Friday, October 4, 2024
Homeشخصیاتمجدد اسلامامام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت

امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت

امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت

تحریر :محمد زاہد علی مرکزی

چیرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ

رکن :روشن مستقبل دہلی

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) چودھویں صدی ہجری کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کی قریب ایک ہزار سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں مشہور زمانہ ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش بین الاقوامی سطح پر مشہور ہیں۔

آپ کی پیدائش بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی بقیۃ السلف خاتم الاکابرین علامہ نقی علی خان علیہ الرحمہ سے حاصل کی، بقیہ علوم دینیہ کی تعلیم بھی شہر بریلی شریف میں ہی مکمل کی، تیرہ سال کی عمر میں جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت پائی۔

آپ کی شخصیت گوناگوں حیثیت کی حامل تھی، علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے جو کردار ادا کیا اس کی چمک تاقیامت اہل اسلام کو منور کرتی رہے گی – آپ سے اکابر علمااہل سنت نے علم حدیث کی سندیں حاصل کیں آپ کے مبارک دست حق پرست پر بیعتیں کیں، اپنا استاد اور محسن سمجھا ، کمال عزت و احترام کیا ۔

آپ کو مجدد عظم ، امام اہلسنت جیسے خطابوں سے مخاطب کیا آپ کی علمی حیثیت چہار دانگ عالم میں مشہور ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا کے قیام مکہ معظمہ کے موقع پر مکہ معظمہ کے جلیل القدر بزرگ عالم دین امام الوقت عارف باللہ حضرت سیدنا حسین بن صالح رحمتہ اللہ علیہ کی نظر جب پہلی بار آپ پر پڑی تو بے اختیار پکار اٹھے ۔

انی لاجد نور الله في هذا الجبين ـ یعنی میں اس شخص کی پیشانی سے اللہ کا نور جھلکتا ہوا پارہا ہوں۔حافظ كتب الحرام سید اسمعیل خلیل مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ جو کے مکہ معظمہ کے جلیل القدر عالم اور اپنے وقت کے عظیم فقیہ تھے ان کی خواہش پر سرکار اعلیٰ حضرت نے ہندوستان سے اپنے چند عربی فتاوے اُنھیں روانہ فرمائے ۔

انھیں پڑھ کر وہ حیران رہ گئے اور ایک تحریر روانہ فرمائی جس میں انھوں نے لکھا ” والله اقول و الحق اقول لوراها امام اعظم ابو حنيفة النعمان رضی الله تعالى عنه لا قرت عينيه و لجعل مؤلّفها (امام احمدرضا) من جملة الاصحاب ” ۔ اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں ان فتوؤں کو اگر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھ لیتے تو یقینا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی اور وہ ان کے لکھنے والے( امام احمد رضا) کو اپنے شاگردوں میں شامل فرما لیتے ۔

علامہ شیخ احمد ابوالخیر میر داد مکی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ ” الحمد للہ علی وجود مثل هذا الشيخ امام احمد رضا البريلوى فانى لم مثله في العلم والفصاحة ” امام احمد رضا بریلوی جیسے شیخ کے وجود پر میں خدا کا شکر ادا کر تا ہوں، بیشک میں نے علم اور فصاحت میں اُن جیسا نہیں دیکھا۔

امام احمد رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق علماء حرمین طیبین نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے اگر اُسے ہی لکھا جائے تو ایک دفتر ہو جائے جس کی اس مختصر تحریر میں گنجائش نہیں، حرمین طیبین کے جلیل القدر علما دین نے اعلیٰ حضرت کے متعلق جن نیک خیالات کا اظہار کیا ہے انکی تفصیل جاننے کے لیے حسام الحرمين ، الدولته المكيه ، الاجازاة المتينه لعلماء مكة والمدينه – وغیرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔

ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب نزہتہ الخواطر میں مولوی عبد الحئی ندوی کا یہ بیان نقل کیا ہے ۔”فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر مولانا احمد رضا کو جو عبور حاصل ہے اس کی نظیر شاید ہی کہیں ملے اور اس دعوی پر ان کا مجموعہ فتاوی رضویہ شاہد ہے نیز ان کی تصنیف *كفل الفقيه الفاهم في احكام قرطاس الدراهم” جوانہوں نے ۱۳۲۳ھ میں مکہ معظمہ میں لکھی تھی” – عبد الحئی ندوی کا یہ بیان ہرگز مبالغہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔

جزئیات پر غیر معمولی عبور کے متعلق جو دعویٰ مولوی عبد الحئ ندوی نے کیا ہے اسکی تصدیق فتاوی رضویہ سے ہوتی ہے۔ مثلا فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں ہے ۔ وہ پانی جس سے وضو جائز ہے امام احمد رضا نے اس پانی کی 14 قسمیں بیان فرمائیں ہیں اور پانی کے استعمال سے عجز کی ۱۷۵ سورتیں بیان کیں ہیں اور اس طرح آپ نے پانی کی کل ۳۳۵ قسمیں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح مسئلہ تیمم میں وہ اشیاء جن سے تیم جائز ہے ان کی ۱۸۱ قسیمیں بیان کیں، اور وہ اشیاء جن سے تیم جائز نہیں ان کی ۱۳۰ قسمیں بیان کیں ہیں یہ تعداد بھی تین سو گیارہ تک پہنچتی ہے جن میں اکثر کا استنباط آپ کی ہی تحقیق ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ فتاوی رضویہ کی نظیر نہیں، لیڈن یونیورسٹی ہالینڈ کے علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر ہے۔

ایم۔ ایس۔اے۔ بکیان نے جب فتاوی رضویہ کا مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے ۔ بین الاقوامی سطح پر پڑھے جانے والے اپنے مقالات میں وہ فتاوی رضویہ سے حوالے پیش کرتے ہیں۔ فتاوی رضویہ میں احادیث سے اتنے شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ جب مام احمد رضا کے شاگر د و خلیفہ علامہ محمد ظفر الدین رضوی علیہ الرحمہ نے صحیح البہاری کے نام سے یہ احادیث جمع کیں تو چھ جلدوں میں آئیں ۔

پہلی اور دوسری جلدیں حیدر آباد سندھ سے چھپ چکی ہیں جس کی ہر جلد ۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔

فتاوی رضویہ کے حوالے سے امام احمد رضا کی فقاہت پر کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔

ڈاکٹر علامہ حسن رضا خاں اعظمی نے پٹنہ یونیورسٹی سے امام احمد رضا کی فقاہت پر ڈاکٹریٹ (پی۔ ایچ۔ ڈی کیا ہے ۔ علامہ مفتی محمد مکرم حمد نے فتاوی رشیدیہ اور فتاوی رضویہ کا عادلانہ اور فاضلانہ جائزہ پیش کیا ہے۔ اُن کا مقالہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی نے شائع کیا ہے۔

امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی شخصیت کے سیکڑوں پہلو ہیں جسے اس مختصر مقالے میں بیان کر پانا ممکن نہیں – آپ کا ترجمہ قرآن انفرادی حیثیت رکھتا ہے آپ نے قرآن مقدس کا جو ترجمہ ہیش کیا ہے وہ ہر طرح سے دیگر اردو تراجم سے بہتر ہے، اس کی چند ایک مثالیں ہم پیش کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:۔ والأرض بعد ذلك دحها (النزاعت) اور اس کے بعد زمین پھیلائی – کنز الایمان) دیگر تمام اردو مترجمین نے “دحٰھا ” کے معنی کھلنے کے بجائے “جما” دینے کے لکھے ہیں – جبکہ پھیلنا اور جمانا دو مختلف مفہوم رکھتے ہیں جمانے سے جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کوئی چیز تہ بہ تہ ایک کے اوپر ایک جم رہی ہو۔ اور پھیلنا کا مفہوم یہ بتاتا ہے کہ کسی چیز کا حجم بڑھ رہا ہے ۔

علوم ارضیات زمین کے متعلق یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ زمین جب سے وجود میں آئی ہے برابر پھیل رہی ہے – یہ عمل اس طرح جاری ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے سمندروں یعنی بحر ہند بحر اوقیانوس وغیرہ میں ۵ تا ۶ میل گہری سمندری خندقیں (Oceanic Trenches) پائی جاتی ہیں یہ خندقیں ہزاروں میل لمبی ہیں 

ان خندقوں سے ہر وقت گرم گرم پگھلا ہوا لاوا (Lava) نکل رہا ہے اور اوپر آنے کے بعد یہ دونوں جانب ٹھنڈا ہو کر سخت ہو جاتا ہے جب نیا لاوا نکلتا ہے تو پہلے سے جمع شده تہ دائیں بائیں جانب سرکتی ہے اس کے سرکنے سے اگلی تہہ سرکتی ہے اور یوں پورا خشک براعظم بھی سرکتا ہے اور سمندر پیچھے چلا جاتا ہے زمین بلند ہو جاتی ہے، یہ عمل اگرچہ بہت آہستہ ہوتا ہے

لیکن برابر جاری رہتا ہے – زمین برابر اس پھیلاؤ کی وجہ سے اٹھ بھی رہی ہے اور اس پھیلاؤ کی رفتار مختلف براعظموں میں مختلف ہے کوئی براعظم 3 سینٹی میٹر ہر سال اوپر اٹھ جاتا ہے کوئی 4cm۔ بر اعظم ایشیا کا بر صغیر پاک و ہند کا حصہ 3.5cm ہر سال اوپر اٹھ جاتا ہے جبکہ بحیرہ عرب برابر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس قدرتی عمل سے زمین برابر پھیل رہی ہے۔

اللہ تعالی نے زمین کے اس پھیلاؤ کا ذکر سورہ النزعت کی ۳۰ ویں آیت میں کیا اور امام احمد رضا نے قدرت کے اس عمل کو سمندر کی ۶ میل نیچے تہہ میں دیکھ لیا اور اسی عمل کو علم ارضیات کی اصطلاح میں بیان کیا ہے کہ اس کے بعد زمین پھیلائی” زمین کے پھیلنے کے اس عمل کو صرف امام احمد رضا جیسا سائنس داں ہی دیکھ سکا – ایک ترجمہ اور دیکھیں آپ نے” لا تنفذون الابسلطن” (سورہ رحمن) کا ترجمہ فرمایا کہ جہاں نکل کر جاؤ گے اس کی ہی سلطنت ہے –

اور یہ سائنٹفک ترجمہ ہے کیونکہ اس میں کوششوں کے بعد زمین کے کناروں سے نکلنے کا اشارہ موجود ہے کہ انسان ترقی کر کے اس دور میں داخل ہو گا کہ جب وہ زمین کے کناروں سے نکل سکے گا اور آج ہزاروں لاکھوں آدمی فضائی سفر کرتے ہیں زمین سے تیس ہزار سے ۴۰ ہزار فٹ بلندی پر پہنچ جاتے ہیں۔

انسان نے جہاز کے بعد راکٹ بنایا ، جس سے لاکھوں میل دور کی سیر کر سکتے ہیں اسی میں ایک راکٹ اپالو نام کا چاند پر بھی گیا اور اب انسان کا سفر چاند سے بھی دور مریخ کا ہے جو زمین سے کروڑوں میل دور ہے 

زمین کے کناروں سے نکلنا ناممکن ہوتا تو کسی طرح کوئی بھی انسان ہزار کوششوں کے باوجود نہیں نکل پاتا اور اگر یہ قرآنی قانون حتمی ہو تا کہ تم زمین کے کناروں سے نہ نکل سکو گے تو قانون خداوندی کے خلاف انسان یہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا مگر قرآن اشارۃ ” فرما رہا ہے کیوں کہ قرآن کا دعوی ہے کہ اس میں ہر شے کی تفصیل موجود ہے۔

چناں چہ امام احمد رضا نے اس نکتے کو جب قرآن میں تلاش کیا تو قرآن نے جواب دیا کہ جہاں نکل کر جاؤ گے اسی کی سلطنت ہے جب کہ دیگر مترجمین کے ترجموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کا زمین کے کناروں سے نکلنا محال ہے

مثلا:۔ ا  لا تنفذون الابسلطن ” نہ بیٹھ جاؤ گے تم مگر غلبہ کے (شاہ رفیع الدین)مگر کچھ ایسا ہی زور ہو تو نکلو (ڈپٹی نذیر احمد دہلوی) تم دلیل کے بغیر ہرگز نہیں نکل سکتے۔ (مرزا بشیر الدین) ۔

تم بغیر قوت اور غلبہ کے نکل ہی نہیں سکتے (مولوی فرمان علی) نہیں بھاگ سکتے اس کے لئے بڑا زور چاہئے۔ (مولوی مودودی) اسی طرح دوسرے سوال کا جواب کہ آیا کہ انسان زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر قدم رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اس جواب کی گنجائش بھی صرف امام احمد رضا کو نظر آئی اگر چہ ان کے زمانے میں انسان نے چاند پر قدم نہیں رکھا تھا مگر انہوں نے انسان کی ترقی کو دیکھ لیا تھا اور قرآن کو بھی انہوں نے بغور سمجھا لہذا جو ترجمہ آپ نے کیا وہ کوئی اور نہ کر سکا-

کیمیا، فلکیات، نجوم طب نباتیات حیوانیات، نفسیات اخلاقیات حیاتیات پر علم کا ایک بہت بڑا خزانہ یادگار چھوڑا ہے۔ مسلمان سائنس دانوں کے حالات و افکار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عموما” تمام ہی سائنس داں دینی علوم کے فارغ التحصیل ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مسئلے پر غور و فکر کرتے ہیں سب سے پہلے وہ قرآن سے راہ حاصل کرتے اور منقولات و معقولات دونوں کو قرآن سے استنباط کرتے!

حجۃ الاسلام امام محمد غزالی علیہ الرحمہ (م المتوفی ۵۰۵ھ) جن کو مغربی دنیا ایک عظیم فلسفی تسلیم کرتی ہے اور جن کے متعدد کتب و رسائل مغربی زبانوں میں منتقل ہو چکے ہیں ، ان سے ایک دفعہ ایک غیر مسلم سائنسداں نے سوال کیا:۔ اجرام فلکی یعنی چاند سورج اور دیگر سیارگان فضا میں جو حرکت کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہے ایک سیدھی دوسری معکوس! قرآن مجید میں ایک سمت میں حرکت کا ذکر تو موجود ہے

لیکن دوسری سمت کا ذکر موجود نہیں اور آپ کا قرآن دعوی کرتا ہے کہ ہر شے کا علم اس قرآن میں موجود ہے، آپ بتائیے کہ دوسری سمت کی حرکت کا ذکر کہاں ہے؟ امام غزالی علیہ الرحمہ نے اس غیر مسلم سے پوچھا کہ تو نے پہلی حرکت کا ذکر قرآن مجید کی کس آیت سے لیا ہے، جواب میں اس نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 تلاوت کی۔ كل في فلك يسبحون –

امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا اسی آیت میں دوسری حرکت معکوس کا ذکر بھی ہے وہ اس طرح کہ کل فی فلک کے الفاظ الٹی جانب سے پڑھے جائیں یعنی فلک کے ک شروع کر کے کل کے ک تک پڑھا جائے تو پھر بھی کل فی فلک ہی بنے گا۔ گویا آیت کو دائیں جانب کی سمت سے پڑھیں تو سیارگان کی سیدھی حرکت کا ذکر ہے اور معکوس سمت سے پڑھیں تو حرکت معکوس کا ذکر ہے۔امریکی ہئیت داں کی پیشین گوئی کا رد –

سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کے زمانے میں سان فرانسسکو (امریکہ) کے ایک ہیئت داں (Astronomist) پروفیسر البرٹ ایف پوٹا نے ایک دفعہ یہ پیشین گوئی کی کہ ۱۷ دسمبر ١٩١٩ ء کو آفتاب کے سامنے بیک وقت کئی ستاروں کے اجتماع اور ان کی مجموعی کشش کے نتیجے میں بڑے بڑے گھاؤ پڑیں گے جس سے امریکہ میں خصوصا” اور دنیا میں عموما ” زبردست تباہی مچے گی۔ یہ پیشنگوئی بھارتی اخبار ایکسپریس بانکی پور پٹنہ کے ٢٨ اکتوبر ۱۹۱۹ ء کے شمارے میں شائع ہوئی

امام احمد رضا کے سامنے جب علامہ ظفر الدین بهاری (متوفی ۱۳۸۲ھ / ۱۹۶۲ء ) نے اس پیشنگوئی پر استفسار کیا تو آپ نے اس کو لغو قرار دیا اور فرمایا ایسا کچھ نہیں ہونے والا وہ ہیئت داں غلط اندازے پر چل رہا ہے

پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی اور آپ کا فرمان درست ثابت ہوا، یہی نہیں بل کہ آپ نے اس امریکی ہیئت داں کے رد میں ایک سائینٹیفک رسالہ اردو زبان میں بعنوان” معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین” (۱۳۳۸ھ) مکمل کیا – اس کا انگریزی ترجمہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا ۔

اس رسالے کے علاوہ آپ نے آئن اسٹائن اور آئزک نیوٹن کے خیالات کا بھی تعاقب کرتے ہوئے ۳ مزید سائنسی رسالے تحریر فرمائے۔

(١)الكلمته الملهمته في الحكمته المحكمه لوهاء فلسفته المشمشه (۱۳۳۸ )

(٢) فوزمین در رد حرکت زمین (۱۳۳۸- ۱۹۸۹ء میں بریلی سے شائع ہوا)

  (٣) نزول آیات قرآن سکون زمین و آسمان (۱۳۳۸ھ) امام احمد رضا نے یہ رسائل لکھ کر علم ہیئت کے میدان میں تہلکہ مچا دیا کیوں کہ آپ نے نیوٹن آئین اسٹائن اور البرٹ ایف پورٹا کے پیش کئے ہوئے بنیادی قانون کا رد فرمایا اور قرآن سے ثابت کیا کہ زمین ساکن ہے

سورج اور دوسرے سیارے زمین کے گرد گردش میں مصروف ہیں۔ آپ نے رد میں ۱۰۵ دلیلیں قائم کیں جن میں سے ١٠ دلیلیں سابقہ کتابوں کی ہیں اور ٩٥ دلائل خود آپ نے تہنا قائم کئے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو سائنسی علوم پر بھی اتنی ہی دسترس حاصل تھی جتنی دینی علوم پر آپ کے سامنے دینی، سائنسی منقولات یا معقولات کا کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ ہوتا تو آپ فی الفور اور فی البدیہ اس کا جواب تحریر فرما دیتے تھے 

آپ کے عظیم کارناموں میں دو اہم کارنامے ہیں پہلا آپ کا ترجمہ قرآن “کنز الایمان” یہ ترجمہ قرآن مکمل سائینٹیفک ترجمان ہے۔

دوسرا اہم ترین شاہکار فتاوی رضویہ ہے جو فی الحال ٣٠/٣٢ مجلدات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک عظیم فقہی ان سائکلو پیڈیا اور ضخیم علمی تحقیقی خزانہ ہے اگر چہ یہ فقہی مسائل پر مشتمل ہے لیکن یہ منقولات کے ساتھ ساتھ معقولات کے تمام علوم و فنون کا احاطہ کرتا ہے۔ مثلا ” ریاضی و جغرافیہ جیسے علوم سے مسائل شرعیہ کا استخراج

(۳) مسافت قصر کا تعین علم توقیت / جغرافیہ / ارضیات کی روشنی میں (۱۳) اوقات صوم و صلوۃ علم ہیئت / توقیت کے قواعد کی روشنی میں

(۱۴) بینکاری اقتصادیات معاشیات کی روشنی میں شرعی توجیهات (۱۵) علم زیجات / ریاضی / فلکیات کی مدد سے رویت ہلال کے مسائل کا حل و غیره وغیرہ فتاویٰ رضویہ جلد اول اگر چہ صرف کتاب طہارت پر مشتمل ہے لیکن ضمنی مسائل کے اندر علوم عقلیہ کی تشریحات میں مکمل دسترس کا ثبوت پایا جاتا ہے مثلا”

۱ ۔ پانی میں رنگ ہے یا نہیں

۲  پانی کا رنگ سفید ہے یا سیاہ

(٣) کیا سبب ہے کہ موتی ، شیشہ، بلور پینے سے خوب سفید ہو جاتے ہیں

(٤) رنگین پیشاب کا جھاگ سفید کیوں معلوم ہوتا ہے

(٥) آئینہ میں دراڑ پڑ جائے تو وہاں سفیدی کیوں معلوم ہوتی ہے

  (٦) آئینہ میں اپنی صورت اور چیزیں کسی طرح نظر آتی ہیں

(٧) آئینہ میں داہنی جانب بائیں اور بائیں جانب داہنی کیوں نظر آتی ہے 

(٨) برف کے سفید نظر آنے کا سبب

  (٩) شعاعیں جتنے زاویے پر جاتی ہیں اتنے ہی پر پلٹتی ہیں

(١٠) رنگتیں تاریکی میں موجود رہتی ہیں

  (١١)پتھر کس طرح بنتا ہے اور پتھروں کی مختلف اقسام

(١٢)رہ آگ پر کیوں نہیں ٹھہرتا

  (١٣) معدنیات میں ۴ قسمیں ناقص ترکیب ہیں

  (١٤) چاروں عنصروں میں ایک دوسرے سے تبدیلی کی بارہ صورتیں

  (١٥) اجزائے ارضیہ بلا واسطہ بھی آگ ہو جاتے ہیں

  (١٦) کان کی ہر چیز گندھک و پارے کی اولاد ہے۱۷۔ گندھک نر ہے یا مادہ

  (١٨) قطر و محیط کی نسبت

(١٩) مٹی کی اقسام اور ان کی درجہ بندی و غیرہ وغیرہ –

فتاوی رضویہ کی تمام مجلدات میں سائنسی موضوعات پر رسائل و تحریر ملتی ہیں فتاوی رضویہ جلد ہفتم کا مطالعہ کیجییے تو اقتصادیات، معاشیات، بینک کاری اور دیگر لین دین کے تمام مسائل سمیٹے ہوئے ملے گی ۔

گویا امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کو جس جہت سے دیکھیے ہر جہت میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان فن اور جہت میں ان جیسا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں، آپ کی ہمہ جہت شخصیت کو دیکھ کر بس آپ کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیے ہیں ماخوذ: ( قرآن سائنس اور امام احمد رضا)

سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو اللہ نے وہ کمال بخشا تھا جو گزشتہ کئی صدیوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا، ذلک فضل اللہ یؤتیه من يشاء۔

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن