تحر یر: حافظ محمد ہاشم قادرمصباحی جمشید پور مسلمان مردے پر بھی زمین تنگ یہ قیامت یہ نفسی نفسی کا عالم
موت بر حق ہے! کوئی بھی زندہ رہنے والا نہیں۔
کُلُّ مَنْ عَلَیْھا فَانٍٍٍٍ۔۔۔۔۔ الخ۔ترجمہ: زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی، تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟۔ ( القر آن،سورہ رحمن:55آیت26 – 27 28-)
زمین پر موجود تمام مخلوق فنا ہونے والی شَے ہے، رب کی عظمت و بزر گی بتانے والی آیت کریمہ’’ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرامِ:۔‘‘ کی تفسیر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے( ناچیز راقم جیسا کم علم بھی اگر لکھے تو ایک کتاب ہوجائے گی ان شا ء اللہ تعالیٰ) رب تعالیٰ کی جلالت بیان کر تی ہوئی یہ آیت کریمہ بہت سے فضائل و بر کت کا مجموعہ ہے۔
اس آیت کے مذکورہ الفاظ کو اپنی دعا میں شامل کرنے کی برکت سے دعا قبول ہوجاتی ہے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’ اس دعا ’’یَاذَاالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ‘‘کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔(ترمذی،کتاب الدعوات،91 -باب،5 /311،حدیث:3535)۔
دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو ’’یَا ذَاالْجَلالِ وَالْاِکْرَام‘‘ کہہ رہاتھا،آپ ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا:’’ بے شک تیری دعا قبول کرلی جائے گی تو دعا مانگ۔( مصنف ابن شیبہ،کتاب الدعائ، ماذکر فیمن سأل النبی ﷺ ان یعلّمہ ماید عو بہ فعلّمہ،7/56،حدیث:7)۔ ذخیرہ احادیث میں اس موضوع کی اور بھی احا دیث طیبہ ہیں۔
فنا ہونا،”مرنا”بھی ایک نعمت ہے
موت ایک سچی حقیقت ہے قرآن مجید میں مرنے کے بارے میں80 جگہوں پر مختلف پہلوئوں پر بیان موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں ’’ فنا ہونا اس اعتبار سے نعمت ہے کہ ایمان والے موت کے بعد اَبدی اور سر مدی نعمتوں کو پائیں گے۔( مدارک، الرحمن، تحت الآیۃ:28،ص1193)۔
اور حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں، ’’ موت کو خوش آمدید کہو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو حبیب کو حبیب کے قریب کر دیتی ہے۔( مدارک،الرحمن،تحت الآیۃ:28،ص1193) عام موت سے مرے،اکسیڈنٹ سے مرے، بیماری سے مرے یا وبا
pendemic
( وہ بیماری جوبہت سے لوگوں پر ایک ہی وقت پر اثر کرے) جیسے طاعون،ہیضہ پلیگ یا اب کورونا وغیرہ وغیرہ،کوئی بھی لاڈ صاحب ہوں،گورنر صاحب ہوں،جودھاصاحب ہوں موت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
کرونا وائرس کے موذی مرض صے مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کروڑوں لوگ اس موذی مرض میں مر چکے ہیں اور اب تو نوبت یہانتک پہنچ چکی ہے نہ قبرستانوں میں جگہ، نہ شمشان گھاٹوں میں جگہ، شہروں میں قبرستان کمیٹیاں اعلان کر رہی ہیں کہ خالی جگہ بچی ہوئی قبرستانوں میں لوگ اپنی میتوں ‘مُردُوں’ کو دفن کریں۔
اللہ توبہ ہزار بار توبہ نئی نئی قبروں کو دوبارہ کھودنا بہت تکلیف دہ ہورہا ہے۔ روز تین ہزار سے زیادہ ہوتی موتوں کی وجہ سے شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ چکی ہے۔
آخری منزل کی تیاری بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے، پٹرے اور جلانے والی لکڑیاں بہت مہنگی ہوگئی ہیں کئی کئی دن گھاٹوں میں جلانے کے لیے انتظار اور دوسری پریشانیوں کی وجہ سے لوگ مجبورً اپنے مُر دُوں کو دیائے گنگا میں بہا نے لگے ہیں۔
بہائی گئی لاشوں کو کُتے نوچ رہے ہیں دل دہلادینے والی تصویریں سوشل میڈیا،اخبارات میں مسلسل آرہی ہیں جو انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک بھی ہیں۔ہندوستان کے بڑے اخبار دینک بھاسکر جو12 اسٹیٹ میں 65 جگہوں سے شائع ہوتا ہے
۔15 مئی بروز سنیچر کوآخری صفہ14 پر آدھے اخبار میں خبر شائع کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے’’ گنگا کنارے1140 کیلو میٹر میں 2 ہزار سے زیادہ شو” لاشیں” کانپور: شوریشور گھاٹ پر آدھا کیلومیٹر میں ہی400 سے زیادہ لاشیں دفن ہیں،یوپی کے 27ضلعوں میں،کانپور،اُنائو، کے حالات بے حد خراب‘‘ وغیرہ وغیرہ رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
لاشوںکی بے قدری،تیرتی لاشیں دیکھ کر لوگوں میں خوف پھیل گیا ہے۔ بھارتی اخبا’ر میگزینـ’ اِنڈیا ٹوڈے INDIA TODAY ، 17مئی و 21 مئی2021 کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیس میں دریائے گنگا میں مختلف مقامات پر ہزاروں لاشوں کو تیر تے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
لاشوں کو گنگا میں تیر تا دیکھ کر لوگوں میں دہشت پھیل گئی،وہیں میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے بعد پورے بھارت میں خوف پھیل گیا۔مئی17 و21 کی انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ دل دہلانے والی ہے،اللہ خیر فر مائے۔
مذہبِ اسلام نے مُردُوں کے حقوق متعین فر مائے
روز اول سے قدرت کا قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُس کو ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔
اسلام کی حقانیت یہ ہے کہ اس نے زندوں کے ساتھ ساتھ مُردوں ــ”میت” کے حقوق بھی بتائے ہیں،جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔
مردوں کے حقوق بہت ہیں چند ضروری مطالعہ فر مائیں
۔(1) مرنے کے بعد غسل دینا،نیا کفن دینا،نیا میسر نہیں تو پرانا ہی پاک و صاف کفن دینا
۔(2 ) نماز جنازہ فر ض کفایہ ہے چند لوگوں کے پڑھنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت ہے ہوجائے گی، کسی نے ادا نہیں کی تو سب گناہ گا ر ہوں گے
۔(3) اگر میت کی نماز جنازہ زیادہ لوگ پڑھیں گے اور اللہ سے اس میت کی بخشش اور بلندیٔ درجات کی دُعا کریں گے تو یہ میت کے حق میں بہتر ہو گا اور پڑھنے والے بھی اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے
افسوس کہ ایسا زمانہ آیا کہ لوگ بہت کم میت کے جنازہ لے جانے اور جنازے کی نماز پڑھنے اور دفن کرنے مٹی دینے میں شامل ہو رہے ہیں،لوگ مرنے سے اتنا ڈر رہے ہیں کہ کورونا ہو جائے گا یہاں تک کہ نماز جنازہ پڑھانے سے بھی ذمہ دار کترارہے ہیں،کیا انہیں نہیں مرنا؟ کیا یہ بھوت بن کر خود قبرستان چلے جائیں یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں بھی لوگ کندھا دیکر پہنچائیں گے۔
میت کو کندھا دیکر چالیس قدم چلنا بڑے گناہوں کی معافی کا سبب ہوتا ہے۔(4) میت کی تدفین کے لیے جلدی کرنا چاہیے کہ حدیث شریف میں اس کی بہت تاکید آئی ہے وغیرہ وغیرہ۔( بہار شریعت، موت کے بیان میں ج:1،ص809)۔
بیماری اور علاج کے لیے تمام جانکاری حاصل کر رہے ہیں پلیز قبر، دفن ومیت کے حقوق کے بارے میں بھی دینی اسلامی طریقہ ضرور معلوم کریں دینی کتب کا مطالعہ فر مائیں،بہار شریعت کا مطالعہ فر مائیں۔ مردے کو دفن کر نا فر ض کفایہ ہے اور یہ جائز نہیں کی میت کو زمین پر رکھ دیں اور چاروں طرف سے دیواریں قائم کر کے بند کر دیںیا بالو وغیرہ سے ڈھک دیں جیسا ابھی کر رہے ہیں۔( عالمگیری، رد المختار،بہار شریعت ج:1حصہ4،ص842)۔
قبرستانوں وشہر کے ذمہ داران اور علما کی ذمہ داری
کرونا وبا کی دوسری لہر کے چلتے اس وقت پوری دنیا اور خاص کر ہمارے ملک ہندوستان میں کہرام مچا ہوا ہے کورونا وائرس قیامت ڈھایا ہواہے،اُس پر یہ ستم مناسب علاج کی سہولت کا فقدان صرف بیان بازی اور اس سے بڑا سوہان روح کہ ابھی بھی لوگ اپنی حفاظت سے بے پرواہ اللہ سمجھ عطا فر مائے۔
کئی جگہ قبرستانوں میں کورونا سے مرے ہوئے لوگوں کو دفن نہ کرنے دینا یہ نفسی نفسی اور قیامت نہیں تو اور کیا ہے۔
ذمہ داران کیا یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ اُنہیں موت نہیں آئے گی ؟ نہیں ہر گز ایسا نہیں۔ اس سے پہلے خدائے غیور،قہار وجبار آپ کی پکڑ فر مالے پلیز ہوش میں آ جائیں بڑے بڑے فرعون و نمرود وشداد کی پکڑ فر مانے والا رب ذوالجلال،قہار و جبار بھی ہے اور اس کی پکڑ بہت مضبوط ہے۔
تر جمہ: خبر دار! وہی اپنے علم و قدرت سے) ہرچیز کا احاطہ فر مانے والا ہے۔( القرآن،سورہ فُصلت:54 آیت4)
اُمت مسلمہ دوسروں کو راہ دکھانے آئی تھی یہ کیا ہورہا ہے؟ مسلمان ہی ایک مسلمان مردے کو قبرستان میں دفنانے نہیں دے رہے ہیں، میت کے جنازہ کو لیکر ایک قبرستان سے لیکر دوسرے قبرستان کا چکر لگا رہے ہیں ۔ایک مسلمان جو دنیا سے گزر گیا اس کی تد فین کے لیے بھی زمین تنگ کررہے ہیں الیعاذ باللہ سوبا ر استغفراللہ۔ کیا ایسے لوگ اپنا انجام بھی سوچا ہے کہ اُن کا کیا ہوگا؟۔
نقش ہے ہر درو دیوار پہ انجام غرور
تو بھی مغرور نہ ہو ہم کو یہی کہنا ہے
خدار مردے کو دفن کرنے سے نہ روکیں
مردے کی بے حرمتی نہ کریں۔اللہ کا خوف تو رکھئیے کم ازکم تدفین سے تو نہ روکیں ایک نہ ایک دن سب کو مرنا ہے۔ہم مسلمان ہیں اس پر ایمان ہے،مسلمان مسلمان کو احترام کریں جس کا کوئی مرگیا ہے اس کی ذ ہنی پریشانی کو محسوس کیجیے نہ کہ اس کو اور پریشان کریں، لِلّٰہ مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔
اسلام میں،سیرت رسول میں دشمنوں کی میت کوبھی عزت سے تدفین کا حکم موجود ہے، دشمن کی لاشوں کوبھی باعزت طریقے سے دفنانا لازمی ہے،غزوۂ بدر کی مثال اس باب میں پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
1949 جنیوا معاہدات نے مقتولین اور غرق ہونے والے لوگوں کی لاشوں یا ان کا اعضاء کی بے حر متی کو ناجائز ٹھرایا ہے۔اسی طرح اس معاہدہ کے تحت ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ مردے کی شناخت اور اس کی تدفین کے متعلق تفصیلات متعین کرنے کے بعد متعلقہ ریاستوں تک اس کی معلومات پہنچائیں۔
اللہ تما م لوگوں کو سمجھ عطا فر مائے اور اس موذی مرض کو ختم فرما ئے آمین ثم آمین
تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر
کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ
پن کوڈ,831020
رابطہ:09279996221
hhmhashim786@gmail.co
تحفظ ناموس رسالت ﷺ مسلمانوں کا اولین فریضہ