تحریر: محمد ہاشم اعظی: نکاح سے متعلق چند مسائل اور اس کا طریقہ کار
نکاح سے متعلق چند مسائل اور اس کا طریقہ کار
مذہب اسلام اللہ رب العزت کی مکمل اطاعت کا نام ہے شریعتِ اسلام مکمّل ضابطہ حیات ہے جس کا مقصد انسان کی فلاح وبہبود ہے شریعت کے پاکیزہ اصول و قوانین انسانی زندگی کے تمام امور ومسائل میں رہ نمائی کرکے انسان کو اسلام کا پابند بناتے ہیں ۔
زیر نظر مضمون میں شادی بیاہ کے مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ غیراسلامی اور جاہلانہ رسوم ورواج سے بچا جاسکے۔ شادی بیاہ میں رشتہ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں شریعت کی رہ نمائی یہ ہے کہ جب لڑکی یا لڑکا شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے والدین مناسب رشتہ تلاش کریں، رشتہ طے کرنے میں دینداری کو ترجیح دینا چاہئے نہ کہ مال کو
حدیث پاک میں اس کی ترغیب آئی ہے،جب کسی جگہ رشتہ مناسب معلوم ہو تو لڑکے کی والدہ یا بہن وغیرہ ایک مرتبہ لڑکی کو دیکھ لے بلکہ لڑکا خود بھی ایک نظر دیکھ سکتا ہے، اس کے بعد دونوں خاندان کے ذمے داران فون پریا کسی جگہ بیٹھ کر اس کی تاریخ متعین کرلیں، اس کے لیے کسی خاص انتظام انصرام کی کوئی ضرورت نہیں ہے
نکاح کی اہمیت
حضرت ابوایوب انصاری رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے میری سنت کو راہِ زندگی بنالیا پس وہ مجھ سے ہے اور میری سنت نکاح ہے۔“(حدیث)۔
ایک اور حدیث پاک میں حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ارشاد فرمایا:”اے علی تین کام ہیں جن میں جلدی کرنا چاہئے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی۔ حاکم)۔
شرائط نکاح
سب سے پہلے تو یہ معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ نکاح جن دو کے درمیان ہورہا ہے ان کا نکاح شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ کوئی چیز مانعِ نکاح تو نہیں۔ مثلاً محرمات میں سے نہ ہوں عورت عدت میں نہ ہو دونوں مسلمان ہوں دو عاقل بالغ مسلمان مرد گواہ ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں وغیرہ
مہر کے مسائل
حق مہر ایسا معتین کریں جو دس درہم چاندی سے قطعاً کم نہ ہو یعنی ڈھائی تولہ چاندی کے برابر ہو زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں ہے جتنا زیادہ چاہیں باہمی رضا مندی سے مقرر کر سکتے ہیں۔ حق مہر نکاح کے ساتھ ہی لازم ہو جاتا ہے
لہذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ موقع پر ہی ادا کر دیا جائے۔ بعد میں بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتےہیں یہ بات یاد رہے کہ حق مہر کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ نکاح سے ہے ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ مہر کا تعلق طلاق سے ہے زندگی میں کبھی مہر کا خیال نہیں آتا جب طلاق کا موقع آتا ہے یا زوجین میں سے کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تب مہر کا خیال آتاہے جو غلط اور جاہلانہ بات ہے۔
نیز جو لوگ کہتے ہیں حق مہر شرعی /32/10 کی حد بتائی گئی ہے زیادہ کی حد نہیں بتائی گئی ہے اس لیے جو حد شریعت نے بتائی ہے اتنا ہی مہر متعین کیا جائے یہ بھی غلط ہے چونکہ حق مہر مقرر کرنے کا مقصد عورت کی عزت و وقار اور تحفظ۔ لہذا زیادہ سے زیادہ رقم ہونی چاہیے۔ ورنہ بے قصور بچیوں کو معمولی رقم دے کر لا ابالی، نالائق خاوند معمولی بات پر اور بسا اوقات تو معمولی بات بھی نہیں ہوتی ظلماً طلاق دے کر زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ اس ظلم میں وہ تمام لوگ قصور وارہوتے ہیں جن کے غلط فیصلوں نے ایک عورت کو اتنا بے وقعت کر دیا۔
حالاں کہ مسلمان نہ ظالم ہوتا ہے اور نہ مظلوم لا تظلمون ولا تظلمون حق مہر لڑکے، لڑکی کی باہمی رضا مندی سے مقرر کریں۔ نابالغ بچوں اور نابالغ بچیوں کے نکاح ہر گز ہر گز نہ کریں۔ ان کو بالغ ہونے دیں اور ان کو وہ حق دیں جو قرآن دیتا ہے، یعنی شادی میں ان کی رضامندی دیکھی جائے۔
فرمان باری تعالی ہے: فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ( النساء 3:4) یعنی اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو
قرآن پر عمل کریں نوجوانوں کو اچھے مشورے ضرور دیں، لیکن اپنی پسند ان پر مسلط نہ کریں کہ بہت سی پریشانیوں کاسبب بنتی ہے۔ حق مہر کی رقم معقول رکھی جائے تا کہ بچیوں کا مستقبل محفوظ رہے۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا۔ وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا( النساء 20:4)یعنی اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بدلنا چاہتےہو اور ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔
قرآن کریم کی آیات بینات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حق مہر ڈھیر سارا بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس دور میں تو زیادہ حق مہر ہی رکھنا چاہیے۔ تاکہ آئے دن طلاق کا تماشا ہی ختم ہوجائے اور عورت کی عزت بحال ہو۔حق مہر معاف کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔
ہاں اس کے مطالبہ میں تراخی و تاخیر بھی کی جائے حق مہر ایک قرض ہے اور اس کے برقرار رہنے سے اس کا مقصد حاصل ہو گا۔ یعنی بچی کے مستقبل کا تحفظ قائم رہے گا اس ضمانت کو ضائع نہ کریں۔ مرد کو بھی معاف کروانے سے زیادہ اس حق کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہر چند کہ عورت معاف کر سکتی ہے مگر اس میں جلد بازی اور دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔
عموماً عورتیں عمر بھر اپنی لاعلمی کی وجہ سے اپنے شرعی حقوق سے محروم رہتی ہیں اور جب محرومئِ علم سے تنگ ہوتی ہیں تو نادان اسلام اور علمائے اسلام پر برستی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے انہیں اپنی مرضی کے مطابق شادی کا حق دیا۔ ماں، باپ، بھائی، خاوند، اولاد، بہن کے ترکہ میں مقرر حصہ دیا ہے۔
لیکن یہاں کی %90 عورتوں کو اپنے ان حقوق کا علم ہی نہیں، اول تو مسلمانوں میں تعلیم ہی کم ہے۔ پھر نام نہاد پڑھے لکھے بھی شرعی احکام سے ناواقف ہیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کا ذخیرہ آسان اردو میں موجود ہے۔ یہ علمی خزانہ کسی خاص طبقے کے لیے خاص نہیں۔ اللہ کی رحمت سب کے لیے عام ہے۔ اس سے استفادہ حاصل کریں۔
طریقہ نکاح
قاضی حضرات پہلے نکاح فارم پر کریں متعلقہ اشخاص کے دستخط کروا لیں، پھر لڑکے لڑکی دونوں سے اجازت لیں۔ لڑکی کو لڑکے کا پورا تعارف کروائیں۔ حق مہر دونوں کی مرضی اور اجازت سے طے کروائیں۔
خاندان والے باوقار طریقہ سے گھر والوں کے سامنے لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کروائیں۔ تاکہ وہ دیکھ کر اپنی پسند کا اظہار کریں۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم کا حکم اوپر ذکر ہو چکا ” کہ اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔” جس کا صریح مفاد یہ ہے کہ دیکھ کر نکاح کرو کہ دیکھے بغیر پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:اذا خطب احدکم المرءة فان استطاع ان ينظر الی ما يدعوه الی نکاحها فليفعل یعنی تم میں سے کوئی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگرممکن ہو تو اس کی ان خوبیوں کو دیکھے (چہرہ، ہاتھ، پاؤں، قد، رنگ، آنکھیں، نیک عادات وغیرہ) جو اسے اس عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: هل نظرت اليها؟ قلت لا قال فانظر اليها فانه احری ان يودم بينکما یعنی کیا تو نے اسے دیکھا؟ میں نے عرض کی نہیں۔ فرمایا اسے دیکھ لے کہ یہ طریق تم میں محبت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہو گا۔
پھر گواہوں کے رو برو لڑکے سے کہیں کہ فلاں لڑکی کو اتنے حق مہر کے بدلے اپنے نکاح میں قبول کرتے ہو؟ وہ قبول کرے تو خطبہ مسنون پڑھ کر دونوں کے اچھے مستقبل، اتحاد و اتفاق اور حسن معاشرت کی دعا کریں۔ پھر چھوہارے وغیرہ حاضرین پر لٹائیں۔
لڑکی کی رضا مندی بھی ضروری ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الایم احق بنفسها من وليها والبکر تستاذن فی نفسها و اذنها صحاتها یعنی غیر شادی شدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنا اختیار رکھتی ہے اور کنواری سے بھی، اس کے بعد اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔ (مسلم، مشکوة، ص : 270)
ولیمہ
لڑکے کے گھر والے بغیر اسراف و تبذیر کے حسب توفیق احباء و اقرباء کو دعوت ولیمہ بھی کھلائیں۔ اس لئے کہ ولیمہ سنت ہے مگر شرط یہ ہے کہ قرض نہ لیں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ اور تمیز سے کھانا کھلائیں۔ رزق ضائع نہ کریں۔ غریب لوگوں کو بھی کھانے میں ضرور شامل کریں۔ ”حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور محتاجوں کو چھوڑ دیا جائے۔“(بخاری، مسلم)۔
ایک جاہلانہ رسم
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ طعام گاہ کے قریب میز لگادیا جاتاہے تاکہ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر کچھ رقم جمع کریں۔
یہ بھی ایک بیہودہ رسم ہے کہ کھانے کی دعوت پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور ان سے ایک مخصوص رقم یعنی کھانے کا بل وصول کیا جائے
تحریر: محمد ہاشم اعظی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ ، یوپی
9839171719
ان مضامین کو بھی پڑھیں
بیوہ اور طلاق شدہ عورت کے نکاح کو معویب سمجھنا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع