از قلم: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط ششم
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط ششم
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
سوال اول
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینا کفر ہے،اور متعدداحادیث مباکہ میں وار د ہے کہ مومن کو،صحابہ کرام واہل بیت عظام کو اذیت دینا حضو ر اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینا ہے تو مومنین اورصحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اذیت دینا کفر لزومی ہونا چاہئے،کیوں کہ یہ بالواسطہ اورترتیب مقدمات کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینا ہے،اور حضو ر اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینا کفر ہے،لہٰذا مومنین کواذیت دینا کفر ہوگا۔
چوں کہ یہ بالواسطہ نبی علیہ السلام کواذیت دینا ہے،اس لیے کفر التزامی نہیں ہو گا،بلکہ کفر لزومی ہوگا، لیکن فقہاے اسلام مومنین کی اذیت کو کفر نہیں کہتے،بلکہ ناجائزوحرام قرار دیتے ہیں؟
متعدداحادیث نبویہ میں یہ مذکور ہے کہ مومنین یا صحابہ کرام یا اہل بیت کو اذیت دینا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواذیت دینا ہے۔بعض احادیث مقدسہ میں بعض حضرات کے اسمائے طیبہ کا بھی ذکر ہے کہ فلاں کو اذیت دینا مجھے (حضو ر اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کو)اذیت دینا ہے۔ بعض احادیث نبویہ منقولہ ذیل ہیں۔
۔(1) (عن عمروبن شأس الاسلمی قال،وکان من اصحاب الحدیبیۃ- قال:خرجت مع علی الی الیمن فجفانی فی سفری ذلک حتی وجدت فی نفسی علیہ فلما قدمت اظہرت شکایتہ فی المسجد حتی بلغ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فدخلت المسجد ذات غدوۃ ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ناس من اصحابہ فلما رآنی امدنی عینیہ یقول حدد الی النظر حتی اذاجلست قال:یا عمرو! واللّٰہ لقد آذیتنی-قلت:اعوذان أوذیک یا رسول اللّٰہ!قال:بلی،من آذی علیا فقدآذانی)(مسند احمد بن حنبل ج۵۲ص۱۲۳-مکتبہ شاملہ)۔
۔(2) (عن عبد اللّٰہ بن الزبیر:أن علیا ذکر بنت أبی جہل فبلغ ذلک النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم فقال:إنما فاطمۃ بضعۃ منی یؤذینی ما آذاہا وینصبنی ما أنصبہا)۔ (سنن ترمذی،جلددوم:باب فضل فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)۔
۔(3) (عن عبد اللّٰہ بن الحرث حدثنی عبد المطلب بن ربیعۃ بن الحرث بن عبد المطلب: أن العباس بن عبد المطلب دخل علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مغضبا وأنا عندہ فقال ما أغضبک؟ قال یا رسول اللّٰہ! ما لنا ولقریش إذا تلاقوا بینہم تلاقوا بوجوہ مبشرۃ وإذا لقونا بغیر ذلک قال فغضب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم حتی احمر وجہہ ثم قال:والذی نفسی بیدہ لا یدخل قلب رجل الإیمان حتی یحبکم للّٰہ ورسولہ ثم قال:یا أیہا الناس! من آذی عمی فقد أذانی فإنما عم الرجل صنو أبیہ) (سنن ترمذی،جلددوم:باب مناقب العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ)۔
۔(4)عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال:بینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم راقد فی بعض بیوتہ علٰی قفاہ إذا جاء الحسن یدرج حتی قعد علٰی صدر النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم ثم بال علٰی صدرہ فجئت أمیطہ عنہ فاستبنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ویحک یا أنس-دع ابنی وثمرۃ فؤادی-فإن من آذی ہذا فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللّٰہ-ثم دعا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بماء فصبہ علی البول صبا فقال:یصب علی بول الغلام ویغسل بول الجاریۃ) (المعجم الکبیر للطبرانی جلد سوم ص 42-مکتبہ شاملہ)۔
۔(5) (عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزنی قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اصحابی لا تتخذواہم غرضًا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللّٰہ ومن آذی اللّٰہ اوشک ان یأخذہ) (مسند احمدبن حنبل جلد27ص358-مکتبہ شاملہ)۔
۔(6) (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ یَتَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ حَتَّی جَلَسَ قَرِیبًا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاتَہُ، قَالَ: مَا مَنَعَکَ یَا فُلانُ أَنْ تُجَمِّعَ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، قَدْ حَرَصْتُ أَنْ أَضَعَ نَفْسِی بِالْمَکَانِ الَّذِی تَرَی قَالَ: قَدْ رَأَیْتُکَ تَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ وَتُؤْذِیہُمْ، مَنْ آذَی مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِی، وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ)۔ (المعجم الصغیر للطبرانی جلدلول ص284-المعجم الاوسط للطبرانی جلد چہارم ص 60-مکتبہ شاملہ)۔
جواب
جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایذا دی جائے تواس کی دوصورت ہوگی۔لزومی اور التزامی۔لزومی ایذا ہوتو کفر لزومی ہے اور التزامی ایذا ہو توکفر التزامی ہے۔
منقولہ بالا احادیث طیبہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم شریعت کا بیان نہیں فرمایا ہے،بلکہ اپنی طبعی کیفیت کا بیان فرمایا کہ حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام اور مومنین کی اذیت وتکلیف سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوقلبی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اگر اس کو حکم شریعت کا بیان قراردیا جائے توکسی مومن کو اذیت دینا،گالی گلوج کرنا،زدوکوب کرنا، قتل کرنا یہ تمام جرائم کفر لزومی قرار پائیں گے،حالاں کہ یہ جرائم ناجائز وحرام ضرور ہیں،لیکن کفر لزومی نہیں۔اس تناظر میں مزید چند امور کو ملحوظ خاطررکھیں۔
۔(1) مفصل روایتیں اسی واسطے نقل کی گئی ہیں،تاکہ واضح ہوسکے کہ یہاں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کیفیت کا بیان فرمایا ہے۔ یہاں اس حکم کا بیان نہیں ہے کہ مومنین واصحاب فضل کو ایذا دینے کا وہی حکم ہے جو حکم حضو راقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینے کا ہے،یعنی مرتکب پر حکم کفر کا عائد ہونا۔
۔(2) عام مومنین کو ایذا دینا اور اصحاب فضل کو ایذا دینے میں فرق ہے۔ اصحاب فضل کو ایذا دینا مجرم کی سخت شقاوت قلبی کو ظاہر کرتا ہے،اس لیے اس کا حکم بھی سخت ہوگا،گر چہ فی نفسہ یہ ضلالت یا کفر نہ ہو۔
۔(3)حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا رافضیت کا شعار قراردیا گیا اور حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا ناصبیت کی علامت قرار دی گئی ہے، اس لیے ان دونوں طبقات عالیہ کو سب وشتم کرنے والا گمراہ قراردیا جائے گا۔
ان دونوں طبقات کے علاوہ بھی اہل فضل کے متعددطبقات ہیں،مثلاً حضرات تابعین کرام ومجتہدین عظام،اولیاو صالحین،علما ومحدثین وغیرہم۔ ان حضرات عالیہ کو سب وشتم کرنا ناجائز وحرام ہوگا۔کفر یا ضلالت نہیں۔
۔(4)مومن اور مومن بہ کے احکام کا فرق قسط پنجم میں بیان کردیا گیا ہے۔ اسے بھی ملحوظ رکھیں،یعنی اگر کسی نے کسی مومن کو محض اس وجہ سے اذیت دی کہ وہ مسلمان ہے تو یہاں دراصل مذہب اسلام سے عداوت اور مخالفت ثابت ہوگئی،پھر یہاں کفر کاحکم عائد ہوگا۔اس کی تفصیل قسط پنجم میں ملاحظہ فرمالیں۔
۔(5) مومنین کی ایذا بھی ناجائز وحرام اور مومنین اصحاب فضل مثلاً حضرات صحابہ کرام وحضرا ت اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایذا بھی حرام ہے،لیکن اصحاب فضل کوسب وشتم میں حکم کی شدت بڑھ جائے گی، گرچہ وہ کفر نہ ہو، لیکن کثرت شقاوت کو ظاہرکرے گا۔عہد صحابہ کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب وشتم کرنا رافضیت کا شعار قراردیا گیا اور حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کوسب وشتم کرنا ناصبیت کی علامت قرار پائی ہے،لہٰذا اب یہ دونوں امر شعار بدمذہبیت ہونے کے سبب بدعت وضلالت ہے۔
۔(1)فریق دوم نے اس موضوع پرعلامہ علی قاری کی نصف عبارت رقم کی۔مکمل عبارت ہوتی تو حکم واضح تھا۔
علامہ علی قاری نے تحریر فرمایا:(عن ام سلمۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:من سب علیا ای من جہۃ النسب فقد سبنی-ای من شتم علیا فکأنہ شتمنی فمقتضاہ ان یکون سب علی کفرًا-وہو محمول علی التہدید والوعید اومبنی علی الاستحلال-واللّٰہ اعلم بالحال)۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 17 ص 447-مکتبہ شاملہ)۔
توضیح :علامہ علی قاری نے وضاحت فرمادی ہے کہ یہ تہدید پر محمول ہے،یا کوئی سب وشتم کو حلال سمجھے،تب حکم کفر ہے،کیوں کہ حرام کوحلال قراردینا کفر ہے۔مومن بہ کے علاوہ کسی مومن کے سب وشتم کو کفر کہنا مرجوح قول ہے۔ اس کی تفصیل قسط پنجم میں مذکور ہے۔
۔(2) فریق دوم نے محمد بن اسماعیل امیر صنعانی یمنی زیدی شیعی (1099–1182ھ)صاحب ”التنویرشرح الجامع الصغیر للسیوطی“کا قول نقل کیا ہے اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب وشتم کوکفر ثابت کیا ہے ۔یہ زیدی شیعہ ہے۔اعتقادی یا فقہی مسائل میں دیگر اہل مذاہب کے قول سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔
۔(3) السراج المنیر شرح الجامع الصغیر کی بھی نصف عبارت نقل کی ہے۔ مکمل عبارت درج ذیل ہے۔
شیخ علی بن احمدالمعروف بہ عزیزی نے رقم کیا:(من سب علیا)ابن ابی طالب(فقد سبنی)ای فکأنہ سبنی(ومن سبنی فقد سب اللّٰہ)ظاہرہ انہ یصیر مرتدا-والظاہر ان المراد الزجر والتنفیر) (السراج المنیر شرح الجامع الصغیر ج4ص300-مکتبہ شاملہ)۔
توضیح :شیخ عزیزی نے لکھا کہ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب وشتم کرنے والا مرتد ہوجائے گا،لیکن یہ زجر و تہدید کے قبیل سے ہے،یعنی اس پرحکم ارتدادعائد نہیں ہوگا۔فریق دوم کو سوچنا چاہئے کہ خوارج کو علمائے امت نے مرتدقرار نہیں دیا،نہ خود حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مر تد کہا۔
۔(4) قاضی حسین بغوی کی عبارت نقل نہیں کی گئی،جس سے ان کی مراد واضح ہوجاتی۔ علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی نے رقم فرمایا:۔
وفی وجہ حکاہ القاضی حسین فی تعلیقہ انہ یلحق بسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سب الشیخین وعثمان وعلی رضی اللّٰہ تعالی عنہم اجمعین-فقال:من سب الصحابۃ فسق ومن سب الشیخین او الحسنین یکفر او یفسق-وجہان،کذا فی النسخۃ-وصوابہما الختنین بمعجمۃ ففوقیۃ فنون یعنی عثمان وعلیا رضی اللہ تعالی عنہما-وعبارۃ البغوی:من انکرخلافۃ أبی بکر یبدع ولا یکفر-ومن سب أحداً من الصحابۃ ولم یستحل یفسق. واختلفوا فی کفر من سب الشیخین: قال الزرکشی،کالسبکی:وینبغی أن یکون الخلاف إذا سبہما لأمر خاص بہ-أما لو سبہما لکونہما صحابیین فینبغی القطع بتکفیرہ – لأن ذلک استخفاف بحق الصحبۃ وفیہ تعریض بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
(الاعلام بقواطع الاسلام:ص89-مکتبہ شاملہ)
توضیح :علامہ ابن حجر ہیتمی نے جب فرمایا کہ ایک صورت میں قاضی حسین بن محمدبن احمدخراسانی شافعی (م462ھ) نے سب شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی کے مشابہ قرار دیا ہے تو اس خاص صورت کی وضاحت ہونی چاہئے۔
قاضی حسین شافعی نے دونوں صورت بیان فرمائی ہے کہ حضرات خلفاے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا کفر یا فسق ہے تو اب یہ دیکھنا ہوگا کہ کفر کب ہے اورفسق کب ہے؟
علامہ ہیتمی نے اس کے بعد قاضی حسین خراسانی کے شاگر د قاضی حسین فرابغوی شافعی کی عبارت نقل کی ہے جس میں وضاحت ہے کہ جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سب وشتم کوحلال سمجھے،تب حکم کفر ہوگا ،کیوں کہ حرام کو حلال قراردینا کفر ہے۔
علامہ ہیتمی نے امام زرکشی شافعی کفر کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ صحابی کو صحابی رسول ہونے کے سبب سب وشتم کیا جائے تویہ کفر ہے،کیوں کہ یہ صحبت نبوی کی بے ادبی ہے۔
قسط پنجم میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ نسبت نبوی کے سبب کسی صحابی کی بے ادبی کفر ہے۔
سوال دوم
حدیث قدسی میں وار دہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے کسی ولی سے دشمنی رکھے توگویا اس نے رب تعالیٰ سے مخالفت کی اور اللہ تعالیٰ کواذیت دی،اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت یا اذیت یقیناکفر ہے اور یہاں بالواسطہ مخالفت واذیت ہے توولی سے دشمنی کفر لزومی ہونا چاہئے؟جب کہ اسے صرف ناجائزوحرام کہا جاتا ہے۔
۔(۱) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّہَ قَالَ مَنْ عَادَی لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِی بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہِ وَیَدَہُ الَّتِی یَبْطِشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِی یَمْشِی بِہَا وَإِنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَءِنْ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیذَنَّہُ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہُ تَرَدُّدِی عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَتَہُ)(صحیح البخاری:با ب التواضع)۔
۔(۲) (عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم🙁 إن اللّٰہ جل وعلا یقول: من عادی لی ولیا فقد آذانی وما تقرب إلی عبدی بشیء أحب إلی مما افترضت علیہ وما یزال یتقرب إلی بالنوافل حتی أحبہ فإذا أحببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بہا ورجلہ التی یمشی بہا فإن سألنی عبدی أعطیتہ وإن استعاذنی أعذتہ وما ترددت عن شیء أنا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت وأکرہ مسائتہ) (صحیح ابن حبان:باب ماجاء فی الطاعات وثوابہا:جلددوم ص 58-مکتبہ شاملہ)۔
جواب دوم
سوال اول کا جو جواب ہے،وہی اس کا بھی جواب ہے۔اگر معاذاللہ تعالیٰ کسی نے رب تعالیٰ کی مخالفت کی یا ایذاپہنچانے والا کوئی کلمہ کہا تواس کی دوصورت ہوگی۔لزومی اور التزامی۔لزومی ایذا ہوتو کفر لزومی ہے اور التزامی ایذا ہو توکفر التزامی ہے۔
اولیاے کرام کی عداوت وایذا کی شدت کو بیان کرنے کے واسطے یہ حدیث قدسی واردہے۔ ایسا نہیں کہ ولی کی عداوت کفر ہے۔ ہاں،اگر اس نسبت کے سبب ان سے دشمنی کی گئی کہ وہ اللہ کے ولی ہیں تو حکم کفر عائد ہوگا
جیسے عالم کی توہین اس نسبت سے کی جائے کہ وہ مذہب اسلام کا عالم ہے تو حکم کفر عائدہوتا ہے،کیوں کہ یہ اسلام کی بے ادبی ہے
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع