تحریر مولانا محمد دانش رضا منظری تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کی عظمت
تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کی عظمت
قرآنِ کریم ا س رب تبارک و تعالیٰ کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود، تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے، اللہ ارشادفرماتا ہے (مفہوم)اور اے سننے والے اگر تجھے کچھ شبہہ ہو اس میں (قرآن )جو ہم نے تیری طرف اتارا تو ان سے پوچھ جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھنے والے ہیں بیشک تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق آیا تو تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔ اور ہرگز ان میں نہ ہونا جنہوں نے اللہ کی آیتیں جھٹلائیں کہ تو خسارے والوں میں ہوجائے گا(پ ۱۱،یونس:۹۴،۹۵،)۔
اس نے اپنا یہ کلام رسولوں کے سردار،حبیب بے مثال محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل فرمایا،تاکہ اس کے ذریعے آپ صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں، اور شرک و کفر و نافرمانی کے انجام سے ڈرائیں ، لوگوں کو کفرو شرک اور گناہوں کے تاریک راستوں سے نکال کر ایمان و اسلام کے روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں، اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں، اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتاہے۔(مفہوم)۔
تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی، اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت معتدل کتاب، تاکہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اوراچھے اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔(پ۱۵،الکہف:۱،۲،)۔
قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ نے توریت زبور انجیل، ان کے علاوہ بھی بہت سے صحیفے اور کتابیں نازل فرمائے لیکن وہ کتابیں جیسی اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھیں ویسی پوری دنیا میں کہیں موجود نہیں، کیونکہ ان کے متبعین نےان کو تسھیل بالعمل،عام و خاص سے مال و دولت کے نذرانے حاصل کرنے کی غرض سے بدل ڈالا جس کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے (مفہوم)۔
بیشک وہ لوگ جو اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے ذلیل قیمت لیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ان سے نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(پ ۲،البقرہ ۱۷۴)۔
قرآن پاک واحد ایسی کتاب جیسی اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوئی آج تک ویسی ہی ہے،حالانکہ کفار و مشرکین و دشمنان اسلام و قرآن نے اس میں بہت رد و بدل کرنےاورمٹانے کی ناکام کوششیں کی جتنی انہوں نے اس کو مٹانے ،بدلنے کی کوششیں کی، وہ اتنا ہی تیز رفتاری کے ساتھ اپنی نورانیت و حقانیت سے لوگوں کے تاریک دلوں کو شرک و کفر کی غلاظت و خباثت سے پاک و صاف کرکے منور و روشن کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا، اپناقائل و گرویدہ بناتا گیا۔
آخر اس کی کیا وجہ تھی کہ منکر لوگوں نے اس کو مٹانے کی ناکام کوششیں کیں، کرتے ہیں،کرتے رہیں گے لیکن اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر پائے اس کا سبب یہی ہے کہ اس کی حفاظت و صیانت رب عالم کررہا ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے (مفہوم)بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔(پ۱۴الحجر: ۹ )۔
قرآنِ مجید کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان کے بابرکت ورحمت مہینے میں ہوئی اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔رمضان کا یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں پر مشتمل ہے۔(پ۲،البقرہ:۱۸۵)۔
قرآن کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لانے کا شرف روحُ الامین حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حاصل ہوا۔
قرآنِ مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان یعنی عربی زبان میں نازل کیا گیا تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور عرب کے باشندگان اور کفارِ قریش کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس کلام کو سن کر کیا کریں گے جسے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے ۔
قرآن مجید کو تورات و انجیل کی طرح ایک ہی مرتبہ نہیں اتارا گیا بلکہ حالات و واقعات کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً ۲۳ سال کے عرصے میں اسے نازل کیا گیا تاکہ اس کے احکام پر عمل کرنا مسلمانوں پر بھاری نہ پڑے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قلب اطہر کو مضبوطی حاصل ہو، اور تمام عالم انسایت کی رہنمائی کرے ۔
قرآن کی لفظی تعریف ۔لفظ قرآن قرآن مجید میں ساٹھ دفعہ استعمال ہواہے۔یہ خالص عربی لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسں کا اصل نام ہی قرآن ہے (تفسیر مصباحین : ج۱،ص۳۳)۔
قرآن و حدیث میں فرق۔ قرآن و حدیث دونوں ہی وحی الہی ہیں۔دونوں کی اطاعت لازم و ضروری ہے۔فرق اتناہےکہ قرآن کی عبارت اور مضمون خدا کی طرف سے ہے۔گویا جس طرح حضرت جبریل نے آ کر سنایا اسی طرح بلا کسی فرق کے حضور علیہ السلام نے بیان فرما دیا ۔حدیث یہ ہے کہ مضمون رب کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ حضور علیہ السلام کے اپنے ہوتے ہیں اب اس مضمون کا آ نا رب کی طرف سے بطور الہام ہوتا ہے یا فرشتہ ہی لےکر آتا ہے لیکن اس کی ادا حضور علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں ہوتی یے۔اسی لئےاس کا ماننا اس پر عمل کرنا لازم و ضروری ہے۔(تفسیر نعیمی: ج1،ص،۸ تا ۷)۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو جو عظمت و شان عطا فرمائی وہ کسی اور کلام کو حاصل نہیں ناہی کسی اور کتاب کو ہو سکتی ہے ۔قرآنی آیات سے اس کی عظمت و شان کو بیان کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اے لوگوبیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔(۔پ ۶۔النساء: ۱۷۵)۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی اس کلام کو اپنی طرف سے نہیں بنا سکتا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ اللہ کے نازل کئے بغیر کوئی اسے اپنی طرف سے بنالے، ہاں یہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔(پ ۱۱،یونس:۳۷)۔
تمام جن و اِنس مل کر اور ایک دوسرے کی مدد کر کے بھی قرآنِ عظیم جیسا کلام نہیں لا سکتے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے۔تم فرما دو : اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔(پ 15،بنی اسرائیل ۸۸)یہ کلام سیدھا اور مستقیم ہے،اس میں کسی قسم کی کوئی کَجی ، ٹیڑھا پن نہیں ہے بلکہ نہایت مُعتدل اور مَصالحِ عِباد پر مشتمل کتاب ہے ۔
یہ انتہائی اثر آفرین کتاب ہے جسے سن کر خوف و خَشِیَّت کے پیکر لوگوں کے دل دہل جاتے ہیں اور بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، (مفہوم)اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، باربار دہرائی جاتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ کی یاد کی طرف نرم پڑجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتاہے اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔(پ ۲۳الزمر:۲۳)۔
الغرض یہ بڑی برکت والی کتاب ہے ا س لئے سب مسلمانوں کو چاہئے کہ ا س کی پیروی کریں اور پرہیز گار بن جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاربنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاربنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(پ ۸،انعام:۱۵۵)۔
ان کے علاوہ بھی خدائے تعالیٰ نے اکثر جگہوں پر قرآن کی رفعت شان کا تذکرہ کیا اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے ھدایت ،نور اور شفابنایا ہے، اس میں انسان کو حق و باطل کے مابین تمیز کرنے کا طریقہ عطا کیا، اس میں انسان کو غور و فکراور تدبر کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگ اپنے زندگی کو کامیاب بنا سکے اور دارین میں فلاح وخیر حاصل کرسکیں ۔قرآن اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر مرحلہ و شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے چاہے وہ ان کی زندگی کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں،ان کے روز مرہ کی پیش آمدہ مشکلوں پریشانیوں اور دیگر مسائل کا حل عطا کرتا ہے۔جو مومنین قرآن کی تلاوت کرنے کے شائق ہیں قرآن میں انکی تعریف و توصیف بیان کی گئی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(مفہوم) بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔(پ۲۲،الفاطر: ۲۹،۳۰)۔
اس کی تلاوت کرنےکے شائقین کی تعریف و توصیف کیوں نہ بیان کی جائے کیونکہ اس کا پڑھنا عبادت پڑھانا عبادت، دیکھنا عبادت چھونا عبادت، سمجھنا عبادت سمجھانا عبادت، سننا عبادت سناناعبادت، غور و فکر کرنا عبادت ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ اسکی تلاوت دلوں سے نجاست و غلاظت معصیت کو صاف کرکے دلوں کوپاک کرتا ہے اور ان کی تاریکی کو دورکرکے ان کو پر نور کرتا ہے اسکی تلاوت سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور آنکھوں کو ضیاء ملتی ہے اور زبان کو لطافت و تلذذ،اور اس کی تلاوت سے قیل و قال میں حلاوت و شیرینی اور طبیعت میں لطف و بشاشت پیدا ہوتی ہے ۔اس کی تلاوت عقل و خرد میں کثرت و اضافہ کا سبب بنتا ہے یہ سب تالی قرآن کے لئے فوائدہیں اوراس سے بھی کہیں زیادہ، جس کو اس ناقص کا قلم بیان نہیں کرسکتا۔
فوائد قرآن جو احادیث سے ثابت ہیں
حدیث شریف میں ہے (۱)جس گھر میں روزانہ سورۂ بقرہ پڑھی جائے وہ گھر شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔ لہذا جنات کے شر سے بھی محفوظ رہے گا ۔(۲)روز قیامت سورۂ بقرہ،ال عمران ان لوگوں پر سایہ کریں گی اور ان کی شفاعت کریں گی جو دنیا میں قرآن کی تلاوت کے عادی تھے۔
۔(۳)جو شخص آیة الکرسی صبح و شام اور سوتے وقت پڑھ لیا کرے تو اسکا گھر آگ سے جلنے اور چوری ہونے سے محفوظ رہے گا ۔ (۴) سورۂ اخلاص کا ثواب تہائی قرآن کے مساوی ہے اسی لئے ختم ، فاتحہ میں اس کو تین بار پڑھتے ہیں۔ (۵) حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھتا ہے اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں ۔خیال رہے الم ایک حرف نہیں بلکہ الف ،لام ،میم ، تین حروف ہیں صرف اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔خیال رہے الم مقطعات میں سے ہے جس کا معنی اللہ ورسول کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۔(۶) جو شخص قرآن پڑھے اس پر عمل بھی کرے تو قیامت کے دن اس کے و الدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب سے بھی زیادہ تیز ہوگی۔(۷)قرآن کو دیکھ کر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہے اور بغیر دیکھ کر پڑھنے کا ایک ۔اس لئے کہ چند چیزوں کا دیکھنا عبادت ہے۔قرآن ، کعبہ معظمہ اور و الدین کا چہرا محبت سے اور عالم دین کا چہرا عقیدت سے وغیرہ وغیرہ۔( ۸) قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد دل کی غلاظت کو اس طرح صاف کردیتی ہے جیسے کہ زنگ آلود لوہےکو آگ ۔
۔(۹)جو شخص قرآن کی تلاوت میں اتنا مشغول ہو کہ کوئی دعا نہ مانگ سکے تو اللہ تعالی اسے مانگنے والوں سے زیادہ دیتا ہے۔ (۱۰)جو ہر رات سورۂ واقعہ پڑھا کرے اسے کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ (۱۱) جو سورۂ یاسین اول دن میں نصف النھار سے پہلے پڑھنے کا عادی تو اس کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ (۱۲) سورۂ یاسین پڑھنے سے تمام گناہ معاف ہوتے ہیں، مشکلیں آسان ہوتی ہیں لہذا اس کو مریضوں کے پاس پڑھو۔ (۱۳)سورۂ کافرون سوتے وقت پڑھنے و الا کفر سے محفوظ رہےگا۔(۱۴) سورۂ قلق و ناس پڑھنے سے آندھی و اندھیری دور ہوتی ہے،پابندی سے پڑھنے و الا جادو سے محفوظ رہے گا۔(۱۵)، سورۂ فاتحہ جسمانی اور روحانی بیماریوں کی دوا ہے۔۔(تفسیر نعیمی ۔ج ۱، ص ۱۹)۔
قرآن کے فائدے صرف پڑھنے والے پر ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ دوسںروں تک بھی پہنچتے ہیں مثلا جہاں تک اس کی آواز پہنچے وہاں تک ملائکہ رحمت کا اجتماع ہوتا ہے
جب تالئ قرآن تلاوت کرتا تو اس وقت اس پر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور اللہ کے مقدس فرشتے قرآن کو سننے کے لئےتشریف آور ہوتے ہیں اورتالئ قرآن سے قریب ہو کر قرآن سنتے ہیں،اسکے لئے دعائے خیر و عافیت و مغفرت کرتے ہوئے واپس ہوجاتے۔جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت اسید بن حضیر رات کے وقت سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔
اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کر دی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہو گیا۔ تیسری مرتبہ انہوں نے تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا۔ ان کے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔
انہوں نے تلاوت بند کر دی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے ( تو بہتر تھا ) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا۔ میں نے سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا۔
پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی؟ اسید نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں۔(صحیح البخاری:۵۰۱۸)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ماہر قرآن ، اطاعت گزار معزز فرشتوں اور محترم و معظم نبیوں کے ساتھ ہو گا ، اور جو شخص اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس پر دشوار ہوتا ہے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہو گا (مشکوة ۲۱۱۱)۔
ماہر قرآن ہر وہ عالم ہے جو الفاظ قرآن معانی، مسائل،اسرار و رموز قرآن کا واقف ہو۔ قرآن کا عالم انبیاء ،ملائکہ جیسا کام کرتا ہے اسلئے اسکا حشر بھی انہیں جماعتوں کے ساتھ ہوگا۔لیکن وہ جو کند ذہن موٹی زبان و الا جو قرآن سیکھ تو نہ سکے مگر کوشش میں لگا ریےکہ مرتے دم تک کوشش کئے جائے تو وہ ڈبل اجر کا مستحق ہے (مرأةالمناجيح۔ج۳ ، ص۲۳۷)۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ، وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن (کا علم) عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس (کی تلاوت و عمل) کا اہتمام کرتا ہو ، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس میں سے خرچ کرتا ہو۔(مشکوة ۲۱۱۲)۔
رشک کے معنی ہیں دوسرے کی سی نعمت اپنے لئے بھی چاہنا دینی چیزوں میں رشک جائز ہے ۔جسکو قرآن کا علم دیا گیا نمازیں پڑھتا ہو اس کے احکام پر عمل کرتا ہو ہروقت اس کے مسائل سوچھتا ہو اس میں غور و تامل کرتا ہو تو اسکی زندگی مبارک ہے۔اور مبارک ہے وہ موت جو قرآن،حدیث کی خدمت میں آئے اللہ مجھے بھی نصیب کرے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ ، اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو رفعت عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے ۔(مشكوة:۲۱۱۴)۔
مسلمان قرآن کو صحیح طرح سمجھیں اور صحیح طرح عمل کریں تو وہ دنیا میں بلند درجے پائیں گے ،جو اس سے غافل رہیں یا غلط طرح سمجھیں،غلظ طور پر عمل کریں وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہونگے اور اس سے زندگی و موت طیب ہوتی ہے یہ محبوبین کے لئے رحمت ہے اور محجوبین کے لئے دماء و خون ہے
قرآن عظیم کی تلاوت کرنا اور سننا اعجاز مسلمانی ہے اسلئے ہر مسلمان کو زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرکے رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنا چاہیے لیکن وہ لوگ جو قرآن پڑھنا نہیں جانتے تووہ دوسرے لوگوں سے قرآن پڑھواکر سنیں،اسلئے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسںروں سے قرآن پڑھواکر سنا بہت محبوب تھا جس کا ذکر حدیث موجود ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتےہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا میں آپ کو قرآن سناؤں آپ پر تو قرآن نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں قرآن مجید دوسرے سے سننا محبوب رکھتا ہوں(مشکوة)۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب ایک فتنہ برپا ہو گا۔ میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب، جس میں تمہارے اگلوں اور پچھلوں کی خبریں ہیں اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں ،قرآن فیصلہ کن ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے ۔
جو ظالم اسے چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا اور جو اس کے غیر میں ہدایت ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے اور وہ حکمت والا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے ، قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس کے ساتھ دوسری زبانیں مل کر اسے مُشتبہ و مشکوک نہیں بناسکتیں ، جس سے علماء سیر نہیں ہوتے ،جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں پڑتا ، جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ، قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جِنّات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو اچھائی کی رہبری کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے ،جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے، جس نے اس پر عمل کیا وہ ثواب پائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا۔(ترمذی: ۲۹۰۵)۔
آج مسلمان تعلیم قرآن وتلاوت سے بہت دور ہے نا ہی خود اسکی تعلیم حاصل کرتا اور ناہی اپنے بچوں کو تعلیم دلاتا یہی وجہ آج ھمارےمعاشرے و گھروں میں طرح طرح کی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں ۔گھر بیماریوں سے تباہ و برباد اور ویران ہیں، ہم لوگ تنگ دست، بد اخلاق،بد تھذیب، بے ادب، ہوتے جارہےہیں۔اور اپنے خالق سے دور ہوکر بے راہروی کے شکار ہورہے ہیں۔کیونکہ ہم نے قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ روا نہیں رکھا
جسکی تعلیم کی ترغیب سرکار دو عالم نے اپنے الفاظ یوں فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں: تم میں سب سے بہتر وہ شخص جو قرآن سیکھے اور دوسرے کو سکھائے۔(مشکوة حدیث ۲۱۰۹) اسلئے کہ قرآن زندگی کو بہتر بنانے کے اسرار و رموز بیان کرتا ہے ، انسان کے لیے کیا صحیح اور کیا غلط ہے ،اسکی تصریح کرتا ہے ،جو قرآن کی تعلیم سےصحیحا آراستہ ہیں انکے کردار و عمل سے اسلام کی حقانیت چمک اور دمک رہی ہے.
ذرا صحابہ، تابعین ، تبع تابعین کا دور دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے صرف قرآن سیکھا ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں قرآن کی نشر و اشاعت کی اور اس کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کو بھی قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اسی لئے ان کی زندگیاں ہمارے لیے آئیڈیل،مشعل راہ اور نمونۂ عمل ہیں
کاش ہم نے اس کی تعلیم پر دھیان دیا ہوتا تو زمانہ ہمارا دشمن نہ ہوتا کیونکہ یہ قرآن کا ہی فیضان تھا کہ جب ہمارے اسلاف کسی ملک و بلد قریہ سے گزرا کرتے تھے تو مشرکین و یہود نصاری کے کلیجے منہ کو آنے لگتے تھے اور اپنے بستیوں کو بے یار و مددگار تنہا چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے اور بہت سے لوگ ان کے کردار و عمل سے متاثر ہوکر آغوش اسلام میں آجایا کرتے تھے، کوئی بھی باطل طاقت انکے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرتی تھی یہ سب کیا تھا بس قرآن کی تلاوت کرنےاور اسکی تعلیم و تعلم کا سلسلہ روا رکھنے اور اس پر عامل ہونے کا ہی ثمرہ تھا اس لئے کہ ہمیشہ انکے شب وروز تلاوت قرآن و تعلیم و تعلم اور بندگئی خدا میں گزرا کرتی تھیں، لیکن آج ہم اپنی حالت زار کے خود ذمہ دار ہیں کسی اورسے کیا شکوۂ رنج و الم
اگر آج ہم نے قرآن کو برائے طاق نہ رکھا ہوتا تو آج ہم دوسروں کے ظلم و جبر کے شکار نہ بنتےاورنا ہی دوسروں کے محتاج اور نہ در در کی ٹھوکر کھاتے پھرتے اور نا ہی ہمارا جسم ہزارہا قسم کی بیماریوں کا مرکز بنتا کیونکہ اس کتاب میں اللہ تعالی نے صرف انسان کی ھدایت ،آخرت میں جز او سزا کا ہی تذکرہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں انسان کیلئے شفاء اور دنیا میں پیش آمدہ تمام مصائب و مشکلات، کے حل کا بھی تذکرہ کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (مفہوم)اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے۔ (بنی اسرائیل )
(مفھوم)(اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے۔اور مسلمانون کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے ۔( سورۂ نحل ۸۹۔)۔
درس قرآن نہ اگر ہم نے بھولایا ہوتا
تو یہ زمانہ نہ زمانے کو دیکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
ہم خوار ہوئے ہیں تارک قرآں ہوکر
تو ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سےشاد و آباد رکھیں گےاور گھر کے ہر چھوٹے ، بڑے کو قرآن کی تعلیم کی ترغیب دیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کی تلاوت اور اس کا ادب و احترام ، اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن کی تعلیم کو گھر عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور فیضان قرآن سے تمام مومنین مومنات کو مستفیض فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم صَلی اللہ تعالی علیہ وسلم
از قلم۔۔۔۔ مولانا محمد دانش رضا منظری
استاذ: جامعہ احسن البرکات فتح پور یوپی