شیخ حضرت حافظ سید شاہ جمال اللہ رام پوری کے سجادہ نشیں حضرت فرحت احمد جمالی کی گرفتاری
حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی[ایڈیٹر: ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور] کا سخت مذمتی بیان
جمال الاولیا شیخ الشیوخ حضرت حافظ سید جمال اللہ نقش بندی قدس سرہ العزیز شہر رام پور کی قدیم مقتدر شخصیت ہے۔
آپ کے فیوض و برکات کے کثیر واقعات اور کرامات ہیں۔آپ کی ولادت ۱۱؍ ربیع الاول ۱۱۳۷ھ/۲۸ نومبر ۱۷۲۴ء، گجرات پاکستان میں ہوئی، بچپن ہی میں آپ نے قرآن کریم حفظ فرما لیا تھا۔
عام طور پر آپ دیگر مقامات پر تشریف لے جاتے، دہلی تشریف لائے اور یہیں آپ نے علومِ دینیہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل فرمائی۔ روزانہ دو قرآن عظیم پڑھ لیتے تھے۔
ایک دن تلاوت میں مصروف تھے کہ غیبی آواز آئی ، عبادت و ریاضت بھی اہم ہے مگر آپ بزرگ کے دامن سے وابستہ ہو جاتے تو بلند مراتب جلد حاصل ہو جاتے۔
آپ اٹھے اور اپنے استاذ گرامی سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنے استاذ گرامی حضرت سید قطب الدین حیدر کی بارگاہ میں لے چلیں۔
استاذ گرامی نے ارشاد فرمایا: ابھی رات ہے، صبح چلتے ہیں۔ آپ صبح حاضر ہوئے اور حضرت سید قدس سرہ سے بیعت ہوگئے، اس کے بعد آپ ان کی خدمت کرنے لگے۔ حج و زیارت کے لیے مرشدِ گرامی کی معیت میں تشریف لے گئے
سرکار ﷺ نے مرشد گرامی سے خواب میں فرمایا: جمال اللہ کو ہندوستان بھیج دیں۔ آپ ہندوستان آئے، بڑی تعداد میں حضرات مرید ہونے لگے، رام پور میں مقیم ہو گئے۔ آپ کے خلفا میں تین شخصیتیں بہت مشہور ہوئیں۔
حضرت شاہ درگاہی رام پوری، حضرت شیخ صحرائی اور حضرت شاہ عیسیٰ گندا پوری، ان کے علاوہ ملا فدا لکھنوی اور حضرت میاں سیف اللہ سرسی سنبھل۔
موجودہ سجادہ نشین کے والد ماجد حضرت شاہ لئیق احمد خان سجادہ نشیں تھے۔
موصوف بھی بڑی خوبیوں کے حامل تھے، ہم سے بھی خوب شناسائی تھی، بڑی محبت فرماتے تھے، ہماری عقیدت مندانہ دعوت پر آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں تشریف لائے تھے۔
خدا مغفرت فرمائے، بڑے جرأت مند ، بلند حوصلہ اور نیک سیرت شخصیت تھے۔
آپ کے بعد آپ کے فرزند ارجمند خانقاہ جمالیہ کے موجودہ سجادہ نشیں پیر طریقت حضرت شاہ فرحت احمد جمالی دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔
آپ بلند فکر اور عزم و حوصلے کی شخصیت ہیں۔ آپ اپنی روحانی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ ملک و ملت کے مسائل پر بھی تیز نظر رکھتے ہیں۔
سی اے اے اور این آر سی وغیرہ کے تعلق سے احتجاج میں آپ نے بھی سنجیدہ طریقے سے حصہ لیا، بس اسی جرم میں آپ کے اور آپ کے ہم نواؤں کے خلاف مقدمات دائر ہوئے اور آپ کو۱۳ فروری کی صبح میں گرفتار کر لیا گیا۔
آپ کی گرفتاری کے خلاف مقامی اور دور دراز علاقوں میں آوازیں اٹھائی گئیں، مگر رام پور میں تعینات بی جے پی حکومت کے افسران کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی۔ رام پور کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مسلسل سیاسی کارروائیاں ہوتی رہیں
ان خیالات کا اظہار مفکرِ اسلام حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی نے اپنے ایک بیان میں کیا۔
آپ نے مزید فرمایا: ہم اپنی جانب سے اور اہلِ سنت کے سب سے بڑے ادارےجامعہ اشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ یو پی کی جانب سے حضرت سجادہ نشیں کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ حضرت نے فرمایا ملک میں تنہا آپ ہی گرفتار نہیں ہیں، بلکہ ان جیسے ہزاروں مسلمان گرفتار ہیں، ہم ان تمام کی جانب سے مذمت کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ضلعی انتظامیہ اور یو پی حکومت سے ہم گذارش کرتے ہیں کہ وہ عقل کے ناخن لیں
اپنی طے شدہ فکر کی بنیاد پر دشمن سمجھے جانے والے افراد کی گرفتاریوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، یہ ملک کی وفاداری نہیں بلکہ ملک کے باشندوں سے کھلی نفرت اور عداوت ہے۔
حضرت نے مزید فرمایا: حضرت شاہ فرحت جمالی سنجیدہ اور بلند فکر شخصیت ہیں۔ اخلاق کے بلند اور سوجھ بوجھ کی قد آور شخصیت ہیں۔ ملنے ملانے میں بھی جود و سخا کے پیکر ہیں۔ قول و فعل میں یکسانی رکھتے ہیں
ہماری آپ سے ملاقاتیں کثیر بار خانقاہ نقش بندیہ جمالیہ رام پور میں بھی ہوئی ہیں اور متعدد بار آپ ہماری قیام گاہ شاہ آباد ضلع رام پور میں بھی تشریف لائے ہیں۔
آپ وسیع زمین پر آباد جامعہ طیبہ شاہ آباد ضلع رام پور پر بھی خاصی نوازش فرماتے ہیں۔
حضرت نے گرفتار کرنے والے افراد اور شعبوں کے ذمہ داروں سے پر زور لہجے میں کہا کہ میاں کی رہائی پر اولین فرصت میں توجہ دیں اور جلد سے جلد آپ کی رہائی کا پروانہ دیں، اسی میں ملک و ملت کی بھلائی ہے۔
رام پور کی ضلع جیل میں قید درگاہ حضرت حافظ سید شاہ جمال اللہ نقش بندی کے سجادہ نشین حضرت مولانا فرحت احمد خان جمالی کی دو ضمانت کی درخواستیں سی جی ایم کورٹ سے نامنظور ہونے کے بعد ضمانت کی عرضیاں سیشن کورٹ میں لگائی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ سجادہ نشین کو گرفتار ہوئے اب ایک ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، اس کے باوجود بھی ان کی ضمانت نہیں ہوسکی ۔
فرحت جمالی کے وکیل عارف علی خان ایڈووکیٹ نے پہلے ضلع عدالت میں ضمانت کی عرضیاں لگائی تھیں لیکن وہ خارج ہوگئی تھیں جس کے بعد انہوں نے سیشن کورٹ میں ضمانت کی عرضیاں داخل کیں تھیں۔
فرحت احمد جمالی کے دفاعی وکیل عارف علی خان ایڈووکیٹ نے ضمانت نہ ہونے کے اسباب بتائے
اس متعلق ای تی بھارت نے فرحت احمد جمالی کے دفاعی وکیل عارف علی خان ایڈووکیٹ سے ضمانت نہ ہونے کے اسباب معلوم کیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے شیخ فرحت احمد جمالی کے دونوں معاملوں میں ضمانت عرضیاں عدالت میں کی تھیں جس میں سرکاری وکیل نے بحث کے دوران ان کے پرانے معاملوں پر اعتراضات درج کرائے تھے۔
فرحت احمد جمالی نے ان معاملوں پر جواب دینے کا وقت مانگا تھا جس کے لیے تاریخ متعین کی گئی تھی لیکن اچانک کسی وکیل کے انتقال کی وجہ سے بحث نہیں ہوئی اور سماعت 15 مارچ کی ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں رامپور کی ملی تنظیموں کے ذمہ داران کے نمائندہ گروپ کو شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی مخالف 21 دسمبر 2019 کے احتجاجی مظاہرہ اور اس میں رونما ہونے والے تشدد سے متعلق پوچھ گچھ کے لیے پولیس کی جانب سے نوٹس ارسال کیے گئے تھے جس سے ناراض ہوکر علما کا متحدہ وفد ضلع انتظامیہ کے دفتر بھی گیا تھا۔
اس میٹنگ کے بعد باہر آکر فرحت احمد جمالی اور دیگر علما نے ایس پی شگن گوتم پر الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا
کہ ایس پی شگن گوتم نے ان کی تذلیل کی ہے اور ان سے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ بے حد نالاں ہیں۔
وہیں فرحت احمد جمالی کی گرفتاری سے ایک روز قبل اتحاد ملت کونسل کے قومی صدر مولانا توقیر رضا خاں بھی رامپور آئے تھے اور انہوں نے فرحت احمد جمالی کی حمایت میں اپنی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔
حضرت نے اپنی آخری بات کہتےہوئے فرمایا: اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کے رویے انتہائی افسوس ناک ہیں۔
مسئلہ صرف سی اے اے اور این آر سی وغیرہ ہی کا نہیں
اصل نشانہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کو پریشان کرنا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ستر فیصد سے زیادہ کسان ہیں جو سینٹرل گورنمنٹ کے تینوں قوانین کے تعلق سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے ہو رہے ہیں، مسئلہ صرف ان کے اضافے کا نہیں ہے ، بلکہ ان کی وجہ سے ملک کے تمام سامان مہنگے ہو رہے ہیں ۔
ہم پر زور اپیل کرتے ہیں کہ حضرت شیخ فرحت احمد خاں جمالی سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ نقش بندیہ جمالیہ رام پور کے سجادہ نشیں کو رہا کیا جائے اور دیگر تمام معاملات پر بھی آر ایس ایس اور موجودہ بے جے پی حکومت سنجیدگی سے غور کرے، اسی میں ملک و ملت کی بھلائی ہے۔