Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتکفر فقہی کے اقسام و احکام

کفر فقہی کے اقسام و احکام

از قلم: طارق انور مصباحی کفر فقہی کے اقسام و احکام قسط اول

کفر فقہی کے اقسام و احکام

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفر کلامی سے متعلق تفصیلی مباحث ماقبل کے مضامین میں مرقوم ہوئے۔حالیہ مضامین میں کفر فقہی کے اقسام واحکام مرقوم ہیں۔قارئین کو حسب ضرورت سوال کا اختیار ہے۔ہمارے تفصیلی دلائل ”البرکات النبویہ“میں مرقوم ہیں۔مضامین میں محض بعض مفاہیم کی توضیح وتشریح کی جاتی ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے بہت سے کلامی فتاویٰ اور کلامی رسائل مفقود ہیں۔ان کی بھی تلاش وجستجو کی جائے۔وہ عظیم متکلم اسلام تھے۔ کفر کی دوقسمیں ہیں:کفر متعین اور کفر محتمل۔کفر متعین کا نام کفر کلامی ہے۔ اس کوکفر التزامی بھی کہا جاتا ہے۔کفر محتمل کا نام کفر فقہی ہے۔اس کوکفر لزومی بھی کہا جاتا ہے۔

کفر فقہی یعنی کفر لزومی کی تین قسمیں ہیں:کفر فقہی قطعی،کفر فقہی ظنی،کفر محتمل۔

اسلاف کرام کی کتابوں میں کفر فقہی کی تینوں قسموں کے احکام مرقوم ہیں ۔

(1) ضروری دینی کا مفسر انکارکفر کلامی ہے۔اس کو کفر متعین اور کفر التزامی بھی کہا جاتا ہے۔ایسے کافر کے لیے ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال ہوتا ہے۔

بلفظ دیگر:ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاخص انکار ہو۔عدم انکار کا احتمال بلادلیل (احتمال بعید)بھی نہ ہوتو یہ کفر کلامی ہے۔متکلمین وفقہا ایسے منکر کو کا فر مانتے ہیں۔ کفر کلامی میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔یہ کفر قطعی بالمعنی الاخص ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہیں۔یہ ضروریات دین کی قسم دوم ہے۔

عہد ماضی میں ضروریات اہل سنت کی اصطلاح مروج نہ تھی۔اسے ضروریات دین کی قسم دوم کہا جاتا تھا۔فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین ضروریات اہل سنت کے منکر پر بھی حکم کفر عائد کرتے ہیں۔متکلمین اور دیگر فقہائے کرام ضروریات اہل سنت کے انکار پر حکم ضلالت عائد کرتے ہیں۔خواہ انکار قطعی بالمعنی الاخص ہو، یا قطعی بالمعنی الاعم۔

(2) ضروری دینی کا بطریق نص انکار کفر فقہی قطعی ہے۔ اس کوکفر متبین کہا جاتا ہے۔فقہا کی اصطلاح میں کفر فقہی قطعی،کفر التزامی ہے۔فقہائے کرام ایسے کافر کے لیے ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال کرتے ہیں۔

بلفظ دیگر:ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاعم انکار ہو۔عدم انکار کا احتمال بلا دلیل (احتمال بعید)موجود ہوتو یہ کفر فقہی قطعی ہے۔فقہا ایسے منکر کو کافر فقہی کہتے ہیں۔متکلمین اسی کفر فقہی قطعی کو ضلالت سے تعبیر کرتے ہیں اور مجرم کو گمراہ کہتے ہیں۔یہ محض اصطلاح وتعبیرکا فرق ہے۔معنوی فرق نہیں۔فقہا کافر فقہی کے لیے کافر کلامی کا حکم ثابت نہیں مانتے۔ کفر فقہی قطعی میں اجتہادجاری نہیں ہوتا۔یہ کفر قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔

(3) ضروری دینی کا ظنی انکار کفر فقہی ظنی ہے۔ اس میں فقہاکا اختلاف ہوتا ہے۔ اس میں کفر راجح ہوتا ہے،اورعدم کفر مرجوح ہوتا ہے۔جن فقہا کے یہاں عدم کفر راجح ہوتا ہے،وہ اسے کفرنہیں مانتے ہیں۔اس کفر میں اجتہادجاری ہوتا ہے،اسی لیے اس میں فقہائے کرام کااختلاف ہوتا ہے۔

(4) کسی کلام میں کفر مرجوح ہو۔ عدم کفر راجح ہوتو اسے اصطلاح میں کفر محتمل کہا جاتا ہے۔ احتمال جس قدر ضعیف ومرجوح ہوگا،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوگی۔کبھی حرمت وعدم جواز کا حکم ہوگا۔ کبھی اسائت وخلاف اولیٰ کا حکم ہوگا۔کفر فقہی کی تینوں قسمیں کفر محتمل ہی ہیں،لیکن اصطلاح میں اسی آخری قسم کو کفر محتمل کہا جاتا ہے۔

کفرفقہی کی قسم اول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ قسم دوم وقسم سوم کی تفصیل قسط مابعد میں مرقوم ہوگی۔ کفر فقہی سے متعلق دیگر معلومات بھی مندرج ہوں گی۔

قسم اول: کفر فقہی قطعی کی تفصیل :

اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی قطعی کا حکم ہے۔کفر فقہی قطعی کو متکلمین ضلالت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ محض لفظی اور تعبیری اختلاف ہے۔کفر فقہی قطعی میں عدم کفر کا احتمال بعید ہوتا ہے۔فقہائے کرام احتمال بعید کو قبول نہیں کرتے،اس لیے وہ حکم کفر عائد کرتے ہیں۔

متکلمین احتمال بعید کو قبول کرتے ہیں،اس لیے وہ مجرم کو کافر نہیں کہتے، کیوں کہ متکلمین کی اصلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال بعیدبھی نہ ہو۔کفر فقہی قطعی میں عدم کفر کا احتمال بعید موجودہوتا ہے۔چوں کہ احتمال بعید پر کوئی دلیل نہیں ہوتی،اس لیے متکلمین ضلالت شدیدہ کا حکم عائد کرتے ہیں۔

ضلالت کے مختلف درجات ہیں۔ اسماعیل دہلوی کے کلام میں کفر فقہی قطعی پایا جاتا ہے،اسی لیے مذہب فقہا کے اعتبار سے اسے کافرکہا جائے گا،اور ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا استعمال بھی ہوگا،یعنی اسے کافرفقہی نہ ماننے والا بھی کافر فقہی ہے۔متکلمین دہلوی کو گمراہ کہیں گے،اورجو اسے گمراہ نہ مانے،اسے بھی گمراہ کہیں گے۔

جب کفر فقہی قطعی میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا توکوئی متکلم یا مجتہد اپنی تحقیق واجتہادکے ذریعہ اس کفرکا مطلق انکار نہیں کرسکتا۔متکلمین کا اختلاف محض تعبیری اور لفظی اختلا ف ہوتا ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔ فقہاکی اصلاح میں کافر وہ ہے جس کے ایمان کا احتمال قریب نہ ہو۔ جس کے ایمان کا احتمال بعید ہو، وہ بھی فقہا کی اصطلاح میں کافر ہے۔اسی طرح جس کے ایمان کا بالکل کوئی احتمال ہی نہ ہو، وہ بھی فقہا کی اصطلاح میں کافر ہے۔

حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیزنے اسماعیل دہلوی کے بارے میں رقم فرمایا:””وجواب سوال سوم ایں است کہ: قائل ایں کلام لا طائل ازروئے شرع مبین بلاشبہ کافر وبے دین است۔ہر گز مومن ومسلمان نیست، وحکم اُو شرعاً قتل وتکفیر است، وہر کہ در کفر اُو شک آرد، یا تردد دارد، یا ایں استخفاف راسہل انگارد،کافر وبے دین ونا مسلمان ولعین است“۔ (تحقیق الفتویٰ قلمی نسخہ:سیف الجبار ص88-مطبوعہ کانپور)

کفر فقہی قطعی اورمتکلمین

امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”طوائف مذکورین وہابیہ ونیچریہ وقادیانیہ وغیر مقلدین ودیوبندیہ وچکڑالویہ خذلہم اللہ تعالیٰ اجمعین ان آیات کریمہ کے مصداق بالیقین اورقطعا یقینا کفار مرتدین ہیں۔ان میں ایک آدھ اگر چہ کافر فقہی تھا، اورصدہا کفر اس پر لازم تھے،جیسے ۲/ والا دہلوی، مگر اب اتباع واذناب میں اصلاً کوئی ایسا نہیں،جوقطعا یقینا اجماعا کافر کلامی نہ ہو،ایسا کہ من شک فی کفرہ فقد کفر،جو ان کے اقوال ملعونہ پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر ہے“۔(فتاویٰ رضویہ جلدششم:ص90-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح: مذکورہ بالا عبارت میں امام احمدرضا قادری نے صراحت فرمائی کہ اسماعیل دہلوی کافر فقہی ہے۔الملفوظ کی عبارت سے بھی یہی واضح ہے کہ اسماعیل دہلوی کافر فقہی ہے اور چوں کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے،اس لیے آپ نے اسماعیل دہلوی کو گمراہ کہا،کیوں کہ متکلمین اپنی اصطلاح میں کافر فقہی قطعی کوگمراہ کہتے ہیں۔ آپ نے دہلوی کے کافر کلامی ہونے کا انکار کیا،کیوں کہ وہ کافر کلامی نہیں۔

آپ نے اسماعیل دہلوی کے گمراہ ہونے کی صراحت فرمائی۔ گمراہ ماننے کا مفہوم یہ ہواکہ آپ نے اسماعیل دہلوی کے کفر فقہی قطعی کو تسلیم فرما یا،اور متکلمین کی اصطلاح کے مطابق اسے گمراہ کہا،کیوں کہ متکلمین کافر فقہی قطعی کو اپنی اصطلاح میں گمراہ کہتے ہیں۔ اسماعیل دہلوی کے بارے میں فتاویٰ رضویہ کا ایک سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے۔

مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جوشخص اسمٰعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان کو حق جانتا ہو،اُس کے پیچھے نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ بینواتوجروا

الجواب: اگر اس کے ضلالت وکفریات پرآگاہی ہو کر اُسے اہل حق جانتا ہو تو خود اُس کی مثل گمراہ بددین ہے،اور اُس کے پیچھے نماز کی اجازت نہیں۔اگر نادانستہ پڑھ لی ہو تو جب اطلاع ہو،اعادہ واجب ہے:کما ھوالحکم فی سائر اعداء الدین من المبتدعین الفسقۃ المرتدۃ المفسدین۔اوراگرآگاہ نہیں تو اُسے اس کے اقوال ضالہ دکھائے جائیں۔ اس کی گمراہی بتائی جائے۔رسالہ: الکوکبۃ الشہابیۃ بطورنمونہ مطالعہ کرایاجائے۔

اگر اب بعد اطلاع بھی اُسے اہل حق کہے تووہی حکم ہے، اور اگر توفیق پائے حق کی طرف،فاخوانکم فی الدین-واللّٰہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم-وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(فتاویٰ رضویہ:جلدسوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)

امام احمد رضا قادری نے اسماعیل دہلوی کے کافر فقہی ہونے کی تفصیلی بحث اپنے رسالہ:الکوکبۃ الشہابیہ اور سل السیوف الہندیہ میں رقم فرمائی ہے۔ان دونوں رسالوں میں آپ نے اسماعیل دہلوی کے کافر کلامی ہونے کا انکار کیا،اور کافرفقہی ہونے کا اقرار کیا۔ ان دونوں رسالوں کے علاوہ بھی اپنے فتاویٰ میں اسماعیل دہلوی کے کافر فقہی ہونے کا اقرار فرمایا۔

امام احمدرضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی کے بارے میں رقم فرمایا کہ جو اس کی ضلالت وکفریات فقہیہ سے واقف ہوکر بھی اسے گمراہ نہ مانے،تووہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔ متکلمین کافر فقہی قطعی کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز باب تکفیر میں مذہب متکلمین پرتھے۔

کفرفقہی کے اقسام واحکام

کفر فقہی کی قسم اول:کفر فقہی قطعی کی توضیح وتشریح قسط اول میں مرقوم ہوئی۔قسط دوم میں کفرفقہی کی قسم دوم:کفر فقہی ظنی کی تفصیل مرقوم ہے۔دیگر امور کا بھی اجمالی تذکرہ ہے۔

1 باب تکفیر میں دومذہب ہیں:مذہب متکلمین اور مذہب فقہا۔

2 تکفیرکے دونوں طریقے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہیں۔اس کی تفصیلی بحث،البرکات:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل سوم میں ہے۔

3 باب اعتقادیات میں اہل سنت وجماعت کے دو طبقے ہیں:ماتریدیہ واشعریہ۔

امام اہل سنت حضرت ابومنصور ماتریدی (238-333ھ)باب فقہیات میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔ امام اہل سنت حضرت ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (260-324ھ)باب فقہیات میں حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔اس کی تفصیل:البرکات:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔

قال السید مرتضٰی الحسینی البلکرامی:(ہذہ المسائل التی تلقاہا الامامان الاشعری والماتریدی ہی اصول الائمۃ رحمہم اللّٰہ تَعَالٰی فالاشعری بَنٰی کُتُبَہ عَلٰی مسائل من مذہب الامامین مالک والشافعی- اخذ ذٰلک بوسائط فَاَیَّدَہَا وَہَذَّبَہَا-والماتریدی کذلک اَخَذَہَا من نصوص الامام ابی حنیفۃ وہی فی خمسۃ کُتُبٍ(۱)الفقہ الاکبر (۲) والرسالۃ(۳) والفقہ الا بسط(۴)و کتاب العلم والمتعلم(۵)والوصیۃ) (اتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء علوم الدین جلددوم:ص13)

4 حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما باب تکفیر میں اسی مذہب پر تھے،جس کو آج مذہب متکلمین کہا جاتا ہے،یعنی امام ماتریدی وامام اشعری اور دیگر متکلمین اسلام نے باب تکفیر میں مذکورہ مجتہدین اسلام کے طریق کارکو اختیار فرمایا۔ اس کی تفصیل:البرکات النبویہ:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔

قال الامام ابن الہمام الحنفی:(اِنَّ الحُکمَ بِکُفرِ مَن ذَکَرنَا مِن اَہلِ الاہواء-مَعَ مَا ثَبَتَ عَن اَبِی حنیفۃ والشافعی رحمہم اللّٰہ من عدم تکفیر اہل القبلۃ من المبتدعۃ کلہم-محملہ ان ذلک المعتقد نفسہ کُفرٌ- فَالقَاءِلُ بِہٖ قَاءِلٌ بِمَا ہُوَ کُفرٌ-وَاِن لَم یُکَفَّر بِنَاءً عَلٰی کَونِ قَولہ ذلک عن استفراغ وسعہ مُجتَہِدًا فی طلب الحق)(فتح القدیر جلداول:ص304)

5 باب تکفیر میں تقلید کا حکم نہیں۔باب فقہیات کے ظنی واجتہادی امور میں تقلید شخصی واجب ہے۔باب تکفیرمیں مذہب متکلمین ومذہب فقہا میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔اس کی بحث،البرکات النبویہ:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل اول میں ہے۔

6 فقہائے احناف اوران کے مؤیدین ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت کے انکار پر بھی حکم کفرعائد کرتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔آپ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے،حالاں کہ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔متکلمین ضروریات اہل سنت کے منکر کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔

معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے،اس سبب سے ان لوگوں پر کفر فقہی کا حکم عائدکیا گیا۔ حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عہد کے بہت سے فقہائے اسلام وعلمائے اہل سنت نے خلق قرآن کے قائلین کو کافر قرار دیا۔ کافرفقہی کے لیے ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے تھے۔ہمارے رسالہ: مناظراتی مباحث اورعقائد ونظریات:بحث دوم:فصل دوم میں تفصیل ہے۔

(الف)امام احمد بن حنبل نے نقل فرمایا:(قال ابوبکر بن عیاش:۔ من قال:القرآن مخلوق فہوکافر-ومن شک فی کفرہ فہوکافر) (الورع للامام احمد بن حنبل:جلد اول ص88-مکتبہ شاملہ)

(ب)امام مسددبن مسرہد بصری نے معتزلہ،جہمیہ وغیرہ کے فتنوں کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چند سوالات کیے۔امام احمدبن حنبل نے جواب میں ایک رسالہ تصنیف فرمایاجو”العقیدہ“کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے رقم فرمایا:۔

(وآمرکم أن لا تؤثروا علی القرآن شیئا-فإنہ کلام اللّٰہ وما تکلم اللّٰہ بہ فلیس بمخلوق-وما أخبر بہ عن القرون الماضیۃ فلیس بمخلوق- وما فی اللوح المحفوظ وما فی المصحف وتلاوۃ الناس وکیفما وصف فہو کلام اللّٰہ غیر مخلوق-فمن قال مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم-ومن لم یکفرہ فہو کافر) (العثیدۃ للامام احمدبن حنبل -روایت محدث خلال حنبلی-ص60-مکتبہ شاملہ)

۔-7ضروریات اہل سنت کے منکر کی تکفیر کا مسئلہ بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہے۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص امور ہیں اور ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم امور ہیں۔دونوں قطعیات میں سے ہیں۔

قال الامام احمد رضا القادری:(وَقَد تَوَاتَرَعن الصحابۃ والتابعین العظام والمجتہدین الاعلام علیہم الرضوان التام-اِکفَارُ القَاءِلِ بِخَلق الکلام کَمَا نَقَلنَا نُصُوصًا کَثِیرًامنہم فی(سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح)وَہُمُ القُدوَۃُ لِلفُقَہَاءِ الکِرَامِ فِی اِکفَارِکُلِّ مَن اَنکَرَ قَطعِیًّا- وَالمُتَکَلِّمُونَ خَصُّوہُ بالضروری-وہوالاحوط) (المعتمد المستند: ص50)

قسم دوم: کفر فقہی ظنی کی تفصیل

ضروری دینی کا ظنی انکار کفر فقہی ظنی ہے۔ اس میں فقہاکا اختلاف ہوتا ہے۔ اس میں کفر راجح ہوتا ہے،اورعدم کفر مرجوح ہوتا ہے۔جن فقہا کے یہاں عدم کفر راجح ہوتا ہے،وہ اسے کفرنہیں مانتے ہیں۔اس کفر میں اجتہادجاری ہوتا ہے،اسی لیے اس میں فقہائے کرام کاباہمی اختلاف بھی ہوتا ہے۔یہ فقہا کے یہاں بھی کفر لزومی ہے۔

کوئی ایسا کلام جو کسی ضروری دینی کے انکار میں صریح نہ ہو، نہ صریح متعین ہو، نہ صریح متبین ہو،بلکہ اس کلام کی بعض تاویل کے سبب کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو تو فقہائے کرام ایسے قول پر بھی حکم کفر عائد کرتے ہیں،کیوں کہ وہ قول ترتیب مقدمات کے بعد کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ یہ کفر ظنی لزومی ہے۔ اس میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ بعض فقہا کی تحقیق میں لزوم کفر راجح ہوتا ہے،بعض کی تحقیق میں مر جوح۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اورحضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایسے کلام کے قائلین کو کافر نہیں کہتے،لیکن دونوں مجتہدین کے جومقلدین باب تکفیر میں فقہائے کرام کے مذہب پر ہیں،وہ قائل کی تکفیر کرتے ہیں۔یہ تکفیر فقہی ہے،تکفیر کلامی نہیں۔

ظنی واجتہادی مکفرات امام اعظم سے منقول نہیں

قال ابن نجیم:(ان ہذا الفروع المنقولۃ من الخلاصۃ وغیرہا بصریح التکفیر،لَم تُنقَل عَن اَبِی حَنِیفَۃَ-وانما ہی مِن تَفرِیعَاتِ المَشَاءِخِِ کَاَلفَاظِ التَّکفِیرِالمنقولۃ فی الفتاوٰی-وَاللّٰہُ سُبحَانَہٗ ہُوَ المُوَفِّقُ) (البحر الرائق:جلد اول:ص613)

قال الامام ابن ہمام:(نعم یقع فی کلام اہل المذاہب تکفیرٌ کَثِیرٌ- ولکن لیس من کلام الفقہاء الذین ہم المجتہدون بل من غیرہم- وَلَاعِبرَۃَ بِغَیرِ الفُقَہَاءِ-وَالمَنقُولُ عن المجتہدین ما ذکرنا) (فتح القد یر: جلدششم:ص100)

توضیح:کفر فقہی ظنی کی صورتیں جو فقہی کتابوں میں مرقوم ہیں۔وہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول نہیں۔بعد کے فقہا ئے کرام نے حسب ضرورت بیان وہ صورتیں فرمائیں۔ جب ایسے مسائل وحوادث درپیش ہوئے توفقہا نے شرعی دلائل میں غوروفکر کے بعد جواب دیا۔ان میں جو صورتیں کفر کلامی وکفر فقہی قطعی کی ہیں، وہ ظنیات واجتہادیات سے خارج ہیں۔ کفر فقہی ظنی میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ کفر ظنی میں صریح کفر نہیں پایا جاتا،بلکہ اس کلام کی تاویل کے سبب کفر لازم آ تا ہے۔وہ کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ اس کوکفر لزومی کہا جاتا ہے۔

ظنی واجتہادی مکفرات میں ایک مذہب کے فقہاکااختلاف

قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار ج۴ص۸۰۴)

توضیح:(لا یفتی بالکفربشیء منہاالا فیما اتفق المشائخ علیہ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

قال ابن نجیم:(وَالَّذِی تَحَرَّرَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِتَکفِیرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَوکَانَ فِی کُفرِہٖ اِختِلَافٌ وَلَو رِوَایَۃٌ ضَعِیفَۃٌ- فعلٰی ہذا فَاَکثَرُ اَلفَاظِ التَّکفِیرِ المَذکُورَۃِ لَایُفتٰی بِالتَّکفِیرِ بِہَا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا)(البحر الرائق جلددوم:ص210)

توضیح:(او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

قال ابن نجیم:(الکفر تکذیب محمد صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی شئ مما جاء من الدین ضرورۃ-ولا یکفر احد من اہل القبلۃ الا بجحود ما ادخلہ فیہ-وحاصل ما ذکرہ اصحابنا رحمہم اللّٰہ تعالی فی الفتاوی من الفاظ التکفیر،یرجع الی ذلک-وفیہ بعض اختلاف،لکن لا یفتی بما فیہ خلاف)(الاشباہ والنظائر:باب الردۃ ص190-دار الکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:(وفیہ بعض خلاف لکن لایفتی بما فیہ خلاف)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

کفر فقہی ظنی کے مرتکب کا حکم

کفرفقہی ظنی کے صدور پر مرتکب کوکافر قراردینے سے متعلق دوقول ہیں:۔

(۱)ایک قول یہ ہے کہ اس امر کے کفر ہونے پر مذاہب اربعہ کے فقہا متفق ہوں۔ کسی فقہی مذہب کے فقیہ کااس میں اختلاف نہ ہو،تب قائل پر حکم کفر عائد ہوگا۔

(۲)دوسرا قول یہ ہے کہ اس خاص فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفریہ ہونے پر متفق ہوں،تب قائل حکم کفر عائد ہوگا۔

مذہب اول کا بیان:۔

قال الحصکفی:((و)اعلم اَنَّہٗ(لَا یُفتٰی بِکُفرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَو کَانَ فِی کُفرِہٖ خِلَافٌ ولو)کَانَ ذٰلِکَ(روایۃ ضعیفۃ)کَمَا حَرَّرَہٗ فِی البَحرِ)(الدرالمختار جلدچہارم:ص415)

قال الشامی:(قولہ (ولو روایۃ ضعیفۃ) قال الخیرالرملی-اقول: ولوکانت الروایۃ لِغَیرِ اَہلِ مَذہَبِنَا وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ اشتراط کون ما یوجب الکفر مُجمَعًا عَلَیہِ) (رد المحتار جلدچہارم:ص415)

قال ابن نجیم المصری:(وفی الفتاوی الصغرٰی:الکفر شَیءٌ عَظِیمٌ- فَلَا اَجعَلُ المُؤمِنَ کَافِرًا-مَتٰی وُجِدَت رِوَایَۃٌ اَنَّہٗ لَا یَکفُرُ) (البحرالرائق:جلدپنجم:ص 210)

علامہ شامی نے اس قول کو ردالمحتارمیں نقل فرمایا۔(رد المحتار:جلد چہارم:ص408)

قال الشیخ محمد بن سلیمان اَفَندِی(م ۸۷۰۱؁ھ)ناقلًا عن البحر الرائق:(ثم اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ ووجہٌ واحدٌ یمنعہ،یمیل العالم الٰی ما یمنع من الکفر ولا ترجح الوجوہُ علی الوجہ-وفی البحر:والحاصل ان من تکلم بکلمۃ الکفر ہَازِلًا اَو لَاعِبًا کَفَرَ عند الکل،ولا اعتبار باعتقادہ-ومن تَکَلَّمَ بِہَا خَطَاءً اَو مُکرَہًا لَا یَکفُرُ عند الکل-ومن تکلم بہا عَالِمًا عَامِدًا کَفَرَ عند الکل وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا اِختِیَارًا جَاہِلًا بِاَنَّہَا کُفرٌ ففیہ اختلاف-والذی تَحَرَّرَ انہ لایفتی بتکفیر مسلم مہما امکن حمل کلامہ علی محمل حسن اوکان فی کفرہ اختلافٌ ولو روایۃً ضعیفۃً فعلٰی ہذا فاکثرالفاظ الکفر المذکورۃ لایفتٰی بالتکفیر فیہا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا:انتہی)(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر: ص688)

مذہب دوم کابیان:۔

ایک شکل یہ ہے کہ جس قول کے کفر ہونے پر تمام فقہی مذاہب کے فقہا متفق ہوں، صرف اس قول کے قائل پر کفر کاحکم عائدکیا جائے۔دوسری شکل یہ کہ اس فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفر ہونے پر متفق ہوں،تب حکم کفر عائد کیا جائے۔اگر اسی مذہب کے فقہاکا اختلاف ہوتو حکم کفر جاری نہ کیا جائے۔جب کفر کا حکم نہ ہوتو وہاں حرمت وعدم جواز وغیرہ کا جوحکم ہو، وہ بیان کیا جائے،تاکہ قائل توبہ کرکے جرم سے پاک ہوجائے۔

قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار جلد چہارم:ص408)

قاضی مقلد ومفتی مقلدکے احکام

حکم کفر جاری کرنے سے متعلق قاضی مقلد اور مفتی مقلددونوں کے لیے جداگانہ حکم ہیں۔ قاضی مقلدکواپنے فقہی مذہب کے مفتی بہ اور معتمد وراجح قول کے مطابق کفروعدم کفر کافیصلہ کرنا ہے۔وہ مسئلہ تکفیر میں بھی اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ جاری کرے گا۔ مفتی مقلد سے متعلق دومذہب ماقبل میں مذکور ہوئے۔قاضی مقلد کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔

(۱) قال الہیتمی ناقلًا عن الرافعی:(فَاِن کَانَ مَدلُولُ لَفظِہٖ کُفرًا مُجمَعًا عَلَیہِ-حُکِمَ بِرِدَّتِہٖ-فَیُقتَلُ اِن لَم یَتُب-وَاِن کَانَ فِی مَحَلِّ الخِلَافِ -نظرفی الراجح من الادلۃ ان تأہل-والا اخذ بالراجح عند اکثر المحققین من اہل النظر-فَاِن تَعَادَلَ الخِلَافُ اُخِذَ بِالاَحوَطِ-وَہُوَ عَدَمُ التَّکفِیرِ-بَلِ الَّذِی اَمِیلُ اِلَیہِ اذا اُختُلِفَ فِی التَّکفِیرِ-وَقفُ حالہ وَتَرکُ الاَمرِ فِیہِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی-انتہٰی)(الفتاوی الحدیثیہ:ص222-دارالفکر بیرو ت)

توضیح:مجمع علیہ قول کواختیار کرنے اوراحتیاط کرنے کا حکم مفتی مقلدکے لیے ہے۔ قاضی مقلد اپنے مذہب فقہی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اگر چہ اس امر کے کفر ہونے میں دیگر مذاہب کے فقہا کا اختلاف ہو۔قاضی مقلد اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

۔(۲)قال الہیتمی فی تشریح قول الرافعی:(وقولہ:وان کان فی محل الخلاف،الخ:محلہ فی غیر قاض مقلد رفع الیہ امرہ-وَاِلَّا لَزِمَہُ الحُکمُ بما یقتضیہ مذہبہ-اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہِ سَوَاءٌ وَافَقَ الاِحتِیَاطَ اَم لَا) (الفتاوی الحدیثیہ ص222-دارالفکربیروت)

توضیح:علامہ ہیتمی کا قول (اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہ)سے مراد یہ ہے کہ قاضی مقلد کے مذہب میں ایسے قائل کی تکفیر سے متعلق کوئی اختلاف نہ ہو،بلکہ معاملہ تکفیر میں منحصر ہو، اوراس مذہب کے فقہا کے درمیان ایسے قائل کی تکفیرمتفق علیہ ہوتو کفرکا حکم دے گا۔دیگر مذاہب کے فقہا کااس کی تکفیر میں اختلاف ہوتو قاضی مقلد کوان کے قول پرعمل کا حکم نہیں۔ کفرفقہی ظنی میں کب حکم کفرہوگا؟

فقہا نے جن ظنی کفریات کوکفر بتایا ہے،ان کفریات کا قائل جب وہی معنی مراد لے،جس بنا پر فقہا نے ان کلمات کو کفر کہاہے،تب قائل پرحکم کفر جاری ہوگا۔اگر قائل نے غیر کفری معنی مراد لیا ہے توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔یہ کیفیت محتمل کلام میں ہوگی،یعنی جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو، اسی طرح کفر لزومی میں بھی یہ کیفیت پائی جائے گی

یعنی بعض تاویل قریب کے مطابق کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو، اور بعض تاویل قریب کے مطابق ضروری دینی کا انکار لازم نہ آتا ہو، تب یہ حکم ہے کہ فقہا نے جس معنی کوکفر قراردیا ہے، قائل کی وہی مراد ہے تو حکم کفر عائد ہوگا۔اگر ضرور ی دینی کا انکار لزوم بین کے طورپر ہوتو فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔اسی طرح اگر تاویل بعید کے اعتبار سے حکم کفر لازم نہیں آتا ہے تو فقہا کے یہاں تاویل بعید کا لحا ظ نہیں ہوگا اور حکم کفر عائد ہوگا۔

قال النابلسی:(جمیع ما وقع فی کتب الفتاوٰی من کلمات الکفر التی صرح المصنفون فیہا بالجزم بالکفر یکون الکفر فیہا محمولًا علٰی ارادۃ قائلہا المعنی عللوا بہ الکفر-واذا لم تکن ارادۃ قائلہا ذلک فلا کفر) (الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ: جلد اول:ص304-مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد:پاکستان)

وضاحت: جس کفرفقہی ظنی کے کفرہونے پر تمام مذاہب فقہیہ کے فقہا کا اجماع ہو، اس اجماعی کفر فقہی ظنی کے قائل پر متکلمین بدعت وضلالت کا حکم نافذکریں گے۔جس کفر فقہی ظنی میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہو،پس اختلاف کرنے والے فقہائے کرام اگر ایسے قول کو ناجائزوحرام کہتے ہوں تو متکلمین بھی اس قائل کوگنہ گار قرار دیں گے۔

ان شاء اللہ تعالیٰ مستقل قسط میں تفصیل مرقوم ہوگی:واللہ الہادی والموفق وہو المستعان::والصلوٰۃوالسلام علیٰ حبیب الرحمن وعلیٰ آلہ واصحابہ ذوی الفضل والاحسان۔

تحریر: طارق انور مصباحی 

مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دیلی

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن