Saturday, November 23, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط پانزدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط پانزدہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط پانزدہم 15 گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے دئیے گیے ہیں ملاحظہ فرمائیں اور دوست و احباب کو ضرور شئیر کریں 

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط پانزدہم

مبسملا وحامدا: : ومصلیا ومسلما

قسط اول سے قسط یازدہم تک یہ بحث ہے کہ اگر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ ایک مفتی نے بھی جاری کیا ہو تو وہ فتویٰ سب کوماننا لازم ہے۔اگر کفر کلامی کا غلط فتویٰ علما کی ایک جماعت نے بھی جاری کیا ہوتو اس کونہ ماننا لازم ہے۔یہاں مفتیوں کی تعداد سے حکم کاتعلق نہیں ہے،بلکہ فتویٰ کے صحیح اور غلط ہونے کے اعتبارسے حکم شرعی نافذ ہوتا ہے۔حکم شرعی میں اہل فتویٰ کی قلت تعداد وکثرت تعداد کا کوئی دخل نہیں۔

قسط دوازدہم سے قسط چہاردہم تک تکفیر کلامی کے فتویٰ پر علماے کرام کے اجماع کا ذکر ہے۔

قسط پانزدہم سے اعتقادی مسائل کے تصدیقی ہونے کا ذکر ہے، اور اس بات کی وضاحت ہے کہ اعتقادی مسائل میں حصول یقین ضروری ہے،نہ کہ استدلال ضروری ہے۔

اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی؟

خلیل بجنوری نے لکھا:”مسئلہ تکفیر تقلیدی نہیں،بلکہ تحقیقی ہے۔پہلے سے مسلمانوں کا اسی پر عمل رہاہے۔ اگر کسی عالم یا چند علما نے کسی شخص پر حکم کفر لگا دیا تو تمام مسلمانوں پر لازم نہیں ہے کہ محض ان لوگوں کے کہنے پر بغیر تحقیق کے ایمان لے آئیں،اور اس کوکافر کہتے پھریں،بلکہ ایسا کرنا خلاف شریعت مطہرہ ہے،اس لیے کہ جس نے فتویٰ کفر دیا ہے،وہ بھی بشر غیرمعصوم ہے“۔
(انکشاف حق:مقالہ اول:ص77-جمال پریس دہلی)

خلیل بجنوری نے لکھا:”جب آپ امام اعظم اور امام احمد بن حنبل کا یزید کے بارے میں اختلاف مان رہے ہیں تو ثابت ہواکہ یہ مسئلہ سلف میں مختلف فیہ رہا۔جس کوتحقیق ہوگئی،اس نے تکفیر کردی۔جس کو نہ ہوئی،اس نے نہ کی،پھر کیوں شوروشر مچاتے پھر تے ہو۔ہراہل تحقیق اپنی تحقیق کے مطابق حکم دے گا۔کسی کو کسی پر اعتراض کا حق نہیں“۔
(انکشاف حق:مقدمہ ص44-جمال پریس دہلی)

جواب: خلیل بجنوری کے اس نظریہ کا تفصیلی رد ”البرکات النبویہ فی الاحکام الشرعیہ“:رسالہ ہشتم:نصف اول،باب ہفتم میں ہے۔وہ طویل بحث ہے۔شائقین وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

خلیل بجنوری نے مسئلہ تکفیرکے تحقیقی ہونے کا یہ مطلب بیان کیا کہ ہرایک کو اس کی تحقیق کرنی ہے۔ یہ نظریہ بجنوری نے ایجاد کیا ہے۔ اس پر بجنوری نے کوئی حوالہ نہیں دیا کہ جس سے ثابت ہوکہ مسئلہ تکفیر میں ہرا یک کوتحقیق کرنی ہے۔

اسی طرح مسئلہ تکفیر کے تحقیقی اور غیر تقلیدی ہونے کا نظریہ بھی خلیل بجنوری نے ایجاد کیا ہے۔علمائے متقدمین کی تحریروں میں ایسی کوئی اصطلاح نظر نہیں آتی۔

بجنوری کی تحریر سے علمائے اہل سنت وجماعت بھی متاثر ہوئے۔بعض علما یہ کہنے لگے کہ مسئلہ تکفیر میں ہرایک کوتحقیق کرنی ہے اور مسئلہ تکفیر کوتحقیقی کہنے لگے۔

ہاں، تحقیقی ہونے کا ایک صحیح مفہوم مسئلہ تکفیر میں پایا جاتا ہے۔اس کی تشریح درج ذیل ہے۔

مسئلہ تکفیرکلامی کے تحقیقی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ تکفیرکلامی کے اصول وقوانین کو مسئلہ حاضرہ پرمنطبق کیا جائے۔اگر انطباق ہوجاتا ہے تو حکم شرعی بیان کیا جائے۔

تکفیر کلامی کا مسئلہ اجتہادی نہیں کہ ہر مجتہداپنے اصول اجتہاد کے مطابق مسئلہ حاضرہ کی تحقیق کرے اور جدا گانہ حکم بیان کرے۔

اگر ملزم کافر کلامی ہے تو سب کے یہاں کافر کلامی ہو گا۔اگر وہ کافر کلامی نہیں ہے تو کسی کے یہاں کافر کلامی نہیں ہو گا۔اگر کسی نے کفر کلامی کا غلط فتوی دیا ہے تو اپنی غلطی معلوم ہونے پر اس کو رجوع کرنا ہو گا۔

ہرمجتہد کے اصول اجتہاد جدا گانہ ہوتے ہیں،اس لیے اجتہادی مسائل میں اختلاف ہوتا ہے،لیکن تکفیر کلامی کے اصول وضوابط متفق علیہ اور ایک ہی ہیں،اس لیے اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔

تکفیرکلامی کی طرح تکفیرفقہی قطعی میں بھی تحقیق ہوتی ہے،یعنی اصول وقوانین کو مسئلہ حاضرہ پر منطبق کیا جاتا ہے۔اس کے بعد حکم شرعی بیان کیا جاتا ہے۔

تکفیر فقہی قطعی سے میری مراد یہ ہے کہ کسی ضروری دینی کا انکار قطعی بالمعنی الاعم طریقے پرہو۔یہ فقہی اصول کے مطابق فقہاکے درمیان متفق علیہ کفر ہے،یعنی وہ تمام علما اس کو کفر فقہی قراردیتے ہیں جو باب تکفیر میں فقہاکے مسلک پر ہیں۔

علمائے متکلمین اس کفر فقہی قطعی کا انکار نہیں کرتے ہیں،بلکہ اس کفرکواوراس کے سبب واردہونے ہونے والے حکم شرعی یعنی تجدیدایمان وتجدید نکاح کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کو ضلالت وگمرہی کا نام دیتے ہیں، پس یہ تعبیری واصطلاحی فرق ہے۔اسی تکفیرفقہی قطعی میں فقہائے کرام من شک:الخ کا استعمال کرتے ہیں۔

تکفیر فقہی ظنی میں بھی تحقیق ہوتی ہے،یعنی اصول وقوانین کو مسئلہ حاضرہ پر منطبق کیا جاتا ہے،لیکن تکفیر فقہی ظنی میں اصول وقوانین بھی اجتہادی ہوتے ہیں اور مکفرات یعنی کفریہ امور جن کی بنیاد پرحکم کفر عائد کیا جاتا ہے،وہ مکفرات بھی ظنی ہوتے ہیں،اس لیے ان امور کے کفر ہونے میں فقہا کے درمیان بھی اختلاف ہوتا ہے۔

تکفیر کلامی میں امور مکفرہ اجماعی اور قطعی بالمعنی الاخص ہوتے ہیں،یعنی ضروریات دین کے انکار پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوتا ہے۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں۔ہماری بیان کردہ تکفیرفقہی قطعی میں بھی مکفرات قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں،یعنی ضروریات دین کے انکار پرہی حکم کفر عائدہوتا ہے۔

تکفیر کلامی اور تکفیر فقہی قطعی میں فرق صرف یہ ہوتاہے کہ تکفیر فقہی قطعی میں ضروری دینی کا انکار قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔اس انکار میں احتمال بلادلیل ہوتا ہے۔اس احتمال کو احتمال بعید اور احتمال فاسدکہا جاتا ہے۔

اس احتمال بلا دلیل کو فقہا قبول نہیں کرتے ہیں اور حکم کفر عائد کرتے ہیں اور متکلمین اس احتمال بلادلیل کو قبول کرتے ہیں اور احتمال بلا دلیل کے سبب حکم کفر عائد نہیں کرتے، لیکن چوں کہ اس احتمال پر کوئی دلیل نہیں ہوتی،اس لیے اس انکار کے سبب ضلالت وگمرہی کا حکم دیتے ہیں۔

تکفیر کلامی میں انکار قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے۔اس انکار میں احتمال بلا دلیل بھی نہیں ہوتاہے۔یہ کفر اتفاقی ہے۔کافر کلامی فقہا و متکلمین دونوں کے یہاں کافر ہوتا ہے۔

باب تکفیر میں ایک مذہب فقہائے احناف کا ہے کہ وہ ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں،خواہ قطعی بالمعنی الاخص یعنی ضروریات دین کا انکار ہو،یا قطعی بالمعنی الاعم یعنی ضروریات اہل سنت کا انکار ہو۔یہاں بھی مکفرات اجتہادی نہیں ہیں،کیوں کہ قطعی امور اجتہادی نہیں ہوتے۔ظنیات میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ تکفیر کے تحقیقی ہونے سے ہماری مراد یہ ہے کہ کفر کے تعین کے لیے مسئلہ حاضرہ پراصول وقوانین کو منطبق کیا جائے۔جب اصول وقوانین سے مسئلہ حاضرہ کی مطابقت ہوگئی تو کفر ثابت ہوگیا۔اگر کفر کلامی ثابت ہو گیا تو ملزم کافرکلامی ہے، اور کافر کلامی کوکافرماننا ضروریات دین سے ہے۔اس کومومن ماننے والا کافر ہے۔

اگرتحقیق کے بعد کفر فقہی قطعی ثابت ہوا تو کافرفقہی قطعی کو مومن کامل الایمان ماننے والا فقہا کے یہاں کافر فقہی قطعی ہے اور متکلمین کے یہاں اس کو مومن کامل الایمان ماننے والا یعنی غیر گمراہ ماننے والا خود گمراہ ہے۔

ضروریات اہل سنت کا منکر فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کافر فقہی ہے اور دیگر فقہا ئے اسلام ومتکلمین کے یہاں گمراہ ہے تو ضروریات اہل سنت کا منکر فقہائے احناف کے یہاں کافر فقہی ودیگر فقہا ومتکلمین کے یہاں گمراہ کہلائے گا۔یہ لفظی اختلاف ہے۔

کفر اتفاقی اور کفر اختلافی کا حکم شرعی

اسلامی کتابوں میں کفر کی دوقسمیں بیان کی جاتی ہیں۔کفر اتفاقی اور کفر اختلافی۔کفر اتفاقی سے کفر کلامی مراد ہے۔کفر اختلافی سے کفر کلامی کے علاوہ کفر کی دیگر قسمیں مراد ہیں۔کفر محتمل میں حرمت کا حکم عائد ہوتا ہے۔ اس کو کفر اختلافی سے الگ رکھا گیا ہے۔ اس میں بعض احتمال کفر کا ہوتا ہے اوربعض احتمال عدم کفر کا۔یہاں محض توبہ کا حکم ہوتا ہے۔ان تینوں قسموں کے تفصیلی احکام ”البرکات النبویہ“:رسالہ پنجم:باب اول میں مرقوم ہیں۔

کفر کلامی کی صورت میں نکاح فسخ جاتا ہے۔تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ملزم قانونی طور پراسلام سے بالکل خارج ہوجاتا ہے،اور فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

کفر اختلافی میں نکاح میں نقص آجاتا ہے،اعمال باطل نہیں ہوتے،ایمان میں بھی نقص آجاتاہے،اس لیے یہاں توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔

امام احمدرضاقادری نے فتاویٰ رضویہ (جلدششم:ص272،ص149-جلد نہم:۹ حصہ دوم: ص 194 – رضا اکیڈمی ممبئ)میں تفصیل کے ساتھ کفرکلامی وکفر فقہی کے احکام کو بیان فرمادیا ہے،اور توبہ کا طریقہ بھی تحریر فرمایا کہ اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہو،اور خفیہ گناہ کی توبہ بھی خفیہ ہو۔

امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جو مرتکب حرام ہے،مستحق عذاب جہنم ہے،اور جو مرتکب کفر فقہی ہے،جیسے دسہرے کی شرکت یاکافروں کی جے بولنا،اس پر تجدید اسلام لازم ہے،اور اوراپنی عورت سے تجدید نکاح کرے، اور جوقطعاً کافر ہوگیا،جیسے دسہرے میں بطور مذکور ہنود کے ساتھ ناقوس بجانے یامعبودان کفار پر پھول چڑھانے والا کافر مرتد ہوگیا،اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔اگر تائب ہو،اور اسلام لائے، جب بھی عورت کواختیار ہے۔ بعد عدت جس سے چاہے،نکاح کرلے،اوربے توبہ مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل وکفن دینا حرام،اس کے جنازے کی شرکت حرام،اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام،اس پر نماز پڑھنا حرام،الیٰ غیر ذلک من الاحکام:واللہ تعالیٰ اعلم“۔

(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-150-رضا اکیڈمی ممبئ)

خلیل بجنوری اور تحقیقی کا مفہوم

خلیل بجنوری کے یہاں مسئلہ تکفیرکے تحقیقی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی پر حکم کفر وارد ہوتو ہرکوئی اس کی تحقیق کرے،اور پھر جس کی تحقیق میں کفر ثابت نہ ہوتووہ کافر نہ مانے۔بجنوری اس دعوی پر کوئی دلیل نہیں دے سکا اوران شاء اللہ تعالیٰ اس کے متبعین بھی اس پر کوئی دلیل نہیں دے سکیں گے۔یہ ایک خود ساختہ نظریہ ہے۔

تکفیر کلامی کے مسئلہ کی صحیح تحقیق ہوگئی اور ملزم کا کافر کلامی ہونا ثابت ہوگیا تو اب ملزم کوکافرکلامی ماننا ضروریات دین سے ہوگیا۔اب یہ باب عقائد کا ایک مسئلہ ہوگیا۔

ضروریات دین کا علم یقینی ہونے کے بعد اس کی تصدیق اور اس کوماننا ضروری ہے۔اعتقادی مسائل تصدیقی ہوتے ہیں،نہ کہ تحقیقی۔

اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یا تحقیقی؟

اعتقادی مسائل کے تصدیقی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی تصدیق ضروری ہے،یعنی ان مسائل کے حق ہونے کا یقین ضروری ہے،خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو۔

اعتقادی مسائل کے تحقیقی ہونے سے اگریہ مراد ہے کہ استدلال معروف کے ذریعہ ان عقائدکے حق ہونے کا یقین حاصل ہو تویہ نظریہ غلط ہے۔

علم کلام کی کتابو میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ اعتقادی مسائل تحقیقی ہیں۔اس مقام پر استدلال کا لفظ مستعمل ہے اور اس کا انکارثابت ہے، یعنی یہ صراحت ہے کہ ایمان کے لیے استدلال کے ذریعہ حصول یقین شرط نہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایمان مقلدبھی صحیح ہے۔ایمان مقلدکے باطل ہونے کا قول ضعیف ہے، جب کہ مقلدکو اسلامی عقائدکایقین حاصل ہوجائے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ محض تقلیدی طورپر ایمان لے آیا کہ اسے اسلامی عقائدکا یقین حاصل نہیں، لوگوں کومذہب اسلام سے وابستہ دیکھا تووہ بھی خود کو مسلمان کہتا ہے، لیکن اسے اسلامی عقائد کا یقین حاصل نہیں،بلکہ ظن یا شک ہے تو ظن وشک کی صورت میں وہ مومن نہیں۔

ایمان تصدیق کا نام ہے،استدلال کا نام ایمان نہیں۔کوئی غیر مسلم ایمان لاتا ہے تو وہ محض صدق دل سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے اور مومن ہوجاتا ہے۔وہ خود بھی دل میں یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ مذہب اسلام قبول کر چکا ہے اوربوقت ضرورت اپنی زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اقراربھی کرتا ہے۔

مذہب اسلام قبول کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ اس نے دین اسلام کے تمام عقائد کوقبول کرلیا۔یہ اجمالی اقرار ہے۔ کسی نومسلم کو اسلام کے تمام اہم عقائد کا تفصیلی علم نہیں ہوتا۔ہاں،قبول اسلام کے وقت جن عقائد کاتفصیلی علم ہے،اس کی تصدیق کرے،پھر جب دیگر اسلامی عقائد کا تفصیلی علم ہوتو بوقت علم اس کی تصدیق کرے۔

عقائد اسلامیہ کی تصدیق ضروری،نہ کہ تحقیق

تحقیقی سے اگر یہ مراد ہے کہ ہر کوئی اس کی تحقیق کرے کہ یہ کس دلیل سے ثابت ہے تو یہ مفہوم نہ ایمان کی تعریف میں شامل ہے،نہ ہی ایمان کے شرائط میں سے ہے۔ایمان تصدیق کو کہا جاتا ہے۔

۔(1) کسی امر کے سچ اور حق ہونے کا یقین کرناتصدیق ہے۔خواہ یہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو۔

۔(2) باب عقائد میں خاص استدلال عقلی کے ذریعہ حصول یقین کولازم قراردینامعتزلہ کا مذہب ہے۔

۔(3) باب عقائد کے اصولی مسائل میں حصول یقین ضروری ہے اور فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے۔

۔(4) بعض اعتقادی مسائل میں تحقیق ممنوع ہے،جیسے تقدیر کے مسائل۔

۔(5) اسی طر ح جس کے گمراہ ہونے کا خوف ہو،اس کے لیے بھی بہت سے امور میں تحقیق ممنوع ہے۔

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا

”اصول عقائد میں تقلید جائز نہیں،بلکہ جوبات ہو،یقین قطعی کے ساتھ ہو،خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو۔اس کے حصول میں بالخصوص علم استدلالی کی حاجت نہیں۔ہاں،بعض فروع عقائدمیں تقلید ہوسکتی ہے۔ اسی بناپر خود اہل سنت میں دوگروہ ہیں۔ماتریدیہ کہ امام علم الہدیٰ حضرت ابومنصور ماتریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متبع ہوئے،اور اشاعرہ کہ حضرت امام شیخ ابوالحسن رحمہ اللہ تعالیٰ کے تابع ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اہل سنت ہی کی ہیں اوردونوں حق پر ہیں۔آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے۔ان کا اختلاف حنفی،شافعی کا سا ہے کہ دونوں اہل حق ہیں۔کوئی کسی کی تضلیل وتفسیق نہیں کرسکتا“۔(بہارشریعت حصہ اول: ص53)

عدم تقلید کی چار صورتیں

اگرکسی نے کوئی عقیدہ کسی دلیل کے پیش نظر اپنایا ہے تو یہاں استدلال اوریقین استدلالی پایا گیا۔ اس کو تقلید کہنا غلط ہے۔ اسلامی عقائدکے چار دلائل ہیں:(1)قرآن (2)حدیث (3)اجماع (4)عقل۔

اگر کسی نے ان چاروں دلائل میں سے کسی دلیل کے پیش نظرکسی اسلامی عقیدہ کو اپنایا ہے تو وہ دلیل کے ساتھ اس عقیدہ کو اختیار کیا ہے،نہ کہ تقلید ی طور پر۔اس کو تقلید کہنا صحیح نہیں۔

ہاں،یہ بات بالکل سچ ہے کہ عام مسلمانوں کو قرآن وحدیث میں بیان کردہ عقیدہ کی رہنمائی علمائے دین کے ذریعہ حاصل ہوگی،لیکن عوام نے محض اس عالم کے کہنے پر وہ عقیدہ اختیار نہیں کیا ہے،بلکہ قرآن وحدیث میں اس عقیدہ کا ذکر ہونے کے سبب اختیار کیا ہے،اسی لیے اگر لوگوں کومعلوم ہوجاتا ہے کہ اس عالم نے آیت قرآنی یا حدیث نبوی کا غلط مفہوم بیان کیا تو لوگ اسے ترک کردیتے ہیں اور صحیح عقیدہ کواختیار کرتے ہیں،یعنی کسی عالم کی تقلید میں کوئی اسلامی عقیدہ اختیار نہیں کرتے،بلکہ قرآن وحدیث کی دلیل کے سبب اس عقیدہ کو اختیار کرتے ہیں اور دلیل کے سبب کوئی عقیدہ اپنا نا تقلید نہیں,بلکہ استدلال کے ذریعہ اس عقیدہ کو اختیار کرنا ہے۔جب بلا دلیل کسی کی بات تسلیم کی جائے تواس کوتقلید کہا جاتا ہے۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب منقولہ ذیل ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ مسئلہ واضح ہوجائے گا۔

مسئلہ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شرح عقائد عضدیہ للمحقق الدوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خطبہ میں ہے:(یا من وفقنا لتحقیق العقائد الاسلامیۃ عصمنا عن التقلید فی الاصول و الفروع الکلامیۃ)-اور یہ بھی مشہور ہے:(لا تقلید فی الاعتقادیات)۔

حضور!اگرایسا ہے توجاہل کے لیے یہ کیوں ہے کہ جب اس کے سامنے کوئی عقیدہ پیش کیا جائے،اور یہ نہ جانتا ہوتو کہے:”میرا وہ عقیدہ ہے جو اہل سنت کا ہے“۔

بلکہ کوئی جاہل،بلکہ اکثر معمولی عالم اکثر عقائد کے استدلال نہیں جانتے،اور ہم اکثر ثبوت عقائدمیں اقوال ائمہ پیش کرتے ہیں اور یہ طریق اثبات تصانیف علمائے عظام میں موجود۔

یا اس کے معنی یہ ہیں کہ عقائد کا علم یقینی مثل علم امر محقق ہو،نہ علم ظنی مثل علم مرد مقلد۔

الجواب :جس طرح فقہ میں چار اصول ہیں۔ کتاب، سنت،اجماع، قیاس۔ عقائد میں چار اصول ہیں۔

کتاب،سنت، سواد اعظم،عقل صحیح۔تو جو اُن میں ایک کے ذریعہ سے کسی مسئلہ عقائد کوجانتا ہے،دلیل سے جانتا ہے،نہ کہ بے دلیل محض تقلیداً۔

اہل سنت ہی سواد اعظم اسلام ہیں توان پر حوالہ،دلیل پر حوالہ ہے،نہ کہ تقلید۔

یونہی اقوال ائمہ سے استناد اسی معنی پر ہے کہ یہ اہل سنت کا مذہب ہے،ولہٰذا ایک دو،دس بیس علمائے کبار ہی سہی، اگر جمہور و سواد اعظم کے خلاف لکھیں گے،اس وقت ان کے اقوال پر نہ اعتماد جائز، نہ استناد کہ اب یہ تقلید ہوگی، اور وہ عقائد میں جائز نہیں۔

اس دلیل اعنی سواد اعظم کی طرف ہدایت اللہ ورسول جل وعلیٰ و صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال رحمت ہے۔ہر شخص کہاں قادرتھا کہ عقیدہ کتاب وسنت سے ثابت کرے۔عقل تو خود ہی سمعیات میں کافی نہیں،ناچار عوام کو عقائد میں تقلید کرنی ہوتی،لہٰذا یہ واضح روشن دلیل عطا فرمائی کہ سواد اعظم مسلمین جس عقیدہ پر ہو، وہ حق ہے۔

اس کی پہچان کچھ دشوار نہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وقت میں تو کوئی بدمذہب تھا ہی نہیں،اور بعد کو اگرچہ پیدا ہوئے،مگر دنیا بھر کے سب بد مذہب ملا کرکبھی اہل سنت کی گنتی کونہیں پہنچ سکے۔

للہ الحمد فقہ میں جس طرح اجماع اقوی الادلہ ہے کہ اجماع کے خلاف کا مجتہد کو بھی اختیار نہیں۔اگرچہ وہ اپنی رائے میں کتاب وسنت سے اس کا خلاف پاتاہو، یقیناً سمجھا جائے گاکہ یا فہم کی خطا ہے،یا یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔اگرچہ مجتہد کو اس کا ناسخ نہ معلوم ہو۔

یونہی اجماع امت تو شئی عظیم ہے۔ سواد اعظم یعنی اہل سنت کا کسی مسئلہ عقائد پر اتفاق یہاں اقوی الادلہ ہے۔ کتاب وسنت سے اس کا خلاف سمجھ میں آئے توفہم کی غلطی ہے۔حق سواد اعظم کے ساتھ ہے۔

اور ایک معنی پر یہاں اقوی الادلہ عقل ہے کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی سے ظاہر ہوئی ہے، مگر محال ہے کہ سواد اعظم کا اتفاق کسی برہان صحیح عقلی کے خلاف ہو“۔
(فتاوی رضویہ جلد یازدہم:ص57-56-رضا اکیڈمی ممبئی)

توضیح :ایک مسلمان دیگر مسلمانوں کو جن عقائدکا معتقد اورجن اعمال پر کاربند دیکھتا اورسنتاہے تواس کویقین ہوجاتا ہے کہ یہ اسلامی عقائد واعمال ہیں اوروہ بھی انہی عقائدواعمال کا پابند ہوجاتا ہے۔

مثلاً ایک عام مسلمان دیکھتا ہے کہ ہر جگہ مسلمان پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ہر مسجد میں پانچ ہی وقت اذان و نماز ہوتی ہے،اورسب سے یہی سنتا ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں تو اس کویقین ہوجاتا ہے کہ مذہب اسلام میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔

اس عام مسلمان نے قرآن وحدیث نہیں پڑھی ہے،نہ دینی کتابیں پڑھی ہیں،لیکن اس کو یقین کامل ہے کہ مذہب اسلام میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔دراصل پانچ وقت کی نمازوں پر مسلمانوں کا اجماع واتفاق دیکھ کراوراسی بات کی صراحت سن کراس کو یقین ہوگیا کہ مذہب اسلام میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں تواس مسلمان کے لیے مسلمانوں کا اجماع واتفاق حصول یقین کی دلیل بن گیا تو اس نے دلیل کی روشنی میں پانچ وقت کی نمازوں کوفرض مانا،نہ کہ کسی کی تقلید میں۔

اسی طرح عقل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے وجود،اس کی قدرت، اس کے علم،اس کے ارادہ،اس کے سمیع وبصیر ہونے اور دیگر صفات الٰہیہ کا علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں بھی کائنات اور مخلوقات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود کا ادراک حاصل کرنے کی ہدایت متعددآیات مقدسہ میں آئی ہے۔ اس طرح عقل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے وجودکایقین حاصل ہوگا۔ یہاں بھی کسی کی تقلید نہیں۔

دہریوں سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناظرے بہت مشہور ہیں۔آپ نے دلیل عقل کے ذریعہ دہریوں کووجودالٰہی کا یقین دلایا۔

امام فخرالدین رازی شافعی (544ھ-606ھ)نے حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ تحریر فرمایا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دہریوں کوہمیشہ لاجواب کردیا کرتے،اس لیے وہ لوگ ہمیشہ آپ کے قتل کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے۔دہریہ لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ دنیا خودبخود وجود میں آگئی۔

ایک مرتبہ حضرت امام اعظم قدس سرہ العزیزکوفہ میں اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بہت سے دہریہ تلواریں لہراتے ہوئے آپ کے پاس آگئے،اور آپ کے قتل کا اراد ہ کیا۔آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ مجھے ایک سوال کا جواب دے دو، پھر جو چاہو، کرو۔دہریوں نے کہا کہ آپ سوال پیش کیجئے۔

امام اعظم قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ کوئی آدمی تم سے کہے کہ میں نے سمندرمیں سامانوں سے بھری ہوئی اور مال واسباب سے لدی ہوئی ایک کشتی دیکھی ہے کہ پے درپے موجوں اور آندھیوں وطوفانوں کے بیچ میں صحیح راستے پر اور درست سمت میں جارہی ہے،اور اس کشتی کا نہ کوئی ملاح ہے،نہ کوئی نگہبان ہے۔وہ خود بخود صحیح جہت میں اور صحیح راہ پر جارہی ہے۔بتاؤ کہ کیا عقل اس بات کو درست قرار دیتی ہے؟

دہریوں نے کہا کہ عقل اس بات کوقبول نہیں کرتی ہے،پس حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب ایک کشتی بغیرملاح کے خودسے سمندرمیں نہیں چل سکتی تواتنی بڑی دنیا خود سے کیسے بن سکتی ہے،اوربغیر کسی محافظ کے موسم وحالات کے اعتبارسے اس میں تبدیلیاں خودبخود کیوں کرہوسکتی ہیں۔

یہ جواب سن کردہریوں کو وجود باری تعالیٰ کا یقین ہوگیا۔وہ لوگ رونے لگے،اپنی تلواروں کونیام میں ڈال لیے،اور توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔

حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃوالرضوان نے جو خود سے کشتی چلنے کی بات فرمائی،وہ محض دہریوں کوسمجھانے کے واسطے فرمائی،تاکہ وہ لوگ اپنی عقل وخردکے سہارے وجود الٰہی کو سمجھ سکیں۔جس طرح غوروفکر سے وجود الٰہی کاثبوت فراہم ہوتا ہے،اسی طرح غوروفکر سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ودیگر صفات کا بھی علم ہوتا ہے۔

قال فخرالدین الرازی:(کان ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ سیفًا علی الدہریۃ-وکانوا ینتہزون الفرصۃ لیقتلوہ-فبینما ہو یومًا فی مسجدہ قاعد،اذ ہجم علیہ جماعۃ بسیوف مسلولۃ وہموا بقتلہ-فقال لہم:اجیبونی عن مسألۃ ثم افعلوا ما شئتم-فقالوا لہ،ہات- فقال:ما تقولون فی رجل یقول لکم-انی رأیت سفینۃ مشحونۃ بالاحمال مملوءۃ من الاثقال قد احتوشہا فی لجۃ البحر امواج متلاطمۃ وریاح مختلفۃ-وہی من بینہا تجری مستویۃ-لیس لہا ملاح یجریہا ولا متعہد یدفعہا-ہل یجوز ذلک فی العقل؟

قالوا:لا، ہذا شیء لا یقبلہ العقل-فقال ابوحنیفۃ:یا سبحان اللّٰہ! اذا لم یجز فی العقل سفینۃ تجری فی البحر مستویۃ من غیر متعہد ولا مجری-فکیف یجوز قیام ہذہ الدنیا علی اختلاف احوالہا وتغیر اعمالہا وسعۃ اطرافہا وتباین اکنافہا من غیرصانع وحافظ؟

فبکوا جمیعا وقالوا:صدقت،واغمدوا سیوفہم وتابوا)۔

(التفسیر الکبیر للرازی ج۱ص255-سورۃ البقرہ-داراحیاء التراث العربی بیروت)

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہانامہ پیغام شریعت ،دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا 

www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کے لیے  تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں

قسط اول

قسط دوم

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

قسط ہفتم

قسط ہشتم

قسط نہم 

قسط دہم

قسط یازدہم

قسط دازدہم

قسط سیزدہم

قسط چہاردہم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن