تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی جشن عید میلاد النبی ﷺ کے انوار اور دلائل و برکات
جشن عید میلاد النبی ﷺ کے انوار اور دلائل و برکات
ساڑھے چودہ سو برس سے زیادہ زمانہ گذرا کہ اس خاک دادن گیتی پر رب العالمین نے ظلمت کدۂ عالم کو نور بخشنے والا وہ پیغمبر مبعوث فرمایا جس کے دست مبارک میں سیادت رسل کا علم اور سرِ انور پرخاتمیت انبیا علیہم السلام کا تاج ہے ۔
خاتمیت محمدی قرآن و حدیث کی روشنی میں : اس مضمون کو بھی پڑھیں
اللہ جل جلالہ نے اپنے پیغمبر کو ایسی شریعت کاملہ عطا فرمائی کہ اس کے بعد قیامت تک پوری کائنات انسانی کے لیے کسی مذہبی قانون اور نئی شریعت کی کوئی ضرورت درپیش نہ ہوگی
ولادت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء سے پہلے سیّدنا عیسیٰ مسیح علیہ السّلام کے رفعِ آسمانی کے بعد سے سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تک ۵۷۰؍ سال کا زمانہ تاریک ترین زمانہ تھا اس طویل عرصے میں انسان اپنی اخلاقی پستیوں کی بدترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔
اس تاریک ترین دور میں ہر طرف ظلم و جور کی حکمرانی تھی۔ دُنیا کی متمدن قومیں مِٹ چکی تھیں۔ انسانوں کے خود ساختہ قوانین نے کم زوروں سے زندگی کے تمام حقوق سلب کرلیے تھے۔
یونان اور روم میں صرف طاقتور کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا۔ برِ صغیر میں زندہ انسانوں کو ظلم کی چِتاؤں پر جلایا جاتا تھا، اور یورپ کے بہت سے علاقوں میں تڑپتی ہوئی لاشوں کو رقصِ بسمل کے نام سے پیش کیا جاتا تھا۔
مصر میں دریاے نیل کے کنارے نیل پرستی کے نام پر گلستانِ حیات کے نو شگفتہ پھولوں کو مَسل دیا جاتا تھا، اور حجاز میں زندہ بچیوں کو دَرگور کردیا جاتا تھا۔
پوری دُنیا مظالم سے بھری ہوئی تھی ان حالات میں کائنات کا اجتماعی ضمیر خلاقِ کائنات کی بارگاہ میں التجا کر رہا تھا کہ: اے رب قدوس! اس زمین پر ایک ایسی ہستی کو مبعوث فرما، جو اسے ظلم و ستم، جور و وحشت، شرک اور جہالت کی نجاستوں سے پاک فرما کر اسے معمورۂ امن و سکون بنا دے۔
خداے قدوس نے یہ التجا سُن لی، اور ۱۲؍ربیع الاوّل کو دوشنبہ کے دن صبحِ صادق کے وقت رسالت کے اس آفتابِ عالَم تاب کو جلوہ گر فرمایا، جو حقیقی طورپر کائنات کا نجات دہندہ اور امنِ عالَم کا ضامن ہے۔
خداے قدیر نے اس نورِ کامل کی تشریف آوری کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا: قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْن۔[المآئدۃ:آیت۱۵] ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مّنِیْرًا ۔[الاحزاب : آیت۴۵۔۴۶] ترجمہ : بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنََ ۔[الانبیاء :آیت۱۰۷] ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے(کنزالایمان)۔
پورا عالَمِ اسلام اللہ رب العزت کے انہیں فرامینِ مقدسہ کو دُہرانے کے لیے ماہِ ربیع الاوّل میں جشنِ میلادُالنبی منعقد کرتا ہے۔ مصر و شام، عراق و ایران، ہند و پاک، ترکی و قبرص، نائجیریا و لیبیا، سوڈان و یوگوسلاویہ
الغرض جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں جشنِ عید میلادُالنبی کا اہتمام کیا جاتا ہے میلادالنبی کی ان محافل میں قرآنِ عظیم کی آیات پڑھی جاتی ہیں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی جاتی ہے سیرتِ رسول بیان کی جاتی ہے اور صلوٰۃ و سلام ہوتا ہے۔
اس مضمون کو بھی پڑھیں: دورد پاک کی فضیلتیں اور برکتیں
صدیوں سے دُنیا کے بیش تر ملکوں میں سیرتِ رسول اور پیغامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص و عام تک پہنچانے کا یہ ایک منظم طریقہ ہے۔
آپ اگر برِصغیر ہند و پاک کے اُن علاقوں میں تشریف لے جائیں جہاں ہنوز علم کی روشنی نہیں پہنچی ہے تو وہاں بھی عید میلادُالنبی کی برکات کا مشاہدہ کرسکیں گے۔مسلمانوں کے اندر شریعت سے وابستگی عشقِ رسول اور دینِ اسلام پر فِدا کاری کی حدتک تعلق سب کچھ عید میلاد النبی کی برکات کا ظہور ہے۔
لفظ میلاد کی لغوی تحقیق
میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’و ،ل ، د‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنیٰ میں مستعمل ہے میلاد کا لفظ اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔ (المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763)۔
احادیث میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال
احادیث نبویﷺ میں مادہ ولد (و۔ل۔د) بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں ص 308تا320 کے درمیان تفصیل سے موجود ہے
اردو میں لفظ میلاد
نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد درج ذیل معنی درج کئے گئے ہیں.1: میلاد پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت. 2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
میلاد کااصطلاحی مفہوم
میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔
حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’نبی اکرم نور مجسم ﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔
یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے ﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔ (سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء جلد دوم ص 445)۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب
اعتراض یہ ہے کہ جشن ولادت کو ’’عید‘‘ کیوں کہتے ہیں اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہاں سے آگئی؟ ۔
اس اعتراض کے جواب میں ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لیے خاص نہیں ہے۔
عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے ہیں‘‘ اس لیے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لیے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے
جیسا کہ اﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے عید ہو‘‘۔
اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘۔
علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں
۔1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو
۔ 2: جس میں اﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو
۔3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔
الحمدﷲ بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کی خوشی سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟۔
اسی خوشی کے سبب بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لیے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ ۔
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لیے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یومِ ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔
قرآن پاک سے عید میلاد النبی منانے کے دلائل
ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ تکاثر، پارہ 30 رکوع 18)۔
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگرﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (پ 13رکوع 17)۔
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔
کیوں کہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا چرچا کریں۔
اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’ﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)۔
ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک ہی نعمت پر احسان کیوں جتلایا؟۔
ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ ﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اس پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)۔
لیجئے! اس آیت میں توﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیوں کہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔
خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (پارہ 17 رکوع 7)۔
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کس کی منائیں گے لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یو پی
9839171719
Hashimazmi78692@gmail.com
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع