Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتشب قدر کی قدر و منزلت سورۃ القدر کی روشنی میں

شب قدر کی قدر و منزلت سورۃ القدر کی روشنی میں

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین امابعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ۔:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

تحریر علامہ محمد غفران رضا قادری رضوی شب قدر کی قدر و منزلت سورۃ القدر کی روشنی میں

شب قدر کی قدر و منزلت سورۃ القدر کی روشنی میں

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ (۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ (۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ  (۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠ (۵ ترجمۂ کنزُالعِرفان بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس   رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔

سورۃ القدر کا تفسیری خلاصہ

   سورۂ قدر کا تعارف 

مقامِ نزول   سورۂ قدرمدنیہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ مکیہ ہے۔( تفسیرخازن، سورۃ القدر،۴/ ۳۹۵ ) ۔

اس سورہ مبارکہ میں رکوع، آیات، کلمات اور حروف کی تعداد    اس سورت مبارکہ میں رکوع، 5 آیتیں 30 کلمے اور 112 حروف ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان)۔ 

اس سورت مبارکہ کا ’’ قدر ‘‘ نام رکھنے کی وجہ 

  قدر کے بہت سے معنی ہیں البتہ یہاں قدر سے عظمت و شرافت مراد ہے،اور چونکہ اس سورت میں لیلۃ القدر کی شان بیان کی گئی ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ قدر‘‘ کہتے ہیں ۔ 

    سورۂ قدر کے مضامین  

اس سورت میں قرآنِ مجید نازل ہونے کے ابتدائی زمانے کے بارے میں بتایا گیا اور جس رات میں قرآن مجید نازل ہوا اس کی فضیلت بیان کی گئی کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اترتے ہیں اور یہ رات صبح طلوع ہونے تک سراسر سلامتی والی ہے۔   

سورۂ علق کے ساتھ سورہ قدر کی مناسبت  

سورۂ قدر کی اپنے سے ما قبل سورت’’علق‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ علق میں اللّٰہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سےفرمایا تھا کہ آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام سے قرآن پڑھئے جس نے پیدا کیا اور اس سورت میں قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتداءکازمانہ بتایا گیا کہ اسے عظمت و شرافت والی رات لیلۃُ القدر میں نازل کیا گیا۔ 

محترم و مکرم قارئین کرام! ۔

اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عطا کردہ بے پناہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہیں کہ وہ ہمیں اپنے گناہوں کی معافی کے لئے وقتا فوقتا کثیر تعداد میں مواقع فراہم کرتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت کا مظہر ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ نعمتیں برکتیں رحمتیں بخششیں اور لطف وکرم سمیٹے ہوئے ہے جس کے ایک ایک لمحہ میں اللہ پاک اپنے بندوں پر رحمتوں ومغفرتوں نجات کی بارش نور برساتا ہے، رمضان المبارک کا وہ عظیم الشان مہینہ ہے کہ جس میں بندہ ندامت کے ساتھ اپنے معبود حقیقی کے دربار میں سربسجود ہوکر اپنے گناہوں سے معافی کی درخواست کرتا ہے۔ اسی رمضان میں اللہ نے ایک ایسی رات بھی ہمیں عطا فرمائی ہے جو ہزاروں مہینوں سے افضل اور بہتر ہے۔

جو شب قدر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پانے کے لئے اپنی امت کو ترغیب دی۔ انشاءاللہ العظیم ہم اس پوری سورت مبارکہ کی تفسیر پیش کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ مضمون کے آخر تک شب قدر کا فلسفہ اور اس کی قدر و منزلت کھل کر سامنے آجاۓ گی۔ہم بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ یہ عظیم الشان برکتوں ورحمتوں والی رات ﷲ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں رکھی اور اس میں اپنا مقدس کلام یعنی قرآن مجید فرقان حمید اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔   

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ

 ترجمہ کنزالعرفان:رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔)۔

مذکورہ بالا آیت مقدسہ کا تفسیری خلاصہ

{شَهْرُ رَمَضَانَ: رمضان کا مہینہ۔} اس آیت مبارکہ میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔

(اس ماہ مبارک میں قرآن کریم اترنے کے یہ معانی ہیں) 

۔(1)… رمضان المبارک وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا۔

۔(2)… قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان کریم میں ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲ / ۲۵۲-۲۵۳، تفسیر صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ)

۔۔(3)… مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵،۱ / ۱۲۱، تفسیر صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ، خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ) ۔(الافادت النعیمیہ)۔

یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنااللہ تعالیٰ کو منظور ہوا حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔( تفسیر صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ، خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ)۔۔

عظمت والی چیز سے نسبت کی برکت

 رمضان شریف وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے۔اسی لئے جس دن اور گھڑی کو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہوگئے، جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہوگیا۔ (مسلم شریف، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴) بحوالہ صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ)۔

حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن کریم میں سلام فرمایا گیا۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی پیدائش، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے۔(مریم: ۳۳ صراط الجنان، المریم)

{ وَ الْفُرْقَانِ: اور حق و باطل میں فرق کرنے والا۔}زیر تفسیر آیت میں قرآن مجیدکی تین شانیں بیان ہوئیں 

۔(۱)… قرآن ہدایت ہے،(۲)… روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور(۳) …حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔  قرآن شریف کے23نام ہیں اور یہاں قرآن مجیدکا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیاہے۔ 

اسمائےقرآن کریم

ہر وہ نام اور صفت جو قرآن مجید نے اپنے لئے ذکر فرمائی ہے کی ہے،اس کے کچھ انسانی اور کچھ ربانی مضمرات ہیں اور ان معانی میں بے انتہاء وسعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں پائی جاتی

حضرتِ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اس میں قرآن مجید کا دوسرا مشہور نام مذکور ہوا ہے،’’الفرقان‘‘-اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم ہے:’’الگ کرنا،جدا کرنا، فرق کرنا‘‘-بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس نام سے قرآن مجید کے دوسرے نام، یعنی القرآن کی تکمیل ہوتی ہے-’’قرآن‘‘ کامطلب ہے،’’وہ جو، ہر حکمت و دانائی کو یکجا کرتا ہے‘‘ تو فرقان کے معنی ہیں ’’وہ جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور حکمت و دانائی کو پرکھنے کی کسوٹی فراہم کرتا ہے‘‘-قرآن مجید نے اپنے سے پہلی کتاب تورات شریف کیلئے بھی فرقان کا لفظ ارشاد فرمایا : چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ (۴۸) (سورۃ الانبیاء)۔

ترجمۂ کنز العرفان    اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فیصلہ دیا اور روشنی اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت دی ۔     

{ وَلَقَدْاٰتَیْنَامُوْسٰى وَهٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ:اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کوفیصلہ دیا۔} یہاں سے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کیے جارہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی خدمت کی ، اس راہ میں پیش آنے والی تکلیفیں برداشت کیں اورصبرواِستقامت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تاکہ بعد میں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہوں اور وہ بھی صبر واِستقامت ،اِیثار واِخلاص اوراللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے دین کا کام کریں ۔

چنانچہ سب سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوایسی کتاب عطاکی جس کا وصف یہ ہے کہ وہ حق وباطل کوالگ الگ کردینے والی ہے اور وہ ایسی روشنی ہے جس سے نجات کی راہ معلوم ہوتی ہے اور وہ ایسی نصیحت ہے جس سے پرہیز گار تنبیہ و نصیحت اور دینی اُمور کا علم حاصل کرتے ہیں ۔(مدارک،الانبیاء، تحت الآیۃ : ۴۸، ص۷۱۸، تفسیر صراط الجنان، سورۃ الانبیاء، تحت الآیۃ، تفسیر خزائن العرفان، الانبیاء تحت الآیۃ)۔

تورات شریف حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تو بلا واسطہ دی گئی اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واسطہ سے عطا کی گئی ۔ (صراط الجنان، الانبیاء، تحت الآیۃ) ۔۔

قرآن مجید فرقان حمید ایک اور مقام پر اپنے لئے فرقان لفظ ارشاد فرمایا: چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ اۙ (۱)(سورہ الفرقان)۔

 ۔ (ترجمۂ کنز العرفان)         وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔ 

{ تَبٰرَكَ : وہ (اللّٰہ) بڑی برکت والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے خاص بندے اور اپنے حبیب، انبیاء ومرسلین کے سردار، جناب محمد ِمصطفٰی احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حق اور باطل کے درمیان فرق کردینے والا قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ اس کے ذریعے تمام جہان والوں کواللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر اس کے عذاب کا ڈر سُنانے والے ہوں ۔(روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ :۱ ،۶ / ۱۸۷-۱۸۸،۔ تفسیر خزائن العرفان، الفرقان، تحت الآیۃ، تفسیر صراط الجنان سورۃ الفرقان تحت الآیۃ)  ۔  

اب آیۓ سورۃ القدر کاتفسیری جائزہ لیتے ہیں: سورہ مبارکہ کا ترجمہ اور اس کا تعارف مضمون کے شروع میں ذکر ہو چکا ہے، اب اس کی ہرآیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 

(سورۃ القدر کی پہلی آیت مبارکہ کی تفسیر)

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱)۔ ۔  (ترجمۂ کنز العرفان)     بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا

لفظ قدر کے معنی ومفہوم

شب قدر کے لفظ”قدر” کے علماء نے دو معنی بیان کیے ہیں : ایک یہ کہ قدر کے معنی وہ رات کہ جس میں تقدیروں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس رات میں افراد، قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس رات میں کتاب اللہ کا نزول محض نزول نہیں بلکہ یہ وہ کام ہے جو پوری دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔(تفسیرخازن، ٦/سورہ القدر، تحت الآیۃ، التفسیر الجیلانی،٦/سورۃ القد، تحت الآیۃ)۔

 اس کی تائید قرآن کریم کے پارہ نمبر ٢٥سورۃ الدخان کی آیت نمبر. ٤-٥ کرتی ہیں“ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ (۴) اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ (۵) (سورۃ الدخان)۔

  ۔(ترجمۂ کنز العرفان)    اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کے حکم سے ،بیشک ہم ہی بھیجنے والے ہیں ۔   

{ فِیْهَا یُفْرَقُ : اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں سال بھر میں ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق،زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں جو انہیں سرانجام دیتے ہیں اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ، حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں۔(جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵ ،۸ /۴۰۴،ملتقطاً صراط الجنان،الدخان، تحت الآیۃ)۔      

اس رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے ۔دوسرےمعنی یہ کہ شب قدر بڑی قدر و منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے جس کی تائید خود سورۃ القدرکی آیت نمبر ٣ کرتی ہے ۔یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ (سورہ قدر،٣)۔

 

شبِ قدر کی فضیلت

شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے، اس کو شبِ قدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس شب میں سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پر شرافت و قدر کے باعث اس کو شبِ قدر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الہٰی میں ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں۔(خازن، القدر، تحت الآیۃ:۱ ،۴/ ۳۹۵، صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ) ۔ 

اَحادیث کریمہ میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ  

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تواللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ)گناہ بخش دیتا ہے ۔ ( بخاری شریف، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان، ۱/ ۲۵، الحدیث: ۳۵) ۔ 

اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا توحضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیاوہ تمام نیکیوں سے محروم رہااور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، ٢/ ٢٩٨،الحدیث:۱۶۴۴)۔  

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں گزارے اور اس رات میں کثرت سے اِستغفار کرے، جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں:،میں نے عرض کی:یارسولَ اللہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو ا س رات میں مَیں کیا کہوں؟ارشاد فرمایا: تم کہو اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ

اے اللّٰہ!بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرمادے۔ (ترمذی شریف، کتاب الدعوات، ۸۴-باب،۵/ ۳۰۶،الحدیث: ٣٥٢٤) یہ ہی شب قدر کی خاص دعا ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود تعلیم فرمائی ہے۔   

نیزآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس رات میں یہ دعا بکثرت مانگوں گی’’اے اللّٰہ میں تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الدعاء با العافیۃ،٧/ ٢٧،الحدیث: ۸) ۔ 

ایک مکمل مدنی بقولِ دیگر مکی سورہ ہے سورة القدر اس رات کی اور اس میں نازل کردیے جانے والے کلام اللہ کی قدرو قیمت اور اہمیت واضح کردیتا ہے۔

 امام ابن ابی حاتم نے حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ الباری سے مرسلا روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر فرمایا جس نے ہزار مہینوں تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہ سن کرصحابہ کو اس شخص پر بڑا ہی رشک آیا اور انھوں نے تمنائیں کیں کہ کاش ہمارے نصیب میں بھی عمر دراز ہو تو ہم بھی اللہ کی عبادت میں اپنی جان گنوائیں گے۔ یہی وہ وقت تھا کہ سورہ القدر نازل ہوئی۔( تفسیر الخازن ،۴:۳۹۷)۔

حضرت امام ابن جریر نے بھی حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ الباری سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد شخص کا ذکر فرمایا جو رات کو اللہ کی عبادت کرتا تھا اور دن کو ایک روایت کے مطابق روزہ رکھتا تھا اور،دوسری روایت کے مطابق اللہ کی راہ میں جدوجہد اور کوشش کرتا تھا۔

 یہ سن کرصحابہ کو اس شخص پر بڑا ہی تعجب ہوا،اور انھوں نے آرزوئیں کیں کہ کاش ہمیں بھی اتنا موقعہ مل جاتا کہ ہم بھی اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اپنا دن رات کھپا دیتے، اللہ تعالٰی کی یاد میں گزاردیتے۔ یہی وہ وقت تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر سورۃ القدر نازل ہوئی۔ (تفسیر مظہری ، القدر)۔

 اسی طرح کی ایک اور روایت کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف پیغمبروں (حضرت ایوب علیہ السلام،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت یوشع علیہ السلام )کے بارے میں تذکرہ کیا جنھوں نے اسی اسی سال اللہ کی عبادت میں صرف کرکے ایک لمحہ کے لئے بھی اسکی نافرمانی نہیں کیں۔ سب نے کم عمری کو عبادت کم کرنے کا ذمہ دار مانا اور سب نے اپنی عمر درازی کے لئے اللہ سے دعا کی تو اللہ نےبذریعہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ القدر نازل فرمائی۔(تفسیر القرطبی، القدر،۲۰/۱۳۲)

اس سورہ مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کو تسکین قلب ملا اور وہ خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ لیلةالقدر اللہ کی طرف سے امت کے لئے ایک تحفہ ہے جو امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو خاص ہونے کی دلالت کرتا ہے۔(الدر المنثور ،القدر،۶:۳۷۱)۔

یہ رات تحفہ اس لئے تھی کہ اس رات قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحب قدر رسولِ کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں لفظ “قدر” تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر، القدر،۳۲:۲۸)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اس رات کو ایمان اور احتساب کے ساتھہ قیام کرے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیۓ جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)۔

شبِ قدر سال میں ایک مرتبہ آتی ہے

یاد رہے کہ سال بھر میں شبِ قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور کثیر روایات سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شبِ قدر ہوتی ہے اور یہی حضرتِ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے۔(مدارک، القدر، تحت الآیۃ:۱، ص ۱۳۶۴) ۔ 

شب قدر کے تعین کے بارے میں قریباً پچاس سے بھی زائداقوال موجود ہیں جن میں کچھ روایات شب قدر کا رمضان کی ستائیسویں شب میں ہونے کے حق میں ہیں۔ 

شب قدر کا تعین سورۃ القدر کی روشنی میں

اس سورت مبارکہ کا جب بنظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شب قدر رمضان المبارک میں ہے اور آخر عشرہ میں اور زیادہ راجح ٢٧ویں شب کو ہے جیسے کہ ہمارے امام صاحب سراج الامہ کاشف الغمہ امام الائمہ فی التفسیر والحدیث کا بھی یہی موقف ہے۔ دیکھۓ

سورہ قدر ،کہ جس میں شب قدر کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم کے ٣٠ پاروں و رمضان المبارک کے تیس روزوں کی طرح پوری سورت میں کل ۳۰ الفاظ ہیں اور شب قدر کی طرف اشارہ لفظ “ھی” سے کیا گیا جو کہ ستائیسواں لفظ ہے۔ گویا کہ شب قدر رمضان المبارک میں اور لفظ ھی کی روشنی میں ٢٧ کو ہے۔ (تفسیر قرطبی،۳۲:۳۰/تفسیرالقرطبی،۱:۱۳۶)۔ 

اسی طرح فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شب قدر کے تعین کے بارے میں عرض کیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کو طاق عدد پسند ہے اور اس میں بھی سات کے عد د کو ترجیح دیتا ہے۔ اپنی کائنات کی تخلیق میں اس نے سات کے عدد کو نمایاں ہے ،مثلا سات آسمان، سات زمین،سات چکر طواف کے،ہفتہ کے سات دن،وغیرہ۔(تفسیر کبیر،۳۲:۳۰)۔

جبکہ علماء کی بڑی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں طاق رات ہے۔۔۔(مسند احمد)۔ 

   اعتکاف کا مقصد 

آخری عشرے میں اعتکاف کا مقصدبھی شب قدر کی تلاش ہی ہے۔ جو صرف رمضان کی ستائیسویں شب کو ہی نہیں بلکہ رمضان کی آخری دس راتوں کو کیا جاتا ہے۔

شبِ قدر کو پوشیدہ رکھے جانے کی وجوہات

حضرت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نےشب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے۔  

۔(1)… جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا،مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رغبت حاصل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں میں مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔

اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں کی پابندی کریں ۔تو بہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔ (تفسیر صراط الجنان، القدر)۔

۔(2)…گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں نے اسے پوشیدہ رکھا ۔   

۔(3)…گویا کہ ارشاد فرمایا میں نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔  

۔(4)…جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں اس امید پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو۔ ( تفسیر کبیر، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱/ ۲۲۹- ۲۳۰)۔  

۔(5).. اس رات کا تعین دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے اٹھا لیا گیا۔ (صحیح بخاری شریف)۔

۔(6).. اللہ کو اپنے بندوں کا رات میں صرف اسی کی رضا جوئی کے لئے بیدار رہنا بہت پسند ہے۔ (7)..عمل کی راہ مسدود نہ ہو اور لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور صرف ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔ 

۔(8).. اس رات کا متعین نہ ہونا گنہگاروں کے لئے شفقت ہے ۔ (9)۔۔اس رات کے چھوٹ جانے سے ایک بندہ پورے سال پچھتاوے کا شکار نہ ہو۔ 

(تفسیر کبیر ،۳۲:۲۸)۔

 بقیہ فضائل اگلی آیات کے زیر سایہ ذکر کیے جائیں گے ۔

(آیت نمبر ٢/ ٣ کی تفسیر)

وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ)لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ (۳

  ۔(ترجمۂ کنز العرفان)   اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔  

{لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔} یہاں سے شبِ قدر کے عظیم فضائل بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ شبِ قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب ِ قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شبِ قدر سے خالی ہوں اور اس ایک رات میں نیک عمل کرنا ہزار راتوں کے عمل سے بہتر ہے۔ (خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۳ ، ۴/ ۳۹۷، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۴، ملتقطاً صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)۔ 

ہزار مہینوں سے بہترایک رات

حضرت امام مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کیا ،مسلمانوں کو اس سے تعجب ہوا تواللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : 

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ۖ( ۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ؕ( ۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ 

ترجمۂ کنزُالعِرفان : بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا۔اور تجھے کیا معلوم کہ شبِ قدرکیا ہے؟شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر،۴ / ۵۰۵،الحدیث: ٨٥٢٢) 

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں فرمائی۔(مسند فردوس،باب الالف،۱/ ۱۷۳، الحدیث: ۶۴۷)۔ 

 امام المفسرین والمحدثین و المفتیین حضور صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کرم ہے کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اُمتی شبِ قدر کی ایک رات عبادت کریں تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں سے زیادہ ہو۔(خزائن العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳،ص۱۱۱۳، صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)۔ 

اور شاگرد حضور صدر الافاضل سلطان المفسرین محسن اھل سنت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ اس آیت سے دو فائدے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ بزرگ چیزوں سے نسبت بڑی ہی مفید ہے کہ شبِ قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے، اصحابِ کہف کے کتے کو ان بزرگوں سے منسوب ہو کر دائمی زندگی، عزت نصیب ہوئی، دوسرا یہ کہ تمام آسمانی کتابوں سے قرآن شریف افضل ہے کیونکہ تورات و انجیل کی تاریخِ نزول کو یہ عظمت نہ ملی۔(نور العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳،ص ۹۹۰)۔۔   

(آیت نمبر ٤/ ٥ کی تفسیر)

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ  (۴)  سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵)۔۔

(ترجمۂ کنز العرفان) اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔

{تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا: اس رات میں فرشتے اور جبریلِ امیں علیہ السلام اترتے ہیں۔} شبِ قدر کی دوسری فضیلت یہ ہےکہ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہر اس کام کے لیے جواللّٰہ تعالیٰ نے اِس سال کے لئے مقرر فرمایا ہے آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہیں اور جو بندہ کھڑا یا بیٹھا اللّٰہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے اسے سلام کرتے ہیں اور اس کے حق میں دعا و اِستغفار کرتے ہیں۔ (خازن، القدر، تحت الآیۃ:۴،/٣٩٧ -٣٩٨ ملتقطاً)۔۔  

اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں دیتے ہیں جواللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو۔(شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان…الخ، فی لیلۃ العید و یومہا،۳/ ۳۴۳، الحدیث: ٣٧١٧)۔  

{سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ : یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے۔} شبِ قدر کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سراسر بلاؤں اور آفتوں سے سلامتی والی ہے۔ (خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ۴/ ۳۹۸، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۴، ملتقطاً، تفسیر صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)۔۔

آخر میں شبِ قدر(یعنی طاق راتوں)کی مخصوص عبادات اور نوافل

شبِ قدر میں سیدنا حضرت جبرائیل علیہ السلام بمع دیگر فرشتوں کے زمین پر اترتے ہیں ۔ اور وہ چار جھنڈے گاڑتے ہیں۔ ایک روضۂ اطہر پر، ایک کعبہ معظمہ کی چھت پر، ایک بیت المقدس پر، اور ایک آسمان اور زمین کے درمیان۔ پھر وہ فرشتے تمام اطراف میں پھیل جاتے ہیں۔ اور کوئی ایسا گھر باقی نہیں رہتا ۔ جہاں وہ داخل نہ ہوں۔ جو شخص عبادت میں مشغول ہوتا ہے فرشتے اس کو سلام کرتے ہیں اور یہ نقشہ طلوع فجر تک باقی رہتا ہے ۔

 اس رات میں نوافل پڑھنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا، اور تسبیح و تہلیل اور استغفار پڑھنا چاہئے۔ شب قدر میں جتنے نفل پڑھے جاسکیں بڑی سعادت ہے۔ مگر جو کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ یہ ہیں: 

۔۔(1)۔ ہر رکعت میں الحمد کے بعد اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ (1)ایک مرتبہ اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ (3) مرتبہ پڑھے تو موت کی سختیوں میں آسانی ہوگی۔ اور عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ (نزہۃ المجالس/اول/۱۲۹)۔ 

۔(2)۔ دورکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ(7) بار پڑھے۔ سلام کے بعد (7) مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ پڑھے تو اپنی جگہ سے نہیں اٹھے گا کہ اس پر اور اس کے والدین پر رحمتِ خدا برسنی شروع ہوجائے گی۔ (تفسیر یعقوب چرخی)۔

۔ (3)۔ چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ (1) ایک بار اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ (27)ستائیس بار پڑھے ۔ تو یہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے کہ گویا آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اور اس کو اللہ کریم جنت میں ہزار محل عنایت فرمائے گا۔ 

۔(4)۔ دورکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ (1)ایک بار اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ(3)تین بار پڑھے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو شب قدر کا ثواب عطا

فرمائے گا۔ اور اس کو جنت میں مشرق سے مغرب تک ایک شہر عنایت فرمائے گا۔

۔ ( 5 ) چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ (3)تین مرتبہ اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ(50)پچاس مرتبہ پڑھے پھر نماز سے فارغ ہوکر سجدہ میں جاکر(1) ایک دفعہ

 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھے۔ اس کے بعد جو دعا مانگے قبول ہوگی۔ اللہ تعالیٰ بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا اور اس کے سب گناہ بخش دے گا۔ (فضائل الشہور، صفحہ۴۵، الف) ۔۔

پہلی شب قدر…اکیسویں شب  

۔(1)-پہلی شب قدر یعنی ماہ رمضان المبارک کی اکیسویں تاریخ بعد نماز عشاء و تراویح (4)چار رکعت نفل نماز دوسلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں بعد سورۃ الفاتحہ کے سورۂ قدر (1)ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص (1)ایک مرتبہ پڑھنی چاہئے۔ فضیلت: بعد سلام ستر مرتبہ درود شریف پڑھے انشاء اللہ تعالیٰ اس نفل نماز کے پڑھنے والے کے حق میں فرشتے مغفرت کی دعا کریں گے۔ 

۔(2)۔ رمضان البارک کی 21 اکیسویں شب کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھے۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھنی چاہئے۔ فضیلت: بعد سلام (70)ستر مرتبہ استغفار پڑھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس نفل نماز اور شب قدر کی برکت سے باری تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے گا۔ (3)۔ ماہِ رمضان کی اکیسویں تاریخ کو بعد نماز عشاء و تراویح 21اکیس مرتبہ سورۃ القدر پڑھنا بھی بہت افضل ہے۔ 

دوسری شب قدر… 23تیئسویں شب 

۔(1)۔ ماہ رمضان المبارک کی تیئسویں شب کو بعد نماز عشا و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص3 تین مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام70 ستر مرتبہ درود شریف پڑھے، مغفرتِ گناہ کیلئے یہ نماز بہت ہی افضل ہے۔

۔(2۔ تیئسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح آٹھ رکعت نفل نماز چار سلام سے پڑھنی ہے ۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ القدر ایک مرتبہ اور سورۃ الاخلاص ایک مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام کے 70ستر مرتبہ کلمۂ تمجید پڑھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما کر اس کی مغفرت فرمائے گا۔

 ۔(3)۔ تیئسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح ایک مرتبہ سورۂ یٰسٓ اور سورۂ رحمن کا ایک مرتبہ پڑھنا بے حد افضل ہے۔

تیسری شبِ قدر…25پچیسویں شب

 ۔(1)۔ ماہ رمضان المبارک کی پچیسویں تاریخ کی شب قدر کو بعد نمازِ عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھے۔ ہر رکعت میں سوۂ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر ایک مرتبہ اور5 پانچ مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سَلام کلمہ طیب100 ایک سو مرتبہ پڑھنا ہے۔ بارگاہِ ربّ العزت سے انشاء اللہ بے شمار عبادات کا ثواب ملے گا۔ 

۔(2)۔ پچیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھے، ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ القدر3 تین مرتبہ اور سورۃ الاخلاص 3تین مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام 70ستر مرتبہ استغفار پڑھے۔ یہ نفل نماز بخشش گناہ کیلئے نہایت افضل ہے۔

۔ (3)۔ پچیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ القدر ایک مرتبہ اور سورۃ الاخلاص 15پندرہ مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام 70ستر مرتبہ کلمہ شہادت پڑھنا ہے۔ یہ نفل نماز عذابِ قبر سے نجات کیلئے افضل ترین ہے۔ 

۔(4)۔ پچیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح 7سات مرتبہ سورۃ الدخان پڑھنا افضل ہے۔ باری تعالیٰ اس سورۃ کے پڑھنے والے کو انشاء اللہ العزیز عذابِ قبر سے محفوظ رکھے گا۔

 ۔(5)۔ پچیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح 7سات مرتبہ سورۃ الفتح کا پڑھنا ہر مراد کے لئے افضل ترین عمل ہے۔ 

 چوتھی شب قدر…27ستائیسویں شب

ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب قدر کی بڑی فضیلت ہے ۔ اس میں رات بھر جاگ کر عبادت میں مشغول رہے نوافل نماز اور قرآن شریف کے پڑھنے اور درود شریف کثرت سے پڑھنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں۔ اس رات کی عبادت کا ثواب شمار ہی نہیں۔

 ۔۔(1)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح 12 بارہ رکعت نفل نماز3 تین سلام سے پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص15 پندرہ مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام 70ستر مرتبہ استغفار پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ اس نفل نماز پڑھنے والے کو انشاء اللہ العزیز انبیاء کرام علیہم السلام کی عبادت کا ثواب دے گا۔

۔(2) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر3 تین مرتبہ اور سورۂ اخلاص5 پانچ مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام کے سورۂ اخلاص 27ستائیس مرتبہ پڑھ کر اپنے گناہوں کی مغفرت مانگے انشاء اللہ العزیز اس کے تمام پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔

۔(3) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھنی ہے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ التکاثر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص3 تین مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: باری تعالیٰ اس نفل نماز پڑھنے والے پر سے موت کی سختی آسان کرے گا۔ انشاء اللہ العزیز اس پر سے عذاب قبر بھی معاف ہو جائے گا

۔ (4)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص 7سات مرتبہ پڑھنی ہے۔

 فضیلت: بعد سلام 70ستر مرتبہ یہ تسبیح استغفار پڑھے: 

اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اَلَیْہِ۔ انشاء اللہ العزیز اس نفل نماز کو پڑھنے والا اپنے مصلے سے اٹھنے بھی نہ پائے گا کہ باری تعالیٰ عزوجل اس کے اور اس کے والدین کے گناہ معاف فرما کر مغفرت عطا فرمائے گا۔ مغفرت کیلئے یہ نماز افضل ہے۔

۔(5) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الم نشرح ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص 3تین مرتبہ پڑھنی ہے۔

۔(6) ۔ محبوب یزدانی حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ، دو رکعت نماز کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد 3تین بار اخلاص پڑھے، سلام کے بعد یہ دعا پڑھے، 

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سُبْحَانَکَ یَا عَظِیْمُ یَا عَظِیْمَُ اِغْفِرْلِیْ الذُّنُوْبِ الْعَظِیْمِ ۔فضیلت: بعد سلام 27ستائیس مرتبہ سورۂ قدر پڑھے، یہ نماز بے شمار عبادات کے ثواب کیلئے افضل ہے۔ (ماخوذ از: فتاویٰ شامی، فتاویٰ رضویہ، بہار شریعت) 

۔(7)۔ ستائیسویں شب کو بعد نماز عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز پڑھے ، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر 3تین مرتبہ سورۃ الاخلاص 50پچاس مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام سجدہ میں ایک مرتبہ یہ کلمات پڑھے:۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ط اس کے بعد جو حاجت دنیاوی یا دینی مانگے انشاء اللہ تعالیٰ بار گاہِ الٰہی میں قبول ہوگی۔

۔(8) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح سورۂ حٰمٓ پڑھے۔ یہ عذابِ قبر سے نجات اور مغفرت گناہ کیلئے افضل ہے۔

۔(9)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تروایح 7سات مرتبہ سورۃ الملک کا پڑھنا مغفرت گناہ کیلئے نہایت افضل ہے۔

۔(10)۔ تئیسویں شب قدر کو اس دعا کو کثرت سے پڑھیں۔ 

اَللّٰہُمَ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَا عْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ 

پانچویں شب قدر…29انتیسویں شب

۔ (1)۔ انتیسویں شب قدر کو بعد نمازِ عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھنی ہے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ القدر اور سورۂ اخلاص3 تین مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام کے70 ستر مرتبہ سورۃ الم نشرح پڑھے۔ یہ نفل نماز کامل ایمان کیلئے افضل ہے۔ انشاء اللہ اس کے پڑھنے والے کو دنیا سے مکمل ایمان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

۔(2) ۔ انتیسویں شب قدر کو بعد نمازِ عشاء و تراویح چار رکعت نفل دو سلام سے پڑھے ۔ ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ کے بعد سورۃ القدر ایک مرتبہ اور سورۃ الاخلاص 5پانچ مرتبہ پڑھنی ہے۔ فضیلت: بعد سلام کے ایک سو مرتبہ درود شریف پڑھنا ہے، انشاء اللہ العزیز اس کے پڑھنے والے کو باری تعالیٰ بخشش گناہ اور مغفرت عطا کرے گا۔

۔(3) ۔ انتیسویں شب قدر کو سات مرتبہ سورۃ الواقعہ پڑھے یہ ترقی رزق کیلئے افضل ہے

 ہر شب قدر میں صلوٰۃ التسبیح ضرور پڑھی جائے

نوٹ۔۔ مذکورہ بالا تمام نوافل کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے اس سے کہیں زیادہ افضل اور ضروری یہ ہے کہ آپ کے ذمہ اگر قضا نماز باقی ہیں تو آپ پہلے اسے اداکریں ڈبل ثواب ملے گا ایک تو شب قدر کا دوسرا فرائض کی ادائیگی کا ۔ اور کس قدر معقول بات ہے متعدد احادیث نبویہ کا مفہوم ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا ہے اس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے اور ایک فرض 70گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔تو فیصلہ آپ کریں نفل ادا کریں گے تو فرض برابر ثواب پائیں گے اور اگر فرض ادا کریں گے تو 70گناہ زیادہ ثواب پایئں گے اور فرض بھی ادا ہو جائے گا۔ اللہ پاک ہم اپنی قضا نمازیں ادا کرنے کی اور ہر فرض ہر واجب کو ان کے وقتوں پر نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین

مل رہا ہے جو عبادت کا ثمر، آج کی رات۔۔۔لے کر آئی ہے دعاؤں میں اثر، آج کی رات

ہرگھڑی بخشش عصیاں کی خبر دیتی ہے۔۔۔ کس قدر بلندی پہ ہے تقدیر بشر، آج کی رات

حشر تک نام ونشاں نہ ہو، تاریکی کا۔۔۔کاش! ایسی بھی کوئی لاۓ سحر، آج کی رات

 

اَللّٰھُمَّ ثَـبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلَی الإِیْمَانِ وَتَوَفَّـنَا عَلَی الإِسْلَامِ وَارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ خَیْرِ الْاَنَامِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلامُ، وَأَدْخِلْنَا بجاھِہِ عِنْدَکَ دَارَ السَّلَامِ اٰمِیْن یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! وَالْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْـعٰـلَمِیْنَ

‌ازقلم ۔۔۔ خادم مشن قطبِ اعظم ماریشس حضرت علامہ ابراھیم خوشتر

خلیفہ مجاز حضور تاج الشریعہ

محمد غفران رضا قادری رضوی

ماریشس افریقہ، بانی دارالعلوم رضا ۓ خوشتر و جامعہ رضاۓ فاطمہ

قصبہ سوار ضلع رامپور انڈیا

مقیم حال نانکاررانی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم

AMAZON    FLIPKART  HAVELLES

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن