خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط دوم قسط اول کے کلک کریں تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ ۔صدر مدرس :دار العلوم محبوب سبحانی کرلا ممبئی
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط دوم
کُتُبِ شیعہ سے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا ثبوت
اللہ ربُّ العزت نے سورۂ لیل میں ارشاد فرمایا ۔[۱] وَ سَیُجَنَّبُھَا الْأتْقٰی الَّذِیْ یُؤتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ہ وَمَا لِأحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی ہ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی ہ وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ۔[سورۂ لیل، آیت نمبر از ۱۷ تا ۲۱]۔
ترجمہ:اور عن قریب اُس دوزخ سے اُسے دور رکھا جائے گا جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔جو اپنا مال اپنے باطن کو پاک کرنے کے لیے دیتا ہے ۔اور اُس پر کسی کا کوئی دنیاوی احسان نہیں ،جس کا بدلہ دیا جائے ۔مگر اُس کا مال دینا صرف اپنے ربِّ اعلیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہے ۔ اور عن قریب اُس کا رب ضرور راضی ہوگا ۔
اِس آیتِ کریمہ میں ’’اَلْاَتْقٰی‘‘ [سب سے بڑے متقی]سے مراد ، حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں؛ کیوں کہ آگے کی آیات میں ’’اَتْقٰی‘‘ کے جو اوصاف مذکور ہوئے ہیں ،اُن کا مصداق صرف اور صرف حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ؛لہٰذا ثابت ہوا کہ ’’افضل الخلق بعد الرسل‘‘ حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں
کیوں اللہ عز و جل نے فرمایاہے ’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ ‘‘[سورۂ حجرات ، آیت نمبر۱۳:] ترجمہ:بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرَّم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے ۔
چوں کہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’سب سے بڑےمتقی‘‘ ہیں ؛لہٰذا آپ ہی اللہ عز وجل کے نزدیک، حضراتِ انبیاے کرام و مرسلینِ عظام صلوات اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد سب سے زیادہ عزت و کرامت والے ہیں ۔
رہ گیا یہ دعویٰ کہ اِس آیتِ کریمہ میں ’’الاتقیٰ‘‘ کے مصداق ،حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ، تو اِس کی دلیل یہ ہے کہ اِس حقیقت کا اعتراف اہلِ سنت کے مفسرین کے علاوہ بعض اِنصاف پسند اہلِ تشیع نے بھی کیا ہے۔
چناں چہ رافضی مفسر شیخ ابو علی فضل بن حسن طبرسی متوفی ۵۴۸ھ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’مجمع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں ’’اتقی‘‘ کے مصداق میں، بغیر ردّو ابطال ، حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی بھی ذکر کیا ہے، گو کہ اُن کے نزدیک اِسے عموم پر محمول کرنا اَولیٰ ہے۔ وہ کہتے ہیں
[وَ سَیُجَنَّبُھَا الْأتْقٰی] ھُوَ اَبُو الدَّحْدَاحِ [ وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی] اِذَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، قَالَ: وَکَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَمُرُّ بِذٰلِکَ الْحَشِّ وَ عُذُوْقُہٗ دَانِیَۃٌ فَیَقُوْلُ: عُذُوْقٌ وَ عُذُوْقٌ لِّاَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّۃِ ۔ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:اِنَّ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی اَبِیْ بَکْرٍ لِأنَّہٗ اشْتَرٰی الْمَمَالِیْکَ الَّذِیْنَ أسْلَمُوْا ،مِثْلَ :بِلَالٍ وَ عَامِرِ بْنِ فُہَیْرَۃَ وَ غَیْرِھِمَا وَ اَعْتَقَھُمْ ۔وَالْاَوْلٰی أنْ تَکُوْنَ الْآیَۃُ مَحْمُوْلَۃً عَلٰی عُمُوْمِھَا فِیْ کُلِّ مَنْ یُعْطِیْ حَقَّ اللہِ مِنْ مَّالِہٖ وَ کُلِّ مَنْ یَّمْنَعُ حَقَّہٗ سُبْحَانَہٗ ۔[مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج۱۰:،ص۲۹۰:،مطبوعہ دارالمرتضیٰ بیروت]۔
ترجمہ:عن قریب دوزخ سے دور رکھا جائے گا وہ جو سب سے بڑا متقی ہے ۔اَتقیٰ سے مراد ’’حضرتِ ابو الدحداح انصاری‘‘ ہیں ۔اور عن قریب وہ راضی ہو جائےگا جب جنت میں داخل ہوگا ۔راوی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ ابو الدحداح کے ایک ایسے مرجھائے ہوئے کھجور کے درخت کے قریب سے گزرتے ،جس کے خوشے زمین سے قریب تھے ۔
تو فرماتے:یہ ابو الدحداح کے خوشے ہیں ،جنت میں بھی اُس کے لیے کھجور کے خوشے ہوں گے ۔اور[ حضرتِ] عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ یہ آیتِ کریمہ [حضرتِ] ابو بکر[صدیق] کی شان میں نازل ہوئی ؛ کیوں کہ اُنھوں نے بلال اور عامر بن فہیرہ جیسے کئی غلاموں کو خرید کر آزاد کیا تھا ۔اور بہتر یہ ہے کہ اِس کو عموم پر محمول کیا جائے ،یعنی یہ کہ آیتِ کریمہ کا نزول ہر اُس شخص کے بارے میں مانا جائے جو اپنے مال سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حق ادا کرے اور جواُس کا حق ادا کرنے سے غفلت برتے ۔
اِس شیعی مفسر نے سورۂ لیل کی مذکورہ آیاتِ مبارکہ کو، برضا و ورغبت حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں تسلیم کیا اور اُن کو بھی ’’اتقی‘‘ کا مصداق قرار دیتے ہوئے بلا نکیر حضرتِ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے قول کو نقل کیا ،جس سے ثابت ہوا کہ حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ’’حق کی تصدیق کرنے والے ،راہِ حق میں خرچ کرنے والے اور خدا کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والے ‘‘ ہیں ۔
شیخ طبرسی کا حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کو برقرار رکھنا ،اُن کے نزدیک اِس کے مقبول و محمود ہونے کی دلیل ہے ۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو حضرت صدیقِ اکبر کو حضور ﷺ کا خلیفہ و صحابی تو در کنار، سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتے؛بلکہ اُنھیں مومن مانتے والوں کو بھی کافر کہتے ہیں ؟۔کیا وہ اپنے ’’امین الاسلام شیخ طبرسی‘‘ کو کافر و بے دین کہنے کی جسارت کر سکیں گے؟
رافضی کہتے ہیں کہ آیتِ کریمہ میں ’’الاتقی‘‘ سے مراد ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ‘‘ ہیں ؛لہٰذا، افضل الخلق بعد الرسل حضرتِ علی ہی ہیں ۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ آیتِ کریمہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان پر محمول کرنا درست نہیں ہے ؛ اولاً اس لیے کہ خود رافضی مفسر شیخ طبرسی نے اِس کے شانِ نزول کے بیان کے وقت حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نام نہیں لیا۔ثانیاً یہ کہ یہاں رب تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ’’ وَمَا لِأحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی‘‘ ۔
یعنی’’اتقی‘‘ وہ ہے جس پر کسی کا دنیاوی احسان نہ ہو کہ جس کا بدلہ دیا جاتا ہے۔اور حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تو آقاے دو عالَم ﷺ کے بہت سے دنیاوی احسان تھے ، مثلاً:حضور ﷺ نے انھیں اُن کے والد سے لے کر ،بیٹے کی طرح اُن کی پرورش کی اور اُن کے قیام وطعام کا مکمل انتظام فرمایا ، جس کی جزا دنیااُن پر واجب تھا۔
اور جہاں تک حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق ہے تو اُن پر حضور ﷺ کا کوئی دنیاوی احسان نہیں تھا ؛ بلکہ خود حضرتِ ابو بکر صدیق ، حضور سیدِ عالَم ﷺ پر خرچ کیا کرتے تھے ، ہاں حضور ﷺ کے حضرتِ صدیقِ اکبر پر بے شمار دینی احسانات ہیں ،مثلاً آپ ﷺ نے اُنھیں ہدایت دی اور دین کے اسرار و معارف سکھایے۔اور اِن احسانات کا بدلہ کوئی امتی نہیں دے سکتا۔
اِس گفتگو سے واضح ہو گیا کہ اِس آیتِ کریمہ میں مذکور ’’الاتقی‘‘ کے صحیح مصدا ق صرف حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں ؛ کیوں کہ ’’الاتقی‘‘ کے جتنے بھی مصادیق بیان کیے گئے ہیں، اُن میں سواے سیدناصدیقِ اکبر کے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس پر کسی کا دنیاوی احسان نہ ہو ۔لہٰذا آیتِ مذکورہ کو عموم پر محمول کرنا صحیح نہیں ،جس طرح اِسے حضرتِ ابو الدَّحداح اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حق میں ماننا درست نہیں۔
۔ [۲] اللہ ربُّ العزَّت نے سورۂ زمر میں ارشاد فرمایا: وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ اُولٰٓئِکَ ھُمُ المُتَّقُوْنَ ہ لَھُمْ مَا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ۔[سورۂ زمر، آیت نمبر ۳۳:۔۳۴]۔
ترجمہ:اور جو[نبی] سچائی کا پیغام[دینِ اسلام] لائے اور جس نے اُن کی تصدیق کی ،وہی کامل متقی [پرہیز گار]ہیں ۔ اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہے جسے وہ چاہیں گے اور نیکی کرنے والوں کی یہی جزا ہے ۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’صدق کو لانے والے‘‘ اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ کو’’پرہیزگار،نیکو کار اور آخرت میں حسبِ خواہش جزا‘‘ پانے والا قرار دیا ہے ؛لیکن ’’والذی جاء بالصدق‘‘ اور ’’و صدق بہ‘‘ یعنی’’ سچے دین کو لانے والے‘‘ اور’’ اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مرادکون لوگ ہیں ؟ اِس سلسلے میں مفسرینِ کرام کے متعدد اقوال ملتے ہیں ۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری علیہ الرحمہ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’ جامع البیان فی تفسیر القرآن ‘‘ [تفسیرِ طبری] میںاُن تمام اقوال کو جمع فرمایا ہے ۔ وہ اَقوال مندرجہ ذَیل ہیں
۔[۱] حضرت ِعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:صدق سے مراد’’ لا الہ الا اللہ‘‘ اور ’’اُسے لانے‘‘ اور’’ اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے
مراد حضور ﷺ ہیں ؛ کیوں کہ سب سے پہلے آپ ہی نے اِس کلمے کو پڑھا اور سچے دل کی اس کی تصدیق کی ۔
۔[۲] حضرتِ علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:’’سچے دین کو لانے والے‘‘ سے مراد ،حضور رحمتِ عالَم ﷺ ہیں اور ’’اُس کی تصدیق کرنے
والے‘‘ سے مراد ،حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
۔[۳] حضرتِ قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’صِدق‘‘ سے مراد ،قرآنِ مقدس ہے اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مراد ،تمام مومنین
ہیں ۔
۔[۴] امامِ مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:’’صِدق‘‘ سے مراد ،قرآنِ کریم ہے اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مراد ،اہلِ قرآن[ یعنی قرآنِ
پاک سے محبت کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے] ہیں ۔
۔[۵] امامِ سُدِّی نے فرمایا:’’صدق‘‘ سے مراد قرآنِ مجید ہے ، اُس کو لانے والے حضرتِ سیدنا جبریل علیہ السلام ہیں اور اُس کی تصدیق کرنے
سیدنا محمدِ مصطفیٰ ﷺ ہیں ۔[جامع البیان فی تفسیر القرآن ،ج۲۴:،ص۵:۔۶،دار الفکر ،بیروت]
اہلِ سنت کے جملہ مفسرین کے نزد یک اِن تمام اقوال میں دوسرا قَول راجح و مختار ہے ۔یعنی اہلِ سنت کے اربابِ حل و عقد نے حضرتِ علی مولاے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو ترجیح دی ہے ۔یعنی یہ کہ’’والذی جآء بالصدق‘‘ سے مراد، حضور رحمتِ عالَم ﷺ اور ’’وصدق بہ‘‘ سے مراد،حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
رافضی مفسر شیخ ابو علی فضل بن حسن طبرسی اِن آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
[وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ] اُخْتُلِفَ فِیْ الْمَعْنٰی بِہٖ ، فَقِیْلَ:اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ مُحَمَّدٌ ﷺ جَآءَ بِالْقُرْآنِ وَ صَدَّقَ بِہٖ الْمُؤمِنُوْنَ فَھُوَ حُجَّتُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ،عَنِ ابْنِ زَیْدٍ وَ قَتَادَۃَ وَ مُقَاتِلٍ ،وَاحْتَجُّوْا بِقَوْلِہٖ :[اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ]۔
ترجمہ:[وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ] سے کیا مراد ہے ، اِس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں
۔[۱] ایک قول یہ ہے کہ ’’صدق یعنی دینِ اسلام لانے والے ‘‘ سے مراد حضرت سیدنا محمد ﷺ ہیں جو کہ قرآنِ مقدس لائے اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مراد ،تمام مومنین ہیں ۔لہٰذا قرآنِ مجید اُن کے لیے دینا اور آخرت میں حجت ہے ۔یہ قول ،ابنِ زید ، قتادہ اور مقاتل سے مروی ہے ۔اِنھوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان[اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ] سے استدلال کیا ہے ۔
وَقِیْلَ:اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَھُوَ الْقُرْآنُ ،جِبْرِیْلُ علیہ السلامُ وَ صَدَّقَ بِہٖ مُحَمَّدٌ تِلْقَآءً بِاْلقَبُوْلِ ،عَنِ السُّدِّیْ ۔ ترجمہ:[۲]دوسرا قول یہ ہے کہ ’’صدق‘‘ سے مراد قرآنِ پاک ہے اور’’صدق لانے والے‘‘ سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مراد حضور ﷺ ہیں کہ اُنھوں نے قرآنِ پاک کو قبول کرکے اُس کی تصدیق کی ۔یہ قول امام سدی نے منقول ہے ۔
وَقِیْلَ:اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَھُوَ قُوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ھُوَ مُحَمَّدٌ وَ صَدَّقَ بِہٖ ھُوَ اَیْضًا وَ بَلَّغَہٗ اِلٰی الْخَلْقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : وَلَوْ کَانَ الْمُصَدِّقُ بِہٖ غَیْرَہٗ لَقَالَ:وَالَّذِیْ صَدَّقَ بِہٖ وَ ھٰذَا أقْوَی الْأقْوَالِ ۔
ترجمہ:[۳]تیسرا قول یہ ہے کہ ’’صدق‘‘ سے مراد ،کلمۂ پاک ہے اور اور’’صدق لانے والے اور اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ دونوں سے مراد حضور ﷺ ہیں ؛ کیوں کہ آپ ﷺ نے اُس کی تصدیق کی اور اُسے مخلوق تک پہنچایا ۔یہ قول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔آپ نے فرمایا: اگر’’ اُس کلمۂ پاک کی تصدیق کرنے والے‘‘ سے مراد حضور ﷺ نہ ہوتے ؛ بلکہ کوئی اور ہوتا تو اللہ عز وجل یوں فرماتا:وَالَّذِیْ صِدَّقَ بِہٖ ۔ اور یہ سب سے مضبوط قول ہے ۔
وَقِیْلَ:اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَ صَدَّقَ بِہٖ أبُوْ بَکْرٍ ،عَنْ اَبِی الْعَالِیَۃِ وَالْکَلْبِیْ ۔وَقِیْلَ:اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ اَلْاَنْبِیَآءُ وَصَدَّقَ بِہٖ أتْبَاعُھُمْ ،عَنْ عَطَآءٍ وَالرَّبِیْعِ ۔
ترجمہ:چوتھا قول یہ ہے کہ’’صدق لانے والے ‘‘سے مراد ،اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے ‘‘ سے مراد، حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ قول ابو العالیہ اور کلبی سے مروی ہے ۔پانچواں قول یہ ہے کہ ’’الذی جاء بالصدق‘‘ سے مراد ، حضراتِ انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہیں اور ’’وصدق بہ‘‘ سے مراد،اُن کے پیرو کار ہیں ۔یہ قول عطا اور ربیع کا ہے ۔
وَقِیْلَ: اَلَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ مُحَمَّدٌ ﷺ وَ صَدَّقَ بِہٖ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ ،عَنْ مُجَاہِدٍ وَ رَوَاہُ الضَّحَّاکُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَھُوَ الْمَرْوِیُّ عَنْ اَئمَّۃِ الھُدٰی مِنْ آلِ مُحَمَّدٍﷺ ۔[مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج:۸۔ص:۳۰۳، دار المرتضی بیروت]
ترجمہ: چھٹا اور آخری قول یہ ہے کہ ’’صدق لانے والے‘‘ حضور ﷺ ہیں اور ’’اُس کی تصدیق کرنے والے‘‘ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔یہ امامِ مجاہد کا قول ہے ، اِسے ضحاک نے حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے اور یہی قول ائمۂ رشد و ہدایت حضراتِ اہلِ بیتِ اطہار علی جدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام سے مروی ہے ۔
’’وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ‘‘کے مصادیق سے متعلق صاحبِ مجمع القرآن تک جتنے بھی اقوال پہنچے ،اُنھوں نے منصفانہ طور پر اُن سب کو نقل کر دیا ۔گو کہ اُنھوں نے اپنی تحقیق کے مطابق ’’تیسرے قول‘‘ کو راجح و مختار اور سب ے قوی قول قرار دیا ہے ؛ مگر چوتھے قول کے مطابق حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’رسولِ پاک ﷺ کی تصدیق کرنے والا ،انتہائی متقی، حد درجہ نیکو کار اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی مرضی کے مطابق جزا پانے والا‘‘ بھی قرار دیا ہے۔
شیعہ مفسر کی جانب سے چوتھے قول کو بر قرار رکھنا اِس حقیقت کا برملا اعتراف ہے کہ حضرتِ ابو بکر مذکورہ بالا اوصاف سے متصف ہیں ۔یہی اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ ہے ۔جن بدبو دار شیطانی صفات کے حامل رافضیوں نے حضور سیدِ عالم ﷺ کے اِس یارِ غار کو معاذ اللہ ’’کافر، بے دین ، دوزخی اور ملعون‘‘ کہا یا کہتے ہیں ،اُنھیں چلو بھر پانی میں ڈوب کر مَر جانا چاہیے ؛بلکہ اپنے ہی تھوک میں اپنی ناک رگڑ رگڑ کر خود کشی کر لینی چاہیے؛بلکہ اُنھیں سرے سے اسلام و قرآن ہی کا انکار کر دینا چاہیے۔کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ اُن کے اِن ظالمانہ فتووں کی زَد میں اُن کے منصف مزاج علما و محققین؛ بلکہ خود حضرتِ علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم بھی آ رہے ہیں ۔
اکثر رافضی آخری قول کو اختیار کرتے ہوئے،بغیر کسی دلیل کے، محض حضرت علی کی عقیدت اور حضرتِ ابو بکر رضی اللہ عنہما کے بغض میں کہتے ہیں کہ ’’الذی جاء بالصدق‘‘سے مراد حضور ﷺ ہیں اور ’’وصدق بہ‘‘ سے مراد ، حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔
اِس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اولاً خود تمھارے مفسر شیخ طبرسی نے اِسے مرجوح و غیر مختار قول قرار دیا ہے ،تمھیں اپنے مفسر کی اتباع کرنی چاہیے !ثانیاً ’’وصدق بہ‘‘ سے حضرتِ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی بنسبت حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مُراد ہونا زیادہ واضح و راجح ہے ؛ کیوں کہ جس وقت حضرت علی ایمان لائے تھے ،اُس وقت وہ بہت کمسن تھے۔
اور اُن کے ایمان لانے سے اُس وقت اسلام کو کوئی خاص شوکت حاصل نہیں ہوئی تھی ، گوکہ انھوں نے جوان ہونے کے بعد اسلام کی شوکت کو دو بالا کیا اور اعلاے کلمۂ حق کے لیے نا قابلِ فراموش اور بے نظیر قربانیاں پیش کیں ۔
اِس کے بر خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑی عمر والے تھے؛ بلکہ مکۂ مکرمہ کے رئیس تاجر تھے ، جب انھوں نے سب سے پہلے حضور ﷺ کی تصدیق کی تو اسلام کو زبردست قوت اور انتہائی شوکت حاصل ہوئی ؛ لہٰذامختار یہی ہے کہ اِس آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی توصیف فرماتے ہوئے اُنھیں ’’کامل متقی ‘‘اور ’’نیکو کار‘‘ قرار دیا ہے ۔
قارئینِ کرام غور فرمائیں کہ کتنے بد بخت ہیں وہ لوگ جو اُس ذات پر تبرا کرتے ہیں جنھیں اللہ رب العزت نے دنیا ہی ’’متقین ومحسنین ‘ ‘ کے زمرے میں شامل فرمایا ہے۔
اِن ظالموں کو حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کا خلیفۂ بلا فصل نہیں مانتا تھا نہ مانتے ؛ مگر کم از کم اُن پر لعن و طعن تو نہ کرتے ، اُنھیں حضور ﷺ کی ناموس کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے والا مخلص صحابی تو مانتے ! اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا کرے ۔
اور تجھ پر میرے بو بکر کی عنایت نہ سہی
رافضی! کلمہ بچانے کا بھی احسان گیا
جاری
من جانب : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی
تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ ۔
صدر مدرس : دار العلوم محبوب سبحانی کرلا ممبئی
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع