تحریر: محمد عبدالمبین نعمانی قادری یہ کہنا ہی برا ہے کہ سال برا یا بہت برا تھا
یہ کہنا ہی برا ہے کہ سال برا یا بہت برا تھا
بڑی تیزی سے اور تسلسل کے ساتھ یہ لکھا جا رہا ہے کی 2020 کا سال بہت برا گزرا ،مایوس کن رہا ،بڑے خسارے کا رہا ،بہت رلایا۔ کسی مسلمان کو ہرگز ہرگز یہ زیبا نہیں کہ کسی سال،کسی ہفتے یا مہینےیا زمانے کو برا یا منحوس کہے، زمانے کا الٹ پھیر منجانب اللہ ہوتا ہے
ہاں کہنا ہے تو یہ کہ سکتے ہیں کہ سال گزشتہ حکومت کی طرف سے بڑے عجیب عجیب فیصلے لیے گئے،بڑی نقصان دہ صورت حال سامنے آئی۔تعلیم کا نقصان ہوا اور بہت ہوا۔ معاشی اقتصادی پستی کی طرف ہم دھکیل دیے گئے۔
ملازمتیں چھوٹ گئی یا چھوڑا دی گئیں۔کتنے مساجد کے اماموں، دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ نے دنیاوی کاروبار میں اپنے کو مشغول کرلیا اور ایسا نہیں کرتے تو کھاتے کہاں سے،بہت کم ہی لوگ ایسے خوش نصیب تھے جن کا کوئی پورے طور سے سہارا بناہو یا وہ پہلے ہی سے خود کفیل رہے ہوں،یا آسانی سے کوئی دوسری اچھی ملازمتیں ملی ہوں، فرقہ وارانہ تعصب کو بھی خوب خوب ہوا دی گئی۔
کورونا کو بہانا بنا کر ہماری مساجد میں نمازیوں پر پابندی لگا دی گئی، تراویح عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ(بقر عید) کی نمازوں کو بس براےنام ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی ،حتی کہ حج پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔اگرچہ اس میں سعودی حکومت کی کارستانی اور توہم پرستی کا بھی بہت بڑا دخل تھا۔ سیاسی خانہ جنگی کو بھی خوب خوب فروغ ملا۔
مد مقابل کو ڈاؤن کرنا ہوا تو کرونا کا ہوَّا کھڑا کرکے انہیں مات دینے کی پوری سعی کی گئی، اپنا مخاذ جب سامنے آیا تو کرونا کو یک لخت بھلا دیا گیا۔ کرونا واقعی کوئی بیماری ہے تو اس نے مسلمانوں کو بد نام کرنے کے کیا معنیٰ۔اور اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھرا کر جو جو گھناونی حرکتیں کی گئیں وہ خالص فرقہ وارانہ نظریے پر مبنی تھیں۔
الحمدللہ مسلمان کورونا کی وبا سے بہت حد تک محفوظ رہا، اور جن مسلمانوں کو اس بیماری میں مبتلا بتایا گیا ان میں انتقامی کارروائی کو زیادہ دخل تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ کوئی بیماری ہے اور وبائی بیماری ہے جس میں بار بار ہاتھ منہ دھونا ضروری ہے تو اس میں کیا شبہہ ہے کہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ صرف ہاتھ منہ ہی نہیں دھوتا ہے ۔بلکہ بالعموم پانچ مرتبہ وضو بناتا ہے۔
غرارہ کرتا ہے ۔ہاتھ پاؤں کو ناخنوں سمیت دھوتا ہے ۔سر گردن اور کانوں کا مسح کرتا ہے تاکہ ان اعضاء سے گردوں کے ذریعے جو جراثیم حملہ آور ہونے والے ہوں وہ بھی دفع ہو جائیں۔کھانے سے پہلے بھی اسلام میں ہاتھ دھونا سنت ہے اور کھانے کے بعد بھی
جب کہ دوسری قومیں کھانے سے پہلے سرے سے ہاتھ ہی نہیں دھوتی ہیں جو کچھ گندگیاں ہاتھوں میں ہوتی ہیں ان کو ساتھ لے کر کھانا شروع کر دیتے ہیں بعد میں کچھ تو ہاتھ دھوتے ہیں اور بہت سے لوگ تو صرف ٹیشو پیپر پر ہی اکتفا کر بیٹھتے ہیں۔
نیند سے بیدار ہونے کے بعد بھی ہمارے آقا پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ و السلام نے حکم دیا ہے کہ سو کر اٹھنے والا سب سے پہلے ہاتھ دھوئے تب اپنے ہاتھ کو کسی پانی وغیرہ میں ڈالے اس کے بعد مسواک کرے اور وضو بنائے شاید لوگوں کو نہیں معلوم کہ مسواک کی اسلام میں بڑی تاکید ہے ہر وضو میں سنت ہے ،سو کر اٹھنے کے بعد بھی سنت ہے ،باہر سے گھر میں آنے والوں کے لیے بھی سنت ہے
منہ میں بدبو ہو جائے تب بھی مسواک سنت ہے ،ہر کھانے کے بعد خلال اور مسواک سنت ہے تاکہ منہ میں کھانے کے اثرات باقی نہ رہے جو جراثیم کا سبب بنے کہ اسلام رب العالمین عزوجل کا عطا کیا ہوا اور حضور رحمت اللعالمین علیہ الصلاۃ و السلام کا لایا ہوا دین ہے جو ایک کامل نظام حیات اور دستور زندگی پر مشتمل ہے ۔
رب عزوجل خوب جانتا ہے کہ بندوں کے لیے کیا کیا مفید ہے اور اس کے رسولِ رحمت علیہ الصلاۃ والسلام بھی جو محسن انسانیت ہے اور جن کی ہر بات حکمت بھری ہے۔
بات چلی تھی زمانے اور سالوں کو برا کہنے کی اس سلسلے میں بے تحاشا لوگ اپنے تاثرات قلمبند کر رہے ہیں اور انداز کچھ ایسا بھی ہے کہ جیسے ایک سال گیا تو دوسرا سال آتے ہی سارے حالات بدل جائیں گے، خوش حالیاں آن پڑیں گی ، پرانی داستانیں دہرائی نہیں جائیں گی۔
لہٰذا میرے ناظرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ سال ،زمانہ کچھ نہیں اصل ذمہ دار اور مجرم انسان خود ہے، انسان اچھا ہو جائے زمانہ بھی اچھا لگنے لگے گا ،انسان جب تک برا رہے گا زمانہ اسے برا محسوس ہوگا، اس لیےکہ زمانہ حقیقتاً برا نہیں ہوتا لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے اور سمجھتے کی یہ ساری خرابیاں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں ۔
جب کہ قرآن عظیم نے فرمایا: ‘‘ وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍ’’(سورہ شوریٰ 42،آیت 30)۔
ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے ۔
لہٰذا ہم عہد کریں کی کہ اب ہم نیک بنیں گے۔ کسی پر ظلم نہ کریں گے ۔ بہنوں اور بھائیوں کا حق نہ ماریں گے۔ اپنی بہو بیٹیوں کو بے پردہ نہیں نچائیں گے ۔کھانے پینے میں کیا حلال ہے یا حرام ہے اس کا لحاظ کریں گے۔ناپ تول میں کمی نہیں کریں گے ۔
بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں گے اور انہیں اچھا ادب سکھائیں گے ۔عورتیں شوہروں کا حق اور مرد عورتوں کا حق ادا کریں گے ۔رشوتوں کی گرم بازاری پر قدغن لگائیں گے نہ لیں گے نہ دیں گے۔ اپنے مالوں میں جو غریبوں کا حق ہے اسے ادا کریں گے۔ جھوٹے الزامات کسی پر نہ لگائیں گے ۔
زنا ،بدکاری کے قریب بھی نہ جائیں گے۔ مساجد کے آداب کا خیال کریں گے۔ قبرستانوں کو بے حرمتی سے بچائیں گے ۔اپنا حق لینے کے لیے تو سب مستعد رہتے ہیں ہم دوسروں کا حق خوشی سے دینے کو تیار رہیں گے ۔محض مال اور دنیا کمانے اور عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لیے شادی کرکے بیویوں کو دوسروں پر چھوڑ کر کئی کئی سال تک غائب نہ رہیں گے۔
سعودیہ یا دوسرے خوشحال ممالک میں جا کر ماں باپ بھائیوں بہنوں کو بھلانے کی رسم بد کا اعادہ نہیں کریں گے۔ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کریں گے ۔حاجت مندوں مفلوک الحال انسانوں کی حتی الامکان مدد کریں گے ۔علما ائمہ اور طالبان علوم دینیہ کی تعظیم و عزت کریں گے ۔ بڑوں کا ادب کریں گے ۔
قرآن جو کتاب خداوندی ہے اس کی روزانہ تلاوت کرکے ڈھیروں ثواب کمائیں گے اور اس کو پڑھ کر سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے پھر اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیں گے اور ساتھ ہی اپنی عاقبت بھی سنواریں گے اور اللہ کے محبوب و مقدس بندوں کے زمرے میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے کہ یہی بڑی کامیابی ہے ۔
تو ہے کوئی ان باتوں پر عمل کرنے کے لیے تیار ؟ہےکوئی اپنی عاقبت کی فکر کرنے والا ؟ہے کوئی اپنے رب کو راضی کرنے والا ؟جو رحمان و رحیم بھی ہے تو قہار و جبار بھی ہے اور ذوا البطش الشدید (سخت پکڑنے والا ) بھی وہی ہے۔
تحریر: محمد عبدالمبین نعمانی قادری
دارالعلوم قادریہ ،چریاکوٹ مئو، یوپی
اس کو بھی پڑھیں : عرش اعظم کے سایے میں کون ؟۔