Saturday, October 19, 2024
Homeعظمت مصطفیٰفتح مکہ رحمت عالم ﷺ کا اخلاق کریمانہ

فتح مکہ رحمت عالم ﷺ کا اخلاق کریمانہ

 تحریر حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی  فتح مکہ رحمت عالم ﷺ کا اخلاق کریمانہ 

فتح مکہ رحمت عالم ﷺ کا اخلاق کریمانہ

اللہ رب العزت کے لیےہی تمام تعریف ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ اسی نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیاے کرام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اللہ کی کتاب کے احکام لوگوں کوبتائیں۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے دین کی سربلندی قائم ہو اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں پتانہیں چلا کہ اللہ کی عبادت و فرماں برداری کیسے کی جاتی ہے۔دنیامیں بہت سے پیغمبر آئے، انہوں نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا اور اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا ،مگر کچھ عرصے بعد ان کی تعلیمات ختم ہوگئیں، یا ان میں بہت سی غلط باتوں کی آمیزش ہوگئی اور ان کی زندگی و تعلیمات کو لوگ بھلا بیٹھے ۔

لیکن یہ امتیاز و اعجاز صرف رحمت للعالمین ﷺکو حاصل ہے کہ آپ کا لایا ہوا پیغام قرآن مجید اسی شکل میں حرف بہ حرف محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ اسی طرح آپ کی حیات طیبہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو جزویات تک آپ کی سیرت میں موجود ہے۔

آپ کی سیرت پراتنی زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گیے ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔

قرآن مجید میں آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے ۔{  وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ  } [القلم: 4] ترجمہ: اور بے شک تمہاری خو (خلق) بڑی شان کی ہے۔ (کنزالایمان)۔

آپ ﷺ کے طریقے کو اللہ تعالیٰ نے اسوئہ حسنہ قرار دیا۔چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)بے شک تمہارے لیے اللہ کے رسول (ﷺ) ایک بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کی زندگی انسانیت کےلیے ایک نمونۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی خوبیوں کو قرآن کریم میںبیان فرمایا۔ بے شمار خوبیوں میں رحمت للعالمین ہونا یہ سبھی کے لیے باعث رحمت و افتخار ہے۔

وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے

یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ عالم پسند آیا

صدقہ فطر روزوں کا صدقہ      اس مضمون کو بھی ضرور پڑھیں

اپنے حبیب ﷺکے بارے میں رب نے فرمایا { وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ } [الأنبياء: 107]۔ ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(کنز الایمان)۔ 

صحیح مسلم میں ہے کہ :ایک موقع پر اصحاب ِ رسول ﷺ نے عرض کیا کہ آپ ان کا فروں کے لیے بددعا کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایامیں لعنت کرنے والا بنا کر نہیںبھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت و ہدایت بناکر بھیجا گیاہوں۔ آپ ﷺ کی نجی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ اپنے متعلقین اور اصحاب کے ساتھ ساتھ غیروں کے ساتھ بھی لطف و کرم ، محبت و مؤدت اور نرمی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے مزاج میں سختی نام کی کوئی چیزنہ تھی۔ یہاں تک کہ آپ اپنے دشمنوںپر شفقت و محبت سے پیش آتے ۔ سیرت رسول میں بہت سے واقعات موجود ہیں۔

 بخاری شریف تیسری جلد باب المغازی میں ہے،حضور ﷺ ایک جنگ سے واپس آئے اور ایک ببول کے درخت کے سایہ میں قیلولہ فرمانے لگے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا ۔ آپ ﷺ کی آنکھ کھلی تو دیکھا اعرابی تلوار کھینچے ہوئے سرہانے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے”من یمنعک منی” آپ کو ہم سے کون بچائے گا؟۔

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:مجھے اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور حضور ﷺ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا :اب تو بتا کہ تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟پھر وہ کانپنے لگااور لرزنے لگا اور حضور ﷺ سے معذرت خواہ ہوا۔ پھر حضور ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور معاف فرمادیا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم میں گیا اور کہنے لگا؛میں تمہارے پاس سب سے بہتر شخص کے پاس سے آیا ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس شخص نے آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور شان عفو و درگزر سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا اور اسی کے سبب بہت سے افراد نے اسلام قبول کیا۔

سیرت رسول ﷺ میں ایسے انمول واقعات بہت سے ہیں۔ اسلام آپ ﷺ کے اخلاق و عفو و درگزر سے پھیلا ہے ،تلوار کے زور سے نہیں۔ آپ ﷺ کی نرم مزاجی اورعفو و درگزر کو قرآن کریم نے جابجا بیان کیا ہے اور اس وصف، خوبی کو اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے۔

ارشاد باری ہے۔{ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ } [آل عمران: 159] ترجمہ:تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب!۔ تم ان کے لیے نرم دل ہو اور اگر تند مزاج ،سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ۔(کنز الایمان)۔

فتح مکہ کون نہیں جانتا کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کا عفوو درگزر کتنا اعلیٰ تھا۔ تما م تاریخوں میں اس واقعہ کو آپ پائیں گے ۔ صحابہ نے فرمایا :آج بدلہ لینے کا دن ہے۔ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا 

آج معاف کرنے کا دن ہے اور آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ آپ کے اس معافی کا اثر یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگوں نے جوق در جوق اسلام میں داخل ہوکر کلمۂ توحید پڑھا ۔ یہ تھا آپ کا اخلاقِ کریمانہ۔

        بیعت رضوان

فتح مکہ کی بنیاد تو بیعت رضوان یعنی صلح حدیبیہ کے دن ہی پڑ گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت سنائی {إِنَّا فَتَحْنَا لكَ فَتْحًا مُبِينًا} [الفتح: 1]۔ترجمہ: اے نبی ﷺ ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔

آگے اور ارشاد باری ہے۔ { لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا} [الفتح: 18]۔ ترجمہ: بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے توان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔ (کنزالایمان)۔

صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ مگر 630؍عیسوی کے بالکل شروع میں مشرکین مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نےمسلمانوں کے اتحادی بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل(شہید) کر دیے۔ اسی دوران مکہ کے مشرکینِ قریش نے چہروں پر نقاب ڈال کر بنو بکر کی مدد کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہوچکے تھے۔ ابو سفیان نے بھانپ لیا تھاکہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے ۔

 اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ مدینہ طیبہ کادور ہ کیا۔ ابو سفیان اپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر پہنچا، جو اسلام لے آئی تھیں اور حضور ﷺ کی زوجہ تھیں۔ جب وہ بستر پر بیٹھنا چاہا تو حضرت ام حبیبہ نے بستر اور چادر کو لپیٹ دیا اور ابو سفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ مشرک ہیں اور ناپاک ہیں اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی جگہ بیٹھیں۔

 ابو سفیان نے حضور ﷺ سے صلح کی تجدید کے لیے رجوع کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی دوران قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے حضور ﷺ سے مدد کی فریاد کی۔ بنو خزاعہ حضور ﷺ کے پاس اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھیجاجس نے دردناک اشعار پڑھے اور بتایاکہ وہ” وتیرہ ”کے مقام پر رکوع و سجود میں مشغول تھے، تو مشرکین مکہ نے ان پر حملہ کر دیااور ہمار ا قتل عام کیا۔ حضور ﷺ نے کہا ہم تمہاری مدد کریں گے۔

      جنگ کی تیاری

حضور ﷺ نے روانگی کا مقصد بتائے بغیر اسلامی فوج کو تیار کیا اور مدینہ و قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ لوگوں کے خیال میں صلح حدیبیہ ابھی قائم تھی، اس لیے کسی کے گمان میں نہ تھا کہ یہ تیاری مکہ جانے کے لیے ہے۔حضور ﷺ نے مدینہ سے باہر جانے والے تمام راستوں میں نگرانی بٹھا دیا تاکہ یہ خبر قریش مکہ کے جاسوس باہر نہ لے جا سکیں ۔

حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ خدایا!آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کردے تاکہ ہم اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں ۔10؍رمضان 8 ؁ھ کو روانگی ہوئی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہاں جانا ہے۔ تیز رفتاری سے ایک ہفتہ کے اندر مدینہ سے مکہ کا فاصلہ طے ہوگیا۔ مکہ سے کچھ فاصلے پر ”مرالظہران” کے مقام پر لشکر ِ اسلام خیمہ زن ہوگیا۔ لوگوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ مکہ کا ارادہ ہے۔

جنگ

جنگ تو ہوئی نہیں۔ مختصر احوال یہ ہیں کہ مراالظہران کے مقام پر حضور ﷺ نے تاکید فرمائی ۔لشکر کو بکھیر (پھیلا)دیا جائے اور آگ جلائی جائے تاکہ قریش مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر جائیںاور اس طرح شاید بغیر خون ریزی کے مکہ فتح ہوجائے۔ یہ تدبیر کارگر رہی ۔ مشرکین کے سردار ابو سفیان نے دور سے لشکر اسلام کو دیکھا ۔

اس سے ایک شخص نے کہا کہ شاید یہ بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں۔ ابو سفیان نے کہانہیں ان کے پاس اتنے لوگ کہاں ۔ ابو سفیان حضور ﷺ سے پناہ لینے کے لے آپ کے چچا حضرت عباس کی پناہ میں چل پڑا۔ کچھ لوگوں نے اسے مارنا چاہا مگر چوں کہ عباس بن عبدالمطلب نے پناہ دے رکھی تھی، اس لیے باز آئے۔

آقا ﷺ نے کہا کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایک خدا کو تسلیم کرو اور تم یہ جانو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ اس پر ابو سفیان نے کہا مجھے اس میں تردد ہے کہ آپ رسول ہیں ۔اس کو پناہ دینے والے عباس بن مطلب سخت ناراض ہوئے ۔ فرمایا اگر تو اسلام نہ لایا تو تیری جان کی ضمانت نہیں۔

حضور ﷺ نے پورے لشکر کو اس کے سامنے سے گزارا۔اس پر ہیبت بیٹھ گئی، مرعوب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دلا سکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ میں آجائے امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر چلاجائے ،دروازہ بند کر لے یا مسجد الحرام میں پناہ لے وہ سپاہِ اسلام سے محفوظ رہے گا۔ اس کے بعد ابو سفیان کو رہا کر دیا گیا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جاکر اسلامی لشکر کی عظمت بتاکر مکہ والوں کو خوب ڈرایا۔

حضور نے لشکر کو چار دستوں میں تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میںداخل ہونے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ جو تم سے لڑے اس کے علاوہ کسی سے جنگ نہ کرنا۔ چاروں طرف سے شہر گھر گیا اور مشرکین کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔صرف ایک چھوٹے سے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان بن امیہ بن ابی خلف اور عکر مہ بن ابی جہل شامل تھے۔

ان کا ٹکراؤ خالد بن ولید؄ کی قیادت والے دستہ سے ہوا۔ مشرکین کے 28؍آدمی انتہائی ذلت سے مارے گیے۔ لشکر اسلام انتہائی فاتحانہ طریقہ سے شہر مکہ میں داخل ہوا، جہاں سے آٹھ سال پہلے حضور ﷺ کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد حضور ﷺ مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر پڑتے ہی گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں حجر اسود کو بوسہ دیا۔ آپ ﷺ تکبیر بلند کرتے تھے اور لشکر اسلام آپ ﷺ کے جواب میں تکبیر بلند کرتا ۔

 کعبہ میں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے تمام تصاویر کو نکال دیا جس میں حضرت ابراہیم ؉کی تصویر بھی شامل تھی اور تمام بتوں کو توڑدیا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی ابن ابی طالب کو اپنے مبارک کا ندھوں پر سوار کیا اور بتوں کو توڑنے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھوںسے بھی توڑتے رہے ۔

یہاں تک کہ کعبہ کو شرک کی تمام غلاظتوں سے پاک کر دیا۔ فتح مکہ بھی ماہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں ہوا۔20؍رمضان المبارک 8؍ہجری بمطابق جنوری 630عیسوی کو ہوا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: {إِنَّا فَتَحْنَا لكَ فَتْحًا مُبِينًا} [الفتح: 1]۔ اے نبی ﷺ ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔

اس موقع پر آپ ﷺ اپنی مبارک زبان سے یہ کہتے جاتے تھے: {وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا } [الإسراء: 81]۔ ترجمہ: اور فرماؤ حق آیا اور باطل مٹ گیا ۔ بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ (کنزالایمان)۔

ایک صحابی رسول عبد اللہ بن رواحہ نعتیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ آج مکہ پر ستارہ صبح طلوع ہوا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہمارے نبی ﷺ ہیں جو خدا کی کتاب کی آیات تلاوت کرتا ہے۔ آج ہم ان سے بدلہ لیں گے جنہوں نے ہمارے نبی ﷺ کو جلا وطنی پر مجبور کیا تھا۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا :نہیں آج اہلِ مکہ کو امن و آزادی کی بشارت ملنے والی ہے۔

 آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ عام معافی کے اعلان نے دشمنوں پر ایسے اثرات ڈالے کہ وہی خون کے پیاسے دین کے بدترین دشمن سب آپ پر 

لے آئے ۔ آپ پر جان چھڑکنے لگے ۔ ایسے پاکباز اور خدا ترس اور ایسے عاشق رسول بن گیے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی-یہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ تھا-لھذا ہم تمام امتیو ں کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے حسن اخلاق اور عفو درگزر کو اختیار کرنا چاہیے

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور خصوصیات         کا مطالعہ کرنا نہ بھولیں

اللہ کریم  ہم تمام کو توفیق رفیق عطا فرمائے-آمین

حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

 خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ

 اسلام نگر کپا لی وایا مانگو

 جمشیدپور جھارکھنڈ،پن کوڈ 831020,

 رابطہ  :09386379632

 hhmhashim786@gmail.com

 Amazon     Flipkart      Havelles       Bigbasket

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن