Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط بستم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط بستم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط بستم (20گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے دئیے گیے ہیں ضرور پڑحیں اور دوست و احباب کو شئیر کریں

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط بستم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی ؟
باب عقائدمیں فریق دوم کے یہاں استدلال لازم ہے تو کن امور میں استدلال لازم ہے۔متعدد عبارتوں سے واضح ہوتا ہے کہ باب الہیات میں استدلال کا حکم ہے۔تمام اعتقادی ابواب میں استدلال کا حکم نہیں۔

مومن ہونے کے لیے تمام ضروریات دین کی تصدیق لازم ہے۔ جن ضروریات دین کا تفصیلی علم ہے۔ ان کی تفصیلی تصدیق کا حکم ہے۔جن ضروریات کا تفصیلی علم نہیں ،ان کی اجمالی تصدیق کا حکم ہے ۔جب ہرایک مومن کوتمام ضروریات دین کا تفصیلی علم نہیں ہوتا ہے تو ہرایک ضروری دینی کے استدلال کی شرط ہرگز نہیں ہو سکتی۔

ذات الٰہی وصفات الٰہی سے متعلق استدلال کا حکم

فریق دوم کے یہاں باب عقائد میں استدلال لازم ہے تواس سے استدلال اجمالی مراد ہے۔ استدلال تفصیلی فرض کفایہ ہے ۔سب پر فرض نہیں ،بلکہ نماز جنازہ کی طرح فرض کفایہ کہ چندکی ادائیگی کافی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق استدلال کا حکم ہے ۔تمام عقائدکے بارے میں استدلال کا حکم نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات وصفات سے متعلق بندوں کو تفکر وتدبر کا حکم فرمایا ہے ۔اس سے بھی واضح ہے کہ وجود الٰہی اور صفات الٰہی کے لیے غور وفکراور نظر واستدلال کا حکم ہے ،نہ کہ تمام اعتقادیات کے لیے ۔

قال الملا علی القاری:(وقیل:معرفۃ مسائل الاعتقاد کحدوث العالم ووجود الباری وما یجب لہ وما یمتنع علیہ من ادلتہا فرض عین علٰی کل مکلف فیجب النظر-و لا یجوز التقلید-وہذا ہو الذی رجحہ الامام الرازی والآمدی۔
والمراد النظر بدلیل اجمالی-واما النظر بدلیل تفصیلی یتمکن معہ من ازالۃ الشبہ والزام المنکرین وارشاد المسترشدین ففرض کفایۃ۔
واما من یخشی علیہ من الخوض فیہ الوقوع فی الشبہۃ فالاوجہ ان المنع متوجہ فی حقہ-فقد قال البیہقی:انما نہی الشافعی رحمہ اللّٰہ وغیرہ عن علم الکلام لاشفاقہم علی الضعفۃ ان لا یبلغوا ما یریدون منہ فیضلوا عنہ)

(منح الاروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص407-دار السلامہ بیروت)

توضیح :منقولہ بالا اقتباس میں چار امور کا بیان ہے:(۱)ہر مکلف پراجمالی استدلال فرض ہے (۲ ) استدلال تفصیلی فرض کفایہ ہے(۳)غور وفکر سے جس کے گمراہ ہونے کا خوف ہو،اس کے لیے غور وفکر منع ہے (۴) اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق استدلال کا حکم ہے،نہ کہ تمام اعتقادیات میں استدلال کا حکم ہے ۔

قال العلامۃ البدایونی:(قالوا:اول واجب بایجاب اللّٰہ علینا عرفان اللّٰہ-ای معرفۃ وجودہ والوہیتہ وما لہ من الکمال-لا کنہ ذاتہ وصفاتہ-لامتناعہ عقلا وشرعا۔

قیل:المعرفۃ علی اربعۃ اقسام-الحقیقیۃ وہی معرفۃ اللہ تعالی لنفسہ-والعیانیۃ وہی مختصۃ بالاخرۃ عند مانعی الرویۃ فی الدنیا لغیر نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم-وتحصل لاہل الجنۃ فی الجنۃ۔
والکشفیۃ:وہی منحۃ الہیۃ ولا نکلف بمثلہا اجماعا-والبرہانیۃ:وہی ان یعلم بالدلیل القطعی وجودہ تعالی وما یجب لہ وما یستحیل علیہ-وہی المرادۃ فی ہذا العلم
والقرآن مملو بالحث علیہا والنظر فیہا-والاستدلال علیہا

قال اللہ تعالی: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی انفسہم حتی یتبین لہم انہ الحق۔

والتبین المعرفۃ-وارائۃ الأیات ہو النظر والاستدلال۔
وقال اللہ تعالی:وفی انفسکم ا فلا تبصرون۔

وفی قولہ:ا فلا تبصرون-توبیخ علی عدم النظر والاستدلال-وحث علیہ۔

وکون المعرفۃ واجبۃ مما لا خلاف فیہ بین المسلمین-وکذا النظر الموصل الیہ)
(المعتقد المنتقد :ص ۱۶-المجمع الاسلامی مبارک پور)

کوئی استدلال سے خالی نہیں ہوتا

قال القاری:(علٰی ان من اصحابنا من قال:ان المقلد لا یخلو عن نوع علم فانہ ما لم یقع عندہ ان المخبر صادق لا یصدقہ فیما اخبر بہ-وخبر الواحد وان کان محتملا للصدق والکذب فی ذاتہ-لکن متی ما وقع عندہ انہ صادق ولم یخطر ببالہ احتمال الکذب-وکان فی الحقیقۃ صادقًا نُزِّلَ منزلۃ العالم-لانہ بنی اعتقادہ علٰی ما یصلح دلیلا فی الجملۃ) (منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص 406-دار السلامہ بیروت)۔

توضیح :کسی کو ایک ہی آدمی نے اسلام کی خبردی اور اسے اسلام کی حقانیت کا یقین کامل ہوگیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا تو مومن کامل ہے۔ یہ اپنے طورپر استدلال کے ساتھ ایمان قبول کیا،کیوں کہ اس نے اس مبلغ وداعی کی بات کو سوچ سمجھ کر ہی سچ مانا اور اس کی بات پر یقین کرکے اسلام قبول کیا تو یہاں بھی ایک نوع کا استدلال پالیا گیا،پس یہ مقلد محض نہیں ہے،نیز عام مومنین بھی ذات الٰہی وصفات الٰہی پر اپنے طورپر استدلال کرتے ہیں۔گرچہ ان کا استدلال اہل علم کے استدلال کی طرح نہیں ہوتا ۔

قال الکمال ابن ابی الشریف(822ھ-906ھ)۔
(وقد اشار المصنف الٰی تحریر محل النزاع بقولہ (وقَلَّ ان یری مقلد فی الایمان باللّٰہ تعالی اذ کلام العوام فی الاسواق محشو بالاستدلال بالحوادث)ای بحدوثہا(علیہ) ای علٰی وجود ہ تعالی(وعلٰی صفاتہ) من العلم والارادۃ والقدرۃ وغیرہا۔
(المسامرۃ شرح المسایرۃ لابن الہمام جلددوم:ص193-192-مطبعۃ السعادۃ:مصر)

توضیح :عام طورپر جاہل مسلمان بھی باب عقائد میں استدلال سے خالی نہیں ہوتا ،لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ جس طرح اہل علم استدلال کرتے ہیں ،کوئی جاہل اس طرح استدلال نہیں کرسکتا ۔

قال القاری:(من نشأ فیما بین المسلمین من اہل القری والامصار من ذوی النُّہی والابصار-فلا یخلو ایمانہم عن الاستدلال والاستبصار-وان کان لا یہتدی الی العبارۃ عن دلیل بطریق النظار-فانہ محل الخلاف بیننا وبین المعتزلۃ)۔
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر :ص 406-دارالسلامہ بیروت )

کیا تکفیر شخصی میں ہرایک کو استدلال ضروری ؟
۔(۱)استدلال کا حکم متفق علیہ نہیں ،بلکہ جمہورعلما کے یہاں ایمان کے لیے محض یقین واعتقادکافی ہے ۔ ہاں ،علما کا ایک طبقہ استدلال کا بھی قائل ہے۔

۔(۲)کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے ،لیکن مذکورہ بالا توضیحات سے واضح ہو گیا کہ تمام ضروریات دین میں استدلال ضروری نہیں ،بلکہ استدلال کا حکم الٰہیات کے ساتھ خاص ہے۔

۔(۳)استدلال کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اعتقادی امور کے دلائل کی معرفت حاصل کرے ۔ایسا نہیں کہ جس کی دلیل سے جوعقیدہ ثابت ہو، وہ اس عقیدہ کو اپنالے ۔اس تناظر میں اگر بقول بجنوری مسئلہ تکفیر استدلالی بھی ہو تواس کا مفہوم یہ ہوگا کہ مفتی کے علاوہ دیگر مومنین بھی اس کے کافر ہونے کے دلائل کاعلم حاصل کریں۔

جب کہ بجنوری نظریہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس کی تحقیق میں جوثابت ہو ،وہ اسی کو مانے ،حالاں کہ یہ حکم اجتہادی احکام کا ہے ،نہ کہ اعتقادی مسائل کا ۔اجتہادیات میں ہرمجتہدکو اپنے اجتہاد پر عمل کا حکم ہوتا ہے۔

خلیل بجنوری نے لکھا :’’مسئلہ تکفیر تقلیدی نہیں ،بلکہ تحقیقی ہے۔پہلے سے مسلمانوں کا اسی پر عمل رہاہے ۔ اگر کسی عالم یا چند علما نے کسی شخص پر حکم کفر لگا دیا تو تمام مسلمانوں پر لازم نہیں ہے کہ محض ان لوگوں کے کہنے پر بغیر تحقیق کے ایمان لے آئیں،اور اس کوکافر کہتے پھریں ،بلکہ ایسا کرنا خلاف شریعت مطہرہ ہے،اس لیے کہ جس نے فتویٰ کفر دیا ہے ،وہ بھی بشر غیرمعصوم ہے‘‘۔
(انکشاف حق:مقالہ اول:ص77-جمال پریس دہلی )

خلیل بجنوری نے لکھا :’’جب آپ امام اعظم اور امام احمد بن حنبل کا یزید کے بارے میں اختلاف مان رہے ہیں تو ثابت ہواکہ یہ مسئلہ سلف میں مختلف فیہ رہا ۔جس کوتحقیق ہوگئی ،اس نے تکفیر کردی ۔جس کو نہ ہوئی ، اس نے نہ کی ،پھر کیوں شوروشر مچاتے پھر تے ہو۔ہراہل تحقیق اپنی تحقیق کے مطابق حکم دے گا ۔کسی کو کسی پر اعتراض کا حق نہیں‘‘۔(انکشاف حق :مقدمہ ص44-جمال پریس دہلی )۔

خلیل بجنوری نے اپنی کتاب میں اور کئی سالوں سے فرقہ بجنوریہ اور ہندوپاک کے مذبذبین یہ شور مچا رہے ہیں کہ فلاں نے تکفیر کی ، پھراس میں اختلاف ہوا،وہاں کسی نے اختلاف کرنے والوں کوکافرنہیں کہا تو اشخاص اربعہ کی تکفیر سے اختلاف کرنے والوں کو کافر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔بیس قسطوں میں اس سوال کا جواب رقم کر دیاگیا ہے۔

مزید کوئی اعتراض ہو تو ان شاء اللہ تعالیٰ جواب دیا جائے گا ۔

ان شاء اللہ تعالیٰ اب کفر اختلافی کی مختلف اقسام کا بیان قسط وا ر ہوگا اور فرقہ بجنوریہ کی گمراہ گری اوراس کے فتنے کو دفع کیا جائے گا ۔مسئلہ تکفیر کے تحقیقی ہونے کی بحث مکمل ہوئی ۔
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ حبیبہ الکریم::وآلہ العظیم

تحریر: طارق انور مصباحی(کیرلا)۔
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کے لیے  تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں

قسط اول 1

قسط دوم 2 

قسط سوم 3

قسط چہارم 4

قسط پنجم 5

قسط ششم 6

قسط ہفتم 7

قسط ہشتم 8

قسط نہم 9

قسط دہم 10

قسط یازدہم 11

قسط دازدہم 12

قسط سیزدہم 13

قسط چہاردہم 14

قسط پانزدہم 15

قسط شانزدہم 16 

قسط ہفدہم  17

قسط ہیزدہم 18

قسط نہدہم 19

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن