عطائے رسول ہند کے راجہ حضرت خواجہ، خواجۂٔ خواجگاں اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز سیدنا سرکار معین الدین حسن چشتی سنجری رحمۃ اللہ علیہ نے جب اجمیر کو اپنی قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا تو ہمارے ہندوستان کی دھرتی نہال ہوگئی ہدنوستان کے راجہ کی مختصر زندگی کا مطالعہ فرمائیں
اسلام کی صدا بہارصداقت کا روشن چہرہ
خواجہَ ہند وہ در بارہے اعلیٰ تیرا کبھی محروم نہیں ما نگنے والا تیرا
تجھ کوبغداد سے حاصل ہوئی وہ شانِ رفیع دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ تیرا
جب سے تونے قدمِ غوث لیا ہے سرپراولیاء سر پر قدم لیتے ہیں شاہا تیرا
محی دیں غوث ہیں اورخواجہ معین الدین ہے ائے حسن کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا
۔(مولاناحسن رضاخان بریلوی)۔
اولیاء کرام کا وُرود ِمسعود بیشتراُن ہی مقامات وعلاقوں میں ہوا کرتا ہے جہاں کفروشرک ، گمراہی،بدمذہبی، بے حیائی،دین حق سے دوری،سنت رسول ﷺ کے خلاف ورزی اورمعصیت عروج پرہوایسی جگہوں پراولیاء اللہ اپنے قدم رنجہ فرما کرلوگوں کے قلوب واذہان میں سنتِ رسول کوعام اورمحبتِ مصطفی ﷺ کاچراغ روشن کرتے ہیں اورکیوں نہ ہوں جبکہ ان کا مقصد زیست ہی یہی ہے،ان کی زندگی کامقصد الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی سلطان الہند،عطائے رسول ،نائب رسول اللہ فی الہند ،خواجہَ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن ،چشتی ،سنجری ، اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات بابرکات ہے ۔
سرکارغریب نوازموجودہ افغانستان میں قندھارسے جانب غرب میں خراسان کے ایک گاؤں سنجر میں رجب المرجب ۵۳۷ھ میں پردہَ عدم سے منصہ شہودپرجلوہ گرہوئے آپ نجیب الطرفین سیدہیں ۔ آپ کے والد ماجد کا اسم شریف حضرت غیاث الدین حسن ہے ۔ والدہَ محترمہ کانام بی بی اُم الورع ہے اوربی بی ماہ نورسے مشہورتھیں۔
اسی لئے آپ کا والد ماجد کی طرف سے سلسلہَ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اوروالدہ َ محترمہ کی طرف سے سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جاملتاہے ۔ آپ کے والد ماجد حضرت غیاث الدین علیہ الرحمہ انتہائی متورع اوریکتائے روزگارصوفی بزرگ تھے۔
اسی طرح والدہ محترمہ حضرت بی بی اُمُّ الوَرع بھی عبادت وریاضت،زہدوتقویٰ میں یکتائے روزگارتھیں ۔ ظاہرہے کہ والدین خدا ترس اورتقویٰ وطہارت کے دھنی ہوں گے تو بیٹا بھی ملکوتی صفات کا حامل ہوگا اوراس سے خیروبرکت کاہی ظہورہوگا۔
چناچہ آپ کی والدہ َماجدہ ایام حمل کے برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جس وقت میرانورنظر،لخت جگرمعین الدین میرے شکم میں آیا تومیراسارا گھرخیروبرکت سے بھرگیا،ہمارے دشمن بھی شفقت ومحبت سے پیش آنے لگے،کبھی کبھی مجھے بہترین خواب نظرآتے اورجس وقت میرے رب نے آپ کے جسم اطہر میں جان ڈالی تواس وقت سے معمول ہوگیا کہ آدھی رات سے صبح تک میرے شکم سے تسبیح وتہلیل کی آواز آتی تھی میں اس مبارک آواز میں گم ہوجایاکرتی تھی۔
اورجب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تومیرا گھرنورسے بھرگیا ۔ سبحان اللہ گویا سرکارغریب نوازرضی اللہ تعالیٰ عنہ مادرزادوَلی تھے جوشکمِ مادر سے ہی اپنی وِلایت کا اعلان کرتے ہوئے عالم وجود میں قدم رنجاہوئے ۔
آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ غیاث الدین چونکہ اپنے وقت کے رئیس اورصاحب ثروت تھے اس لئے آپ کی نشونما،دولت وثروت کے سائے میں ہوئی مگرتربیت کے لئے قدرت نے آپ کو ایسے ماں باپ کا آغوش عطا فرمایا تھا جس نے آپ کوبچپن کے نا مناسب عادات واطواراورلہولعب سے بازرکھا اوردولت کی فراوانی سے آپ کی طبیعت پرکوئی منفی اثرمرتب نہ ہوسکا ۔
جب آپ سن شعورکو پہنچے تووالدین کریمین نے آپ کے تعلیم کا آغاز کیا اورچونکہ آپ کے والد ماجد خود بھی ایک جیدعالم اورنکتہ سنج فقیہ تھے اس لئے تعلیم کی ابتداء خراسان ہی میں والد گرامی سے ہوئی۔
اورپھر۹سال کی قلیل مدت میں والدین کے زیرسایہ آپ نے ابتدائی تعلیم مکمل کرلی بعدہٗ خراسان ہی کے ایک مدرسہ میں داخل ہوکرتعلیمِ اعلیٰ کے حصول میں مصروف ہوئے اورخدادادقوتِ حافظہ کی بدولت پندرہ سال کے اندرجملہ مروجہ علوم کا احاطہ کرلیا ۔
آپ کی عمرشریف جب ۱۵ سال کی ہوئی تو والد ماجد کا وصال ہوگیا اورآپ سایہَ پدری سے محروم ہوگئے پدرِبزرگوارکے وصال پرملال کا آپ کے قلب اطہرپربڑا گہرا اَثر پڑا مگرآپ نے صبروشکرکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اورپائے استقلال میں لغزش تک نہ آنے دی انتہائی ضبط وتحمل کے ساتھ کاروان حیات کو آگے بڑھایا ۔۔
ترکہَ پدری سے ایک باغ اورایک پن چکی ملی تھی جسے آپ نے ذریعہَ معاش بنایا اوریوں اوقات گزربسرہونے لگی ابھی آپ ماہ وسال کے اسی فکرانگیز گردش میں تھے کہ والدہ َماجدہ کا بھی تارحیات ٹوٹ گیا اوروہ بھی واصل بحق ہوگئیں ۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
والدین کریمین کی مفارقت کے بعد سرکارغریب نوازاپنے موروثی باغ کی آمدنی سے زندگی گزارنے لگے ایک دن حسب معمول آپ اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے کہ ادھرسے ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی کا گزرہوا آپ نے ان کوباغ میں بلایا اورانتہائی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آئے،میٹھے انگورکا ایک خوشہ بھی لاکرپیش کیا۔
حضرت ابراہیم قندوزی نے آپ کی پیشانی پرچمکنے والے کوکبِ اقبال کوتاڑلیا کہ یہ سبزہ آغاز نوجوان جوآج پھل فروٹ کے باغ کی آبیاری ونگہبانی کررہاہے مستقبل میں گلستانِ اسلام کا محافظ ہوگا اوراسلام کی شجرہ َطیبہ کی آبیاری کرے گا۔
جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑانکالا اَوراُسے چبا کرآپ کے منہ میں ڈال دیاجسے نگلتے ہی آپ کے دل کی دنیا بدل گئی،باغ سے گھرواپس آئے توقلب اطہر میں ایک عجیب ہیجان اورمعرفت خداوندی کے حصول کی تڑپ تھی جس نے عیش وتنعم اورسکون وقرارکوچھین لیا،رات کسی طرح گزری صبح ہوتے ہی اُٹھے اوراپنی تمام املاک وجائداد فروخت کرکے فقراء ومساکین میں تقسیم کردیا اورپھرمعرفتِ الٰہی کے حصول کے لئے خراسان سے نکل پڑے۔
چنانچہ آپ نے تصوف میں قدم رکھنے سے پہلے علم شریعت سے آگاہی ناگزیرخیال کرتے ہوئے بخارا،سمرقندکی جانب رُخ کیا اورتقریبا۲۰سالوں تک حصول علم ِشریعت میں مصروف رہے یہاں تک کہ حدیث،فقہ،تفسیرواصول تفسیرکے ساتھ جملہ علوم مروجہ ومتداولہ میں مہارت تامہ حاصل کرلیا۔
آپ کے اساتذہ َ کرام میں حضرت مولاناحسام الدین بخاری اورصاحب شرع الاسلام مولاناشرف الدین جیسی نابغۂ روزگارہستیوں کے اسماء قابل ذکرہیں ۔
جب آپ علوم ظاہری کی تکمیل فرماچکے تو اپنی روحانیت کوجلا دینے اوراس میں نکھارپیدا کرنے کے لئے مرشد کامل کی تلاش میں نکلے اورحرمین شریفین ودیگرمقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے علاقہَ ’’ نیشاپور‘‘ میں ’’قصبہ ہارون‘‘ جا پہنچے ۔
جہاں اس دورکے قطب ارشاد،غواص بحر معرفت حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ مسند رُشد وہدایت پرجلوہ بارتھے اورآپ کے فیضان کا بادل نہ صرف قصبہَ ہارون بلکہ اطراف وجوانب میں بھی جھماجھم برس رہا تھا۔
سرکارغریب نوازرحمۃ اللہ علیہ بارگاہ عثمانی میں پہنچ کرشرفِ بیعت سے مشرف ہوگئے ۔ آپ کے پیرومرشدحضرت خواجہ عثمان ہارونی نے مرید کرنے کے بعد خواجہ غریب نواز کواپنی خدمت میں رکھ لیاسرکارغریب نواز قدس سرہ العزیز مکمل بیس سال مرشد گرامی کی معیت میں اس طرح گزاردیے کہ کبھی ایک گھڑی کے لئے بھی مرشد سے جدا نہیں ہوئے۔
مرشدطریقت جب بھی سفرپرروانہ ہوتے توآپ اُن کا بستراستراحت توشہ اوردیگراشیاء اپنے سرپرلادے ہوئے ہمراہ چلتے غرضیکہ آپ نے مرشدگرامی کی خدمت کے ایسے آداب بجالائے جس کی نظیرنہیں ملتی اسی خدمت گزاری کا یہ نتیجہ تھاکہ شیخ کی خاص نگاہ ِلطف وکرم کے سزاوارہوئے اور پھرتزکیہَ نفس کی جس منزل پرپہنچے وہ کسی عاقل سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے اپنے مرید صادق حضرت خواجہ غریب نواز کومسلسل بیس سال تک اپنی خدمت میں رکھ کرجب ولایت ومعرفت کے تمام منازل طے کرادیئے توایک سعید ساعت میں خلافت واجازت سے بھی نواز دیا ۔ آپ مرشد گرامی سے جدا ہوکرمشاہدہَ عالم واولیاء امت کی زیارت کی غرض سے سفر کا آغازفرمایا۔
اس سفر میں بہت سارے مقامات مثلا اوش، اصفہان، حرمین، طیبین، سمرقند، بخارا، بغدادشریف، جیل،ہمدان، تبریز، استرا آباد،حصار،بلخ،کرمان وغیرہ کی سیاحت فرمائی ۔
سرکارغریب نواز عالم رویا میں سرکارمدینہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے توحضورپاک ﷺ نے آپ کوایک ہی نظر میں شرق سے غرب تک ساراعالم دکھا دیا،جب آپ بیدار ہوئے توحکم نبوی ﷺ کی تکمیل میں ہندوستان کے لئے پابہ رکاب ہوئے پھربغدادشریف،بخارا،لاہورہوتے ہوئے دہلی پہنچے اوردہلی سے اجمیرکے لئے کوچ کیا ۔
امیجون کمپنی سے آن لائن خریدراری کریں
سرکارغریب نوازقدس سرہٗ نے اپنے تبلیغی مشن کا مرکزچونکہ دارالخیراجمیرشریف کوبنارکھا تھا اس لئے آپ نے زندگی کے بیشترلمحات اجمیرمقدس میں رہ کرخدمتِ دین متین میں صرف کیا اورپھراپنی بے لاگ کوششوں سے کفروضلالت کی تیرہ شبی میں حقانیت وصداقت کا وہ آفتاب طلوع کیا جس سے سارازمانہ منورودَرخشاں ہوگیا ۔
آپ کی خانقاہ سے رُشد وہدایت کے وہ چشمے پھوٹے جن سے کشمیرسے لے کرکنیا کماری تک اورمالابار کے ساحل سے لے کربنگال کی کھاڑی تک ہرخطہَ ہندوستان سیراب ہوگیا بلآخروصل حبیب کی گھڑیاں قریب آگئیں اورعشق ومحبوب کا سوزوساز بڑھ گیا حیات مستعارکے آخری لمحات موت کویاد کرنے اوراحباب کونصیحت کرنے میں صرف ہونے لگے۔
چنانچہ زندگی کے آخری ایام کی ایک مجلس کا ذکرکرتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بخیارکاکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:جمعرات کا دن تھا اوریہی آخری صحبت تھی اجمیرکی جامع مسجد(ڈھائی دن کاجھوپڑا) میں قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا اہل اللہ معززین اورعقیدت مند سبھی موجودتھے ملک الموت پربات چلی ارشادہوا ملک الموت کے بغیردنیا کی کیا قیمت ہے۔
لوگوں نے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہے ارشادہوا:حدیث پاک ہے ’’الموت جسریوصل الحبیب الی الحبیب– یعنی موت ایک پل ہے جودوست کودوست سے ملاتاہے‘‘ ۔ اسی موقع پرارشاد ہوا کہ: دوستیَ حق کے معنیٰ یہ ہیں کہ اسے دل سے یاد کیا جائے اس نے دل پیدا کئے ہیں تودل کے گرد طواف کیا جائے کیوں کہ محبت الٰہی کادستوریہی ہے ۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہوکرفرماتا ہے کہ جس وقت میراذکرتجھ پرغالب ہوجاتا ہے تو میں تیراعاشق ہوجاتا ہوں اورعشق سے مراد محبت ہے ۔
اسی نششت میں یہ بھی فرمایاکہ اللہ والے آفتاب کی طرح ہیں اُن کا نورتمام کائنات پرنظررکھتاہے اوراُنہیں کی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرہ ذرہ جگمگا رہا ہے ۔ حضرت خواجہ غریب نواز یہ فرما کررونے لگے کہ اس سرزمین پر مجھے جوپہنچایا گیا ہے تواس کی وجہ یہی ہے کہ یہیں میری قبربنے گی چند روزاورباقی ہیں پھرسفردرپیش ہے ۔
آپ نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنے خلفاء اورریاضت پسند مریدوں کی ایک متحرک وفعال ٹیم کواکناف ہند میں پھیلا دیا ان خلفاء ومریدین میں جس نے جدھرکارُخ کیا ادھرسے جہالت کی تاریکیاں کافورہوتی چلی گئیں اورپھران خلفاء نے بھی اپنی مساعیَ جمیلہ سے رُشد وہدایت کے ایسے ایسے ماہ نجوم پیدا کئے جن کے ذریعہ ہندوستان کاچپہ چپہ چشتی فیضان میں نہانے لگاوہ چاہے۔
حضرت فخرالدین گنج شکرہوں۔ یا محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء، مخدوم حضرت عبدالحق رودولوی ، ہوں یا حضرت مخدوم سمنان کچھوچھوی، شاہ مینا لکھنوی ہوں یا حاجی وارث علی شاہ یہ سب اپنے عہد میں اُفق ولایت پرشمس وقمربن چمکے اورسبھی بالواسطہ یا بلاواسطہ سرکارغریب نوازکی بارگاہ کے خوشہ چیں ہیں اورسبھوں کا قبلہ نما اجمیرمقدس ہے ۔
عطائے رسول سرکارغریب نوازاگرچہ بظاہرنہ کسی سلطنت کے فرما روا تھے نہ جاہ وحشم کے مالک تھے محٖض بے سروسامانی آپ کا سرمایہَ زندگی اورالفقرفخریتاج شاہانہ تھا، لیکن گدڑی میں لعل کے مصداق تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کووہ بلند مقام عطا فرمایا تھا جس میں آپ منفردالمثال تھے ،اگرایک طرف سلاطین زمانہ آپ کے قدم ناز پرسرِنیازخم کرنے میں فرحت وانبساط کی لہرمحسوس کرتے ،تودوسری طرف اَکابراولیاء خاکِ درِخواجہ کوسرمہَ بصیرت اورتاج عزت تصورکرتے۔
اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت تحریر ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی
غرض کہ امیرہ ویاغریب بادشاہ ہویاگداگرباطنی تصرف رکھنے والے اولیاء کاملین ہوں یا ظاہری جاہ وجلال رکھنے والے اہل اقتدارسبھی آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکرقلبی سکون حاصل کرتے رہے اورآپ کا چشمہَ فیضان سبھوں کوسیراب کرتارہا ۔
آپ نے اجمیرمقدس میں چالیس سال تک خدمت دین متین کافریضہ انجام دیا اورپھر 97 سال کی عمر میں 6 رجب المرجب ۳۳۶ھ مطابق ۶۱مارچ1236ء دوشنبہ کی شب میں اس دارفانی سے رحلت فرماگئے ۔
بعد وصال لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی جبین مبارک پریہ غیبی تحریرمنقول ہے”ھذاحبیب اللّٰہ مات فی حب اللّٰہ ” آپ کے دست حق پرسست پرتقریبا90 لاکھ سے زائد لوگوں نے اسلام کوقبول کیا ۔
نمازجنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت خواجہ فخرالدین چشتی نے پڑھائی اوراسی حجرہ میں آپ مدفون ہوئے جس میں آپ کاوصال ہواتھا ۔ (سیرت خواجہ غریب نواز،انیس الارواح)۔
اورآج بلا فرق مذہب وملت لوگ آپ کی بارگاہ ولایت میں حاضری دیتے ہیں اوراپنی منتیں ومرادیں مانگتے ہیں اوراپنی جھولیا بھرکرواپس لوٹتے ہیں ۔ بارگاہ رب العزت میں دعا گو ہوں کہ تا قیامت آپ کا فیضان مسلمانان عالم پرجاری وساری فرما ۔ آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ ۔
محمد صدرِعالم قادری مصباحی
امام روشن مسجد،میسورروڈ،بنگلور
09108254080
Masha allah nice lines about the king of India hazrat Khawaja Ajmer super and what a greatness and stupendous and Beautiness in this topic nice and thanks to send like these good speechs about grateful personality and about nearst of allha