تحریر : غلام مصطفےٰ نعیمی کیا ہم مکی دور کی طرف بڑھ رہے ہیں
کیا ہم مکی دور کی طرف بڑھ رہے ہیں
اسلام کا مکی دور نہایت آزمائشوں اور مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں عقیدہ توحید ورسالت قبول کرنے اور اس کی حفاظت وتبلیغ کی ذمہ داری ہی مسلمانوں کے سپرد فرمائی۔
دیگر عبادات اس زمانے میں فرض نہیں کی گئیں۔نماز کی فرضیت بھی ہجرت سے کچھ وقت پہلے ہی ہوئی، زیادہ تر عبادات مدنی دور میں فرض ہوئیں۔کیوں کہ اس دور آزمائش میں عقیدہ توحید ورسالت کی حفاظت ہی سب سے اہم اور ضروری تھا۔اِس وقت بھارتی مسلمان بھی کچھ ایسی ہی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں جہاں ایمان کی حفاظت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
ایک طرف شدت پسندوں کا طبقہ ہے جو حکومت کے زور پر مسلمانوں کو “ہندو” بنانے اور ثابت کرنے کی کوشش و سازش میں مصروف ہے۔دوسری جانب لادینیت
(Athism)
کا طوفان نئی نسلوں کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔تیسری جانب سیکولرزم کے نام پر عقیدہ توحید کو پامال کرنے کی روایت عام ہوتی جارہی ہے۔ان حملوں سے ذرا سی مہلت ملتی ہے تو انسانیت
(Humanity)
کے نام پر دین اسلام سے باغی بنانے کی پر زور کوششیں جاری ہیں۔یعنی بھارتی مسلمانوں کے ایمان پر ہر چہار جانب سے یلغار ہورہی ہے۔
مکی دور میں آزمائشوں اور دشمنوں کی کثرت کی بنا پر عقیدہ توحید ورسالت کی حفاظت اور تبلیغ سب سے اہم تھی۔
کیا آج اس دور آزمائش میں ہمیں عقیدہ توحید ورسالت کی حفاظت کے لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟
حالیہ دنوں میں ہونے والے کچھ اہم واقعات پر نگاہ ڈالیں تو تصویر زیادہ صاف نظر آئے گی:
1-بابری مسجد کی مقبوضہ زمین پر بننے والے رام مندر کے لیے بعض مسلمانوں کی جانب سے کھل کر چندہ دیا جانا۔
2-قرآن کریم سے بعض آیات نکالنے کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ فائل کیا جانا۔
3-ایڈیڈ مدارس دینیہ میں شرکیہ تقریبات کا انعقاد۔
4-نصاب تعلیم میں اکثریتی فرقے کے عقائد ونظریات کی شمولیت۔
5-الحاد وبے دینی عام کرنے کے لیے مغل شہزادے دارا شکوہ کی قبر تلاشنا۔
6-اکثریت کے تعلیم یافتہ طبقے کا شان رسالت میں گستاخیاں کرنا۔
7-مسلمانوں سے زبردستی شرکیہ نعرے لگوانے کا بڑھتا رجحان۔
8-گھر واپسی کے نام پر کھلے عام ارتدادی مہم چلانا۔
یہ سارے کام چوری چھپے نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کیے جارہے ہیں۔جو افراد اور تنظیمیں ان کاموں میں ملوث ہیں انہیں حکومت و انتظامیہ کی کھلی حمایت حاصل ہے۔اسی لیے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے نہ کسی طرح کی سختی۔جبکہ مسلمان محض مزاحمت کرنے پر ہی تختہ ستم بنا دیا جاتا ہے۔
عقیدہ توحید ورسالت اور ہمارا طرز عمل؟
عقیدہ توحید ورسالت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔جس پر ایمان کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔اگر یہ عقیدہ نہ رہے تو پھر کسی بھی چیز کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔لیکن توحید ورسالت کی اتنی اہمیت
کے باوجود ہماری غفلت ولاپرواہی کا عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کلمہ توحید کا مفہوم تو دور سنانے تک سے معذور ہے۔بارہا نکاح خوانی کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے کہ قاضی کے پڑھانے کے باوجود دولہا کلمہ نہیں پڑھ پاتا۔اب جس جوان کو 25/30 سال کی عمر میں کلمہ یاد نہ ہو اسے عقیدہ توحید ورسالت کی باریکیاں کیا معلوم ہوں گی؟
بات محض نوجوانوں ہی کی نہیں ہے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں کتنے ہی ایسے گاؤں دیہات ہیں جہاں عمر رسیدہ مسلمان اپنے گھروں میں رام کتھائیں کراتے ہیں۔دوسروں کی پوجا ارچنا میں شریک ہوتے ہیں۔گھروں پر دوسروں کے دھارمک بھگوانوں کی تصویریں لگاتے ہیں۔بہتوں کے نام تک بھی ہندوانی ہوتے ہیں۔ان لوگوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت واصلاح کس کے ذمے ہے؟
کوئی یہ نہ سمجھے کہ گاؤں دیہات کے لوگ اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسے کام کرتے ہیں، شہری مسلمان ان سب خرافات سے محفوظ ہیں؟شہر کا نوجوان بھی دیہاتی جوان کی طرح محفل نکاح میں اُسی وقت پریشان نظر آتا ہے جب اسے کلمہ پڑھنے کو کہا جاتا ہے۔
اپنی تعلیم اور شہری ہونے کے احساس میں بعض لوگ اتنے آزاد خیال ہوجاتے ہیں کہ کفریہ کاموں میں ملوث بھی ہوتے ہیں اور ٹوکنے پر لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ جیسی آیتیں سنا کر کٹ حجتی بھی کرتے ہیں۔گویا شرکیہ کام کرنے سے بھی ان کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسلام دشمن طاقتیں عقیدہ توحید ورسالت کی اہمیت کے پیش نظر مختلف حیلوں بہانوں سے عقیدہ اسلام پر حملہ آور ہیں۔اس کام کے لیے درج ذیل حربے استعمال کیے جارہے ہیں:
سنیما اور میڈیا کے ذریعے ایسے لوگوں/کہانیوں کو پروموٹ کرنا جو توحید وشرک کا سنگم ہوں۔
لبرلزم کے نام پر بین المذاہب شادیوں کو بڑھاوا دینا۔
سیکولرزم کے نام پر کفریہ رسم ورواج میں شامل ہونا۔
سوشل ورک کے نام پر کفریہ تقاریب کو بڑھاوا دیا جانا۔
معبودان باطلہ کے جے پکارنا اور خود کو ان سے منسوب کرنا۔
اللہ تعالیٰ ودیگر معبودان باطلہ کو ایک قرار دینا۔
ہمارے کرنے کے کام
مکی دور کا جائزہ لیا جائے تو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کی جدوجہد سے ہمیں دو اہم پیغام ملتے ہیں:
۔1-تبلیغ دین
۔2-استقامت علی الدین
یعنی پہلا بنیادی کام دین کی تبلیغ کرنا ہے۔جو کسی بھی حال میں نہ چھوٹنے پائے۔
دوسرا اہم کام اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے۔کسی مالی، سیاسی یا دنیوی فائدے کی خاطر اسلامی عقیدے سے سمجھوتا نہ کیا جائے۔
اس محاذ پر ہم اپنا جائزہ لیں تو صرف مایوسی ہی نظر آتی ہے کہ ہم لوگوں نے غیروں تک تبلیغ دین کا کام تقریباً بالکل ہی چھوڑ رکھا ہے۔اسی کا فائدہ اٹھا کر شدت پسند تنظیمیں انہیں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں سنا کر متنفر کرتی ہیں۔مسلمانوں کا دشمن بناتی ہیں۔اگر دعوت وتبلیغ کا کام جاری ہوتا تو دنیا ہمارے دین کی حقانیت اور ہمارے عادات و اخلاق سے واقف اور متاثر ہوتی ہے۔
جس سے لاکھوں بندگان خدا کو اللہ تعالیٰ معرفت حاصل ہوتی اور
مسلمانوں کی قوت بھی بڑھتی مگر ہم نے اپنے آپ کو صرف کلمہ گو افراد کی اصلاح تک ہی محدود رکھا۔جبکہ اصلاح عقیدہ بہرحال اصلاح اعمال سے زیادہ اہم اور مقدم ہے۔
اغیار کا حال تو یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی مذہبی تقاریب، عبادت گاہوں، مخصوص شناخت اور لباس کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ہر مقام پر برملا اظہار کرتے ہیں
اور ہمارے لوگ اتنے سیکولر ہونا چاہتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ مسلمان ہیں بلکہ وہ لوگ اپنے رویّوں سے یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے ان سے بڑا ہندو کوئی ہے ہی نہیں!معمولی سے سیاسی اور مالی فائدے کی خاطر عقیدے سے سمجھوتا کرلیا جاتا ہے۔کفریہ کاموں میں بہ رضا ورغبت شامل ہوتے ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ اسے روشن خیالی اور وسعت ظرفی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حالاںکہ یہ سراسر خوش فہمی اور نادانی ہے۔
جو لوگ ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں وہ کبھی عزت حاصل نہیں کرپاتے ہمیشہ اہل اقتدار کی جوٹھن ہی کھاتے ہیں۔
آج جب کہ ہم اپنے ایمانی وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، تو کیا ہم اصلاح عقیدہ کے لیے کوئی مؤثر اور مفید قدم اٹھائیں گے یا اسے بھی کسی سیاسی پارٹی سے پورا کرانے کی امید رکھیں گے؟
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
تحریک فروغ اسلام کی کار کر دگی کا مطالعہ فرمائیں
ان مضامین کو بھی پڑھیں
قبرستانوں کابرا حال ذمہ دار کون از الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
آن لائن خرید داری کے لیے کلک کریں