Saturday, November 16, 2024
Homeاحکام شریعتعید رضائے الٰہی کے حصول کا نام ہے

عید رضائے الٰہی کے حصول کا نام ہے

تحریر مفتی شاکرالقادری فیضی عید رضائے الٰہی کے حصول کا نام ہے

عید رضائے الٰہی کے حصول کا نام ہے

آج ماہ رمضان المبارک کی آخری تاریخ ہوسکتی ہے, اگر چاند کی رویت ہوئی یا شہادت شرعی ہوئی تو کل ان شاء المولی تعالی عید کا سورج طلوع ہوگا. انتیس (29) روزوں کے بعد عید ہوجائے تو افسوس نہیں کرنا چاہئے بلکہ خدا عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے بطور انعام ایک دن پہلے ہی عید عطا فرمادی

جب کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تیس (30)  روزوں  کا ثواب ملے گا. خود حضور اقدس رحمت تمام صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم کی حیات ظاہری میں روزہ فرض ہونے کے بعد کل نو (9) رمضان المبارک آئے جن میں صرف دو(2) ماہ رمضان تیس دن کے ہوئے ہیں باقی سات (7) انتیس دن کے ہوئے. توہوسکتا ہے آج ماہ رمضان المبارک کی آخری تاریخ ہو۔

لہذا اس کا ہر لمحہ بڑی قدر سے گزاریں. یہ بہت ہی فضائل و محاسن, برکات و افضال کا سر چشمہ ہے. اس ماہ کے ختم ہوتے ہی جو تاریخ آتی ہے وہ شوال المکرم کی پہلی تاریخ ہے جسے عوام و خواص عید الفطر کے نام سے یاد کرتے ہیں.

چوں کہ اس دن نماز عید سے پہلے مالک نصاب کو فطرہ نکال کر مستحقین تک پہنچانا مستحب ہے. اس وجہ سے اسے عید الفطر بھی کہتے ہیں ۔اور اس ماہ کی  وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول ”سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔

اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو  عید الفطر اور یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ عزوجل اپنے بندوں پر فضل و رحمت فرماتا ہے۔

یہ تاریخ  اپنے اندر بہت یادگار کو لئے ہوئے جیسا کہ کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ  اسی تاریخ کو اللہ عزوجل نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا۔ اور اسی تاریخ کو جنت اور درختِ طوبیٰ پیدا فرمایا۔

اسی تاریخ  کو اللہ عزوجل نے حضرت  سیدنا جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لیے منتخب فرمایا۔ اسی تاریخ میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی ۔ (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ ٤٤٣،غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٥، مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)۔

لفظ ’’عید‘‘ کا معنی و مفہوم
’’عید‘‘ کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی ’’لوٹنا‘‘ اور ’’خوشی‘‘ کے بھی ہیں کیونکہ یہ تاریخ مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتی ہے اور ہر مرتبہ خوشیاں و مسرت دیتی ہے، اس لئے اس دن کو ’’عید‘‘ کہتے ہیں۔عید کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے ۔

حضرت امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ  رقمطراز ہیں: ’’عید‘‘ لغت کے اعتبار سے اس دن کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور اصطلاح شریعت میں ’’عیدالفطر‘‘ اور ’’عیدالاضحی‘‘ کو عید کہتے ہیں اور یہ دن شریعت میں خوشی منانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔(المفردات، ص352)*علمائےکرام کے اقوال کی روشنی میں عید کی وجہ تسمیہ

پہلا قول کہ عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ عزوجل نے اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں ۔

دوسراقول۔۔ عید کے دن اللہ عزوجل  کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات و انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی ” “لفظ “عید “عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف

لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ عزوجل  بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔  
تیسرا قول ۔۔۔  بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس کو عید کہتے ہیں۔
 چوتھا قول  عید کو اس لیے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے (اللہ عزوجل فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔*پانچواں قول*۔۔  عید اس لئے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے ، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے ، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں ۔ (غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٤ اور ٤٠٥)۔
یکم شوال کو عیدالفطر کہنے کی وجہ*یکم شوال المکرم کو عیدالفطر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ افطار اور فطر ہم معنی ہیں۔ جس طرح ہر روزہ کا افطار غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے اسی طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے کا افطار اسی عید سعید کے روز ہوتا ہے۔ اس لئے اس یوم مبارک کو عید الفطر کہتے ہیں۔

   عید الفطر کی رات

   ماہ رمضان المبارک میں بندۂ مومن روزہ رکھنے کے ساتھ, نوافل کی کثرت, تراویح کا اہتمام, قرآن مقدس کی تلاوت, غریبوں کی مدد, روزے داروں کی افطاری, اور اہل وعیال پر خوب دل کھول کر خرچ کرتے ہیں یقینا ان اعمال میں بے حد ثواب اور بیشمار فوائد پوشیدہ ہیں. مگر جیسے ہی عید کا چاند نظر آیا پھر یہ تصور کرلیتے ہیں کہ سارے اعمال خیر سے ہمیں چھٹکارا مل گیا, مکمل آزادی ملی کہ کہیں بھی آؤ جاؤ, من پسند خریداری میں نماز سے بھی دور۔

اور ایسے مشغول سیر و تفریح ہوتے ہیں کہ یہ خیال بھی نہیں آتا کہ یہ رات بہت ہی پیاری انعام و اکرام کی رات ہے. ماہ رمضان المبارک میں کی جانے والی نیکیوں کا بدلہ لینے کی رات ہے. اگر اس رات میں غافل رہے تو کیسی کم نصیبی ہے

  فی الحال لوک ڈاؤن میں کیا کیفیت ہو یہ تو علم نہیں البتہ گئے سالوں کی عید کی راتوں کے بارے میں معلوم ہوآ ہے کہ شب عید یعنی چاند رات گھر سے باہر گلیوں اور بازاروں میں  گزاری جاتی ہے شاپنگ مالوں کپڑوں کی تیاریوں میں کھیل کود میں, کچھ علاقوں میں پوری رات  آتش بازی و شراب وکباب لہوولعب  میں گزاری جاتی ہے.۔

اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ کس بابرکت اورقیمتی  رات کو گوا رہے ہیں.عید الفطر کی رات  کے تعلق سے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب عیدالفطرکی رات آتی ہے تو ملائکہ خوشی مناتے ہیں

اور اللہ عزوجل اپنے نور کی تجلی فرماتا ہے, فرشتوں سے خدا عزوجل فرماتا ہے اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا, فرشتے عرض کرتے ہیں اس کو پورا آجر دیا جائے. اللہ عزوجل فرماتا ہے میں تمھیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا(الحدیث )۔

  یکم شوال کی رات کی  بہت زیادہ فضیلت ہے,ایسی بابرکت رات میں ہمیں اپنا احتساب و محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ماہ رمضان المبارک میں کتنی نیکی کمائی ہے, آج جو نیکیوں کا صلہ ملنے کی شب ہے اس میں ہم کتنے کے حقدار ہیں. اگر پورے ماہ میں بھر پور عبادت کی ہے تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور حصول انعام واکرام کے لیے خدا عزوجل کی جانب پوری توجہ لگائے رکھنا چاہیے

اگر ماہ رمضان میں عبادتوں میں کوتاہی ہوگئی ہے تو اپنی کوتاہیوں پر افسوس و ندامت کیساتھ آئندہ ایسی کوتاہیوں سے دور رہنے کا حتمی و یقینی ارادہ بنالینا چاہئے۔ تاکہ عید الفطر کے انعام و اکرام کاصدقہ مل سکے

عیدالفطر کی صبح

عید الفطر کی صبح بھی بہت فضیلت والی ہے ایک روایت میں ہیکہ جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ فرشتے زمین پر تشریف لاتے ہیں۔

اور سب گلیوں, شاہراہوں کے سرے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح پکارتے ہیں کہ اے امت محمدیہ اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جوبہت زیادہ عطاکرنے والا ہے

پھر اللہ عزوجل اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا اے میرے بندو مانگو! کیا مانگتے ہو میری عزت وجلال کی قسم آج کے روز اس نماز عید کے اجتماع میں آہنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کروگے وہ پورا کروں گا, اور کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمھاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا۔

میری عزت کی قسم جب تک تم میرا لحاظ رکھوگے میں بھی تمھاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہونگااور مجرموں کے ساتھ رسوا نہ کرونگا پس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ۔

 
عید کا دن

عید کا دن بھی بہت ہی مبارک و مسعود دن ہے, اس دن رحمت خداوندی نہایت خوش میں ہوتی ہے دربار خداعزوجل  سے کوئی سائل مایوس لوٹایا نہیں جاتا, ایک طرف اللہ عزوجل کے بندے اس کی بیشمار رحمتوں اوربخششوں پر خوشیاں منآ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خدا عزوجل کی طرف سے مومنوں پر کرمنوازیوں کا نزول ہوتا رہتا ہے.

کچھ لوگ تو صرف نئے نئے کپڑے پہننے اور لذیذ و عمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی عید سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ یہ عید کا مفہوم ہی نہیں ہے, عیدکا صحیح مفہوم یہ  ہے کہ خوف خدا عزوجل کا جذبہ پیدا کیا جائے.

اور رضا و خوشنودی کے لیے  ہر کام کئے جائیں. غریبوں کا دل جیت لیا جائے, بیوہ کی دلجوئی کی جائے, یتیموں کی چارہ سازی کی جائے, مجبور پر رحم کھایا جائے, بیکس کی مدد اور لاچار کی دادرسی کی جائے, ملت کی تعمیر وترقی کی خاطر معاونت کی جائے

درد مندوں کی بل کھاتی ہوئی کشتی حیات کو ساحل پر لگایا جائے, بیواؤں مسکینوں کی مدد کی جائے اور خدا عزوجل کی رحمت کاملہ کے حصول کے لیے  ہر جائز کام کرنی چاہئے. عیدالفطر درحقیقت یوم الجائزہ ,و  یوم الا نعام ہے اس کے احترام کا خیال برقرار رہنا چاہئے تب حقیقی عید حاصل ہوگی۔ 
عید الفطر خوشی کا دن

عید سعید خوشی , مسرت و شادمانی  کا دن اوراہل اسلام  کا عظیم و مقدس مذہبی اورمعاشرتی تہوار ہے, جو ہر سال یکم شوال المکرم کو انتہائی عقیدت و احترام، جوش و جذبہ کیساتھ منایا جاتا رہا ہے اس لوک ڈاؤن اور کسی علاقہ میں کرفیو وغیرہ ہے اس وجہ سے ظاہری خوشی اس انداز کی نظر تو نہیں آئے گی مگر بباطن اجر و ثواب میں کو ئی کمی نہیں ہے. لہذا اس دن مسرتوں کے ساتھ احکام شرع کی روشنی میں گزاریں. صدقہ فطر اپنی حیثیت کے مطابق نکال کر ضرورتمند کو دینے میں پہل کریں۔

عید کے دن یہ باتیں مستحب  ہیں

(١) حجامت بنوانا (٢) ناخن کاٹنا (٣) غسل کرنا (٤) مسواک کرنا (٥) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ۔ (٦) ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ۔ (٧) خوشبو لگانا۔ (٨) فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ (٩) درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا (١٠) عید گاہ میں جلدی جانا (١١) عید گاہ کو پیدل جانا (١٢) واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق پڑھتے ہوئے جانا ۔

۔(١٣) نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا۔اور عمامہ بانڈھنا (١٤) تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھانا’ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا۔ (١٥) نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا۔ (١٦) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔

عیدالفطرکی نماز کا طریقہ
پہلے اس طرح نیت کرے :نیت کی میں نے دورکعت نماز واجب عیدالفطر کی چھ تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے (مقتدی اتنا اور کہے پیچھے اس امام کے) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھانے اور اللہ اکبر کہکر ہاتھ باندھ لے, پھر ثناء پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اللہ اکبر کہتاہوا ہاتھ چھوڑدے, پھرہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے۔

تیسری بار پھر ہاتھ اٹھانے  اور اللہ اکبر کہکر ہاتھ باندھ لے,  اس کے بعد امام آہستہ اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر بلند آواز سے الحمد کے ساتھ کوئی سورت یا آیات پڑھے پھر رکوع اور سجدہ سے فارغ ہوکر, دوسری رکعت میں پہلے الحمد کے ساتھ کوئی سورت پڑھے پھر تین بارکانوں تک ہاتھ لے جائے اور ہر بار اللہ اکبر کہے اور کسی مرتبہ ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھانے اللہ اکبر کہتاہوا رکوع میں جائے۔

اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کرے, سلام پھیرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے پھر دعامانگے. اب وہ لوگ جنھیں لوک ڈاؤن کی وجہ سے جماعت میں شمولیت نہ ہوپائی ہو, وہ اپنے اپنے گھر میں عیدکی جماعت ہونے کے بعد تنہا تنہا چار رکعت نفل پڑھ لیں . چاروں رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ ملائیں . قعدہ اولی میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی پڑھ کر تیسری رکعت کیلئے اٹھے اور ثنا ء سے تیسری رکعت کاآغاذ کرے اس طرح پوری چار رکعات نفل شکرانے کی پڑھ کر دعامانگے۔

عید کے دن کا انمول وظیف
حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار  سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ پڑھا پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)ہمیں عید ہر حال اللہ عزوجل کی رضا وخوشنودی کا خیال رکھنا چاہیے.

دعاہے کہ خداعزوجل اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و سلم کے صدقہ وطفیل ہم سبھی کو دارین کی نعمتوں سے مالامال فرمائے ,آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

صدقہ فطر اور اس کے مسائل اس مضمون کو  پڑھ کر  شئیر کرنا  نہ بھولیں

 
از : عطائے بزرگاں خطیب دوراں خلیفہ تاج الشریعہ و خلیفہ بغداد مقدسہ استاذالعاملین
مفتی شاکرالقادری فیضی
صدر شعبہ افتاء دارالعلوم فیضان تاج الشریعہ
آودےپور راجستھان 
ان مضامین کو بھی پڑھیں 
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن