رمضان میں شیطان قید پھر بھی گناہ کا صدور ! ✍️تحریر: نازش المدنی مرادآبادی
رمضان میں شیطان قید پھر بھی گناہ کا صدور
آمد رمضان کیا ہوتی ہے پھر تو پورا عالم نکھرا نکھرا، ہر مسلمان کی پیشانی سجدوں کے نور سے روشن اور زبان ذکر الہی سے تر ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
۔”إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة وغلّقت أبواب النار و صفّدت الشیاطین” یعنی رمضان شریف کے تشریف لاتے ہی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور تمام شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ( مسلم:ص، 543 ح: 1079)
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رمضان شریف میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے اور وہی اللہ پاک کی نا فرمانی پر نا صرف ابھارتے بلکہ گناہ کرانے کی ذمہ داری بھی انہیں نے لے رکھے ہے تو پھر بھی ہم سے ماہ رمضان المبارک میں گناہ کیوں کر سرزد ہو جاتے ہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پاک حدیث کی رو سے رمضان میں شیاطین کا قید میں جکڑنا مبنی بر حق ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شیاطین کا اثر انداز ہونا بالکل ختم ہو جاتا ہے
بلکہ در اصل یہ ہے کہ رمضان شریف میں شیاطین کو یا تو پہلے کے مقابلے کمزور کر دیا جاتا ہے
اور وہ پہلے کی طرح حملہ نہیں کر پاتے یا یہ مطلب ہے کہ شیاطین کو اگرچہ قید کر دیا جاتا ہے لیکن اب تمام خرافات اور برے کاموں کو وہ نفس امّارہ تن تنہا کرواتا رہتا ہے جس نے عزازیل نامی معلم الملکوت کو بھی شیطان رجیم بنا دیا۔
امام حافظ ابو العباس ابراہیم قرطبی قدس سرہ العزیز بیان کی ہوئی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں
فإن قیل: فنری الشرور والمعاصی فی رمضان کثیرا فلو کانت الشیاطین مصفّدۃ لما وقع شرّ فالجواب من أوجهٍ
احدھا: إنّما تغل عن الصائمین الصوم الذی حوفظ علی شروطه وروعیت آدابه وأمّا ما لم یحافظ علیه فلا یغل عن فاعله الشیطان
والثانی: أنّا لو سلمّنا صفّدت عن کل صائم لکن لا یلزم من تصفید جمیع الشیاطین إلّا یقع شرّ لأنّ لوقوع الشرّ أسبابا غیر الشیاطین وھی النفوس الخبیثة والعادات الرکیکة الشیاطین الانسیّة
والثالث: أن یکون ھذا الأخبار عن غالب الشیاطین والمردۃ منھم وأمّا من لیس من المردۃ فقد لا یصفّد والمقصود تقلیل الشرور وھذا موجود فی رمضان لأنّ وقوع الشرور والفواحش فیه قلیل بالنسبة الی غیرہ من الشھور… (المفهِم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم136/3مطبوعہ دار الکلم الطیّب بیروت لبنان)
ترجمہ :- “اگر یہ کہا جاے کہ: ہم رمضان میں بھی بہت سی برائیاں اور گناہ کے کام ہوتے دیکھتے ہیں، اگر شیاطین حقیقت میں جکڑے ہوے ہوتے تو برائی سرے سے نا ہوتی !۔
اس کا جواب کئی انداز سے دیا جا سکتا ہے
1- شیاطین کو ایسے روزے داروں تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے جنہوں نے روزے کی شرائط اور مکمل آداب کو ملحوظ رکھا، چنانچہ ایسے روزے دار جنہوں نے شرائط یا آداب کا خیال نہیں رکھا ان سے شیاطین کو نہیں روکا جاتا۔
2- اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام روزے داروں تک شیاطین کی رسائی نہیں ہوتی ، لیکن پھر بھی تمام شیاطین کے جکڑے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ کا صدور سرے سے ہی ختم ہو جاے کیونکہ شیاطین کے علاوہ بھی گناہوں کے رونما ہونے کے بہت سے اسباب ہیں، جن میں خبیث لوگ، بری عادات، اور انسانی شکل میں موجود شیاطین بھی شامل ہیں۔
۔3- یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں اکثر شیاطین اور شریر قسم کے شیطانوں کے بارے میں کہا گیا ہو، چناں چہ یہ ممکن ہے کہ غیر شریر شیاطین کو نہ جکڑا جاتا ہو۔
مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ: شر کے ذرائع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور یہ بات رمضان میں بالکل واضح ہوتی ہے؛ کیوں کہ دیگر مہینوں کی بنسبت اس ماہ میں گناہوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے”۔
معلوم ہوا کہ فقط شیطان ہی گناہ کرانے کا سبب نہیں بلکہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے بندہ گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
بہر کیف شیاطین کے قید ہونے سے گناہوں کا صدور کم ضرور ہو جاتا ہے لیکن کلیۃً ختم نہیں ہوتا لہذا ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم حالت روزہ میں ہر اس کام سے بھی بچیں جو گناہ کی طرف لے جانے کا امکان رکھتا ہو مثلا سحری یا افطار پیٹ بھر کر کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں
لیکن روزے کی روحانیت کے خاتمہ کی طرف اس سے عموماً راہ نکل جاتی ہے۔اللہ پاک ہمیں روزے کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہمیشہ گناہوں سے بچنے کی توفیق بخشے آمین یارب العالمین بجاہ طہ و یس
ان مضامین کو بھی پڑھیں
شور ہے اوج فلک پر آمد رمضان المبارک کا
ماہَ رمضان المبارک کیسے گزاریں
برکتوں و فضیلتوں کا مہینہ رمضان المبارک
اللہ تعالیٰ کی انسان پر رمضان کے بہانے انعامات کی بارش
تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
हिन्दी में आर्टिकल्स पढ़ने के लिए क्लिक करें
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع