تحریر: غلام وارث شاہدی عبیدی معاشرے کو پر امن و مہذب کیسے بنائیں
معاشرے کو پر امن و مہذب کیسے بنائیں
اسلام نے معاشرتی حقوق کا بہت اہتمام فرمایا، انہیں امتیازی طور پر بیان کیا،قرآن کریم نے بھی اسے واضح طور پر بیان فرمایا اور اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت شمار فرمایا،اللہ عزوجل نے اس نعمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا وجعل لکم من ازواجکم بنین و حفدة “اور اللہ پاک نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائے اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے نواسے پیدا کئے
اچھا معاشرہ ایک ایسے نیک ماحول کو چاہتا ہے جس میں اس کے حقوق کے متعلق آگاہی ہو،جن کی ادائےگی سے اس کا بہتر قیام بھی ممکن ہوسکے اور دوسروں کے لیے وہ کردار مثال ہوجائے جس میں لوگ اچھی عادات کو اپنا سکیں،
والدین پر اولاد کے حقوق
والدین کا کردار ان کی اولاد کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنے والدین کے کردار کا شفاف آئینہ ہوتا ہے اس کے لیے اولاد کی بنیادی طور پر اچھی،اخلاقی،اور دینی تربیت کی جائیں جس میں مقصود اللہ پاک کی رضا ہو؛ تاکہ اولاد اپنے لیے فائدہ مند اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک مثالی حصہ ہوجائے،انبیا و رسل علیھم السلام کا اپنی اولاد کی تربیت کے معاملے میں یہی طریقہ کار رہا ہے
اللہ پاک کا ارشاد ہے: ووصی بھا ابراھیم بنیه و یعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون اور اسی دین کی وصیت ابراھیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کی:اے میرے بیٹو!یقینا اللہ نے یہ دین تمھارے لیے چن لیا تو نہ مرنا مگر مسلمان۔
اسلام نے جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق مقرر کیے ہیں اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق رکھے ہیں،جہاں تک ان کو کھلانے،پلانے اور پہنانے کے حق کا تعلق ہے تو اس کا احساس ہمیں فطری اور طبعی طور پر بھی ہے،لیکن اولاد کے جس حق کی ادائیگی میں ہم سے عموما کوتاہی ہوتی ہے وہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت ہے
اللہ پاک نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اہل و عیال کی تربیت اور نگرانی اس طرح کریں کہ مرنے کے بعد بھی وہ کام یاب اور نجات یافتہ ہوجائیں،ارشاد باری تعالی ہے: یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔
اولاد کی اچھی تربیت اچھے معاشرے کی بنیاد ہے،جس کی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مانحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن (جامع الترمذی )۔ یعنی باپ کی طرف سے اولاد کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ ان کی اچھی تربیت کرے۔
بعض لوگوں کو اپنی اولاد میں لڑکوں سے زیادہ محبت و دل چسپی ہوتی ہے اور لڑکیوں کو وہ بوجھ سمجھتے ہیں،اس وجہ سے ان کی خبر گیری اور تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں،یہ عمل معاشرے کو تہ تیغ کرنے کے لیے بد نما سبب ہے،اسلام نے خصوصیت کے ساتھ لڑکیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی تاکید کی،اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من عال ثلاث بنات،فأدبھن و زوجھن،و أحسن إلیھن ،فله الجنة (سنن ابی داؤد)۔ یعنی جو اپنے تین بیٹیوں کی اچھی پرورش کرے،اور ان کی اچھی تربیت کرے،اور مناسب جگہ ان کی شادی کرے،اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے،تو اس کے لیے جنت ہے۔
لہذا اولاد کی شفقت کے ساتھ تربیت کرنا انتہائی لازم و ضروری ہے کہ والدین سے اس بارے میں سوال ہوگا اور یہ تربیت ان کے دوستوں کو فائدہ پہچانے میں معاون ثابت ہوگی،حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الرجل علی دین خلیله فلینظر أحدکم من یخالل (سنن ابوداؤد)۔
یعنی آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تم میں ہر ایک کو چاہیئے کہ وہ دیکھے کہ کسے دوست بنانا ہے”اولاد کے ساتھ بیٹھتے اور بات چیت کرتے وقت خاص طور پر ان باتوں کا لحاظ رکھا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہمارے عقائد و افکار کیا ہیں؛ تاکہ اولاد انہیں اپنائیں،ان کی بہتر نشو و نما ہو،ان کی ثقافت درست ہو؛تاکہ وہ معاشرے کی اصلاح کا باعث بنے نیز اس بات کی بھی خیال رکھی جائے کہ ضروریات زندگی اور کام کاج کی مصروفیت اولاد کی تعلیم و تربیت میں حائل نہ ہو۔
میرے پیارے اسلامی بھائیو!۔
قرآن کریم نے ان بنیادی حقوق کو بھی واضح طور پر بیان کیے ہیں جن کی حفاظت سے معاشرے کو اچھا اور دیرپا بنایا جاسکتا ہے،جن کے حقوق کی صحیح ادائےگی معاشرے کے امن و امان میں مددگار ثابت ہوتی ہے،جن میں معاشرے کے افراد کا باہمی ادب و احترام کرنا بھی ہے
شوہر اپنی زوجہ کا احترام کرے،اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے”اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے” وعاشروھن بالمعروف اور ان سے اچھا برتاؤ کرو” اور اسی طرح بیوی اپنے شوہر کا احترام کرے،اس کے حقوق ادا کرے،اور اس کی فرماں برداری کرے،اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے” وللرجال علیھن درجة یعنی مردوں کو ان پر فضیلت ہے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائےگی باہمی محبت و الفت کی کھلی دلیل ہے۔
معاشرتی حقوق کی ادائےگی ہم سب پر لازم و ضروری ہے؛تاکہ معاشرہ قائم و دائم رہے،معاشرے کا ہر شخص رضائے الہی کی خاطر دوسروں سے اچھے انداز میں گفتگو کرے؛کہ اچھی گفتگو بھی صدقہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری حدیث پاک ہے: الکلمةالطیبة صدقة (صحیح البخاری کتاب الادب) اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے
اس کو بھی پڑھیں: اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم معاشرہ
اسلامی طریقہ
کام یاب معاشرہ وہ ہے جہاں حکمت و رواداری اور صبر و استقامت کا دامن تھاما جائے،خاندان و معاشرے کے کسی فرد سے کوئی اختلاف ہوجائے تو اچھے طریقے و نرمی سے اس کا حل کیا جائے،یہی اسلامی تعلیمات ہے
حضرت سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ آپ نے فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا:اے اللہ کے رسول:اسلام کیاہے؟آپ نے فرمایا: طیب الکلام۔۔ (مسند امام احمد) یعنی اچھی گفتگو بھی اسلام ہے۔
ماں باپ،اولاد اور میاں بیوی کے تعلقات کے علاوہ آدمی کا ایک خاص تعلق اپنے عزیز و اقارب سے بھی ہوتا ہے اسلام نے اس تعلق و رشتے کا بھی بہت لحاظ کیا ہے اور اس کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں
اللہ عزوجل فرماتا ہے: وبذي القربي “اور رشتے داروں سے بھلائیاں کرو” اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید فرمائی،رشتہ داری اور قرابت داری کے حقوق کو پامال کرنا جرم عظیم ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لایدخل الجنة قاطع (صحیح البخاری کتاب الادب)۔ رشتوں کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائےگا۔
اگر ہمارا کوئی قرابت دار حق قرابت ادا نہیں کرتا تو اس صورت میں بھی اس کی قرابت داری کا حق ہمیں ادا کرتے رہنا چاہیئے،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کریمانہ ہے : صل من قطعك و أعط من حرمك و أعرض عمن ظلمك (مسند امام احمد)۔ یعنی جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو،جو تم کو محروم کرے تم اس کو عطا کرو،اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو
اگر تمام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث پاک پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوجائیں تو یقینا ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارا بن ہوجائےگا۔
ڈوبنے والوں سے رشتہ جوڑنے دور تک بہتا ہوا ساحل
تحریر: غلام وارث شاہدی عبیدی
تاراباڑی پورنیہ بہار
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع