تحریر: محمد اشفاق عالم نوری فیضی فرانس میں گستاخانہ خاکہ اور ہماری ذمہ داریاں
فرانس میں گستاخانہ خاکہ اور ہماری ذمہ داریاں
معلوم ہوکہ مہینوں دن قبل فرانس میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کا خاکہ پیش کرنے پر جو واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد فرانس نے مبینہ طورپر اس شدت پسندی کے خلاف جو موقف اپنایا اس کی عالمی سطح پر سب لوگوں نے حمایت کی لیکن عالم اسلام میں اکثر نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ اسلام میں حضور ﷺ کے خاکوں کو گستاخانہ تصور کیا جاتا ہے۔ فرانس کے صدر کے موقف نے دنیا بھر کے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی ہے اور وہ اس بات کو بھی نہیں بھولیں گے۔جبکہ فرانس کےصدر نے اپنا بیان دیا ہے کہ فرانس ایسے کارٹون نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اس کو جاننا چاہیے کہ” اگر اس کے پاس نفرت کرنے کی آزادی ہے تو ہمارے پاس آپکی نفرت رد کرنے کی بھی آزادی ہے ” ۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جب جب فرانس میں حضرت محمد ﷺ کے خاکے تیار کرنے یا انکی اشاعت کرنے کی کوشش کی گئی دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔
غنیمت ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے مسلمان کے احتجاج کا دائرہ سکڑتا ہوا نظر آرہا ہے نہیں تو آج پورے ہندوستان کے مسلمان سراپا احتجاج برسر راہ نظر آتا پھر بھی فیس بک،واٹس ایپ،اور دیگر سوشل میڈیا پر احتجاج بڑی تیزی کے ساتھ نشر ہوتا نظر آرہا ہے تو کبھی اخبارات میں آے دن کسی نا کسی تنظیم ،انجمن یا فلاحی مراکز کی جانب سے احتجاج پورے ہندوستان میں درج ہوتے رہے ہیں خصوصیت کے ساتھ مغربی بنگال کی فعال اور متحرک تنظیم “مجلس علماے اسلام مغربی بنگال کولکاتا”کے بینر تلے ہر آے دن احتجاج درج ہو رہے ہیں ۔
یاد رہے کہ مغربی بنگال کی یہ تنظیم اس سے قبل بھی بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے جلسے وجلوس کا انعقاد کرکے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے لڑائی لڑتی آرہی ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی یہ لڑائی جاری رہیگی۔
الحمدللہ یہ تنظیم مغربی بنگال کے جید علماے کرام ائمہ عظام کے ساتھ ساتھ آٹھ سو ارکان پر مشتمل ہیں اور سبھوں کی محنتوں سے عروج وارتقا کی طرف گامزن ہے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ سبھی اراکینِ مجلس کو آپسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کے ساتھ دین وملت کے کام کو انجام دینےکی توفیق عطافرمائے۔
فرانس کی جانب سے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے مذہب اسلام سے متعلق بیانات کے بعد ترکی سے ملیشیا اور اردون سے بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان تک کیا مسلم ممالک میں عوام احتجاجا فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر زور دے رہی ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں شئیر مارکیٹوں میں دوکانداروں نے فرانسیسی مصنوعات سے بھرے شیلف خالی کر رہے ہیں اور سوشل میڈیاپربائیکاٹ فرانس پروڈکٹس( یعنی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکا ٹ ) گزشتہ کئی ہفتوں سے گردش میں ہے۔
اس رد عمل میں اضافہ تو اس وقت ہوا جب صدر میکرون کے ایک فرانسیسی استاد کے قتل کے بعد اسلام کے متعلق بیانات دیے۔ یاد رہےکہ ایک تاریخ کا مضمون پڑھانے والے فرانس کے ایک استاد (ٹیچر) کے آزاد اظہار کے تحت کلاس دوم میں طلبا کو پیغمبر اسلام کے متنازع خاکے دکھاے تھے ۔
فرانس کے صدر میکرون کا کہنا تھا کہ استاد کو اس لئے قتل کیا گیا کیوں کہ اسلامی دنیا ہمارا مستقبل چھیننا چاہتے ہیں لیکن فرانس متنازعہ خاکوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔وہ پیغمبر اسلام کے ان متنازعہ خاکوں کو حوالہ دے رہے تھے جو کہ 2006 ء فرانس کے ایک جریدے چارلی ایبڈو نے شائع کیا تھا جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے سخت غم وغصے کا اظہار کیا تھا۔ اور آج پھراس کے اس گھناؤنے حرکت پہ پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بنا ہواہے۔
تو کیا کوئی ہمارے نبی اور پیغمبر کے خاکے بنائے تو وہ امت چین کی زندگی اور قرار کے لمحے گزار سکتے ہیں ،تو کیا ہمارا صرف اتنا ہی فرض ہے کہ ہم فیس بک ،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر احتجاج درج کرائیں اگرچہ یہ بھی ایک نبی ﷺ کی محبتوں کا ثبوت ہے۔
اور اس کے بعد ہم ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں، اور وہ پھر ہر پانچ سال کے بعد یا دو سال کے بعد یہ حرکت کریں اور ہمیں پتہ ہے کہ دو سال یا تین سال بعد کرےگا البتہ پھر انہوں نےکیا تو ہم اس پہ احتجاج کریں اور وہ کافی ہو جائیں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں دین اسلام کو غالب کرنے کے لیے آخری سانس بھی صرف کرنی ہوگی یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا جب تک دین اسلام اور حق اور حقانیت غالب نہیں ہوگا ۔
اس لیۓ ہروہ شخص چاہے جس شعبے میں ہیں خلوص کے ساتھ لڑائی کرنی پڑےگی اب چاہے وہ عالم دین ہوں یا ممبر ومحراب کی ذمہ داریوں کو نبھارہے ہوں یا پھر وہ درس وتدریس کی مسند پہ فائز ہوں یا پھر وہ ملک کی معیشت کی ذمہ داری لۓ ہوے کیوں نہ ہوں اور سلطنت کے ذمہ داری لوگ ہی کیوں نہ ہوں جو جہاں بیٹھا ہے اور جس محاذ پہ ہے اس کو چاہیے کہ زندگی کے ایک ایک سانس نبی ﷺ کی محبت میں لگا دیں۔
اور اپنی ساری صلاحیتوں کو صرف کردیں تو جتنی جلدی ہوگا اسلام غالب ہوجائے گا تو ان شاءاللہ مستقبل میں اسلام اور مسلمانوں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے کے لئے کسی میں ہمت بھی نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی کوئی فرد جرات کر سکے گا ۔ جب تک ہم کمزور ہوں گے تو ہمارے ساتھ یہ ہوتا ہی رہے گا ۔
اس کو بھی پڑھیں: فرانس کی اسلام دشمنی کا منظر نامہ
تو اب آے ہم عزم مصمم کریں کہ ساری زندگی رسول اللہ ﷺ کے نام لگائیں گے ، جیئں گے تو نبی کریم ﷺ کے لیے اور مریں گے تو حضور اکرمﷺ کے لیے اور آخری سانس تک حضور ﷺکے وفادار رہیں گے ۔اپنی زندگی کا ایک ایک گوشۂ حضورﷺ کے نام لگادیں گے اس کے لیے جہاں جہاں ضرورتوں میں ساتھ دینا پڑے دیں گے ۔
لیکن یہ عزم مصمم کے تحت ہمیں کام کو انجام دینا بھی ہوگا اور اس کا دیرپا مستقل حل کیا ہے اسکو اسلام اور مسلمانوں کے لیے کرنا ہوگا۔اور ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہو ےاپنے دائرے میں رہ کر ہی جو ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے بنتا ہو وہ کرنا پڑےگا کہ کس طرح ان بپھرے ہوے طوفان کا مقابلہ کرنا پڑے گا
اور ان مصیبتوں کو کیسے دور کرنا پڑےگا،اور کیسے ہمیشہ کے لیے ان طوفانی اور ناہنجار کی غلط بیانی کو روک سکیں گے ،ان سیلابوں کےباندھ کو تو از راہ کرم ضرور باندھنا ہوگا اور اپنے حصے کا کام سبھوں کو از خود انجام دیناہوگا تاکہ رہتی دنیا پھر کبھی کوئی شخص میرے نبی کے خاکہ بنانے کی بات تو در کنار اس کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کرےگا۔
ایمان ہے جس کا نام وہ حب رسول ہے
جب یہ نہیں تو ساری عبادت فضول ہے
میرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمت عالم
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لیے
از قلم ۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن ۔ مجلس علماے اسلام مغربی بنگال
شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124174
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع