Sunday, September 8, 2024
Homeحالات حاضرہغیر ضروری احتجاجات کب تک

غیر ضروری احتجاجات کب تک

تحریر: محمد شاہد علی مصباحی غیر ضروری احتجاجات کب تک

غیر ضروری احتجاجات کب تک

آج کل عجیب و غریب قوانین پاس ہونے کا سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ جب دیکھیے کوئی نیا قانون بن جاتا ہے تو کوئی پرانا بدل دیا جاتا ہے۔

ایک وقت تھا جب قانون بدلنے کا کام صرف شدید ضرورت محسوس ہونے پر کیا جاتا تھا۔ اور پھر قانون اپنے مفاد کے لیے بھی بدلے جانے لگے، اور اب یہ سلسلہ ایسا چل نکلا ہے کہ کبھی کبھی اپنی ناکامی چھپانے کے لیے بھی قانون بدلے جاتے ہیں۔

 اور اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ اب اگر ناخدا اپنی غلطی سے اپنی ہی کشتی پر سوراخ کردے جس سے کشتی کے ڈوبنے کا قوی اندیشہ پیدا ہوجائے تو ناخد ایسا قانون بنادیتا ہے کہ لوگ کشتی کے اس سوراخ کو بھول کر (جو کشتی کو دھیرے دھیرے سمندر کی تہ تک لیجانے کا کام کررہا ہے) صرف اسی قانون کے چکر میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

جن کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے وہ اس بات پر واویلا مچاتے ہیں کہ قانون کیوں بنایا گیا؟ اور دوسرے اس بات پر کہ تم ہر چیز کی مخالفت ہی کرتے رہتے ہو اگر اتنی ہی پریشانی ہے تو کشتی سے اتر کیوں نہیں جاتے ؟۔

اس جھگڑے میں دونوں یہ بھول جاتے ہیں کہ کشتی پر سوراخ بھی ہے جو ہم دونوں کو غرقاب کردیگا۔ اور سوراخ کرنے والا مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب تم لڑتے جھگڑتے رہو مجھے سکون ملا۔

اس طرح کے معاملات بہت ہوتے ہیں خاص کر موجودہ وقت میں یہ کثرت کے ساتھ ہورہا ہے۔

اور ہمارے بھائی ہر چیز کی مخالفت شروع کردیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا اثر الٹا پڑے گا اور لوگ ہمیں ہی غلط ٹھہرائیں گے اور اصل مجرم سے سب کی نظر ہٹ جائے گی۔

اسی طرح کے ایک قانون کی ابھی اڑتی اڑتی خبر موصول ہوئی کہ حج سے پہلے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے کلیرینس لینی ہوگی اور جو لوگ یہ کلیرینس حاصل کرلیں گے وہی حج کے لیے جاسکیں گے۔

اس پر کچھ جذباتی بھائی احتجاج کرنے کی بات کررہے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ تحقیق کرلی جائے کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے یا نہیں

کیوں کہ اس پہلے ایک قانون کی خبر آئی تھی مدارس کے سلسلے میں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پڑوسی ملک کا قانون ہے۔ جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے تب سے جھوٹی اور بغیر نام پتے کی خبریں بھی خوب شہرت کمالیتی ہیں۔

دوسری بات احتجاج کا کوئی فائیدہ نہیں۔

احتجاج کب کریں؟

احتجاج کرنا اس وقت موزوں ہے جب اس کا کوئی فائدہ ہو۔ فائدہ کئی طرح کا ہوسکتا ہے جیسے: یہ فائدہ کہ اس احتجاج کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔

یا یہ فائدہ کہ احتجاج ہماری زندگی کا ثبوت ہوگا۔ یا کم از کم اتنا تو ہو کہ اس احتجاج سے ہمارا کوئی نقصان نہ ہوگا۔

احتجاج کب نہ کریں

اس وقت نہ کریں جب احتجاج کا کوئی نتیجہ نہ نکلنا ہو۔ اس وقت نہ کریں جب اس احتجاج سے آپ کا کوئی نقصان ہو۔

اس وقت نہ کریں جب آپ کے احتجاج سے آپ کے دشمن کا کوئی فائدہ ہو؛ اگرچہ وہ احتجاج آپ کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانے والا ہو۔

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا احتجاج دشمن کو دلدل سے نکالنے کا کام کرجاتا ہے اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ ہمارا دشمن اپنی چال کے کامیاب ہونے اور ہمارے شکار ہوجانے پر قہقہا لگا رہا ہوتا ہے۔

ہمیں حکمت عملی اور پوری سوجھ بوجھ سے کام کرنا ہوگا تبھی ہم شاطر دشمن کے مقابلے کے لائق ہونگے۔

کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر آواز اٹھانے کی نہیں صرف لیگل ٹیم کے خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہم ایسے کاموں کو بھی خوب اچھالتے ہیں۔ اور مخالف کو تقویت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے لوگوں سے یہ بول سکے کہ دیکھو میں نے ان کو کیسا پریشان کیا کہ بلبلا اٹھے۔

جبکہ اس وقت آپ کو یہ دکھنا ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا مگر آپ ایسے بلبلا رہے ہوتے ہیں جیسے کسی جانور کے سر پر کوئی عصا قیامت بن کر گرا ہو۔

یاد رکھیں ! ہر وقت کمزوری دکھانا اور خود کو مظلوم ثابت کرنا سود مند نہیں ہوتا کہیں بہادر بننا اور تکلیف کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ دشمن کے حوصلے بلند نہ ہوجائیں؛ مگر ہم نے تو بس ایک ہی چیز سیکھی ہے چلاؤ اور خود کو مظلوم ثابت کرو۔ اگرچہ کوئی ہماری پکار سننے کو تیار نہیں بلکہ ہماری آواز سن کر خوش ہونے والے ہرطرف موجود ہیں۔

دشمن کو مات دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے کمزور اور گھائل ہونے کا احساس نہ ہونے دیا جائے اگر اسے یہ احساس ہوگیا تب تو وہ ہم پر چڑھ دوڑے گا۔

کسی معاملہ کے پردہ کے پیچھے کی کہانی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چوطرفہ گھری ہوئی حکومت نے یہ فیصلہ اسی لیے لیا ہو کہ آپ احتجاج کریں اور وہ ہندو مسلم کرکے ان حالات سے اُبرنے کی کوشش کرے جہاں سے نکلنا اسے مشکل لگ رہا ہے۔

لہذا احتجاج کرنے سے پہلے خوب غور و فکر کرلیں کہ اس کے کون کون سے پہلو ہیں۔

ناچیز کی ناقص رائے تو یہ ہے کہ اب ہمارے لیے احتجاج کسی بھی معاملہ میں مناسب نہیں کیوں کہ اس کا کچھ نتیجہ تو  نکلنا نہیں۔

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جب کسان پنجاب اور ہریانہ سرپر اٹھا کر کچھ نہ کر سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے کسانوں سے متعلق تینوں بل قانون کی شکل اختیار کر گئے تو ہماری آواز (جو کہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کی حیثیت بھی نہیں رکھتی) کیا معنی رکھتی ہے۔ سوائے اس کے کہ ان کے مقاصد کی حصولیابی ہم اپنی بیوقوفی سے کریں۔

ہمارے کثرت احتجاج کا اثر یہ ضرور ہوا ہے کہ لوگ اب کہنے لگے ہیں کچھ بھی ہو حکومت نے کیا ہے تو یہ قوم تو احتجاج کرے گی ہی۔

اور ہم اس وقت جب انہیں ہندو مسلم کچھ مل نہیں رہا ہے احتجاج کرکے انہیں موقع دیتے ہیں کہ لو اس پر چرچا کرو اور بے روزگاری، بھکمری، ختم ہوتی نوکری اور کسان کے معاملات کو بھوک جاؤ جس میں حکومت پھس رہی تھی۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ بے مقصد احتجاج کرکے ان کو تقویت نہ دیں۔

ہم ان قوانین پر بھی آواز بلند کرنے سے نہیں چوکتے جس کا اثر تمام اہل وطن پر یکساں پڑنے والا ہے، اور ہمارے سوا بقیہ سب خاموش ہیں۔

ہمیں سوچنا یہ بھی چاہیے کہ جس قانون کا اثر تمام اہل وطن ہر ہوتا ہے اس کا احتجاج صرف ہم کیوں کریں؟۔

جب کوئی اور اس چیز کی مخالفت نہیں کررہا ہے اور حال یہ ہے کہ ان کی تعداد 86 فیصد ہے تو ہم کیوں کررہے ہیں ؟۔

کیا اس احتجاج سے ہم اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟۔

اگر نہیں!!! جو کہ حقیقت ہے۔ تو پھر کیوں ہم زبر دستی ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں؟۔

بڑی مشکل سے تو وہ وقت آتا ہے کہ دشمن خود سے برسر پیکار ہوتا ہے اور ایسے میں ہم ان کی توجہ اپنے طرف مبذول کرانے کے لیے خود کو پیش کردیتے ہیں کہ آپس میں کیوں دست و گریباں ہو ہم تو ہیں ہمیں مارو اور اپنا کام نکالو

ابھی وہ اپنوں سے برسر پیکار ہیں انہیں وہیں رہنے دیں۔ پڑی لکڑی اپنے سر نہ لیں، اسی میں بھلائی ہے. اور زبر دستی کے احتجاجات سے بعض آجائیں

تحریر: محمد شاہد علی مصباحی

رکن: روشن مستقبل دہلی

اس کو بھی پڑھیں : امریکی احتجاج ہم سے کچھ کہہ رہا ہے

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن