شیعہ مزاحمت، سنی خاموشی: اسرائیل کے خلاف جنگ میں وہابی سلفیوں اور صوفیوں کا کردار
اسرائیل فلسطین جنگ کی موجودہ صورت حال میں مذہب کے تناظر کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن اس کو مکمل طور پر مذہبی جنگ کہنا بھی درست نہیں۔ اصل میں یہ جغرافیائی اور سیاسی جنگ ہے جس میں طاقت اور علاقے کا تنازع بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
تاہم، اب اس جنگ کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل بمقابلہ عرب مسلمان قرار دینا شروع کر دیا گیا ہے جو مکمل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
اس جنگ میں ایک طرف اسرائیل ہے، جس کے حامیوں میں امریکہ، برطانیہ، اور دیگر کئی مغربی ممالک شامل ہیں۔ یہ ممالک اسرائیل کو سیاسی، فوجی اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں، جس سے اسرائیل کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔
لیکن دوسری طرف، کون اسرائیل کے خلاف صف آراء ہے؟ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف عرب مسلمان برسرِ پیکار ہیں
مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔عالمی سطح پر مسلمانوں کے دو بڑے فرقے ہیں: سنی اور شیعہ۔ سنی اکثریت کے حامل ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، اور قطر نے اس جنگ میں واضح طور پر غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کر رکھی ہے، بلکہ ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ حالیہ برسوں میں سفارتی اور تجارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔
ان ممالک کا مذہبی تعلق سلفی تحریک سے ہے، جو اسرائیل کے خلاف جاری جنگ میں براہِ راست حصہ نہیں لے رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف اصل میں کون برسر پیکار ہے؟
اس کا جواب بنیادی طور پر شیعہ فرقے کے ساتھ جڑے گروہوں میں نظر آتا ہے۔ حزب اللہ، جو لبنان میں ایک طاقتور شیعہ ملیشیا ہے، اور ایران، جو شیعہ قوتوں کا سب سے بڑا حامی ہے
اسرائیل کے خلاف عملی طور پر میدان میں موجود ہیں۔ یہ قوتیں اسرائیل کو خطے میں اپنا بڑا دشمن تصور کرتی ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو مختلف انداز سے حمایت فراہم کرتی ہیں۔اب اگر حماس کی بات کی جائے تو حماس ایک سنی تنظیم ہے
مگر اس کی جڑیں وہابی و سلفی نہیں بلکہ صوفیانہ طرز فکر سے ملتی ہیں، خاص طور پر اس کا دفاعی ونگ “قسام بریگیڈ” کا تعلق خانقاہی نظام سے جڑے صوفی سادات سے ہے، جو ایک خاص روحانی اور فکری نسبت رکھتے ہیں۔ صوفی سادات، جو کہ عموماً نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے منسوب ہوتے ہیں۔
حماس کی قیادت میں سادات کا اثر رسوخ نمایاں ہے اور ان کی تحریک کو صوفیانہ طرز فکر اور سیاسی جدوجہد کے امتزاج سے تقویت ملتی ہے۔ قسام بریگیڈ کی بنیاد مزاحمت پر رکھی گئی ہے اور اسے فلسطینیوں کی دفاعی قوت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ان کے نظریات میں روحانیت کے ساتھ ساتھ عملی مزاحمت کا تصور شامل ہے، جس نے انہیں اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط جنگ جو گروپ بنا دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہری اس جنگ میں قربان ہو چکے ہیں، اور حماس کی جنگجوئی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل کے خلاف جاری مزاحمت کی قیادت شیعہ گروہوں نے سنبھال لی ہے، اور حزب اللہ جیسے شیعہ تنظیموں کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ سلفی فکر رکھنے والے ممالک اس جنگ سے خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیل کے خلاف کسی عملی مزاحمت میں شامل نہیں۔