تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط چہارم
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں قسط چہارم
[کُتُبِ شیعہ سے خلیفۂ دوم حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقِب کا ثبوت]
اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک’’ امیر المومنین ، فاروقِ اعظم حضرت سیدنا عمر بن خطاب‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور ﷺ کے دوسرے جانشیں اورحضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد سب سے افضل صحابی ہیں ۔آپ کی شانِ اقدس میں بھی کثرت کے ساتھ آیاتِ کریمہ و احادیثِ نبویہ وارد ہیں ؛ بلکہ آپ کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جن میں کوئی بھی آپ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔
مگر صد افسوس ! کہ ا ہلِ تشیع اپنی بد قسمتی کے سبب ،حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح اِنھیں بھی ’’ظالم اور غاصب‘‘ سمجھتے ہیں؛بلکہ بہت سے بد بخت اِنھیں کافر و مرتد تک کہتے ہیں اور اِن پر لعن طعن کرنا باعثِ نجاتِ اُخروی جانتے ہیں ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اہلِ تشیع کو جتنی نفرت و عداوت حضرتِ سیدنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے شاید ہی کسی اور سے ہو ۔ یہ بد بخت اُن کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے۔جس طرح شیطانِ لعین اذان کی آواز سن رِیاح خارج کرتے ہوئے بھاگتا ہے ، بالکل یہی کیفیت حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکرِ جمیل کے وقت اِن ناہنجاروں اور انسان نما شیطانوں کی بھی ہوتی ہے۔
مگر سچ کہا گیا ہے کہ متعصب و معاند حق کو چھپانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کر لے ،وہ زبان پر جاری ہو ہی جاتا ہے ۔
اگرچہ اہلِ تشیع کے اکثر علما نے حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ اقدس میں سخت ترین مغلظات بکے ہیں اور بد ترین گستاخیاں کی ہیں اور اُن کی عظمت و شان کو گھٹانے کی لیے من گھڑت روایتوں کا سہارا لیا ہے ؛ مگر دل میں خوفِ خدا اور دینی غیرت و حمیت کے کچھ اثرات رکھنے والے اُن کے بعض انصاف پسند مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں قصداً یا سہواً ایسی روایتیں بھی ذکر کی ہیں جن سے خلیفۂ دوم حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب ثابت ہوتے ہیں ۔بطورِ ثبوت چند شہادتیں ملاحظہ فرمائیں
۔[۱] اہلِ تشیع کے یہاں ’’نہج البلاغہ‘‘ کا مقام ومرتبہ کیا ہے وہ کسی بھی صاحبِ بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔اِس میں اور اِس کی شرح’’شرح نہج البلاغہ للشیخ ابن ابی الحدید‘‘ میں ایسے کئی خطبات اور متعدد ایسے اقوال ملتے ہیں جو فاروقِ اعظم کی عظمتوں کو جھک جھک کر سلام پیش کر رہے ہیں ۔ مثلاً ’’نہج البلاغہ‘‘ کےمندرجہ ذیل خطبے میں حضرتِ شیرِ خدا مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :
لِلہِ بِلَادُ فُلَانٍ فَقَدْ قَوَّمَ الْاَوَدَ وَ دَاوٰی الْعَمَدَ وَ اَقَامَ السَّنَّۃَ وَ خَلَّفَ الْفِتْنَۃَ ،ذَھَبَ نَقِیَّ الثَّوْبِ ،قَلِیْلَ الْعَیْبِ ،اَصَابَ خَیْرَھَا وَ سَبَقَ شَرَّھَا اَدّٰی اِلٰی اللہِ طَاعَتَہٗ وَاتَّقَاہُ بِحَقِّہٖ ،رَحَلَ وَ تَرَکَھُمْ فِیْ طُرُقٍ مُتَشَعِّبَۃٍ لَا یَھْتَدِیْ بِھَا الضَّالُّ وَلَا یَسْتَیْقِنُ الْمُھْتَدِیْ ۔[شرح نہج البلاغہ ج۱۲:،ص۱۸۹:،للشیخ ابن ابی الحدید ، رقم الخطبۃ ۲۲۳:]۔
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فلاں کے[ ذریعے فتح کیے گئے] شہروں کو بر کتوں سے سرفرا ز فرمائے ! اُس نے کجی کو درست کیا ، بیماری کا علاج کیا ، سنت کو قائم کیا ، فتنے کو ختم کیا ، دنیا سے پاک دامن اور کم عیب میں رخصت ہوا ، خلافت کی نیکی کو حاصل کیا ، اُس کی برائی سے بچا ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور کما حقہ اُس سے خوف زدہ رہا۔ وہ لوگوں کو ایسے متعدد و متفرق راستوں پر چھوڑ کر چلا گیا کہ جن میں گم ہونے والا ہدایت یاب نہیں ہو سکے گا اور ہدایت والا [اپنے حق پر ہونے کی] تحقیق [محسوس]نہیں کرے گا۔
اِس خطبے میں حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’فلان‘‘ سے کسے مراد لیا ہے ، اِس کی وضاحت ، نہج البلاغہ کےشیعہ شارح ’’شیخ ابن ابو الحدید‘‘ صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ شرح میں کی ہے ۔
اِن کے اقوال پیش کرنے سے قبل قارئینِ کرام پر یہ واضح کردینا ضروری معلوم ہو رہاہے کہ شیخ ابن ابو الحدید کو اگرچہ بعض اہلِ سنت اور اکثر اہلِ تشیع ’’معتزلی‘‘ مانتے ہیں ؛ مگر حقیقت یہ ہے وہ متشیع[ اہلِ تشیع کے اکثر معتقدات کا حامی] اور انصاف پسند ادیب ، شاعر اور شارح تھا ۔اِسی لیے لومۃِ لائم کی فکر کیے بغیر، اُس نے بہت سے حقائق سے پردے اٹھائے ہیں اور حق کا برملا اظہارکیا ہے ۔
جو حضرات بھی اُس کی شرح ’’شرح نہج البلاغہ‘‘ کا مطالعہ کریں گے ،اُن پر ’’ابن ابو الحدید شیعہ‘‘ کے درج ذیل افکار و نظریات اور حقائق منکشف ہوں گے :
۔[۱] حضرتِ مولا علی خلفاے ثلثہ کے افضل ہیں ۔
۔[۲] حضرتِ مولاعلی کے خلاف خروج کرنے والے جہنمی ہیں۔
۔[۳] حضرتِ امیرِ معاویہ دوزخی ہیں ۔
۔[۴] ابن ابو الحدید نے خود اقرار کیا کہ وہ شیعہ ہے ۔
۔[۵] ابن ابو الحدید نے ایک شیعہ کے کہنے سے نہج البلاغہ کی شرح لکھی ۔
قارئینِ کرام غور فرمائیں ! مذکورہ بالا عقائد رکھنا ،خود شارح کا اپنی شیعیت کا اقرار کرنا اور شیعہ وزیر کی فہمائش پر شرح لکھنا ،نیز شرح کا اہلِ تشیع کے یہاں معروف و مقبول ہونا،یہ تمام شواہد چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ ’’شرح نہج البلاغہ‘‘ کا مؤلف ’’ابن ابو الحدید ‘‘ شیعہ تھا ؛ لہذا اُس کی بات اہلِ رفض کے خلاف حجت ہوگی ۔
یہ تو اِن کا شروع سے ہی وطیرہ رہا ہے کہ جو بھی اِن کے مزعومہ عقائد و نظریات سے سرِ مو انحراف کرتا ہے ،یہ اُسے بیک جنبشِ قلم اپنے مسلک سے خارج کر دیتے ہیں ۔ جسے یقین نہ آئے وہ حضرت سیدنا امام زید بن سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شہادت کا پس منظر پڑھ لے ۔ معلوم ہو جائے گا کہ اہلِ رفض کیسے غدار اور کس قدر بے غیرت ہوتے ہیں۔
میں ایران کے بد بو دار رافضیوں سے پوچھنا چاہتاہوں کہ جب’’ ابن ابو الحدید کی شرح ‘‘تمھارے نزدیک مقبول نہیں تو ہر سال اُس کی طباعت پر کیوں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہو؟ کیوں بہت بڑے پیمانے پر اُس کی اشاعت کا اہتمام کرتے ہو؟کیا معتزلہ اُس کی طباعت کرواتے ہیں ؟ موجودہ دنیا میںمعتزلہ کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے۔اگر یہ کتاب مقبول نہیںتو کیوں اب تک تمھاری لا ئبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہے ؟ اِسےنذرِ آتش کیوں نہیں کر دیتے؟جواب دو!
لہذا اِس قسم کی فضول باتیں مت کریے اور یہ دیکھیے! آپ کے ہم مسلک شیعہ شارح شیخ ابن ابو الحدید ،حضرت علی مولاے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطبے کی شرح میں کیا فرما رہے ہیں ۔اگر آپ ازلی بد بخت نہیں ہیں تو ان شاء اللہ عز و جل توبہ کی توفیق مل جائے گی ۔
وَفُلَانٌ، اَلْمَکْنِیُّ عَنْہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ۔[شرح نہج البلاغہ ج۱۲:،ص۱۸۹:]۔
ترجمہ : لفظِ ’’فلاں‘‘ حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کنایا ہے ۔
اپنے اِس دعوے پر دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں
وَقَدْ وَجَدْتُّ النُّسْخَۃَ الَّتِیْ بِخَطِّ الرَّضِیْ أبِی الْحَسَنِ جَامِعِ ’’نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ‘‘ وَ تَحْتَ فُلَانٍ ’’عُمَرُ‘‘۔ حَدَّثَنِیْ بِذٰلِکَ فِخَارُ بْنُ مُعَدٍّ الْمُوْسَوِی الْاَوْدِیُّ الشَّاعِرُ ۔ وَسَئَلْتُ عَنْہُ النَّقِیْبَ اَبَا جَعْفَرٍیَحْیٰی بْنَ أبِیْ زَیْدٍ الْعَلَوِیِّ ۔ فَقَالَ لِی:ھُوَ عُمَرُ ۔ فَقُلْتُ لَہٗ: أیُثْنِیْ عَلَیْہِ أمِیْرُ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ھٰذا الثَّنَا ءَ ؟ فَقَالَ: نَعَمْ ۔
ترجمہ:میں نے ’’نہج البلاغہ‘‘ کا وہ نسخہ بھی دیکھا ہے جو اِس کتاب کے جامع ابو الحسن سید رضی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔ اُس نسخے میں ’’فلان‘‘ کے نیچے ’’عمر‘‘ لکھا ہوا تھا ۔یہ بات مجھ سے مشہور شاعر فخار بن معد موسوی اودی نے بیان کی ۔اور اِس سلسلے میں مَیں نے ابو جعفر یحییٰ بن ابو زید علوی سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی کہا کہ اِس سے مراد [حضرت] عمر [رضی اللہ عنہ]ہیں ۔ میں نے [حضرت] عمر [رضی اللہ عنہ]کا نام سن کر اُن سے کہا :کیا امیر المومنین حضرتِ مولا علی علیہ السلام اُن کی تعریف اِس زور دار طریقےسے کریں گے؟تو اُنھوں نے کہا: ہاں [کیوں نہیں؟]۔
اِس کے بعد شارح نےرافضیوں کے ایک گروہ ’’فرقۂ زیدیہ‘‘کی بات نقل کرتے ہوئے لکھا
اِنَّہٗ أثْنٰی عَلَیْہِ حَقَّ الثَّنَاءِ وَ لَمْ یَضَعِ الْمَدْحَ اِلَّا فِیْ مَوْضِعِہٖ وَ نِصَابِہٖ۔[مصدرِ سابق]۔
ترجمہ : حضرتِ مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے [ فاروقِ اعظم حضرتِ] عمر بن خطاب [ رضی اللہ تعالیٰ عنہ] کی کما حقہ تعریف کی اور [بے جا تعریف نہ کی ؛ بلکہ] مدح و ستائش کو اُسی کے مقام پر رکھا ۔
اِس کے بعد اِس شیعہ شارح نے اِس مقام پر پیش کیے جانے والے بعض شکوک و شبہات کے مدلل جواب دیے اور چند سطر وںکے بعدیہ فیصلہ کن تحریر رقم کی
وَھٰذِہٖ الصِّفَاتُ اِذَا تَأمَّلَھَا الْمُنْصِفُ وَ أمَاطَ عَنْ نَفْسِہٖ الْھَوٰی عَلِمَ أنَّ أمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَمْ یَعْنِ بِھَا اِلَّا عُمَرَ [مصدرِ سابق ، ص۱۹۲:]۔
ترجمہ: اگر اہلِ انصاف اپنی خواہشاتِ نفس سے بچتے ہوئے اِن صفات میں غور و فکر کریں گے تو اُنھیں یقینِ کامل ہو جائے گا کہ حضرتِ امیر المومنین مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اِن[اوصاف] سے صرف [حضرتِ ] عمر بن خطاب کو مراد لیا ہے ۔
اب جب کہ شیعہ شارح شیخ ابن ابو الحدید کی شہادت سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرتِ علی مولاے کائنات کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اپنے اِس خطبے میں ’’فلان ‘‘ سے ’’خلیفۂ دوم حضرت سیدنا فاروقِ اعظم ‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی کو مراد لیا ہے ،تو یہ بھی واضح ہو گیا کہ حضرتِ فاروقِ اعظم ،حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے نزدیک مندرجہ ذیل اوصاف و کمالات کے حامل تھے ۔
۔[۱] انھوں نے امتِ محمدیہ علی صاحبھا السلام والتحیۃ میں پائی جانے والی ہر قسم کی کجی اور ٹیڑھے پن کو دور کیا۔
۔[۲] اپنی بے مثال سیاست و موعظت اوربے نظیر عدل و انصاف کے ذریعے امتِ مسلمہ کی متعدد بیماریوں کا علاج کیا اور اپنے دورِ خلافت میں
اُسے جسمانی اور روحانی توانائیوں سے مالا مال کیا ۔
۔[۳] حضور رحمتِ عالَم ﷺ کی پیاری سنتوں کو رائج کیا اور ہر قسم کے فتنے کا خاتمہ کیا ۔
۔[۴] دنیا سے اِس حال میں گئے کہ کفر و ارتداد،ظلم وجبر اورکسی قسم کے فسق و فجور سے آپ کا دامن داغ دار نہیں ہوا ۔
۔[۵] خلافت کی برکتوں سے سرفراز ہوئے ، رسول اللہ ﷺ کی کامل اطاعت کی اور رب تبارک و تعالیٰ سے اُس طرح ڈرے جس طرح ڈرنے
کا حق تھا۔
۔[۶] مسلمانوں کو دینِ حق کے ایسے راستوں پر چھوڑگئے جن کی حقانیت و صداقت آفتابِ نصف النہار سے بھی زیادہ واضح ہے۔ جو بھی اُنھیں اختیار
کرےگا اُسے ’’اپنے حق پر ہونے کی‘‘ تحقیق نہ کرنی پڑے گی اور جو بھی اُن راستوں سے ہٹے گا وہ دوبارہ راہ یاب نہ ہو سکےگا۔
ہم اہلِ سنت کے نزدیک بحمد اللہ تبارک و تعالیٰ حضرتِ عمر فاروقِ اعظم، مندرجہ بالا تمام صفاتِ حمیدہ سے متصف ہیں ؛ بلکہ حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت گزاری کے صلے میں اُنھیں ایسی خوبیوں سے سرفراز کیا گیا ہے جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔یہی عقیدہ کُل اولیا کا بھی ہے ،حتیّٰ کہ ولیوں کے سردار ،مولاالمسلین ، امیر المومنین حضرتِ علی بن ابو طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا بھی یہی اعتقاد ہے ،جس کا اظہار انھوں نے اپنے اِس مذکورہ خطبے میں فرمایا ہے ؛مگر اُن کی محبت کا دم بھرنے والے ظالم رافضی نہیں مانتے ۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی وہ اُنھیں عادل و مخلص نہیں سمجھتے ۔تعجب ہے ! وہ آج بھی انھیں ’’ظالم ، غاصب ،فتنہ پرور؛ بلکہ کافر ‘‘مانتے ہیں ؛ بلکہ جو انھیں کافر نہ کہےوہ اُسے بھی کافر مانتے ہیں ۔ العیاذ باللہ تعالیٰ منہ ۔
اِ ن نادانوں کو اتنا بھی شعور نہیں کہ ’’ہمارے امیر المومنین‘‘علیہ السلام نے خود بارہا اُن کی تعریف و توصیف کی ہے، جس کا منہ بولتا ثبوت نہج البلاغہ کا یہ ’’خطبہ‘‘ ہے، جو آج بھی اُس میں مندرج ہے ۔ہماری تکفیر و تفسیق کی زد میں صرف عمر ہی نہیں ہمارے مولا علی بھی آئیں گے ۔اللہ عز وجل ہدایت دے
تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ
صدر مدرس دار العلوم محبوب سبحانی کرلا ممبئی
جاری
پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی