Sunday, May 19, 2024
Homeعظمت مصطفیٰحدیث یا لیت رب محمد لم یخلق محمدا کے معانی

حدیث یا لیت رب محمد لم یخلق محمدا کے معانی

حدیث یا لیت رب محمد لم یخلق محمدا کے معانی: تحریر غلام وارث شاہدی عبیدی

حدیث یا لیت رب محمد لم یخلق محمدا کے معانی

جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا لولاك لما اظہرت الربوبیة (اگر آپ نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت کا اظہار نہ کرتا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نور بصیرت سے مشاہدہ کیا تو لاکھوں ارنی کہنے والے اور اس کے وصال کے طالبین ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آئے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت کی بنا پر فرمایا یالیت رب محمد لم یخلق محمدا تو جہاں محبت ہوتی ہے غیرت کا ہونا بھی ضروری ہے جس درجہ محبت قوی ہوگی غیرت بھی اتنا ہی سخت تر ہوگی،یہاں تک کہ ایک فقیر نے اسی غیرت کے مقام میں کہا اے مرے اللہ کل قیامت کے دن سب کو نابینا اٹھا تاکہ میرے سوا کوئی تجھے نہ دیکھے

اور پھر اسی فقیر نے دوسرے وقت کہا خداوند کل قیامت میں مجھے اندھا اٹھا تاکہ تیرے دیدار میں مری یہ آنکھیں بھی شریک نہ ہوں یہاں پر ایسا نہیں چاہیے کہ دل کو کوئی خیال پیدا ہو:اسی کو کسی شاعر نے کہا


کار عاشق اضطراری افتد
عاشقوں کے کام بے اخیاری ہوتے ہیں
وآں فرط دوستداری افتد

اور یہ سب کچھ محبت کی زیادتی میں ہوا کرتا ہے
لاجرم دیوانہ راگر چہ خطا ست
یقینا دیوانہ کی باتیں اگر چہ خطا ہوتی ہیں
ہرچہ می گوید بگستاخی رواست
لیکن دیوانگی میں جو بول جاتا ہےوہ درست ہے
خیر و شر جملہ زینجا میرود
دیوانگی میں اچھی بری جو باتیں ہوتی ہیں
گفتئہ دیوانہ زیبا میرود
وہ سب دیوانہ کی دیوانگی کے لئے زیبا ہے

معنیٔ دوم
سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خلق نوري من نورہ میں اس فعل اور حرف کو جو دیکھا تو انہوں نے اس فعل و حرف کو اپنے اسم شریف کے وجود میں گم دیکھنا چاہا چناں چہ فرمایا یالیت رب محمد لم یخلق محمدا فعل خلق اور حرف من یہ دونوں درمیان میں نہ ہوتے تو نوری و نورہ ایک ہی ہو جاتے۔

معنیٔ سوم
محب اگر محبوب کے کے لائق و مناسب نہ ہو(خود کو نہ سمجھے) تو ،،محبت،، کی شریعت میں اپنے نیست و نابود ہونے کی تمنا کرنا جائز ہے۔ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے

اندر خود عشق چوں نہ یابی
جب تو عشق کے لائق نہ ہوا
اے خستہ عشق نیم جانی
اے عشق کے مارے ہوئے نیم جان
آن بہہ کہ ز خجلت نماند
در بود و وجود تو نشانی
اس ندامت و شرمندگی سے تیرے لیے بہتر ہے کہ تیرے وجود کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔


ایک مثالی دلیل
اگر کسی شخص نے اپنے دوست کو دعوت دی مہمان بلایا اس دوست کے طفیل میں دس بیس اور طفیلی بھی مہمان ہوکر آئیں پھر ان طفیلیوں سے میزبان کے گھر بے ادبیاں اور ناپسندیدہ حرکتیں سرزد ہوں جن سے وہ مہمان دوست نادم و شرمندہ ہو،اپنی انتہائی ندامت و شرمندگی میں میزبان کے روبرو کہتا ہے کاش میں ہی مہمان نہ ہوتا۔

جب یہ قاعدہ کی بات ہے تو اسی سے جاننا چاہیئے کہ حق سبحانہ تعالي نے سارے عالم کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے طفیل پیدا فرمایا ہے (لولاك لما خلقت الکونین آپ نہ ہوتے تو میں کونین کو پیدا نہ کرتا)۔


ان طفیلیوں کی گروہ نے بے ادبیاں کیں اور جو چیز وجود میں نہ آنی چاہیےتھی ان سے وجود میں آئی ان بے ادبیوں اور ناشائستہ حرکتوں سے شرمندہ ہوے انتہائی ندامت و شرمندگی میں فرمایا یا لیت رب محمد لم یخلق محمدا اور یہ معنی مولانا حمید الدین ناگوری علیہ الرحمتہ کے لوایح میں شرح و بسط سے آیا ہے۔

لیکن وہ عاشق فانی عین القضاة ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کون جان سکتا ہے اس حالت کو جس حال میں حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یالیت رب محمد لم یخلق محمدا
(حوالہ مکتوبات دو صدی)


لیکن وہ جو ایک روایت آتی ہے کہ ایک بزرگ کا قول ہے انشر بالمنشار احب الي من أن یقول شیئا کان لیته،لم یکن (میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میں آرا سے چیر دیا جاؤں لیکن مجھے یہ گوارہ نہیں کہ کوئی بات ہو اور میں یہ کہوں کہ کاش ایسا نہ ہوتا)۔

یہ ایک مخصوص مقام ہے کہ آدمی جب اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو دنیاوی لذتیں اور نفسانی خواہشات اس میں نہیں رہتی،حالت مفلسی میں ہو یا حالت امیری میں،بھوکا ہو یا آسودہ،تندرست ہو یا بیمار،ہر حال میں وہ محبوب سے راضی و خوشنود رہتا ہے،لذتوں سے نہیں ہلتا،اپنی نفسانی خواہشات کے سبب یہ نہیں کہتا(کاش ایسا ہوتا کاش ایسا نہیں ہوتا)اس لیے کہ اس کے اندر جو اس کے محبوب کی رضا ہے اسے جانتا ہے ۔

اور اگر کوئی ایسی صفت و خصلت اپنے اندر محبوب کی رضا کے خلاف دیکھے تو ہر گز سزاوار و مناسب نہیں کہ اس صفت و خصلت کے باوجود اسے پسند کرے اور اس سے راضی و خوش رہے بلکہ اس کی تمام کوشش اس کے ازالہ کی ہونی چاہیے اور اپنی پوری طاقت لسانی سے کہے یالیت ھذہ الصفت لم تکن (اے کاش میری یہ صفت نہ ہوتی)۔

اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ ایسی بات ہوگی کہ تمام نبیوں کی شریعتیں باطل ہوجائیں گی۔کیا کہتے ہو؟ اگر کوئی شراب پیتا ہو زنا کرتا ہو اور یہ کہے یالیت لم اشرب یا لیت لم ازن (کاش میں شراب نہ پیتا کاش میں زنا نہ کرتا)۔

بعض لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا یہ اللہ پاک کے فیصلہ سے راضی رہنے کے خلاف و ضد ہے۔ہر گز ایسا نہیں،اس لیے کہ اللہ پاک کے قضا اور فیصلہ سے راضی رہنا وہاں ہے جہاں حضرت احد کی رضا و خوشنودی ہے،جیسے وہ کفر و گناہ سے خوش نہیں یہاں رضا یعنی کفر و گناہ سے راضی رہنا شرط نہیں۔

اگر یہ شرط ہوتی تو انبیاء علیھم السلام کے لئے ہوتی،چناں چہ انبیاء علیھم السلام کے سزاوار و لائق یہ ہے کہ وہ کہیں یالیت فلانا لم یکفر یالیت المعاصی لم تکن (کاش فلاں کفر نہ کرتا یا اے کاش گناہ کا وجود ہی نہ ہوتا) یہ کہنا ان کے لیے مناسب ہے۔ خدا کی رضا سے راضی ہوں۔اللہ پاک جس کام سے ناخوش ہو،وہ بھی اس سے ناخوش رہیں

تحریر: غلام وارث شاہدی عبیدی

تاراباڑی پورنیہ بہار

اس مضمون کو بھی پڑھیں : تحفظ ناموس رسالت مسلمانوں کا اولین فریضہ

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن