Saturday, September 14, 2024
Homeاحکام شریعتکیا شرابی کو سلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال ختم کر...

کیا شرابی کو سلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال ختم کر دیے جاتے ہیں

جواب از قلم: مفتی ضیاء الحق قادری کیا شرابی کو سلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال ختم کر دیے جاتے ہیں

کیا شرابی کو سلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال ختم کر دیے جاتے ہیں

کیا فرماتے ہیں علماے کرام مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ زیدنے ایک میلاد شریف کی محفل ميں تقریر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ راکب ماشی کو سلام کرے اور ماشی قاعد کو سلام کرے اور یہ بھی زید نے تقریر کی کہ سلام کرنے سے نفرت دور ہوتی ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے

زید نے یہ بھی کہا سوچ سمجھ کر سلام کریں جان بوجھ کر شراب خور کو سلام نہ کریں اس لیے رسول الله صلی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شراب خور کو سلام کرنے سے یہ نقصان ہے اللہ پاک اس انسان کے 40 برس کے اچھے اعمال کو ختم کر دیتا ہے شراب خور اگر بغیر توبہ کے حج بیت اللہ جائے یا عمرہ کرے یا روزہ رکھے یا زکوٰۃ ادا کرے یا صدقہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادات کو قبول نہیں کرتا

یہ حدیث شریف ترمذی اور بخاری شریف میں موجود ہے اور ایک کتاب ہے انیس الواعظین اس میں فرماتے ہیں کہ الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب حسد اسی طرح نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے تو شرابی کے ساتھ مصافحہ جس نے کیا تو کیا نقصان ہے

زید کی تقریر کے بعد بکر اٹھا اور مائک لے کر بر سر عام بولنے لگا کہ زید نے جو حدیثیں بیان کیں وہ سرا سر غلط ہیں جب کہ کتابوں کا حوالہ بھی دیا گیا تو بکر نے غلط کہا ۔

زید ایک خانقاہی عالم ہے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا شیدائی ہے حضور والا سے التماس ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

المستفتی : محمد شبیر اشرف تیغی اشرفی قادری
تاج پور گنج پولٹا بیسی وابا دیال پور تھانہ جنتا بازار ضلع چھیرہ سارن بہار الہند
پن کوڈ ٨٤١٢٠٦
رابطہ نمبر

09199193836
7319966490
اسماے گواہان
۔۱ محمد شبلی رضا قادری
۔۲محمد شعبان رضوی قادری
۔ ۳عبدالنصیر رضوی قادری
۔ ٤ ۔محمد جنید عالم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک العزیز الوھاب اللھم هداية الحق والصواب
صورۃ مسئولہ میں زید نے میلاد شریف میں جو حدیث بیان کی ہے وہ صحیح ہے
بخاری شریف میں ہے: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه والہ سلم يسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير

(بخاری شریف باب یسلم الراکب علی الماشی ج ۲ ص ۹۲۱)

ترمذی شریف میں ہے: عن ابي هريرة عن النبي صلى الله تعالى عليه والہ وسلم قال يسلم الراكب على الماشي و الماشي على القاعد والقليل على الكثير

(ترمذی شریف باب ما جاء فی تسلیم الراکب علی الماشی حدیث نمبر ۲۷۰۳)
زید کا یہ کہنا کہ انیس الواعظین میں ہے : شراب خور کو سلام کرنے سے چالیس سال کے اچھے اعمال ختم ہو جائیں گے۔ (انیس الواعظین ص ۱۹٦)۔ 
تواس سے مراد زجرو توبیخ ہیں۔
شراب خور بغیر توبہ کے حج بیت اللہ یا عمرہ کرے یا روزہ رکھے یا زکوۃ و صدقہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادات کو قبول نہیں کرے گا قبول نہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ثواب سے محروم ہو سکتا ہے۔البتہ نماز ،حج ، روزہ ، زکوۃ کا فریضہ اس کے سرسے ساقط ہو جائے گا اگر شراب پینے سے سچی پکی توبہ کر لی تو پھر اس کے بعد جمیع عبادات قبول ہوں گی ۔ انیس الواعظین صفحہ ٢٤٦ پر یہ حدیث مذکور ہے

ابی داؤد شریف میں بھی یہ حدیث مذکور ہے: الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب  (سنن ابی داؤد شریف باب فی الحث علی ترک الغل و الحسد حدیث نمبر ٦٦٠٨ج٥ ص٢٦٦)۔ 

شرابی چوں کہ شرعی اعتبار سے فاسق و فاجر ہے اس وجہ سے اس کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔
بکر کایہ کہنا کہ جو حدیثیں زید نے بیان کی ہیں وہ سرا سر غلط ہیں۔ باالکل بد کام بد انجام ہے گویا بکر نے حدیث کا انکار کیا اگر وہ بیان کردہ حدیث متواتر ہے اور بکر اس کا منکر ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ۔ اس پر اعلانیہ توبہ و استغفار واجب ہے بیوی والا ہو تو نکاح جدید بمہر جدید کرے اور تجدید نکاح بھی کرے ۔ اگر وہ حدیث مشہور ہے تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ وہ گمراہ مسلمان ہے لہذا ان کلمات کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔

نورالانوار میں ہے : ولا يكفر جاحده بل يضلل على الاصح و قال الجصاص انه احد قسمي المتواتر فيفيد علم اليقين يكفر جاحده كالمتواتر(نورالانوار ص١٨١)۔

الحديقة الندية شرح الطريقة المحمدية میں ہے : ولا یکفر منكر الا حاد انما يكون مبتدعا لمخالفته لاهل السنه و الجماعة و يستحق اللعنة التي تلحق المخالفين ممن سلك غير سبيل المومنين ذكره البيضاوي فقد ثبت بالنص المتواتر من انكر فقد انكرا النص فيكفرو في الظهيرة فهو كافر في الصحيح  …اھ (حدیقہ ندیہ ج ۱ ص ۳۲۱)۔

بکر پر لازم ہے کہ آئندہ احتیاط سے کام لے اور ایسے شنیع الفاظ اپنی زبان پر لانے سے احتراز کرے اور اہل سنت و جماعت کی پیروی کو لازم اور واجب جانے ۔

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

سوال نمبر۲ حضرات مفتیان شرع متین سے گزارش ہے کہ ایک محلہ ہے اور اس محلے میں ایک دارالعلوم ہے اور مدرسین بھی ہیں اس علاقے میں سبھی حضرات سنی صحیح العقیدہ ہیں مگر چند حضرات جو سنیت کا دم بھرتے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کا نعرہ بھی لگاتے ہیں ۔

مگر اپنے بیٹوں کی شادیاں بدعقیدوں وہابیوں و دیوبندیوں کے گھروں میں کرتے ہیں موٹی رقم ملنے کی وجہ سے تو کیا ایسے لوگ سیدی اعلی حضرت اور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کا مرید کہلانے کے مستحق ہیں جب کہ مرشد کامل تاج الشریعہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ مرید کرتے وقت پابندیاں لگاتے تھے کہ بدعقیدوں سے الگ رہنا ہے ان کو سلام نہیں کرنا ہے اور نہ ہی ان کے گھر شادی کرنی ہے حرام حرام حرام ہے۔

یہ جملہ مرشد کامل نے کہا توان مذبذب لوگوں پر شرعی فتوی کیا ہے جو وہابیوں و دیوبندیوں کے گھر شادیاں کریں اور مل جل کر رہیں اور لوگوں کو دکھلانے کے واسطے قیام و سلام بھی کریں قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

الجواب بعون الملک العزیزالوھاب ۲۔

صورۃ مسئولہ میں حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اپنےمریدین سےوقت بیعت جو فرماتےتھے وہ حق اورعین مذہب اہل سنت کےمطابق ہے کیوں کہ دیابنہ وہابیہ اپنے کفریات قطعیہ مندرجہ حفظ الایمان صفحہ۸ تحذیرالناس صفحہ ١٢٨،١٤،٣اور براہین قاطعہ صفحہ ۵۱کے سبب بمطابق فتوی حسام الحرمین کافر و مرتد ہیں اور مرتد سے نکاح ہرگز جائز نہیں جب تک کہ وہ توبہ اور رجوع نہ کرلے
فتاوی عالمگیری جلد ۱ مطبوعہ مصر میں ہے
لا يجوز للمرتد ان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية و كذالك لا يجوز نكاح المرتدة مع احدا كذا في المبسوط یعنی مرتد کا نکاح مرتدہ ، مسلمہ اور کافرہ اصلیہ کسی سے جائز نہیں ایسے ہی مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح امام محمد علیہ الرحمہ کی کتاب مبسوط میں ہے

لہذا اگر زید وہابیوں کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرے تو جائز نہیں ہوگا ۔ مسلمانوں پر لازم ہے وہابیہ دیابنہ کے یہاں رشتہ اوران سے میل ملاپ کرنے سے سختی کے ساتھ بازرہیں اور جو لوگ محض دکھاوا کے لیے قیام و سلام کرتےہیں دراصل وہ اہل سنت و جماعت کو دھوکا دیتے ہیں

دیوبندیوں اور وہابیوں سے سلام و کلام اور میل میلاپ رکھنےکےسبب وہ فاسق معلن ہیں اسلام و سنیت کو سخت نقصان پہچانے والے ہیں مسلمانوں پر لازم ہےکہ ایسےلوگوں کوان کےاس عمل کریہہ سےمنع کریں اگر وہ لوگ نہ مانیں تو ان لوگوں سےجداہوجائیں

خدائے تعالی کا ارشاد ہے: واما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعد الذكري مع القوم الظالمين جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آنے پر ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھ (پارہ ۷ سورہ انعام آیت ٦٨)۔


واللہ تعالی اعلم باالصواب


سوال نمبر ۳
حضرات مفتیان شرع متین سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ابھی مارچ سے لےکر جولائی اگست تک لاک ڈاؤن لگا تھا
لاک ڈاؤن میں تروایح اور جمعۃ المبارکہ و عیدالفطر و عید الاضحیٰ کی نمازوں کی ادائیگی میں سخت دقتیں پیش آئیں ایک گاؤں ہے اس میں ایک مدرسہ ہے اس مدرسے کا موذن محلہ محلہ گھر گھر جا کر خبر کیا کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھر میں نمازیں ادا کر لیجیۓ اس لیے کہ دارالعلوم کی طرف سے یہ اجازت ملی ہے وہ موذن اس مسجد کا موذن ہے جو مسجد اور مدرسہ دونوں ایک ہی جگہ ہیں

لہذا سبھی حضرات حکومت کے خوف سے اپنے اپنے محلے میں ۵۰۔۱۰۰۔۲۰۰ ۔٤۰۰۔کی جماعت لے کر نمازیں ادا کئے جون مہینے میں لاک ڈاؤن میں کچھ تخفیف ہوئی تھی ۔ تو جمعۃ المبارکہ کی نماز پڑھنے کے واسطے لوگ گئے تو اس مدرسے کا مدرس جمعۃ المبارکہ کے موقعہ سے تقریر کیا کہ تین کلو میٹر تک جہاں جہاں مسجد ہے جو جو اپنے اپنے گھر میں اپنے اپنے محلے میں نمازیں ادا کئے ہیں وہ نمازیں حرام ہیں اور تین کلو میٹر تک جہاں جہاں جمعہ اور نمازیں ادا کئے ہیں وہ نمازیں حرام ہیں اور جس نے نماز پڑھایا اس کو ضلع بدر کیا جائے ضلع سے بھگا دیا جائے وہ اعلانیہ توبہ کرے تو کیا اس زید پر جس نے نمازوں کو حرام کہا اور ضلع بدر كے لیے کہا تو اس پر شرعی فتوی کیا ہے جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب ۳۔
صورۃ مسئولہ میں اگر زید نے اپنی تقریر میں یہ کہاکہ جتنی نمازیں گھر کے اندر یا محلے میں ادا کی گئی ہیں وہ سب حرام ہیں توگویا اس نے نماز کا انکار کیا اور نماز کا انکار کفر ہے اور کلمئہ کفر کا استعمال کرنا اگر چہ اس کا اعتقاد نہ رکھے کفر ہے اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ نماز کا انکار کفر ہے
(فتاوی رضویہ جلد ۴ ص ۱۳۴)
درالمختار مع شامی ج ۳ ص ۳۱ میں ہے من هزل بلفظ كفر ارتد و ان لم يعتقد للاستخفاف اھ

اور اسی طرح ردالمختار ج ۳ ص ۲۹۲ پر بحرالرائق سے ہے الی صل ان من تكلم بكلمة الكفر هازلا لا او لا عبا كفر عند الكل و لا اعتبار باعتقاد كما صرح به في الخانية اھ

لھذا زید کے لئے علانیہ توبہ و استغفار و تجدید نکاح کرنا ضرروی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو سارے مسلمان اس کے ساتھ کھانا ، پینا ، سلام ،کلام ، ترک کر دیں اور اس کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہ گار ہوں گے ۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے
اما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعد الذكرى مع القرم الظالمين (پارہ ۷ سورہ انعام آیت ۶۸)۔ 

واللہ تعالی اعلم باالصواب


سوال نمبر ۴۔

حضرات مفتیان شرع متین سے گزارش ہے کہ زید ایک مسجد کا امام ہے اور اپنی داڑھی میں کالا خضاب لگاتا ہے اور امامت بھی کرتا ہے تو کیا کالا خضاب لگانا جائز ہے زیدکی امامت صحیح و درست ہے اس کو امام بنایا جائے یا نہیں: قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

الجواب نمبر۴۔

سیاہ خضاب لگانا نا جائز و حرام ہے اس کو لگانے والا فاسق معلن ، مرتکب گناہ کبیرہ ہے
مسلم شریف میں ہے حضور صلی الله عليه والہ سلم ارشاد فرماتے ہیں ۔ غيروا هذا بشي واجتنبوا السواد یعنی اس سفیدی کو بدل دو اور سیاہی کے قریب نہ جاؤ (مسلم شریف ج۲ ص ۱۹۹)۔

ایک دوسری حدیث میں ہے
من اختضب بالسواد سود الله وجهه يوم القيامة جو سیاہ خضاب کرے اللہ تعالیٰ روز محشر اس کا منہ کالا کرے گا ۔ (مجمع الزوائد ج۵ ص ۱۶۳)۔ 
اس کے علاوہ بہت سی حدیثوں میں سیاہ خضاب لگانے پر وعیدیں آئی ہیں ۔

اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں
مذہب صحیح میں سیاہ خضاب حالت جہاد کے سوا مطلقا حرام ہے جس کی حرمت پر احادیث صحیحہ معتبرہ ناطق ہیں
۲ حک العیب فی حرمة تسويد الشيب
ایک جگہ فرماتے ہیں یہ حرام ہے جواز کا فتوی باطل و مردود ہے
(احکام شریعت ص ۷۲)

لہذا جو امام خضاب لگائے وہ فاسق معلن ہے اسے امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی ہے اور جو نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں ان کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے خواہ امامت کی اجرت لیتا ہو یانہ لیتا ہو ۔
غنیۃ میں ہے علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
لو قدموا فاسقا ياثمون بناء على ان الكراهية تقديمة كراهة تحريم لعدم اعتنائه بامور دينه  ..اھ (غنیۃ ص ۵۱۳)۔

درالمختار میں ہے کل صلاۃ ادیت مع کراھة تحريم تجب اعادتها…اھ

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

سوال نمبر ۵ ۔  زید ایک مدرسے کا مدرس ہے اور بکر بھی ایک عمردراز عالم ہے زید کی عمر ۲۵ برس ہے اور بکر کی عمر ۶۰ برس کی ہے بکر جب حق باتوں کو کہتا ہے اور شریعت مطہرہ کی باتوں کو صاف صاف کہتا ہے تو زید جو مدرسے کا مدرس ہے وہ اپنے تمام مقتدیوں کو اور کمیٹی والوں کو بیٹھا کر یہ قانون نافذ کرتا ہے کہ بکر کو سلام نہ کریں اور نہ ہی اس کو میلادوں کی دعوتیں دیں اس سے بالکل الگ رہیں جب کہ بکر عالم دین ہے ایک خانقاہی عالم ہے اور بکراعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ الله عليه کی باتوں کو کہتا ہے اور فتاوی رضوی کا حوالہ دےکر کہتا ہے

اور کہتا ہے کہ اعلی حضرت اور تاج الشریعہ علیہما الرحمہ کی ہدایتیں ہیں کہ وہابیوں دیوبندیوں بدعقیدوں کے گھر شادیاں نہ کریں اور نہ ہی ان کے جنازے میں جائیں تو زید جو مدرسے کا مدرس ہے تمام مقتدیوں میں اور علاقے و قرب جوار میں قانون پھیلا دیتا ہے کہ بکر بہت شریعت کی باتیں کرتا ہے اس کو سلام نہ کریں اس کو میلاد شریف کی دعوتیں نہ دیں زید نےاس طرح ایک بہت بڑا فتنہ پیدا کر دیا ہے اور گمراہی و مخالفت کی دیوار کھڑی کر دی ہے تو اس زید پر شرعی فتوی کیا ہے جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب نمبر ۵۔
الجواب بعون الوھاب
صورۃ مسئولہ میں اگر زید نے بکرکے مذکورۃالسوال اسباب کی بناء پرایسا کہا ہے اوربکر میں دوسری کوئی شرعی کمی نہیں ہے تو زید ایسا کہنے کے سبب سخت گناہ گار مستحق عذاب نار ، فاسق فاجر ہے
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ
فتاوی رضویہ جلد ۲۱صفحہ ۱۲۹ پر فرماتے ہیں ۔
اگر عالم کو اس لہے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کفر ہے اور اگر اپنی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے
اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے خواہ مخواہ بغض رکھنے والے کے کفر کا اندیشہ ہے
خلاصۃ میں ہے
من ابغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر یعنی جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے
لہذا زید سخت گنہگار مستحق عذاب نار لائق قہر قہار ہوا اس پر لازم ہے کہ اعلانیہ توبہ کرے اور بکر سے معافی مانگے

واللہ تعالی اعلم باالصواب


سوال نمبر ٦ ۔
حضرات مفتیان شرع متین سے گذارش ہے کہ زید ایک عالم ہے اور بکر بھی ایک عالم ہے زید کی عمر ٦٠برس ہے اور بکر کی عمر ۲۵ برس ہے زید نے اسلام کے تعلق سے چند حدیثیں سنائیں ایک میلاد شریف میں اور حسد کے تعلق سے اور سود کے تعلق سے بھی حدیثیں سنائیں اور حضور صلی الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ الحسد یاکل الحسنات کماتاکل النار الحطب حسد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اور زید نے یہ بھی کہا کہ شراب خور اگر بغیر توبہ مر جائے تو اس کا چہرہ قبلہ سے پھر جاتا ہے تو بکر اٹھ کر مائک لے کر بولنے لگا کہ زید نے جو حدیثیں سنائیں وہ حدیثیں غلط ہیں
ان حدیثوں کو غلط کہنےکے سبب بکر پر شرعی فتوی کیا ہے جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب نمبر ۶
الجواب بعون الوھاب
صورۃ مسئولہ میں جو سوال کیا گیا ہے اس کا جواب سوال نمبر ایک کے جواب میں دیا جا چکا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
سوال نمبر ۷
زید مسلک اعلی حضرت کے تعلق سے کہتا ہے تو لوگ زید کو برا کہتے ہیں اور زید سے لوگ قطع تعلق کرتے ہیں اور زید کی عمر۶۰ برس ہے زید ایک عالم دین ہے اگر زید عالم کو دیکھ کر جو تھوکے یا زید عالم دین شریعت کی باتیں کہےاس کو دیکھ کر جو لوگ منہ پھیر لیں بلاوجہ تو ان لوگوں پر شرعی فتوی کیا ہوگا جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

الجواب نمبر ۷
الجواب بعون الوھاب
صورۃ مسئولہ کا جواب سوال نمبر ۵ کے جواب میں دیا جا چکا ہے

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

سوال نمبر ۸
زید ایک میلاد شریف میں تقریر کیا ہے کہ یہ حدیث شریف ترمذی و بخاری میں موجود ہے اور ایک انیس الواعظین جو کتاب ہے اس میں بھی یہ حدیث شریف موجود ہے تو بکر کہتا ہے اور بکر کے تمام ماننے والے کہتےہیں کہ قرآن و حدیث سے یہ الگ کتاب ہے ان کتابوں کی کوئی وقعت نہیں ہے یہ تقریر کی کتاب ہے ان کتابوں کو میں نہیں مانتا جب کہ تمام کتابوں میں حضور سرورکائنات صلی الله عليه وسلم کی مقدس باتیں ہیں تو بکر پر ایسا بولنےکی وجہ سےکیا فتوی ہےاورجولوگ بکر کے کہنے کےسبب یہ کہیں کہ یہ کتاب ہم نہیں مانتے تو ان لوگوں پر شرعی فتوی کیا ہے جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

الجواب نمبر ۸
الجواب بعون الوھاب
صورۃ مسئولہ میں زید اور زید کے ماننے والے انیس الواعظین کتاب کو نہیں مانتے ہیں تو ان لوگوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہے
البتہ زید اور زید کے ماننے والے پر ضروری ہے کہ ائندہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں لیکن اگراس کتاب میں لکھی گئیں قرآنی آیات یااحادیث نبویہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوالگ نہ کرکےان کوبھی نہ ماننےکی بات کریں تویہ کفرصریح ہیےجس کےسبب سب پرتوبہ اور تجدیدایمان وتجدیدبیعت ونکاح لازم ہوگا

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب


سوال نمبر۹
زید ایک عالم دین ہے اور وہ شریعت مطہرہ کی باتوں کو کہے کہ یہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث شریف ہیں اس کو مانیں ان کی پیروی کریں ان سے محبت کریں تو بکر اور بکر کے ماننے  والے بلاوجہ الزام لگائیں تہمت لگائیں کہ زید نے اس طرح باتیں کہیں ہیں جب کہ زید ان کے باطل الزامات سے پاک ہے تو بلاوجہ زید پر جو تہمت لگاتے ہیں ان تہمت لگانے والے  پر شرعی  فتوی کیا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

الجواب نمبر ۱۰
الجواب بعون الوھاب

صورۃ مستفسرہ میں اگر بکریااس کےمعتقدین ایسا کرتے ہیں تو بکر اور اس کےان تمام معتقدین کی زید پر بے جا تہمت اور بہتان لگاناہیےجوکہ شرعا انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے
کنزالعمال میں ہے
عن علي قال البهتان على البراء اثقل من السموات الحكيم
حضرت مولائےکائنات سیدنا علی المرتضیٰ شیرخدافاتح خیبر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بہت بڑا گناہ ہے
(کنزالعمال ج۳ ص ۸۰۲)
اللہ تعالیٰ نے سورۃالاحزاب میں بے گناہ مومنین اور بے گناہ مومنات کو زبانی ایذا دینے والوں ۔یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیا ۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے
لاینبغی لصدیق ان یکون لعانا
مسلمان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو
(مشکوۃ المصابیح ج ۲ ص ٤١١)
صحیح بخاری میں ہے لا يرمي رجل رجلا بالفسوق و لا يرميه بالكفر الا ارتدت عليه ان لم يكن صاحبه كذلك صحيح البخاري باب ما ينهي عن السباب واللعن ج٢ص٨٩٣)۔ 

الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں
بکراور اس کےمتبعین کو چاہئےکہ اس عمل سے باز آئیں اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگیں تاکہ آخرت میں گرفت اورعذاب الٰہیہ سےمحفوظ رہیں

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب


سوال نمبر ۱۰
۔حضرات مفتیان شرع عظام سے گذارش ہے کہ زید ایک مسجد کا امام ہے اور جمعۃ المبارکہ کے موقعہ سے تقریر میں کہا کہ اعلی حضرت کوئی بڑے حضرت نہیں ہیں اعلی حضرت کوئی ولی نہیں ہیں وہ ایک عالم و مفتی ہیں یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ وہ چمک گئے
جو اعلی حضرت کو ولی نہ مانے اس پر شرعی فتوی کیا ہے جواب عنایت فرمائیں
نوٹ۔ تمام مقتدیان ایسی کفریہ باتوں کو سن کر خاموش ہیں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔

الجواب نمبر ۱۰
الجواب بعون الوھاب

صورۃ مسئولہ میں زید اگر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو ولی نہیں مانتا ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔
البتہ زید کو یہ چاہئے ائندہ ایسی باتوں سے اجتناب کرے جس سے امت مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ ہو ۔

نوٹ بکر کا یہ کہنا مقتدیان ایسی کفریہ باتوں کو سنکر خاموش ہیں یہ غلط ہے ۔ کیوں کہ اعلی حضرت کو ولی نہ ماننا یہ کفریہ جملہ نہیں ہے اگر زید اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو ولی نہیں مانتا تب بھی وہ مومن ہے ۔

لیکن اجتماع امت اور خوف فتنہ واختلاف کےسبب بکر پر ضروری ہے اپنے کہے ہوئے جملے سے رجوع کرلے

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

سوال نمبر ۱۱
 حضرات علماے دین و مفتیان شرع متین سے گذارش ہے کہ زید ایک میلاد شریف میں تقریر کیا کہ یہ بات سبھی حضرات کو معلوم ہے کہ ربیع النور شریف کے موقعہ سے یا ختنہ یا عقیقہ کے موقع سے یا کسی موقع سے بزم میلاد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محفلیں سجانا سنت الہیہ ہے

اور یہ بھی کہا کہ جب حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے فرشتوں کو جمع کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کا میلاد پڑھا یہ سنت الہیہ ہے اس تقریر کو سن کر بکر اٹھا اور مائک لے کر بولنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ غلط ہے تو حضرات مفتیان شرع متین سے مودبانہ گزارش ہے کہ ختنہ یا عقیقہ یا شادی وغیرہم کے موقعوں سے میلاد کی محفلیں سجانا کیا ہے سنت ہے کیا ہے زید کا کہنا صحیح ہے یا بکر کا کہنا صحیح ہے جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب نمبر ۱۱

الجواب بعون الوھاب

صورۃ مسئولہ میں زید نے حق کہا کہ تذکرہ میلاد پاک سنت الہیہ ہے اور سنت نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم وسنت صحابہ و تابعین و طریق جملہ مسلمین بھی ۔یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے اولوالامر کہا الراسخون فی العلم فرمایا ۔

ولادت رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے موقعہ پر محفل ذکر ولادت منعقد کرتے ہیں اور خوشی وعید مناتے رہے ہیں اور مسلمانان عالم میں یہ رائج عملِ مولود مقبول ہے

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قل بفضل الله و برحمته فبذالك فليفرحوا ھوخیرممایجمعون
فرمادیجئے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کےباعث ہیے (جوبعثت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےذریعہ تم پرہواہیے) پس مسلمانوں کوچاہئےکہ اس پرخوشیاں منائیں یہ اس سے کہیں بہترہےج سے وہ جمع کرتےہیں
(سورہ یونس آیت ۵۸)
دوسرے مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: واذکرو نعمة الله عليكم اور اللہ کی اس نعمت کویادکرو جواس نےتم پرکیا

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں حضور نعمۃ الله ہیں قرآن عظیم نے ان کا نام نعمۃ اللہ رکھا ان الذین بدلو نعمۃاللہ کفرا کی تفسیر میں سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں
نعمۃ  اللہ محمد ہیں ولہذا ان کی تشریف آوری کا تذکرہ امتثال (بمطابق ) امر الہی ہے

قال اللہ تعالیٰ: واما بنعمة ربك فحدث اور اپنے رب کی نعمت کاخوخوب جرچا کرو ۔

حضور ﷺ کی تشریف آوری سب نعمتوں سے اعلی نعمت ہے رب کی نعمتوں کا چرچا مجلس میلاد میں بھی ہوتا ہے مجلس مبارکہ مجمع المسلمین کو حضور اقدس کی تشریف آوری آپ کےفضائل جلیلہ اورکمالات جمیلہ کا ذکر سنانا ہے (المیلادالنبویہ فی الالفاظ الرضویہ)۔

حدیث شریف میں ہے ان رسول صلى الله عليه وسلم سئل عن صوم یوم الاثنین فقال فيه ولدت و فيه انزل علي

حضور اقدس صلی الله عليہ والہ وسلم سے دوشنبہ کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا کہ آپ دوشنبہ ہی کےدن روزہ کیوں رکھتےہیں تو آقاعلیہ السلام نے فرمایا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن میری طرف نزولِ وحی الہیہ کاسلسلہ شروع ہوا (مسلم شریف ج۱ ص۳۶۸)۔

مذکورہ بالا آیات و نصوص واثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی الله عليه والہ وسلم کے میلاد مبارکہ کا تذکرہ کرنا جائز و مستحسن ہے اور یہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے

لہٰذا ختنہ یا عقیقہ یا شادی وغیرھم کے موقع پر میلاد شریف کی محفل سجانا جائز و امر مستحسن اور باعث برکت ہے
اگر بکر نے ایسا کہا ہے تو اس کا اس طرح سے کہنا سراسر غلط ہے یہ وہابیت و دیوبندیت کی علامت ہےبکر پر ضروری ہے کہ اپنے قول سے رجوع کرے اور اس قول سے برآت کا اظہار کرکے توبہ واستغفار کرے اور ائندہ ایسی باتوں سے پرہیز کرے

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ: محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی

ان فتوؤں کو بھی پڑھیں

اچھا خطا کار کون ہیں؟

کیا کسی متواتر کے تواتر میں اختلاف ہے

کیا وتر کی نماز باجماعت مکروہ تحریمی ہے

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن