رہے گی۔ ملحدین صرف ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی یا سائنسی ثبوت ہو۔ اس کے علاوہ سائنس اور دنیاوی علوم کو ہی سب کچھ مانتے ہیں۔ مذہبی قیود کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔
الحاد یا دہریت کا عالمی دن 17 مارچ ہے جس کی شروعات 2013 میں ہوئی.(2013-03-17)(ویکیپیڈیا)۔
جس طرح مذہب ہمیشہ سے ہے اسی طرح مذہب کا انکار کرنے والے بھی شروع سے رہے ہیں لیکن یہ کبھی زور نہیں پا سکے۔ دنیا بھر میں یا تو موحدین رہے یا مشرکین۔
چند مشہور فلسفیوں اور ان کے معتقدین کو چھوڑ کر الحاد کہیں اور نہ پھیل سکا۔
الحاد کا ارتقاء
انیسویں صدی میں جب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مقبولیت حاصل ہوئی توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی۔ اور بڑی تیزی سے مذہب کی پابندیوں سے آزادی کے خواہاں اس قافلہ میں شریک ہونے لگے۔
الحاد ابتداءً اسلام کے سامنے بالکل ناکام و نامراد رہا مگر اب مادیت پرستی کے دور میں دینی علوم سے ناآشنا مسلموں میں بھی تیزی سے الحاد بڑھ رہا ہے۔
الحاد نے کئی چولے بدلے اور مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جانا گیا؛ انہیں ناموں میں سے مشہور نام کمیونزم اور سیکولرزم ہیں
کارل مارکس اور اس کے ساتھی فریڈرک اینجلز (جو بہت بڑا ملحد فلسفی تھا) کے مشترکہ نظریے نے کمیونسٹ انقلاب برپا کیا، جس نے یکلخت ملحدوں کی تعداد لاکھوں کے ہندسے سے نکال کر کروڑوں تک پہنچا دی۔
اہل ایمان میں الحاد کیسے ایا ؟
جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا کہ الحاد مسلمانوں میں بالکل بے اثر رہا اور جب ملحدین نے یہ دیکھا کہ اسلام کے متبعین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے تو انہوں نے بڑی چالاکی اور ہشیاری سے دنیاوی تعلیم کے بڑے ادارے قائم کیے جن میں سیکولرزم جیسا خوب صورت نام رکھ کر الحاد کو پروسا گیا اور لوگ اعلی تعلیم کے خواب میں ان اداروں میں جاتے رہے اور انجانے میں الحاد کا شکار ہوتے رہے۔
ساتھ ہی انہوں نے مرد و زن کی مخلوط تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا تاکہ نفس کے پرستار اس جال سے نکل ہی نہ سکیں۔ اور ہماری آنکھیں اس بات کی گواہ ہیں کہ اعلی تعلیم کے نام پر جو ادارے قائم کیے گئے انہوں نے الحاد کو گھر گھر تک پہنچایا، یہاں تک کہ علما کے بچے بھی پکے ملحد دیکھے گئے۔
اس کے بعد وہ تمام افراد جو آزادی چاہتے ہیں گناہ کرنے کی جو کہ مذہب انہیں ہرگز نہیں دے سکتا تو ایسے افراد نے بھی الحاد اور لادینیت کا سہارا لیا اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے، کیوں کہ اگر دین کو اپنے گلے کا طوق بنائیں گے تو دین جن باتوں سے روکتا ہے ان سے باز رہنا پڑے گا اور جن باتوں کا حکم دیتا ہے ان کی تعمیل کرنی ہوگی؛ مگر الحاد ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے۔ جو آپ کا دل کرے آپ کرتے جائیں کوئی بندش نہیں، کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔
اگر دین کو مانیں گے تو دین کے احکام کو بھی ماننا پڑے گا جو کہ من مانی کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں جیسے کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ
ترجمہ: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (سورة آل عمران: 110)۔
یا جیسے اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۹۰﴾۔
ترجمہ: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف، نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا۔ اور منع فرماتابے حیائی، برُی بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو (سورة النحل: 90)۔
یا وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾۔
ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے ، اور بہت ہی بری راہ. (سورة بنی اسراءیل: 32)۔
اور ان احکام کو ماننے کے لیے دین کی سمجھ اور دین سے محبت ضروری ہے جو ان سیکولر اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے پڑھے لوگوں میں نہیں ہوتی اسی لیے وہ الحاد کی طرف چلے جاتے ہیں۔
یہ ساری لادینیت جو بڑھتی جارہی ہے اس کے ذمہ دار عیسائیوں اور یہودیوں کے یا ان کی فکر پر کام کرنے والے اعلی تعلیمی ادارے ہیں جن میں اعلی تعلیم کے نام پر مذہب بیزاری کا سبق دیا جاتا ہے؛ اور مساوات کے نام پر مخلوط تعلیم کی آڑ میں نفس پرستی اور گناہوں کی کھلی چھوٹ دے کر دل کالے کیے جاتے ہیں۔
جیسا کہ لارڈ میکالے کا بیان ہے کہ “ان تعلیمی اداروں میں مسلمان عیسائی نہ بھی بنیں گے تو کم ازکم مسلمان بھی نہ رہیں گے یعنی سیکولر لادین، نیچری اور ملحد بن جائیں گے
اہل فراست اس چیز کو بیت پہلے ہی سمجھ گئے تھے اسی لیے تو اقبال اس مفہوم کی ترجمانی یوں کرتے ہیں
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا “الحاد” بھی ساتھ
الحاد سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
خاص کر ملک ہند میں آزادی کے بعد علما نے تعلیمی میدان کافی حد تک اپنا کام کیا اور ہر شہر ہر گاؤں میں مدارس کا قیام کیا تاکہ دینی تعلیم سے مسلمان بہراور ہوتے رہیں۔
مگر دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ نے اس کے مقابل اسکول اور کالیجیز قائم نہیں کیے، اگر وہ بھی اسی طرح یہ سلسلہ جاری رکھتے تو شاید الحاد اس تیزی کے ساتھ نہ پھیلتا۔
اور ایک بڑی لغزش دونوں طبقوں سے یہ ہوئی کہ ان دونوں تعلیموں کو ساتھ لانے کی اتنی کوشش نہیں کی جتنی ضروری تھی۔ اگر مدرسہ میں جانے والا دنیاوی تعلیم سے بھی آشنا ہوتا یا اسکول جانے والا ضروری دینی تعلیم سے بھی واقفیت رکھتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
دونوں طبقوں کے مابین وقت کے ساتھ دوری بڑھتی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ایک دوسرے کو قبول کرنا ہی نہیں چاہتے۔
البرکات کا ایک یادگار واقعہ
دوسال قبل حضرت سید امان میاں صاحب قبلہ کی دعوت پر تقریباً پندرہ روز “البرکات” میں قیام رہا، اس دوران کافی کچھ یادگار لمحے آئے مگر ایک ایسا لمحہ بھی آیا کہ جس کو میں بھول ہی نہیں سکتا
رمضان کا مہینہ تھا اور البرکات پبلک اسکول کے امتحانات چل رہے تھے شاید، جب ہم سحری کے وقت ڈائننگ ہال میں جاتے تو تعجب ہوتا کہ “البرکات پبلک اسکول” میں پڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانے آتے اور ہر نماز میں پہلے سے موجود رہتے۔ غالباً دسواں روزہ تھا (اور ایسی شدید گرمی کے روزے تھے جن میں بڑے بڑے بھی روزہ نہ رکھنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں.) فجر کی اذان ہو چکی تھی اور میں جماعت کے انتظار میں مسجد کے ایک کونے میں بیٹھا تھا، اسی دوران ایک چھوٹا سا بچہ (جس کی عمر میرے اندازے کے مطابق دس یا گیارہ سال رہی ہوگی.) میرے قریب آکر بیٹھا اور سلام کیا جواب کے بعد اس نے ایک مسئلہ دریافت کیا (جس کو سنتے ہی میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل ائے۔) کہ “آج میں سحری میں نہیں پہنچ سکا تو کیا بغیر سحری کا روزہ ہوسکتا ہے؟
میں نے اس کو نیچے سے اوپر تک دیکھا اور کہا: “بیٹا بہت گرمی ہوتی ہے اور ابھی تم پر روزہ فرض بھی نہیں لہذا اگر سحری نہیں کی تو آج روزہ مت رکھو”۔ اس نے کہا: “میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں اگر ہوجائے تو رکھوں گا”. میں نے کہا: “روزہ تو ہوجائے گا”. اس کے چہرے پر خوشی کے آثار صاف دیکھے جاسکتے تھے۔
عصر کی نماز میں اس بچے کو دیکھا تو اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا، میں اس کے قریب گیا اور پوچھا: “بھوک لگ رہی ہے کیا؟” تو بڑا معصومانہ جواب تھا “بھوک تو نہیں لگی بس تھوڑی پیاس لگی ہے”. میں نے کہا :صبر کرو! اب تھوڑا وقت بچا ہے اللہ بڑا اجر دیگا”۔ اور اس بچے کے لیے دل سے دعائیں نکلیں کہ یا اللہ!!! اس بچے کو کامیابیوں کی منزلیں طے کرادے۔
قابل توجہ امر
کاش البرکات پبلک اسکول جیسے ہزاروں اسکول ہمارے پاس ہوتے تو نہ ہماری نسلوں میں ملحد ہوتے، نہ بد عقیدہ، نہ ہی بے نمازی آزاد خیال۔ بلکہ ہمارے بچے دنیاوی اعلی تعلیم کے ساتھ دینی اعلی تعلیم عملی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ سیکھتے۔
ایمان سب سے بڑی دولت ہے
میں اپنی قوم کے مفکرین، اہل وسائل اور ذی وقار شخصیات سے فریاد کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اپنی آنے والی نسلوں کو گمراہی، بد عملی اور الحاد و لادینیت جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھنا چاہتے تو ایسے تعلیمی ادارے قائم کرو جن میں مرد و زن کی مخلوط تعلیم تو نہ ہو مگر دینی اور دنیاوی تعلیم کا بہترین سنگم ضرور ہو۔ تاکہ وہ بچہ جسے ہم ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل بنانا چاہتے ہیں وہ دینی اور مذہبی اقدار سے غافل نہ ہو بلکہ وہ دنیوی تعلیم کے ساتھ اعلی دینی تعلیم کے ساتھ ان پر عمل پیرا بھی ہو۔
پیارے بھائیو! ایمان سب سے بڑی دولت ہے اگر دنیاوی تعلیم دلانے کے چکر میں آپ نے اپنے بچے کو دین سے دور کردیا اور وہ بچہ غیر مسلموں کے اسکولوں اور کالجوں پڑھ کر سورج کو پوجنے لگا، تعلیم کی دیوی کی پرستش کرنے لگا یا عیسائیوں کے اسکولوں میں پڑھ کر دین بیزار ہوگیا تو اللہ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟؟؟
محمد شاہد علی مصباحی
رکن: روشن مستقبل دہلی
نائب صدر: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
علامہ طارق انور مصباحی صاحب کا قسط وار مضمون آو اپنی اصلاح کریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع