Monday, November 18, 2024
Homeشخصیاتاعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام

اعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام

از قلم: محمد اویس رضا عطاری اعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام

اعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز نے فتاویٰ رضویہ کے کتاب الطہارۃ کے باب التیمم میں ایک نادر فتویٰ تحریر فرمایا، جس میں آپ نے ایک سو اکاسی (181 )ایسی چیزوں کے نام گنوائے ہیں ،جن سے تیمم کیا جاسکتا ہے اس میں 74 منصوصات (یعنی وہ مسائل واحکام جنھیں فقہا متقدمین نے بیان فرمادیا) اور 107 مزیدات(یعنی وہ مسائل واحکام جنہیں آپ نے اپنے اجتہاد واستنباط سے بیان فرمایا) ہیں۔ اور پھر ایک سو تیس (130) ایسی اشیا کے نام تحریر کیے ہیں، جن سے تیمم کرناجائز نہیں ہے، ان میں 58 منصوصات اور 72 زیادات ہیں۔

اسی طرح امام احمد رضا خان بریلوی نور اللہ مرقدہ نے وضو کے لیے پانی کی اقسام پر بحث کرتے ہوے ایسے پانی کی ایک سو ساٹھ (160) قسمیں بیان کی ہیں، جس سے وضو کرنا جائز ہے اور وہ پانی جس سے وضو جائز نہیں، اس کی ایک سوچھیالیس (146) اقسام بیان فرمائی ہیں اوراسی طرح پانی کےاستعمال سے عجزکی ایک سو پچھتر (175)صورتیں بیان فرمائی ہیں۔

امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیزنے ایک سوال کہ ”باپ پر بیٹے کا کس قدر حق ہے “کے تحت احادیث مرفوعہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دیتے ہوئے اولاد کے ساٹھ (60) حقوق بیان فرماے اورفرمایا کہ یہ حقوق پسر اور دختر (بیٹا اوربیٹی) دونوں کے لیےمشترک ہیں اور پھر بیٹے کے خاص پانچ حقوق لکھے اوردختر کے لیے خاص پندرہ حقوق لکھے ۔

اس طرح آپ نے اولاد کے کل اسی (80) حقوق تحریر فرمائے ہیں۔ میں نے صرف یہ تین مثالیں آپ کے سامنے اختصار واجمال کے ساتھ پیش کی ہیں ،ورنہ فتاویٰ رضویہ کے جہازی سائز بارہ ضخیم جلدیں اس قسم کی تحقیقاتِ نادرہ وعجیبہ سے لبریز پڑی ہیں اور جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے قلب و دماغ میں سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی سی مجتہدانہ ذہانت و بصیرت ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی جملہ خوبیوں میں ایک بہت بڑی خوبی بلکہ امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپ استفتا (سوال) کاجواب اسی زبان میں دیتے تھے

جس زبان میں سوال کیاجاتا تھا،مثلاًآپ کے پاس دنیا بھرسے سینکڑوں سوالات آتے تھے، اگر سوال عربی زبان میں ہوتا توآپ جواب بھی عربی زبان میں دیتے تھے،اگر سوال فارسی زبان میں ہوتاتوآپ کا جواب بھی فارسی میں ہوتا تھا

یہاں تک کہ آپ نے انگریزی زبان میں سوال کاجواب بھی انگریزی زبان میں ہی تحریرفرمایااور اگرسوال منظوم شکل میں ہوتاتھاتوآپ کاجواب بھی منظوم ہوتااوراس کے علاوہ اگرسوال میں سائنسی اندازاختیارکیاجاتاتوآپ بھی جواب سائنسی اندازمیں تحریرفرماتے تھے“۔(بحوالہ: علوم سائنس اورامام احمدرضا)۔

عقائد اسلام کے جو ارکان مرجھا چکے تھے،ان کے احیا کے لیے آپ نے جوکتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: تمہید ایمان، حُسام الحرمین، سبحان السبوح، خالص الاعتقاد، الکوکبۃ الشہابیہ، انباء المصطفیٰ، تجلی الیقین وغیرہ، اور اعمالِ صالحہ کے احیا کے لیے فتاویٰ رضویہ کی بارہ ضخیم جلدیں آپ کی مجددانہ بصیرت پرشاہد عادل ہیں ۔

وہ امام احمد رضا ، جووعلمناہ من لدنا علماکی تعبیر انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوءکی تفسیر اوروالرّاسخون فی العلم کی مکمل تصویر تھے۔ وہ امام احمد رضا، جس نے اپنی علمی و فقہی بصیرت سے بے شمار پیچیدہ مسائل پرمستند فتوے ارشاد فرماے ۔ وہ امام احمد رضا، جس نے عرب و عجم تک علم و حکمت کی قندیلیں روشن کردیں ۔ وہ امام احمد رضا، جسے عرب و عجم کے علماے کرام نے خراج عقیدت پیش کیا ۔ وہ امام احمد رضا، جو ”العلماء ورثۃ الانبیاء “ کے حقیقی مصداق تھے۔

الغرض اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار وہبی اور کسبی خصوصیات سے نوازا تھا۔ جلیل القدر مجدد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” بے شک اللہ تعالیٰ اس امّت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر ایک آدمی بھیجے گا جو اس کے لیےاس کے دین کی تجدید کرے گا۔(سنن ا بوداؤد، مشکوٰۃ المصابیح)۔

مجدد کی سب سے بڑی علامت ونشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ گزشتہ صدی کے آخرمیں اس کی پیدائش اورشہرت ہوچکی ہواورموجودہ صدی میں بھی وہ مرکزعلوم وفنون سمجھا جاتاہو،یعنی علماےکرام کے نزدیک اس کے احیاءِ سنت وازالہ بدعت اوردیگر خدماتِ دینیہ کاخوب چرچااور شہرت ہو۔ علماےکرام کی بیان کردہ علامات کے سو فیصد مصداق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان بریلوی رحمہ اللہ ثابت ومسلّم ہیں۔

جن کوحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عرب وعجم کے ممتازعلماءِ کرام اورمشائخِ عظام نے (چودھویں صدی کے) مجددکے عظیم لقب سے پکاراہے۔ علماء اسلام کے بیان کیے فرمودہ اصول کے مطابق اگر اہل حق چودھویں صدی کی فضاے اسلام پر نگاہ ڈالیں تو اُنہیں مجددیت کا ایک درخشاں آفتاب اپنی نورانی شعاعوں سے بدعت و ضلالت اور کفر و شرک کی تاریک و دبیز تہوں کو چیرتا ہوا نظر آئے گا۔ جس کی بے مثال تابانی سے ایک عالم چمک و دمک رہا ہے۔۔ اور وہ فخر روزگار مجدد دین و ملّت اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی، حنفی، قادری ہیں۔

اس لیے کہ آپ کی ولادت باسعادت 10شوال المکرم 1272ھ میں ہوئی اور آپ کا وصال 25صفر المظفر1340ھ میں ہوا۔ یوں آپ نے تیرھویں صدی میں ستائیس سال، دو مہینے اور بیس دن پائے۔ جس میں آپ کے علوم و فنون، درس و تدریس، تالیف و تصنیف، افتاء اور وعظ و تقریر کا شہرہ ہندوستان سے عرب و عجم تک پہنچا اور چودھویں صدی میں چالیس سال ایک مہینہ اور پچیس دن پائے۔

جس میں حمایت دین، نکایت مفسدین، احقاق حق و ازہاق باطل، اعانت سنّت اور اماتت بدعت کے فرائض منصبی کو کچھ ایسی خوبی اور کمال کے ساتھ آپ نے سرانجام دئیے جو آپ کے جلیل القدرمجدد ہونے پر شاہد عدل ہیں ۔ شاہ کارنعتیہ کلام اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان بریلوی رحمہ اللہ علوم دینیہ کے عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ شعروسخن کابھی اعلیٰ ذوق وشوق رکھتے تھے اورآپ فن شاعری میں بھی بڑاکمال رکھتے تھے،لیکن آپ کاذوقِ سلیم حمدوثناء اورنعت ومنقبت کے علاوہ کسی اورصنف سخن کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔

آپ کے اس شعروسخن کے کلام میں بھی وہی عالمانہ وقارہے۔وہی قرآن وحدیث کی ترجمانی ہے،وہی سوزوسازاورکیف وسرورکاسامان ہے۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ سرتاپاجذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشاررہتے تھے۔آپ نے جس والہانہ عقیدت سے اورجذبہ عشق ومحبت میں ڈوب کرجوآقائے نامدارحضوررحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھیں ہیں،اُن کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلاہواتھاجوسامع کے قلب ودماغ میں اترکر سامع کے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع کو روشن کردیتا ہے۔ آپ کے مشہورِزمانہ ”سلام“کی گونج پورے عالم اسلام میں اوربالخصوص برصغیر پاک وہندکے گوشہ گوشہ میں کہیں بھی اورکسی بھی وقت سنی جاسکتی ہے۔

وہ مشہورِزمانہ سلام یہ ہے:۔
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام


اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ کے نعتیہ دیوان”حدائق بخشش“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اپنے شاہ کارنعتیہ کلام میں حمدوثناء اورنعت و منقبت کوچار مختلف زبانوں (عربی،فارسی،اردواورہندی) میں پیش کیاہے اورآپ کے شاہ کارنعتیہ کلام میں وہ مشہورِزمانہ نعت جس میں آ پ نے کمالِ مہارت،برجستگی کلام اورقوتِ تحریرکاایک عظیم شاہ کارکلام پیش فرمایاہے اورایک ہی نعت کے ہرشعرمیں چارمختلف زبانوں(عربی،فارسی،ہندی اور اردو)کو بڑے خوب صورت اوردل نشین اندازمیں یکجاکرکے موتیوں کی مالا کی طرح پرودیا ہے،اس عظیم شاہکارنعت کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:۔


لم یاتِ نظیرک فی نظر مثل تونہ شد پیدا جانا
جگ راج کوتاج تورے سرسوہے تجھ کوشہہ دوسراجانا
البحرعلیٰ والموج طغیٰ من بے کس وطوفاں ہوش رُبا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیّا پار لگا جانا

 تحریر: محمد اویس رضا عطاری

فیضانِ مدینہ اوکاڑہ پاکستان

اعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام
اعلیٰ حضرت کا علمی و فقہی مقام

 

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. TATACliq
  3. FirstCry
  4. BangGood.com
  5. Bigbasket
  6. AliExpress
  7. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن