Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتخلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط سوم

خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط سوم

تحریر: سید اکرام الحق مصباحی خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط سوم (قسط اول  قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں)۔

خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط سوم

۔[کُتُبِ شیعہ سے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا ثبوت]۔

۔[۳] اللہ ربُّ العزت نے سورۂ نور میں اِرشاد فرمایا
وَلَا یَأتَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ أنْ یُّؤتُوْآ اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْآ اَلَا تُحِبُّوْنَ أنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔[سورۂ نور، آیت نمبر ۲۲:]۔

ترجمہ:اور تم میں سے اَصحابِ فضل[فضل والے] اور اَربابِ وُسعت[مال دار]یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتے داروں ، مسکینوںاور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے ۔ اُن کو چاہیے کہ اُنھیں معاف کر دیں اور نظر انداز کریں۔کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ کہ اللہ تمھیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے ۔

مفسرینِ اہلِ سنت فرماتے ہیں کہ یہ آیتِ کریمہ حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔چناں چہ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں

یہ آیتِ کریمہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔اُن کے خالہ زاد بھائی ’’مسطح بن اثاثہ‘‘ بھی اُن لوگوں میں سے تھے ،جنھوں نے اُمُّ المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی تھی ۔جب حضرتِ عائشہ صدیقہ کی براءَت پر آیاتِ قرآنیہ نازل ہو گئیں تو مسطح کا جھوٹ بھی واضح ہو گیا ۔

مسطح کی اِس حرکت سے حضرتِ ابو بکر صدیق کو بہت گہرا رَنج لاحق ہوا ؛ کیوں کہ وہ یتیم تھے ،جس کے سبب اُن کی پرورش حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے کی تھی ۔سو اُنھوں نے [بتقاضاے بشری طیش میں آکر] مسطح کو آئندہ کچھ بھی نہ دینے کی قسم کھا لی ۔مسطح نے معافی بھی مانگی 

لیکن حضرتِ صدیقِ اکبر اِس قدر جلال میں تھے کہ دوبارہ اُن کے اِخراجات بحال کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے ۔جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو آپ نے اپنی قسم سے رجوع کیا اور فرمایا: بالکل ! میں چاہتا ہوں کہ اللہ ربُّ العزت میری مغفرت فرما دے اور اب مَیں مسطح پر پہلے سے بھی زیادہ خرچ کروں گا۔[جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج۱۸:،ص۱۳۶:۔۱۳۷،دارالفکر، بیروت]۔

شیعہ مفسر شیخ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کی تفسیر کے مطابق بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کا یہی شانِ نزول راجح و مختار ہے؛کیوں کہ اُنھوں نے سب سے پہلے اِسی قول کو ذکر کیا ہے ۔چناں چہ کہتے ہیں 

اَلنُّزُوْلُ : قِیْلَ:اِنَّ قَوْلَہٗ ’’وَلَا یَأتَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ‘‘ الآیۃَ، نَزَلَتْ فِی أبِیْ بَکْرٍ وَ مِسْطَحِ بْنِ أثَاَثۃَ ۔ وَکَانَ ابْنَ خَالَۃِ أبِیْ بَکْرٍوَکَانَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَ مِنْ جُمْلَۃِ الْبَدْرِیِّیْنَ وَ کَانَ فَقِیْرًا، وَ کَانَ أبُوْ بَکْرٍ یُجْرِیْ عَلَیْہِ وَ یَقُوْمُ بِنَفْقَتِہٖ۔ فَلَمَّا خَاضَ فِی الْاِفْکِ قَطَعَھَا وَ حَلَفَ أنْ لَّا یَنْفَعَہٗ بِنَفْعٍ اَبَدًا ۔ فَلَمَّا نَزَلَتِ الْآیَۃُ عَادَ أبُوْ بَکْرٍ اِلٰی مَا کَانَ وَقَالَ:وَاللہِ اِنِّی لَاُحِبُّ أنْ یَّغْفِرَ اللہُ لِیْ۔ وَاللہِ لَا أنْزَعُھَا عَنْہُ أبَدًا ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَۃَ وَابْنِ زَیْدٍ ۔ وَقِیْلَ:نَزَلَتْ فِیْ یَتِیْمٍ کَانَ فِیْ حِجْرِ أبِیْ بَکْرٍ، حَلَفَ لَا یُنْفِقُ عَلَیْہِ ،عَنِ الْحَسَنِ وَ مُجَاھِدٍ ۔ وَقِیْلَ نَزَلَتْ فِی جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ أقْسَمُوْا عَلٰی أنْ لَّا یَتَصَدَّقُوْا عَلٰی رَجُلٍ تَکَلَّمَ بِشَیْءٍ مِّنَ الْاِفْکِ وَلَا یُوَاسُوْہُ ۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَغَیْرِہٖ ۔[مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، ج۷:،ص۱۷۱:،مطبوعہ دارالمرتضی، بیروت]۔

ترجمہ: راجح قول کے مطابق یہ آیتِ کریمہ [حضرتِ] ابو بکر اور مسطح بن اثاثہ کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔مسطح، ابو بکر کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ یہ، مھاجرین اور بدری صحابہ میں سے تھے ، غریب تھے ؛ اِسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق اُن کے اخراجات برداشت کیا کرتے تھے ۔جب اُنھوں نے حضرتِ عائشہ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو حضرتِ ابو بکر نے اُن سے قطعِ تعلق کر لیا اور قسم کھا لی کہ اُنھیں کبھی بھی کچھ بھی نفع نہیں دیں گے۔جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو حضرتِ ابو بکر نے اپنے اِس قول سے رجوع کیا اور کہا: بخدا میں چاہتا ہوں کہ اللہ عز وجل مجھے بخش دے ۔

اَب میں کبھی بھی مسطح کا نفقہ بند نہیں کروں گا ۔یہ، شانِ نزول حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرتِ عائشہ اور حضرت ابن زید سے منقول ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیتِ کریمہ ایک ایسے یتیم کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے جو حضرتِ ابو بکر کی کفالت میں تھا ۔

اُنھوں نے قسم کھا لی تھی کہ اُس پر کچھ بھی خرچ نہیں کریں گے ۔یہ قول ،حضرتِ حسن اور حضرتِ مجاہد سے مروی ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ آیتِ کریمہ صحابۂ کرام کی ایک ایسی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنھوں نے قسم کھا لی تھی کہ وہ کسی بھی ایسے شخص پر کچھ بھی نہیں خرچ کریں گے جس نے تہمت لگانے میں کسی قسم کا حصہ لیا ہو اور نہ ہی اُس کے ساتھ کسی قسم کی رواداری بر تیں گے ، یہ تفسیر حضرتِ عبد اللہ بن عباس وغیرہ سے مروی ہے ۔
تواتر سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ اقدس میں نازل ہوئی ہے، فریقین کے معتبر و مستند مفسرین نے اِس کا اعتراف کیا ہے؛ لہٰذا یہ آیتِ مبارکہ خلیفۂ بلا فصل امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت و منقبت پر مندرجہ ذَیل وجوہ سے دلالت کر رہی ہے 

۔[۱] اِس آیت میں حضرتِ ابو بکر کو ’’اولو الفَضل والسَّعۃ‘‘ جیسے گراں قدر القاب سے نوازا گیا ہے ، جس سے ثابت ہوا کہ آپ فضل و کمال والے ہیں اور کشادہ قلبی آپ کا وصف ہے ۔جو بد بخت آپ کو ’’فضل والا‘‘ نہ مانے وہ اِس آیتِ کریمہ کا منکر ہے ۔

۔[۲] یہ آیتِ کریمہ حضرتِ صدیقِ اکبر کی عظمت پر دلالت کر رہی ہے ؛ کیوں کہ اِس میں شخصِ واحد[ یعنی حضرتِ ابو بکر صدیق] پر جمع کا اطلاق کیا گیا ،یعنی آپ کو ’’ذو الفضل والسعۃ‘‘ نہیں کہا گیا ؛ بلکہ ’’اولو الفضل والسعۃ‘‘ کے طمغے سے نوازا گیا ہے ۔اور یہ ضابطہ ہے کہ جب کسی ایک شخص کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا جائے تو اُس کی تعظیم کا اظہار مقصود ہوتا ہے ۔

جب خود خداے لم یزل نے اپنے محبوب ﷺ  کے یارِ غار کی تعظیم ظاہر فرما دی تو بندوں کو کیا ہو گیاہے کہ اُن کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے؟ ۔صدیقِ اکبر کی تکریم سے منہ موڑنے والے بد بخت یقیناً ’’خدا سے بغاوت‘‘ کرنے والے ہیں ۔

۔[۳] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:’’ اولو الفضل منکم‘‘ یعنی تم میں سے جو صاحبِ فضیلت ہیں ۔یہ خطاب حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ہے ۔ ہر صحابیِ رسول ’’فضل و کمال والا‘‘ ہے ؛ مگر جسے پروردگارِ عالَم نے ’’فضل و کمال ‘‘ والا کہہ دیا ،اُس کی عظمتوں کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے ؟ معلوم ہوا کہ  حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابۂ کرام سے افضل و اکمل ہیں ۔

۔[۴] اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو مطلقاً ’’صاحبِ فضل و کمال‘‘ کہا اورآپ کی فضیلت کو کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہیں فرمایا ۔جس سے معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ’’ فاضل علی الاطلاق‘‘ ہیں یعنی آپ ہر لحاظ ، ہر اعتباراور ہر زاویے سے ’’صاحبِ فضیلت‘‘ ہیں ؛ لہٰذا ثابت ہوا کہ انبیاے کرام و مرسلینِ عظام صلوات اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد جو مقام ومرتبہ آپ کا ہے ،وہ کسی کا نہیں ۔

۔[۵] اِس آیتِ کریمہ میں حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’اُولُو السَّعَۃِ’’[صاحبِ وُسعت۔گنجائش والا۔ کشادہ قلب۔نرم دل۔مہربان] کہا گیا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ خیر خواہ، اُن پر سب سے زیادہ مہر بان اور اُن کے ساتھ سب سے زیادہ حسنِ سلوک کرنے والے تھے

لہٰذا حضور ﷺ  کے وصال کے بعد آپ ہی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار تھے ۔ اِس حقیقت سے سبھی صحابہ واقف تھے ، اِس لیے انھوں نے بلا توقف آپ کی خلافت کو تسلیم کیا ،حتیّٰ کہ حضرتِ شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے بھی ،کسی جبر و اکرام کے بغیر ، برضا و رغبت آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ، آپ کی بیعت کو قبول کیا ، جیسا کہ آئندہ بحوالہ ثابت کیا جائے گا۔

۔[۶] اِس آیتِ مبارکہ میں اللہ ربُّ العزَّت نے حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:

وَلْیَعْفُوْاوَلْیَصْفَحُوْا[اُنھیں چاہیے کہ معاف کر دیں اور در گزر کریں ]

معاف کرنا اور نظر انداز کرنا ’’متقیوں‘‘ کا وصف ہے۔جو جتنا بڑامتقی ہوتا ہے، اُس کے اندر’’عفو و در گزر‘‘ کے جذبات بھی اُسی قدر زائد ہوتے ہیں ۔اِس سے ثابت ہوا کہ حضرتِ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’متقی‘‘ تھے ؛ بلکہ ایسے متقی کہ جب بتقاضاے بشری انھوں نے ’’مسطح‘‘ پر خرچ نہ کرنے کی قسم کھا لی تو پروردگارِ عالم نے اُنھیں ’’عفو و در گزر‘‘  کرنےکی ترغیب دی اور اُس پر مغفرت کا وعدہ بھی فرمایا۔

اب جو رافضی ’’اِس بے نظیر متقی‘‘ کو ’’کافر، فاسق اوردوزخی‘‘ کہتے ہیں ، وہ تقوے کی اُس سند کو مسترد کر رہے [ٹھکرا رہے] ہیں جس سے، اللہ عز وجل نے صدیقِ اکبر کو سرفراز فرمایا ہے ۔بھلا ایسے بد بخت بھی مومن ہو سکتے ہیں ؟

۔[۷] اِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربُّ العزت نے حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اَلَا تُحِبُّوْنَ أنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ ۔[کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں بخش دے؟]۔

یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’حضرت ابو بکر‘‘ کی مغفرت کو ’’حضرتِ مسطح‘‘ سے در گزر کرنےپر معلَّق فرمایا ہے ۔اور جب انھوں نے مسطح کو معاف کر دیا تو مغفرت و بخشش کے حق دار ہو گئے 

لہٰذا یہ آیتِ کریمہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بخشش کی’’ قطعی دلیل‘‘ ہے ۔ اب جو بھی رافضی لعن و طعن کرتے ہوئے اُنھیں دوزخی قرار دیتے ہیں وہ اِس بشارتِ عظمیٰ کو مسترد کرکے خود کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں ۔

اِس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ ’’خلیفۂ بر حق‘‘ تھے؛ کیوں کہ اگر اُن کی خلافت بر حق نہ ہوتی ؛ بلکہ وہ حضرت شیرِ خدا کے حقِّ خلافت کو غصب کرنے والے ہوتے، تو ہر گز مغفور[بخشے ہوئے] نہ ہوتے ۔جب کہ اِس آیت ِ کریمہ میں اُنھیں بخشش کا پروانہ عطا کیا گیاہے ؛لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرتِ ابو بکر صدیق واقعی حضور ﷺ  کے سچے جانشیں ،آپ ﷺ  کے خلیفۂ بلا فصل اور مسلمانوں کے سب سے مخلص ’’امیر المومنین‘‘ہیں ۔
’’نہج البلاغہ‘‘ کا مقام عربی ادب اور فصاحت و بلاغت میں انتہائی بلند ہے ۔اہلِ تشیع کے یہاں اِسے قرآن وحدیث کے بعد سب سے اونچا مقام حاصل ہے ۔ اِس کی ہر بات اُن کے نزدیک نصِّ قطعی کا درجہ رکھتی ہے ۔تیسری صدی ہجری کے معروف شیعہ عالمِ دین ’’سید شریف رضی‘‘ نے اِس میں حضرتِ علی مولاے کائنات کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے منتخب خطوط ، خطبات ، مکتوبات اور حکمت آمیز اقوال و نصائح کو جمع کیا ہے اور اُنھیں بابُ مدینۃ العلم حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب منسوب کیا ہے ؛ مگر ہمارے نزدیک اِس کی اسنادی حیثیت درست نہیں ہے ؛ کیوں کہ اِس میں بعض باتیں باطل اور بالکل من گھڑت ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اُنھیں پروردۂ رسول حضرت مولا علی علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے کہیں ہوں ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ’’ لسان المیزان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں

جو شخص بھی نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے گا وہ یقین سے کہے گا کہ یہ، حضرتِ مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر جھوٹ گھڑا گیا ہے ؛ اِس لیے کہ اِس میں شیخینِ کریمین حضرتِ ابو بکر صدیق اور حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو صریح گالیاں دی گئیں ہیں اور اِس میں ایسے تناقضات اور ایسی گھٹیا چیزیں بھی مذکور ہیں کہ جو شخص بھی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے حالات و کوائف اور اُن کی عظمت و شان سے واقف ہے وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ تمام باتیںباطل و مردود ہیں، اِن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔[لسان المیزان ،ج۴:،ص۲۲۳:]۔

مگر موجودہ ’’نہج البلاغہ ‘‘میں اب بھی ایسی بہت سی عبارتیں ہیں جو حضراتِ شیخینِ کریمین کی عظمت و شان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔مثلاً اِس میں موجود وہ خط ملاحظہ فرمائیں جو حضرتِ علی شیرِ خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ،حضرتِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام تحریر فرمایا تھا، حضرتِ شیرِ خدا اُس میں فرماتے ہیں

اِنَّہٗ بَایَعَنِیْ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا أبَا بَکْرٍوَ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلٰی مَا بَایَعُوْھُمْ عَلَیْہِ فَلَمْ یَکُنْ لِلشَّاھِدْ  أنْ یَّخْتَارَ وَلَا لِلْغَائِبِ أنْ یَّرُدَّ وَاِنَّمَا الشُّوْرٰی لِلْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ فَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَ سَمَّوْا اِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلہِ رِضًا ۔[نہج البلاغہ ، ص۹۲۶:]۔

ترجمہ:مجھ سے اُن لوگوں نے بیعت کر لی ہے جنھوں نے حضرت ابو بکر ، حضرتِ عمر اور حضرتِ عثمان سے بیعت کی تھی اور اُن اُمور پر بیعت کی ہے جن پر اُنھوں نے اُن حضرات سے بیعت کی تھی ؛ لہذا اب نہ کسی موجود شخص کو بیعت نہ کرنے کا اختیار ہے اور نہ کسی غائب کو بیعت مسترد کرنے کا حق۔مشورہ دینے کا حق تو صرف ’’مہاجرین و انصار‘‘ کو حاصل ہے ۔

اور جب وہ کسی شخص کے انتخاب پر متفق ہو جائیں اور اُس کو امام قرار دیں تو[وہ خلیفۂ بر حق ہے، پس] اُسے اللہ کی مرضی [یعنی اُس کا منتخب اور پسندیدہ خلیفہ ]سمجھنا چاہیے !۔

اِس مکتوبِ گرامی میں حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے، حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بالمقابل، اپنی خلافت کی حقانیت پر جس انداز سے استدلال فرمایا ہے ، اُس کا خلاصہ درج ذیل ہے

اے معاویہ ! تم نے مجھ سے اختلاف کرکے ’’خلیفۂ بر حق‘‘ کے خلاف بغاوت کی ہے ؛ کیوں کہ میری خلافت بر حق ہے ۔ میری خلافت کے حق پر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضراتِ خلفاے ثلثہ کی خلافت بر حق تھی؛ کیوں کہ مجھ سے بھی اُنھی مہاجرین و انصار نے بیعت کی ہے ، جنھوں نے  حضرت ابو بکر، پھرحضرت عمر اور پھر حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بیعت کی تھی؛ لہٰذا جب اُن کی خلافت بر حق تھی تو میری خلافت کیوں کر بر حق نہ ہوگی ؟

حضرتِ مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی صحیح ہونے پر حضراتِ خلفاے ثلثہ کی خلافت کو دلیل بنایا ہے ۔ اب اگر اُن تینوں کی خلافت ہی کو تسلیم نہ کیا جائے تو خود حضرتِ علی کی خلافت کی حقانیت کیسے ثابت ہوگی ؟

اب جو لوگ حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو ’’خلیفۂ بر حق‘‘ مانتے ہیں ؛ مگر حضراتِ خلفاے ثلثہ کی خلافت کو کالعدم قرار دیتے ہیں ،وہ لوگ در حقیقت حضرتِ مولا علی کی خلافت کو بھی تسلیم نہیں کرتے ؛ کیوں کہ حضرتِ مولا علی کی مذکورہ تحریر نے صاف طور پر یہ واضح کر دیا کہ اُن کی خلافت کی صحت اُن تینوں کی خلافت کی صحت سے وابستہ ہے ۔

اُن کی خلافت کو تسلیم کیے بغیر اِن کی خلافت بھی ثابت نہ ہو سکے گی۔اہلِ تشیع کو چاہیے کہ یا تو ’’نہج البلاغہ کو ردِّی کی ٹوکری‘‘ میں ڈال دیں یا پھر خلفاے ثلثہ کی عظمت و شان کے ساتھ اُن کی خلافت کی حقانیت کو بھی تسلیم کریں۔

[جاری]

تحریر سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ

من جانب: نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ

(قسط اول  قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں)۔

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں

हिन्दी में पढ़ने के लिए क्लिक 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن