Sunday, October 6, 2024
Homeشخصیاتمناظر اسلام حضرت علامہ ارشد القادری حیات و خدمات

مناظر اسلام حضرت علامہ ارشد القادری حیات و خدمات

ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی مناظر اسلام حضرت علامہ ارشد القادری حیات و خدمات

مناظر اسلام حضرت علامہ ارشد القادری حیات و خدمات

  ایسے تو دنیا میں بہت سے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں مگر چند ہی لوگ ہیں جو اپنی غیر معمولی صلاحیت ، بے لوث دینی خدمات اور اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے بعد از وصال بھی لا کھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔

انہی میں ایک ذات بابرکات مناظرہ اسلام بانی مدارس مساجد کثیرہ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ہیں۔

حضرت کی زندگی کے چند پہلو بیان کیے جاتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

نام و نسب :- غلام رشید ارشد القادری بن مولانا شاہ عبد اللطیف رشیدی۔

پیدائش :- علامہ ارشد القادری5/ مارچ 1925 ءکو سید پور۔ضلع ،بلیا۔ اترپردیش  میں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت :- ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجدسے ہی  حاصل کی 1944ء جامعہ اشرفیہ مبارکپور عربی یونیورسٹی (یوپی) درس نظامی مکمل کیا، آپ کے اساتذہ کرام میں خصوصیت کے ساتھ حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری،مولانا  محمد سلیمان بھاگل پوری، مولانا عبدالمصطفی ازہری مولانا ثناءاللہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

بیعت طریقت :- خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے کی۔ اجازت و خلافت خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور سرکاری پٹنہ  حضرت فدا حسین سے ملی۔

    آپ نے ہندوستان کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور عربی یونیورسٹی میں جلالۃ ا لعلم حضرت علامہ شاہ عبد ا لعزیز محدث مرادآ بادی علیہ ا لرحمہ (حافظ ملت )کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی پوری زندگی قوم وملت کی فلاح و بہبودی کے لیے وقف کردی تھی۔

آپ قوم وملت کے سچے رہبر اورہمدرد تھے ہر لمحہ قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لیے کوشاں رہتے تھے ان کی ترقی کے لیے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہتے تھے اگرقوم وملت پر کوئی دقت یا پریشانی آتی تو آپ خود پریشان ہوجایا کرتے تھے ۔

آپ کا ہر ہر قدم ملت کی اصلاح اور دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اٹھتا اور ہر لمحہ ملت کی ہی فکر لگی رہتی۔آپ امت مسلمہ کو باہم متحد و متفق دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ انہیں اپنے استاذ حضور حافظ ملت کی بارگاہ سے علم حکمت کے ساتھ یہ انمول موتی بھی ملی تھی کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے ‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کی دیوار میں نقب زنی کرنے والوں سے ہمیشہ بر سر پیکار رہے اور جماعت اہل سنت کو باہم متحد رکھنے کے لیے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہے ۔اور اس سلسلے میں جو بھی زد میں آیا علامہ موصوف نے بھرپور مقابلہ کیا۔

جیسا کہ ہم عصر خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی کو ان کی کوتاہیوں کا احساس دلاتے ہوئے ادبی پیرائے میں اپنے خط کے ذریعے بیدار کرتے ہیں کہ زحمت نہ ہو تو شہرت و برتری کے عرش سے نیچے اتر آئیے تاکہ ہم خاکساران گوشۂ گمنامی آپسے کچھ باتیں کرسکیں ۔

خوش گوار لب و لہجہ میں جناب سے التماس کررہاہوں کہ ’’مسلم متحدہ محاذ ‘‘جو ہماری ہمت اور عزم کا آخری پیمان ہے اس کی طرف غفلت و سرد مہری ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے ۔

یا تو اس قدم پر آپ کو حق رفاقت کی ادائیگی سے اپنی دست برداری کا اعلان کر دینا چاہئے تھا۔یا اب آپ بیچ مجدھار میں چھوڑ کر ساحل کا لطف اٹھا رہے ہیں

حلیفوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا مرگ ننگ سے کم نہیں ہے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کی صلاحیتوں سے ہماری توقعات وابستہ تھیں انہیں انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ نے کچل دیا بے چارگی کے عالم میں مبادا ہماری ہمتوں نے دم توڑ دیا تو آپ منھ چھپانے کے لیے نا مرادیوں کا کوئی مدفن تلاش کرلیجئے گا ۔

آپ کی مصلحت انگیز فراست پر کیا حرف رکھ سکتا ہوں آپ کی بارگاہ بہت اونچی ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ انفرادی اعزاز کی قیمت پر جماعت کی آبرو کو بھینٹ چڑھا دینا کسی طرح بھی قرین مصلحت نہیں ہے۔ کاش! میرے قلم سے آتش سیال کے قطرے ٹپکتے اور میں آپ کے حریم ناز تک اپنے دل رفتہ وار کی تپش پہونچا سکتا ۔

میرے پیارے !مرگ انبوہ جشنے دارد ۔ وقت آگیا ہے ایک ساتھ اٹھیں اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایمان و اعتقاد کی ہلاکتوں پر فتح پانے کی کوشش کریں۔ میں اپنی اس تلخ تاب تحریر پر آپ سے کوئی معذرت نہیں کرتا کہ اگر صور اسرافیل مجھے مستعار ملی ہوتی توآپ کی بیداری کے لیے ہنگامہ محشر برپا کردیتا‘‘ ۔( خط بنام مولانا مشتاق احمد نظامی محررہ 28نومبر1986ء بحوالہ جام نور کا رئیس ا لقلم نمبر صفحہ نمبر 72 )۔

  علامہ ارشد ا لقادری اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کے خوابیدہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دینی و ملی شیرازہ بندی کے لیے تنظیم و تحریک کی اہمیت وافادیت نا گزیر ہے کیوں کہ جو قوم جتنی منظم اور مربوط ہوگی تعمیر و ترقی کے میدان میں وہ اسی قدر ترقیاں کر کے مضبوط ومستحکم ہوگی

جیسا کہ آج سیکڑوں باطل نظریات کی حامل تنظیمیں اور تحریکیں ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نظام عمل میں کسی قسم کی کوتاہی کو دخیل نہیں ہونے دیتی جب کہ ’’جماعت اہل سنت کے درمیان تنظیمی لا مرکزیت اور دستوری قیادت کے فقدان کا ماتم ایک عرصۂ دراز سے کیا جارہا ہے یہاں تک کہ اب ہماری سنجیدہ محفلوں کا موضوع سخن بن گیا ہے

جہاں تک جماعتی شیرازہ بندی کے لیے کوشش کا تعلق ہے ہمارے اکابر نے متعدد بار اس کے لیے کوشش فرمائی ملک کے طول و عرض سے جماعت کے ذمہ دار رہ نما بھی جمع ہوئے ہیں پرجوش امنگوں کے سائے میں کل ہند سطح پر جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی تیار کیے گئے

لیکن ساری جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے کل ہند سطح پر کئی تنظیمیں ہمارے یہاں معرض و جود میں آئیں اور کوئی بھی تنظیم بھی اپنے لیٹر پیڈ ، اپنے سائن بورڈ اور اپنے مخصوص حلقے سے آگے نہ بڑھ سکی ( ماہنامہ پاسبان الہ آبادستمبر 1979ء)۔

   اس لیے مضبوط و مستحکم تنظیم کی بنا قائد اہل سنت علما و مشائخ اہل سنت کے ساتھ خصوصاً مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی اور پیر طریقت معروف نوشاہی سے تباد لہ خیال کے بعد مکۃ ا لمکرمہ میں ایک عالمی تنظیم ’’الدعوۃ ا لاسلامیۃ ا لعالمیۃ‘‘ کی1972ء میں بنیاد ڈالی جس کی ہیڈ آفس متعدد سہولتوں کے پیش نظر انگلستان کا مشہور شہر بریڈ فورڈ نام زد کیا گیا جو ’’ورلڈ اسلامک مشن لندن ‘‘ کے نام سے دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں اسلام کی نمائندگی کرتی رہی ہے

اور فی ا لوقت اس تنظیم کے جنرل سکریٹری علامہ قمر ا لزماں اعظمی مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ ہیں جو عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں ماضی میں اور بھی بہت سے بین ا لاقوامی مسائل کے حل اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی اس مشن کے ذمہ داروں نے علامہ ارشد ا لقادری کی قیادت میں تبلیغی سفر کیے

چناں چہ 28 دسمبر 1982 میں سرزمین ایران پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی اوریہاں پر اقلیت میں موجود سنی مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا توان کی پریشانیوں کو دیکھ کر آپ بے تاب ہو گیے اور پوری دنیا میں ان کی پریشانیوں کے خاتمے کے لیے پیغام پہونچایا

اس وقت ایران میں مذہب اہل سنت جس نزع کے عالم میں ہے اگر فوری طور پر اس کی رگوں میں خون فراہم نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ دس پندرہ سال میں سنی مذہب ایران سے ختم ہوجائے گا۔

تہران جہان پانچ لاکھ سنی مسلمان آباد ہے انہیں آج تک اپنی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملی جب کہ وہاں عیسائیوں کے بارہ گرجے ،ہندوں کے دو مندر ،سکھوں کے تین گرودوارے ،یہودیوں کے دو عبادت خانہ اور مجوسیوں کے دو آتش کدہ ہیں لیکن سنیوں کی ایک مسجد بھی نہیں ہے جہاں جاکر نماز پڑھ سکے۔

  ذیل کی تحریروں سے بھی علامہ کی تنظیمی سر گر میوں کا پتہ چلتا ہے چناں چہ سید محمد جیلانی میاں کو وہ برطانیہ سے ارسال کردہ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’ورلڈ اسلامک مشن کی ایک مہم پر کویت جا رہا ہوں ۔

وہاں سے عراق ،شام سعودی عرب اور ترکی کا پروگرام ہے ۔حکومت برطانیہ کے محکمۂ تعلیم اسلامک مشینری کالج کی منظوری آخری مرحلے میں ہے ( ماہنامہ المیزان بابت اگست 1975ء ص 4)۔

رضا اکیڈمی ممبئی الحاج سعید نوری صاحب کو لکھتے ہیں آج میں پندرہ دن کے دورے پر ڈھاکہ بنگلہ دیش جارہا ہوں وہاں اہل سنت کا بین ا لاقوامی اجتماع ہو رہا ہے اس کے بعد ( تنظیم کا ) پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں مربوط پروگرام ہیں ( محررہ 10فروری1992ء بحوالہ ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی ص 31)۔

پروفیسر فاروق احمد صدیقی کو ارسال کرد ہ اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں 5ا کتوبر 1986 کو لیبیا اور برطانیہ کے دورے سے واپس لوٹا تو آپ کا دستی خط موصول ہوا ( محررہ خط 12 /نومبر ۔1986ء سہ ماہی رفاقت پٹنہ۔ 

آپ کے قائم کردہ تعلیمی وملی ادارے

جامعہ فیض العلوم جمشید پور۔ مدرسہ تنویر الاسلام ۔مدرسہ عزیز الاسلام جمشید پور۔مدرسہ اصلاح المسلمین جمشیدپور۔ مدرسہ سراج الاسلام مدھو پور۔دارالعلوم ضیاء الاسلام ٹکیہ پاڑہ ہوڑہ۔مدرسہ مفتاح العلوم راورکیلا۔مدرسہ اسلامی مرکز رانچی۔دارالعلوم گلشن بغدادہزاریباغ۔جامعہ غوثیہ رضویہ سہارن پور۔مدرسہ مدینہ الرسول کوڈرما۔جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی۔مدرسہ امدا الحنفیہ دمکا۔

فیض العلوم ہائی اسکول جمشید پور۔فیض العلوم مڈل اسکول جمشید پور۔فلاحی مرکز جمشید پور۔دارالعلوم رشیدیہ رضویہ بلیا۔ جامعہ مدینہ الاسلام ہالینڈ۔اسلامک مشنری کالج انگلینڈ۔دارالعلوم علیمیہ امریکہ۔

مساجد کا قیام

فیض العلوم مکہ مسجد جمشید پور۔مدینہ مسجد جمشید پور۔مدینہ مسجد موسیٰ بنی۔مسجد اہل سنت کوڈرما۔مسجد غوثیہ رانچی۔مسجد مفتاح العلوم راورکیلا۔قادری مسجد بہار شریف۔ نورانی مسجد جمشید پور۔

اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں

 آپ کی تصنیفات

 زلزلہ، زیروزبر،  لالہ زار، رسالت محمدی کا عقلی ثبوت، انوار احمدی،۔ زلف و زنجیر، محمد الرسول اللہ قرآن میں، دور حاضر کے منکرین رسالت، دل کی مراد، جلوہ حق، شریعت، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، لسان الفردوس، مصباح القرآن، نقش کربلا

فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام، ایک سفر دہلی سے سہارن پور تک، سرکار کا جسم بے سایہ، تعزیرات قلم، دعوت انصاف، تاریخ فقہ حنفی، تاریخ فن حدیث، حیات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، تفسیر سورہ فاتحہ، عقیدہ علم غیب پر قرآنی دلائل۔

دونوں عالم کے سرکار آجائیے مکمل نعت شریف ضرور پڑھیں

خانوادہ اعلٰی حضرت سے آپ کی بے پناہ محبت

 استاذ محترم حضرت مفتی محمد عابد حسین مصباحی صاحب قبلہ ( شیخ الحدیث جامعہ فیض العلوم جمشید پور وقاضی جھارکھنڈ) حیات علامہ سبطین رضا میں رقم طراز ہیں ” قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان  ہمارے دیگر علما و مشائخ اہل سنت کی طرح بزرگوں سے کافی انسیت رکھتے تھے،وہ ان کا بے حد ادب و احترام بجا لاتے تھے

اس معاملے میں آپ کی شخصیت لائق اتباع ہے ، کبھی راقم نے خود اپنی نظروں سے دیکھا اور بہت سے واقعات سننے کو ملے۔

انجمن فیضان ملت کی طرف سے دوسری بار جب امین شریعت مدعو ہوے، تو آپ کی تشریف آوری سے چند دن قبل علامہ موصوف نے ایک مجلس میں راقم الحروف سے دریافت فرمایا کہ حضرت علامہ سبطین رضا صاحب کو کس کمرے میں ٹھہراوگے،راقم نے جواب دیا: دوسروی منزل کے اس کمرے میں جہاں شمس العلماء حضرت مفتی نظام الدین الہ آبادی علیہ الرحمہ سابق سیخ الحدیث مدرسہ فیض العلوم رہتے تھے

حضرت علامہ نے فرمایا، “نہیں، بلکہ میرے اس کمرے میں ٹھہراؤ ،کیوں کہ وہ سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور خانوادہ اعلٰی حضرت پر سرکار مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نگاہ عنایت وکرم ہے ، اس پر ان کا خاص فیضان ہے ،اس لیے حضرت کی خاطر،تواضع اور ادب واحترام میں کچھ کمی نہ ہو”۔

چناں چہ حضرت علامہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی حویلی سے متصل ان کے حجرہ میں ہی راقم الحروف نے حضرت کے قیام کا انتظام فرمایا۔ (حیات علامہ سبطین رضا)۔

اللہ رب العزت ہمیں اپنے بزرگان دین کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے۔آمین

  ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے   

   حشر تک  شان کریمی  ناز برداری

ازقلم ۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی

رکن مجلسِ علماے اسلام مغربی بنگال

شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136

رابطہ نمبر۔9007124164

ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں

اعلیٰ حضرت بحیثیت سائنس دان

اعلی حضرت مسلم سائنس دان

  امام احمد رضا اور حفاظت اعمال

اعلیٰ حضرت اور خدمت خلق

اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت

 تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اغیار کی نظروں میں

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن