حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف
تحریر: محمد افسر علوی قادری چشتی
دنیا میں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتا رہے گا۔ اب تک نہ معلوم کتنے افراد و انسان اس دنیا میں آئے اور چلے گئے مگر تاریخ انسانیت کا نادر نمونہ بننے کی سعادتیں ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتیں۔ کچھ خوش نصیب ایسے بھی اس دنیا میں آئے جو کہنے کو تو دنیا سے چلے گئے
مگر احساس کی دولت اگر سماج کے پاس موجود ہو تو ان جانے والے لوگوں کو سماج اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ انہی جانے والوں میں ایک شخصیت صدر الشریعہ بدر الطریقة محسنِ اہلسنت، خلیفہ اعلی حضرت، مصنفِ بہارِ شریعت حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی تھی جو ہماری نظروں سے تو اوجھل ہوگئے
مگر ان کی رہبرانہ قیادت ہماری زندگی اور بندگی میں ایک فعال قائد کی حیثیت سے آج بھی مشعل راہ بنی ہوئی ہے۔ اور بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں، بالخصوص اہل علم کے یہاں آپ کا نام محتاج تعارف نہیں۔ آپ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے مشہور و معروف خلفاء میں سے ہیں۔
ولادت با سعادت :- آپ کی ولادت مشرقی یوپی کے مشہور و معروف قصبہ مدینة العلماء گھوسی قدیم ضلع اعظم گڈھ اور حال ضلع مئو میں 1300 ہجری مطابق 1882 عیسوی میں ہوئی۔
سلسلہ نسب :- علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی بن مولانا حکیم جمال الدین بن مولانا خدا بخش بن مولانا خیرالدین رحمہم اللہ تعالی۔
القاب :- صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، فقیہ اعظم ہند، محسن اہلسنت وغیرہ
تعلیم :- آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد حضرت مولانا خدا بخش علیہ الرحمہ سے حاصل کی، پھر اعلی تعلیم کے لیے “مدرسہ حنفیہ جونپور” تشریف لے گئے اور یہیں آپ نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی بعد ازاں علم حدیث میں مہارت و رسوخ کے لیے آپ مدرسة الحدیث پیلی بھیت شریف تشریف لائے
اور وہیں پر استاذ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ سے دوره حدیث کی تکمیل کی۔ حضرت علامہ محدث سورتی علیہ الرحمہ نے اپنے ہونہار شاگرد کی عبقری (یعنی اعلی) صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: ” مجھ سے اگر کسی نے پڑھا تو امجد علی نے”
حیرت انگیز قوت حافظہ حضور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کا حافظہ بہت مضبوط تھا۔ حافظہ کی قوت، شوق و محنت اور ذہانت کی وجہ سے وجہ سے تمام طلبہ سے بہتر سمجھے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے۔
تین مرتبہ کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو یاد ہوجاتی۔ ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ “کافیہ” کی عبادت زبانی یاد کی جائے تو فائدہ ہوگا تو پوری کتاب ایک ہی دن میں یاد کرلی۔
درس و تدریس :- تدریس کے لیے سب سے پہلے آپ کا تقرر ” مدرسہ اہلسنت” پٹنہ میں بحیثیت صدر مدرس ہوا بعد ازاں اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قدس سرہ نے مدرسہ منظر اسلام کی تعلیمی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ فتوی نویسی، پارسلوں کی ترسیل پریس کی دیکھ بھال تصحیح کتابت وغیرہ جیسی اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد کیں۔
آپ نے تقریبا پندرہ (15) سال تک یہ ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دیں۔ پھر آپ بحیثیت صدر مدرس دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے اور وہاں آپ کا قیام تقریبا سترہ (17) سال رہا۔
اور آپ دوبارہ پھر بریلی شریف تشریف لائے اور تین سال تک درس و تدریس و فتوی نویسی کی خدمت انجام دیں۔ پھر آپ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں علی گڑھ تشریف لے گئے اس طرح آپ نے ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
تصنیفات :- یوں تو آپ جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ رکھتے تھے مگر فقہ و تفقہہ میں آپ کو زیادہ مہارت تامہ حاصل تھا۔ خود مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے فرمایا کہ تفقہہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی میں زیادہ پائیے گا۔ آپ کی فقہی ذہانت کی وجہ تھی کہ امام احمد رضا نے آپ کو تنہا پورے ملک کا قاضی مقرر کیا تھا۔
بہرحال فقہ میں آپ نے “بہار شریعت” جیسی عظیم کتاب تصنیف فرمائی، جس سے آج نہ جانے کتنے علما و حفاظ و عوام فیض حاصل کر رہے ہیں۔ اور آپ کے فتاوے کا مجموعہ بنام “فتاوی امجدیہ” چاروں جلدوں میں شائع ہوا۔ اور علم حدیث میں آپ نے “حاشیہ طحاوی شریف ” تحریر فرمایا۔ “التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل”۔ “اتمام حجت تامہ” (گاندھی نواز سیاسی قائدین پر تنقید) “قامع الواہیات من جامع الجزئیات” “اردو کا قاعدہ” (بچوں کے لیے، بے جان اشیاء کی تصویروں والا قاعدہ) “اسلامی اخلاق و آداب” وغیرہ ہے۔
تقوی :- عالم اگر اپنے حاصل کردہ علم پر عامل نہ ہو تو علم بجائے رحمت کے زحمت بن جاتا ہے۔ حضور صدرالشریعہ ایک باعمل عالم تھے۔ آپ کے اخلاق و عادات قرآن و حدیث کی تعلیمات کے عین مطابق تھے۔
آپ شریعت کی مخالفت سے بچنے اور سنت کی پابندی کرنے کی ہمہ وقت کوشش فرماتے۔ علمی مہارت کے ساتھ ساتھ تقوی و پرہیزگاری آپ کا طرہ امتیاز تھا۔
نماز و روزہ کی پابندی کا حال یہ تھا کہ اگر آپ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجاتے جب بھی نماز و روزہ قضا نہ فرماتے۔ زکوة پوری پابندی کے ساتھ ہر سال ادا فرماتے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کا بھی خاص خیال فرماتے۔
وصال :- حضور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کا وصال 2/ ذی قعدہ 1367 ہجری بمطابق 6/ ستمبر 1948 عیسوی کو ہوا۔ آپ کا مزار شریف قصبہ گھوسی، ضلع مئو (اعظم گڑھ سابقاً) اترپردیش یوپی انڈیا میں ہے اور آج بھی زیارت گاہ عام و خاص ہے۔
ابر رحمت تیری مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز بر داری کرے
ماخذومراجع : حیات صدرالشریعہ، سیرت صدرالشریعہ، تذکرہء صدرالشریعہ، فیضان صدر الشریعہ۔
از قلم : نبیرۂ شعیب الاولیاء و مظہر شعیب الاولیا محمد افسر علوی قادری چشتی خانقاہ یارعلویہ
براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر یوپی انڈیا
7081182040
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔