مسلم لڑکیوں کا غیروں کے ساتھ رشتہ محبت کی روک تھام کیسے ہو ؟ ✍️ محمد حسین سلیمانی رکن : تحریک فروغ اسلام
مسلم لڑکیوں کا غیروں کے ساتھ رشتہ محبت کی روک تھام کیسے ہو
بلا شبہ علم شرافت و کرامت اور دونوں جہان کی خوش بختیوں سے مستفیض ہونے کا ایک واحد اور یگانہ ذریعہ ہے ، علم ہی کی وجہ سے انسان دیگر بے شمار و لاتعداد مخلوقات سے افضل و ممتاز قرار پایا، علم ہی کے واسطے سے حضرت انسان نے اس بے جان اور جامد زمین کو زرخیز بنایا ہے۔
بہرحال ہر با شعور اور صاحب بصیرت انسان علم کی اہمیت کا معترف ہے۔ اور یہ بھی اظہر من الشمس سے ہے کہ کسی بھی قوم کو اجتماعی طور پر تہذیب و تمدن اور دین سے روشناس کرنے میں اس قوم کی معزز خواتین کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اور قوم کے نو نہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشو و نما میں ان کی ماؤں کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
اور اس بات سے بھی آپ انکار نہیں کر سکتے کہ تعلیم نسواں کس قدر اہمیت کی حامل ہوتی ہر معاشرے میں تہذیب و ادب کو فروغ دینے کے لیے۔ خود حضور نے تعلیم نسواں کا خاص طور پر اہتمام فرمایا۔ مگر مروجہ تعلیم اور نظام تعلیم و نصاب تعلیم نے قیامت صغرٰی برپا کر رکھی ہے۔
مروجہ تعلیم نے عورت کو ملبوس نسوانیت سے نکل کر مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا مغربی درس دے کر عورت کو گھر کی مقدس چار دیواری سے نکال کر سامان تماشہ عالم بنا دیا- اور نصاب تعلیم سے تعلیم مصطفوی و تہذیب مصطفوی نکال کر مغربی تعلیم و تہذیب کو اپنا لیا-
بس اسی دن سے دختران اسلام نے حیا شناس چادر اتار کر بے حیائی کا دوپٹا اوڑھ لیا- اس منظر کو جب اقبال نے دیکھا تو بڑے غم اور افسوس کے ساتھ یہ سبق دیا امت کو کہ جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت لیکن اس کی یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی پھر مکار و عیار مغرب نے ایک اور تباہ کن چال یہ چلی کہ فلموں اور ڈراموں کا آغاز کیا۔
اور اس میں مجازی عشق کی ایسی ایسی کہانیاں دکھائیں جس میں دین ومذہب کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا- اور یہ بدعت شنیعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی اور مغربی تہذیب کی پر ورندہ اس بدعت نے ساری حدیں توڑ کر رکھ دیں- پھر اس فعل شنیع سے متاثر ہو۔
کر ایک جماعت وجود ميں آئی جو اپنے آپ کو ترقی پسند اور لبرلزم کہنے لگی- اور ارباب فکر ودانش اس جماعت کو نام نہاد ترقی پسند جماعت کے نام سے جانتے ہیں- اس جماعت نے مسلم و غیر مسلم کے درمیان تمام تر امتیازات کو مٹا کر رکھ دیا اور سب کو ایک شمار کرنے لگے- اتنے پر ہی بس نہ کی بلکہ ایک ہی چھت کے نیچے نماز و پوجا کا درس دینے اور اپنے بچوں کی شادیاں بھی غیر مسلموں میں کرنے لگے۔
یہ وبا پھیلتی چلی گئی اور آج اس نے اتنی پذیرائی حاصل کر لی کہ ہر دن یہ خبر قیامت خیز سننے کو ملتی ہے کہ آج فلاں فلاں جگہ ایک مسلم ؛ خداء وحدہ لاشریک کو ماننے ؛ اور نبی کا کلمہ پڑھنے والی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی- اور یہ سب کیا دھرا اس مغربی تعلیم و تہذیب کا ہے جس کو ہم نے ترقی کی راہ سمجھ کر اپنایا تھا- یہ سب کچھ ہوتا دیکھ اگر آج ہم نے ہوش کے ناخن نا لیے تو آنے والا وقت ہمارے لیے نا قابل قبول ہوگا۔
اب اس دور پر فتن اور قیامت خیز منظر میں ان تمام برائیوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اپنی بچیوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا جایے- اور اپنے گھروں میں دینی ماحول کو استوار کیا جایے۔
بالخصوص اپنے بچوں کے دلوں میں مذہب اسلام کی اہمیت اجاگر کی جایے اور اپنے نصاب تعلیم میں قرآن و سنت کو داخل کیا جایے اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اسکول اور کالج بنائیں تب ہی یہ ممکن ہے ورنہ آیے دن یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر خون کے آنسوں رونے پڑیں گے اللہ حفاظت فرمائے آمین آخر میں اقبال کی ایک نصیحت سے محظوظ ہوتے جائیں کہ اگر پندے زدرویشے پذیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصرکہ در آغوش شبیرے بگیری
محمد حسین سلیمانی
رکن : تحریک فروغ اسلام
اس کو بھی پڑھیں: اصلاح معا شرہ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں