تحریر :محمد امثل حسین گلاب مصباحی اصلاح امت کے تئیں ایک کارگر اقدام
اصلاح امت کے تئیں ایک کارگر اقدام
یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ علماے سابقین نے کیا کیا، کیوں؟ اس لیے کہ تبلیغ امت اور اصلاح ملت کے لیے انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کتابیں تصنیف کیں، مدرسے اور جامعات قائم کیے، مسجدیں بنوائیں، خانقاہیں قائم کیے ، ماہانہ جرائد و رسائل جاری کیے، بدعقیدوں کے دنداں شکن جوابات دیے، باطل نظریات اور فاسد اعتقادیات کی بیخ کنی کیں، لوگوں کے شکوک و شبہات زائل کیے، لوگوں کے سوالات کے جوابات دیے
ان کے اعتراضات دور کیے، ان کے مسائل شرعیہ حل کیے، انھوں نے نگر نگر اور ڈگر ڈگر نہیں، گھر گھر اور در در جاکر دین کی تبلیغ کی، مصالح کی توضیح کی، مفاسد کی اصلاح کی، قرآن پاک کی تعلیمات اور حدیث پاک کے پیغامات پہنچائے
یہی نہیں بلکہ کتنے ایسے علماے سابقین ہیں، جنھوں نے تبلیغ اسلام، اصلاح امت، دین کی عظمت و رفعت اور اس کی سر بلندی کے لیے اپنی اپنی عزیز تر جانیں بھی نچھاور کردیں۔ اللہ تعالی انھیں جوار قدس میں جگہ عنایت فرماے۔
اس درج بالا گفتگو میں نہ تو مبالغے کی آمیزش ہے اور نہ ہی جھوٹ کی ملاوٹ۔ یہ تمام چیزیں آج بھی کتب تواریخ کے اوراق میں محفوظ و مذکور اور کتب سیر کے صفحات میں مامون و مذبور ہیں
سوال یہ ہونا چاہیے کہ علماے حاضرین نے کیا کیا، یعنی ہم نے کیا کیا؟ ہم نے کتنے مدرسے قائم کیے؟ یا کتنے سابقہ مدارس کو پروان چڑھایا؟ ہم نے کتنے لوگوں کی اصلاح کی؟۔
کتنی کتابیں تصنیف کیں؟ خالص دینی کام کے لیے کتنے افراد تک پہنچے؟ غرض کہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اسلام کی سر بلندی کے لیے کتنے اور کیا کیا کام کیے؟
درج بالا گفتگو میں اس مضمون میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر بعض لوگوں کو کچھ احساس دلانا تھا، اس لیے میں نے اس کا ذکر کیا۔ مقصد تحریر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
اصلاح امت کے لیے میں ایک چیز کی طرف اقدام کر رہا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جس طرح مدرسہ اور جامعہ میں پڑھانے والے مدرّسوں کو تنخواہ دے کر ان سے تدریسی و تصنیفی خدمات لی جاتی ہیں
مسجدوں میں اجرت دے کر امام و مؤذن رکھے جاتے ہیں، کارخانوں میں اجرت دے کر ملازم رکھے جاتے ہیں، اور ان سے متعین کام لیے جاتے ہیں
اسی طرح ہم کچھ ایسے حضرات کو جمع کریں گے، جو اولاً بہترین عالم دین ہوں، ثانیاً مخلص ہوں، ان کے اندر دینی کام کرنے کا جذبہ ہو، ایسے حضرات کا انتخاب کر کے ہم ان سے اصلاح امت کا کام لیں گے
ہم ان کو متعین وقت کے لیے اجیر بنالیں گے، اس پر ہم انھیں معقول تنخواہ دیں گے، حتی الامکان ان کے لیے قیام و طعام کا بہترین انتظام کریں گے
اور اس متعین وقت میں ہم ان سے حسب ضروت کام لیں گے، حسب ضرورت کا مطلب، وہ کام جو ایک عالم کی شایان شان ہے۔
طریقۂ کار یہ ہوگا کہ ہم اپنے اجیر کو ان کے محلے، گاؤں، شہر یا کسی دوسری بستی ، دوسرے شہر روانہ کریں گے، ہمارے متعلقین کشمیر سے لے کر کنیا کماری سے کچھ پہلے تک اور راجستھان سے لے کر بنگال کی کھاری سے کچھ آگے تک رہتے بستے ہیں۔
اصلاح امت کے لیے اپنے اجیر جہاں رواں کریں گے، وہاں کے کسی مدرس، امام، موذن، دوست، یا اپنے یا اپنوں کے کسی بھی متعلق سے اپنی ضروری بات کر لیں گے، پھر آگے کی کاروائی ہوگی۔ ان شاء اللہ عزوجل
کیسے اور کیا اصلاح کرنی ہے؟۔
اس کے متعلق ہمارے پاس معلومات بھی ہیں، مشاہدات بھی ہیں اور تجربات بھی ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہم اس راہ سے گزر چکے ہیں،گزر چکے نہیں بلکہ اسی راہ میں ہیں اور رہیں گے، ان شاء اللہ۔ مصلح کو کیسے کیسے لوگوں سے سابقہ پڑ سکتا ہے، دوران اصلاح کیسی کیسی باتیں سننے کو ملیں گی، ان سب کی ہمارے پاس تفصیل ہے، جسے ہم ان کے سامنے پہلے رکھ دیں گے۔
ہمارا مقصد اصلاح امت ہے، اہل اسلام کو اسلامی تعلیمات کے قریب کرنا اور ان پر عمل کی ترغیب دلانا ہے، سب سے پہلے ایمان و عقیدہ کو مضبوط کرانا ہے، جن سادہ لوح مسلمانوں کو بدعقیدوں نے اپنے دام فریب میں پھنسا لیا ہے، انھیں اس سے آزاد کرانا ہے، بے نمازی کو نمازی بنانا ہے، بے حیا کو با حیا بنانا ہے، نا شکرے کو شکر گزار بنانا ہے، بے مروت کو بامروت بنانا ہے، بد خلق کو با اخلاق بنانا ہے، جو اسلام سے دور ہو چکے ہیں
انھیں اسلام کے قریب کرنا ہے، جو قریب ہیں، انھیں قریب تر کرنا ہے، جو سوۓ ہوۓ ہیں، انھیں جگانا ہے، جو دین سے غافل ہو چکے ہیں، انھیں اس کا احساس دلانا ہے، جو مغربی طرز کا لباس پہنتے ہیں، انھیں شرعی لباس پہنانا ہے، جو کھانے ، پینے، اٹھنے، بیٹھنے چلنے، پھرنے اور رہنے سہنے میں مغربی تہذیب کو فالو کرتے ہیں
ان سے ان چیزوں میں اسلام کی تعلیمات کو فالو کرانا ہے، اس کو دو لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہمارا مقصود ہے اوامر پر عمل کرنا ، کرانا اور نواہی سے بچنا اور بچانا اور ڈاکٹر اقبال کی زبانی یوں سنیں مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی
جب غیر مناسب تنخواہ دے کر کسی بڑے محل کی نگرانی کے لیے ایک ملازم رکھا جاسکتا ہے، جب غیر مناسب تنخواہ دے کر گھر، کھیت کھلیان کے لیے ایک محافظ رکھا جاسکتا ہے ، جب غیر مناسب تنخواہ دے کر مدرسہ، مکتب، اسکول اور کالج کے لیے ایک نگراں رکھا جاسکتا ہے اور ان سب سے اپنے مطلب کا کام لیا جاسکتا ہے، تو کیا ہم معقول تنخواہ اور مناسب قیام و طعام کی سہولیت دے کر ایک مبلغ نہیں رکھ سکتے؟
معقول تنخواہ دے کر ایک مصلح نہیں رکھ سکتے؟ ایک واعظ نہیں رکھ سکتے؟
اور ان سے اپنے مطلب کا کام نہیں، دین کا کام نہیں لے سکتے ؟ کیوں نہیں، ضرور رکھا جاسکتا ہے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
ٹھیک ہے ہم ابھی معیشت سے نہیں جڑے ہیں، اپنے ماں باپ کی نوازشوں کا سہارا، اپنے بھائیوں کی عنایتوں پر گزارا
مگر یہ کام اور یہ اقدام خالص اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لیے ہے عزوجل و علیہ الصلاة و السلام- ہمیں اللہ تعالی کی ذات پر مکمل توکل اور پورا بھروسہ ہے
اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو کافی ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس کی مشکل آسان فرما دیتا ہے اور اس کے لیے نجات کی راہ نکال دیتا ہے
جیسا کہ اس پر نصوص قطعیہ شاہد ہیں۔ اللہ کے بھروسہ پر ہم یہ کام شروع کرنے جا رہے ہیں،دعا کی درخواست ہے
اللہ تعالی ضرور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاۓ گا،اور ہمارے لیے بر وقت اسباب مہیا فرمادے گا
اپنے اس خالص دینی کام کی تفصیل ترغیباً و تحدیثاً آپ تک وقتاً فوقتاً پہنچاتے رہیں گے، ان شاء اللہ، ہم نہ تو کسی احساس کمتری کے شکار ہیں اور نہ ہی اچھے نتیجے سے مایوس ہیں
احساس کمتری کا وہ شکار ہو، جس نے داعیان اسلام کی تاریخ نہیں پڑھی ہے، اسے خود اعتمادی حاصل نہ ہوگی،جس نے جفاکش اور مرد قلندر کی داستان نہیں پڑھی ہے
ہم نے داعیان اسلام کی سوانح بھی پڑھی ہے، اور مردان حق کے حالات بھی پڑھے ہیں، اس لیے ہم پر اعتماد بھی ہیں اور پر امید بھی ہیں، فلاح کی توقع بھی ہے اور نجاح کی آس بھی ہے۔
اور اقدام کے لیے اتنی چیزیں کافی ہیں۔
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمة کے اس شعر پر اپنی باتیں ختم کرتے ہیں
کام وہ لے لیجیے تم کو جو راضی کرے
ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود
تحریر : محمد امثل حسین گلاب مصباحی
فیض پور سیتامڑھی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تعلیمات حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور اصلاح معاشرہ