Saturday, September 14, 2024
Homeشخصیاتسید شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ احوال

سید شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ احوال

باسمہ تعالی ولیئ روشن ضمیر حضرت سید شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ   احوال و معارف ترتیب کار :  پروفیسر محمد عبد الحمید اکبر

سید شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ احوال و معارف

                   سلسلہ رفاعیہ :  اس سلسلہ کے بانی حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ ہیں جو حضرت شیخ ابو الفضل بن کا مخ کے مرید ہیں چار واسطوں کے بعد حضرت ابو بکر شبلی علیہ الرحمہ کا نام آتا ہے اس سلسلے میں جذب و مستی بہت زیادہ ہے سماع کا شغف زیادہ ہے اور وجد کی کیفیت طار ی رہتی ہے سلب امراض کا بھی جو ہر ہے عوام سے کنارہ کشی اختیار کر کے جنگل اور صحرا میں رہتے ہیں اور حیوانات اور درندے اس سلسلہ کے بزرگوں سے مانوس ہو تے ہیں۔

          حضرت سید احمد کبیر بن ابی الحسن رفاعی رحمۃ اللہ علیہ بڑے با کمال صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے۔ آپ کا وطن قصبہ امام عبیدہ علاقہ بطائح تھا آپ کا سلسلہ ئ نسب حضرت امام مو سی ٰ کاظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے آپ حضرت شیخ علی قار ی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہئ اکبر تھے۔شجرہئ ارادت اس طرح ہے شیخ احمد رفاعی،شیخ علی قاری، شیخ ابو الفضل، شیخ ابو علی غلام بن ترکان، شیخ ابو علی رودباری، شیخ محلی، عجمی، شیخ ابو بکر شبلی، سید الطائفہ جنید بغدادی رضو ان اللہ علیہم اجمعین۔

          حضرت شیخ رفاعی نے جب سجادہ مشیخت کو رونق بخشی تو طالبان حق کے بہت بڑے حلقے کو اپنے گرد جمع کر لیا اور ہزاروں تشنگان معرفت کو آپ نے بادہئ معرفت سے سر شار کر دیا، مریدوں کی تر بیت میں بڑا کمال حاصل تھا جو دامن کرم سے وابستہ ہو تا وہ اپنے ظرف کے مطابق آپ کے فیوض روحانی سے مالا مال ہو جاتا آپ کے مرید دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک اصحاب ہدایت و تمکین اور دوسرا کشف و کرامات کا ظاہر کر نے والا۔ حضرت مو لانا عبد الرحمن جامی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں

ولکن اصحابہ ففیھم الجید و الردی ید خل بعضھم النیران یلعب بالحیات و ھذا ما عرفہ الشیخ ولا صلحا اصحابہ نعوذ باللہ من الشیطان

          اصحاب کرامت مریدین اظہار کرامت کے لیے آگ میں داخل ہو تے اور سانپوں سے کھیلتے مگر اصحاب تمکنت مرید لوگوں کی اصلاح باطن پر توجہ دیتے اور اپنا اخفاء حال کرتے اس طرح شیخ کا ایک علیحدہ دبستان تصوف وجود میں آیا۔ جس سے تعلق رکھنے والوں کو”رفاعی“ کہا جاتا ہے۔

عشق میں فنائیت کے سلسلے میں صاحب خزینۃ الاصفیاء تحریر فرماتے ہیں

            حضرت شیخ احمد رفاعی ان کملاء طریقت میں تھے جو ذات ِ الوہیت کے عشق میں فنا کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں اور سوز عشق سے ان کا وجود ظاہری خاکستر ہو جاتا ہے صاحب مناقب غو ثیہ حضرت شیخ محمد صادق شیبانی نے فر مایا کہ ایک دن محبو ب سبحانی حضرت غو ث الاعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مرید سے فر مایا تم حضرت شیخ احمد رفاعی کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو ما العشق یعنی عشق کی حقیقت کیا ہے؟۔

اور اس کا جواب لے کر آؤ مرید جب سید احمد کبیر کی خدمت میں پہنچا اور غوث الاعظم کا سوال پیش کیا تو شیخ احمد نے ایک آہ جانکاہ اپنے سینہئ سپر سوز سے نکالی اور کہا  ’ العشق نار یحرق ما سوی اللہ‘ یعنی عشق ایسی آگ ہے جو ما سوی اللہ کو جلا دیتی ہے صرف اتنا کہنے سے جس بستر پر آپ بیٹھے تھے اس میں آگ لگ گئی اور اس کے شعلوں نے سید احمد کے پورے جسم کو جلا کر راکھ کر دیا اور وہ راکھ پانی ہوکر برف کی طرح منجمد ہو گئی

خادمِ غوث الاعظم نے جب یہ حال دیکھا خو فزدہ ہوا بارگاہِ غوثیت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا بیان کیا آپ نے حکم دیا پھر وہاں جاؤ اور مقام دلارام کو خوشبو اور عطر سے معطر کرو تاکہ سید احمد کا جسم عالم عنصری کی طرف لوٹ آئے۔ خادم وہاں گیا اور غوث پاک کی ہدایت کے مطابق اس مقام کو گلاب اور عطر یات سے معطر کیا۔ جب تھوڑا وقت گذرا وہ پانی جو شیخ احمد کی نشست گاہ میں منجمد تھا صورت جسمانی میں تبدیل ہو گیا اور آپ زندہ ہوگئے۔(خزینۃ الاصفیاء ج  ۱  ص  ۲۰۱)۔

          حضرت کا سیاہی کے بغیر تعویذ لکھنا اور بعد میں تعویذ لکھی ہوئی پانااس کرامت ِ حق رقم کا ذکر کرتے ہوئے علامہ جامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں

”جب کو ئی شخص آپ کے پاس کاغذ لے کر تعویذ لکھوانے کے لیے آتا۔اگر سیاہی نہ ہوتی تو بغیر سیاہی کے تعویذ لکھدیتے۔ ایک بار ایک شخص کو بغیر سیاہی کے آپ نے تعویذ لکھ کر دیدیا۔مدت تک وہ شخص غائب رہا۔ پھر وہی کاغذ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور تعویذ لکھنے کی در خواست کی۔ آپ نے اس کا غذ کو دیکھ کر فرمایا کہ اے برادر یہ کاغذ تو لکھا ہو ا ہے۔ اس کو واپس کر دیا“۔

          ایک دن آپ کے دو مرید جنگل میں گئے۔ ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے لے، ایک نے دوسرے سے کہا، تم اتنی مدت تک سیدی احمد کی خدمت میں رہے، تمہیں کیا حاصل ہوا؟ دوسرے نے کہا، تمہیں اگر کچھ آرزو ہو تو کہو، اس نے کہا، اے میرے سر دار میں چاہتاہوں کہ اسی وقت دوزخ سے ہماری آزادی کا پر وانہ آسمان سے ارتے، دوسرے نے سنکر کہا۔ خدا کا بڑا کرم اور اس کا فضل بے پایاں ہے

یہ دونوں ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سفید کاغذ آسمان سے گرا۔ جسے انہوں نے اٹھا لیا۔ مگر وہ کاغذ بظاہر کسی تحریر سے خالی تھا۔ وہ دونوں کاغذ لے سید احمد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور اپنے حالات کی خبر دیئے بغیر کاغذ آ پ کو دے دیا۔شیخ نے جب کاغز کو دیکھا تو فوراً سجدہ ریز ہو گئے۔ سجدہ سے سر اٹھا کر فر مایا۔ قدرت کے ہاتھ سیاہی سے نہیں لکھا کرتے۔ یہ نور سے لکھا ہوا ہے۔ فرمایا :۔

الحمد للہ الذی ارانی عتق اصحابی من النار فی الدنیا قبل الآخرۃ

خدا کا شکر ہے جس نے میرے مریدوں کی دوزخ سے آزادی مجھے دنیا میں آخرت سے پہلے ہی دکھا دی۔(نفحات الانس  ص  ۶۸۷)۔

          منقول ہے کہ ایک دفعہ سید احمد دریا کے کنارے مریدین کے حلقہ میں تشریف فر ما تھے۔ آپ نے فر مایا کہ بھی ہوئی مچھلی کی خواہش ہے۔ ابھی بات پوری ہونے نہ پائی تھی کہ قسم قسم کی مچھلیا پانی کی سطح پر نمودار ہوئی۔ اور کو د کود کر کنارے پر گرنے لگیں۔ یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا۔ یہ مچھلیا ں درخواست کر رہی ہیں کہ ہم میں سے کچھ کھاؤ۔

اس کے بعد فقراء نے بہت سی مچھلیا پکڑ کر تیار کیں اور بڑے بڑے دستر خوان  پر لگا دیں۔ کھانے سے فراغت کے بعد کسی نے در یافت کیا کہ اصحاب تمکن کی کیا صفت ہے؟ آپ نے فرمایا تمام خلق اس کے زیر تصرف ہو۔ اس نے دوبارہ پوچھا اس کی علامت کیا ہے؟ فرمایا اگر ان بقیہ مچھلیوں کو حکم دین کہ اٹھ کر واپس دریا میں چلی جاؤ تو وہ فوراً اللہ کے حکم سے واپس چلی جائیں، یہ کہنا تھا کہ دستر خوان کی باقی ماندہ مچھلیاں زندہ ہوگئیں،اور دریا میں کود گئیں۔(مرأۃ الاسرار  ص  ۴۴۵)۔

حضرت علامہ شطنوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی ۳۱۷ھ) تحریر فر ماتے ہیں کہ ہم کو شریف ابو عبد اللہ محمد بن شیخ ابو العباس خضر بن عبد اللہ حسنی مو صلی نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہ وہ کہتے تھے میں ایک دن حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہو ا تھا کہ میرے دل میں حضرت شیخ احمد رفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کا خیال پیدا ہو اتو مجھ سے حضرت شیخ نے فر مایا کیا تم شیخ احمد رفاعی کی زیارت کر نا چاہتے ہو؟ ۔

میں کہا ہاں۔ آپ نے تھوڑی دیر سر پیچے کیا پھر مجھ سے فر مایا اے خضر!یہ دیکھو یہ شیخ احمد رفاعی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ میرے سامنے ہیں اور میں نے دیکھا کہ شیخ ہیبت والے ہیں میں نے کھڑے ہو کر ان کو سلام کیا۔انھوں نے مجھ سے فر مایا کہ اے خضر! جو شخص کہ شیخ عبد القادر جیلانی جیسے اولیا ء کے سر دار کی زیارت کرے وہ مجھ جیسے کو دیکھنے کی تمنا کر تا ہے میں تو ان کی رعیت میں سے ہوں یہ فر ما کر حضرت شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ غائب ہو گئے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال فرمانے کے بعد میں بغداد شریف سے ام عبیدہ کی طرف آیا تا کہ میں حضرت شیخ احمد رفاعی علیہ الرحمہ کی زیارت کروں۔ جب میں آپ کی خدمت میں آیا تو وہ وہی شیخ نظر آئے جن کو میں شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں پہلے دیکھا تھا۔ میرے نزدیک ان کی زیارت نے ان کی پہچان کو کچھ زیادہ نہیں کیا۔ شیخ احمد رفاعی نے مجھ سے فر مایا  یا خضر الم تکفک الاُولیٰ۔یعنی اے خضر!کیا پہلی ملاقات تم کو کانی نہ تھی۔

          حضرت شیخ ابولحسن احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خانقاہِ ام عبیدہ میں مریدین کی مو جودگی میں گردن جھکائی اور فر مایا ”علی رقبتی“ آپ سے پوچھا گیا تو فر مایا ابھی بغداد میں حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہ نے فر مایا ہے ”قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ“ مریدین نے وقت اور تاریخ نو ٹ کر لی جو بالکل صحیح نکلی

(بھجۃ الاسرار  ص۳۱  نشرالمحاسن بھامش جامع کرامات الاولیا، لشیخ امام یافعی، جلد دوم ص ۳۳۱، جامع کرامات الاولیا ء جلد اول ص ۸۹۲، قلائد الجواہر  ص ۲۳)  (بحوالہ :  ”قدم الشیخ عبد القادر علی رقاب الاولیاء الاکابر“ رضی اللہ عنہم  مصنفہ :  ممتاز احمد چشتی  ص  ۱۶۲)۔

          حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : ” لفظ اللہ اسم اعظم ہے۔“   لیکن اس کا اثر وق مرتب ہوتا ہے اور اس اسم کے ذریعہ دعائیں اسی وقت قبول ہوتی ہیں کہ جب تمہارے قلب میں اللہ کے سوا کسی غیر کا تصور نہ ہو اور معارف کی ” بسم اللہ“ ابتدا بمنزلہ حکم کے ہو جائے۔(قلائد الجواہر  ص :  ۲۱۲)۔

          حضرت شیخ عبد القادر جیلانی محبوب سبحانی کے مذکورہ بالا ارشاد کی توضیح، حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے یو ں ہو سکتی ہے  :۔

۔”نعمت الٰہی کا ذکر کرنا اس کی قربت کا بیان کر نا ہے اور اس کے ذکر میں کو تاہی کر نا بندہ ہونیکے درجے سے تجاوز کرنا ہے۔ جو عارف ہے اس کی نظر نہ دنیا پر پڑتی ہے اور نہ آخرت پر۔ سب سے بہتر کمال یہ ہے کہ غیروں کو چھوڑدے۔ تغیرات عالم سے بشارت حاصل کرے اور اپنے آپ کو اس زندہئ ازلی کے دست قدرت میں دے کر اپنے آپ کو ذلیل بنائے اور فنا کا جامہ پہن لے۔“(حکمت رفاعی  ص ۳۷)۔

          حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ م ارشاد فرماتے ہیں

۔” اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو اپنے گنبد کے نیچے پو شیدگی کا لباس پہنا یا ہے اور اپنے سوا تمام چیزیں ان کی نظر سے چھپا دی ہیں۔ اس کا بھی مطلب یہ ہے کہ مخلو قات کی نسبت اپنا گمان رہ جائے۔ یہ ہر گز نہ کیا کہ کسی کے خلاف شرعی دلیلیں قائم کر تے وقت تو اس کی جانب بد گمانی کرے۔ خدا کی شریعت کا پابند رہ اور نفسانیت اور خود غرضی کو چھوڑ دے بلکہ ہر کام کو خلوص نیت کے ساتھ کر، کیونکہ نفسانیت ایک دل کا مرض ہے۔ اور جس چیز کو شریعت نے برا کہا ہے اسے تو بھی برا کہہ اور جسے شریعت نے اچھا بتایا ہے اور اپنے قول و فعل سے سوا رضا مندی الٰہی کے اور کسی چیز کو ظاہر نہ کر۔“

          مزید ارشاد فرماتے ہیں

” کسی شخص کو تو اگر ہوا میں اڑتے دیکھے تو بھی جب تک تو اس کے اقوال و افعال کو شرع کی ترازو میں نہ تولے، اس کا اعتبار نہ کر اور گر وہ صو فیائے کرام کے ہر قول و فعل سے خبر دار، انکارنہ کرنا، ان کے حالات کو تو انہیں پر چھوڑ دے اگر شرع شریف ان کے معاملات میں مخالف نظر آئے تو تُو ایسی صورت میں پابند شرع رہ۔“  (حکمتِ رفاعی  ص  ۵۴)۔

          حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ م ارشاد فرماتے ہیں :۔

۔”شیخ کے مکان کو حرم، اس کی قبر کو صنم اور اس کے حالات کو آلات معرفت قرار دے کر دین کو بر ہم نہ کر۔ انسان وہ ہے جس پر پیر کو فخر و ناز ہو، نہ وہ جو پیر پر فخر کرے۔“(حکمتِ رفاعی  ص۳۴۔۴۴)۔

فرماتے ہیں

”شیخ وہ ہے جو تجھے قرآن و حدیث کے راستہ پر لگائے اور نئی باتوں اور بدعتوں سے الگ کرے۔“(حکمتِ رفاعی  ص۰۴)۔

۔” چھوٹا وہ ہے جس کی بنیاد بدعتوں پر ہے۔ اور عقلمند وہ ہے جو بدعات سے پاک ہو۔ انسان کامل خدا کے سوا ہر چیز کو ترک کر دیتا ہے۔“(ملخصاً) (حکمتِ رفاعی  ص۸۳)  بحوالہ  حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  (حالات و واقعات) ص  ۲۷۲۔۴۷۲  از : راجہ طارق محمود نعمانی

          ”امام الاولیاء“  ترجمہ ”بہجۃ الاسرار“ از : ابو حنظلہ محمد اجمل قادری  ص: ۳۷۴  میں مرقوم ہے:۔

شیخ احمد بن ابو الحسن رفاعی رحمۃ اللہ علیہ عراق کے مشہور مشائخ اور بڑے عارفین اور بڑے محققین صدر مقربین ہیں۔ صاحب مقامات عالیہ، و جلالۃ عظیمہ، کرامات جلیلہ، احوال روشبہ، افعال خارقہ، انفاس صادقہ، صاحب فتحِ روشن، چمکتے ہوئے قلب والے، وہ ان میں سے ایک ہیں جن کے لیے اللہ نے خرق عادات کیا ہے اعیان کو ان کے لیے بدلا ہے۔ ان کے ہاتھ پر عجائبات کو اظہیر کیا ہے ان کو مغیبات کے ساتھ گویا کیا ہے۔ وجود میں ان کو تصرف دیا ہے۔ ان کو مسلمانوں پر حجت بنا یا ہے۔ سالکین کا ان کو پیشواء بنا یا ہے۔ خاص و عام میں ان کو بڑ ا قبول دیا ہے۔(بہجۃ الاسرار  ص ۹۳۴)۔

شیخ احمد رفاعی علیہ الرحمہ سے علامہ اقبال کی عقیدت اور ذکرِ جمیل کا سب سے بڑ ا سبب یہ ہے کہ وہ (حضرت شیخ رفاعی)ہمیشہ اپنے دوستوں اور مریدوں کو خالص عربی اسلام کی پیروی کی بار بار تلقین کرتے رہے تاکہ عجمی اسلام سے دُور رہیں۔ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ اسلام جب تک جزیرۃ العرب میں رہا اس وقت تک وہ کافی حد تک دوسرے مذاہب، غلط فلسفیانہ مکاتب، رہبانیت آمیز تصوف اور زندگی کش غیر اسلامی رسومات اور عقائد کے تباہ کُن اثرات سے محفوظ رہا۔

جب مسلمانوں کا دوسری قوموں اور تہذیبوں کے ساتھ تعلق قائم ہوا تو مسلمانوں میں کافی غیر اسلامی عناصر رواج پا گئے جنہیں ڈاکٹر اقبال ”عجم“ کہتے ہیں۔ عجم سے ان کی مراد محض ایران نہیں بلکہ وہ تمام غیر اسلامی اور غیر قرآنی عناصر مراد ہیں جنہوں نے اسلام کے صاف و شفاف سر چشمہئ زندگی کو گدلا کر دیا تھا چنانچہ مفکر اسلام اور شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال حضرت شیخ احمد رفاعی کی تنقید عجم کا ایک واقعہ اس طرح بیان کر تے ہیں :۔

کاسبِ نور از ضمیر آفتاب شیخ احمد سید گردوں جناب
از خیالات عجم باید حذر بامریدے گفت اے جان پدر
از حدِ دین نبی بیروں گزشت زانکہ فکرش گرچہ گردو گزشت
پند آں آقاے ملت گوش کن اے برادر ایں نصیحت گوش کن
با عرب در ساز تا مسلم شوی قلب را زیں حرف گرداں قوی

        ۔  (یعنی :  شیخ احمد رفاعی بلند پایہ سید ہیں سورج ان کے ضمیر سے نور کا اکتساب کر تا ہے انہوں نے اپنے ایک مرید سے کہا ”اے بیٹا! تجھے عجم کے خیالات (غیر اسلامی افکار) سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ اگر چہ عجم کے خیالات آسمان سے بھی آگے چلے گئے ہیں لیکن وہ دین ِ مصطفوی کی حدود میں نہیں رہے اے بھائی! تو اس نصیحت پر دھیان دے اور ملت اسلامیہ کے آقا کی نصیحت کو ہرگز نہ بھول۔ تو اپنے دل کو اس سچی بات سے مضبوط بنا اور صحیح مسلمان ہونے کے لیے عر ب سے موا فقت اختیار کر)  (رموزِ بے خودی  ص  ۹۲۱)۔

          ڈاکٹر اقبال اس تصوف اور صوفی کے خلاف ہیں جس کے نظریات اسلام پر مبنی نہیں۔ وہ ایک اور جگہ بجا فر ماتے ہیں :۔

زِ دیو بند حسین احمدد این چہ بو العجبی استعجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
چہ بے خبر زمقام محمد عربی استسُرود برسرِ منبرکہ ملت از وطن است
اگر باُو نہ رسیدی تمام بو لہبی استبمصطفی برساں خو یش را کہ دیں ہمہ اوست

          حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کی گنبدِ خضریٰ میں حاضری کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر شیخ محمد بن عبد الرحمن الحنبلی کی تصنیف ”سیرۃ شیخ عبد القادر جیلانی“  ترجمہ از : علامہ مفتی وسیم القادری ص : ۰۳۳  رقم طراز ہیں :۔

۔”ایک مرتبہ شیخ الشیوخ علیہ الرحمہ روضۃ النبی ﷺ پر چالیس روز رہے اور یہ دو اشعارپڑھتے تھے :۔

کمثل الجبال الثم بل ھی اکبر ذنوبی کموج البھر بل ھی اکثر
جناح من البعوض بل ھی اصغر الکن ھا عند الکریم اذ عفا

دوسری مر تبہ جب حاضر ہوئے تو گند خضریٰ کے سامنے یہ اشعار پڑھے

تقبل الارض علی وھی نائبتیفی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا
فامدد یمینک کی تخظی بھا شفتیوھذہ نو بۃ الاشباح قد حضرت

ترجمہ : میں جب دور تھا تو اپنی روح کو بھیج دیتا کہ میری طرف سے زمین کو بوسہ دے جب کہ وہ میری نائب تھی اب باری بدن کی کہ جسم خود حاضر ہے دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے شفا پائیں۔

فظھرت یدہ  ﷺ فصا فحھا و قبلھا و ضعھا علی راسہ

۔” پس رسو ل اللہ ﷺ کا ہاتھ مبارک ظاہر ہوا پس آپ نے مصافحہ کیا اور اسے چوما اور اپنے سر پر رکھا۔“

کتاب آڈر کرکے بک کریں آپ کے گھر تک پہنچ جاے گی

          کتاب الباب المعانی کے مصنف محمد بی الفرج الفاروثی لکھتے ہیں کہ ۲۶۶؁ ہجری میں جبکہ ان کی عمر آٹھ سال کی تھی اپنے والد کے ہمراہ ام عبیدہ گئے۔ اس وقت ام عبیدہ کے سجادہ نشین سید شمس الدین محمد رفاعی تھے جو حضر رفاعی کے نواسے تھے یہ عرس کا مو قع تھا جمعہ کے دن روضہ مبارک میں ہزار ہا زائرین زیارت کے لیے آئے ان میں ایک بزرگ بہت عمر رسیدہ تھے۔

میرے والد نے ان کی دست بوسی کی اور مجھ سے فرمایا یہ حضرت شیخ احمد بن عبد المحمور الربیعی ہیں۔ جنہوں نے مدینہ منورہ میں حضور اکر م ﷺ کے دستِ مبارک کو بو سہ دیتے ہوئے حضرت شیخ سید احمد کبیر الرفاعی رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا۔ (بحوالہ :  ” انوارِ رفاعی“  ص ۵۴ مو لفہ عبد المجید عبد الشکور عاربی خلیفہ رفاعی)۔

          مراکش کے ایک عالم عرب مسافر ابن بطوطہ ۷۲۳۱ء میں حضرت سید احمد کبیر الرفاعی اور ان کی خانقاہ اور مقبرے کے قصے ہزاروں میل دور سے سنے تھے، چنانچہ مجھے ان کی زیارت کرنے کا بہت اشتیاق تھا جو اللہ کے فضل سے پورا ہوا۔

یہ خانقاہ ایک دیہی علاقے اُم عبیدہ میں واقع ہے جو واسطہ سے ایک دن کے سفر کے بعد آتا ہے جہاں ایک بے حد وسیع خانقاہ ہے جس میں ہزاروں غربا مقیم ہیں جب عصر کی نماز پوری ہوئی تو نقاروں کی آواز میں ان فقرائے نے وجد کرناشروع کر دیا اس کے بعد نماز مغرب پڑھی گئی اور پھر شام کا کھانا لایا گیا جس میں چاول کے نام، بھنی مچھلی، کھجور اور پینے کے لیے دودھ شامل تھا

بعد نماز عشاء محفل ذکر (راتبِ رفاعیہ) شروع ہوئی۔ سجادہ نشین خانقاہ اپنے جد اعلیٰ (سید احمد کبیر الرف عی علیہ الرحمہ کے مصلے پر رونق افروز تھے۔ پھر سماع شروع ہوا۔ جلانے کی بہت سی لکڑیوں میں آگ سلگائی گئی جس پر بہت سے مریدین وجد کی؛حالت میں رقص کرنے لگے۔

کچھ تو آپ پر لوٹنے لگے اور کچھ ان انگارے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر مسل دیے۔ ان لوگو ں نے اسی طرح آگ کو مکمل طور پر بجھا دیا۔ یہ ان احمدی فقیروں کا خصو صی طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ چند فقیروں نے تیز دھار ہتھیاروں سے اپنے جسموں پر ضربیں لگائیں۔ لیکن نہ وہ زخمی ہوئے اور نہ ہی خون بہا اور نہ چوٹ لگی۔

          ضرب کی اس رسم کی تحقیق کر تے ہوئے انگریز پروفیسر ”گب“ نے”انسائیکلو پیڈیا آف اسلام“صفحہ ۶۷۴ پر لکھا ہے کہ ان کے خیال سے ضرب کی رسم ہلاکو خاں اور منگولوں کی چڑھائی کے زمانے سے شروع ہوئی (۸۵۲۱ء) اور یہ رسم عدم تشدد کی مظہر ہے کیونکہ منگولوں نے عراق میں مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم کیے اور ان کا خون خرابہ کیا۔ پروفیسر فلپ حتّی نے اپنی کتاب”اسلام ایک طرز زندگی“ میں پروفیسر گب کے اس خیال کی تائید کی ہے۔ (”اسلام ایک طرز زندگی“  صفحہ ۴۶)۔

          تاریخی نظریہ سے دیکھا جائے تو ضرب کی رسم رفاعی صو فیوں کا اظہار احتجاج ہے جو انہوں نے ترکوں اور منگولوں کے عراق میں خون خرابے اور تیغ زنی کرنے کے خلاف کیا تھا۔ ترکی اور منگولی بھی قبائلی انتظام سے جب شہر میں مستقل قیام پذیر ہوئے تو ان میں بھی احساس عدم تحفظ تھا۔ اور اس کے لیے صوفیائے کرام کی خانقاہوں نے نہ صرف ان کو مرید بنا کر ان کو احساس تحفظ دیا بلکہ اسلامیات بھی سکھائی۔ (انوارِ رفاعی  ۸۵۔۹۵

          تصنیفات و تالیفات

سید احمد رفاعی علیہ الرحمہ نے توحید و تصوف اور اخلاقِ حمیدہ پر مشتمل اپنی بہت سی مفید اور گراں قدر کتابیں یادگار چھوڑی ہیں حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب  ” کشف الظنون “ میں بعض کا ذکر کیا ہے اور کچھ کا ذکر سید محمد ابو الہدیٰ الصیادی کی تصنیف میں بھی ملتا ہے اور انوارِ رفاعی میں عبد المجید عبدالشکور عاربی نے بھی چند کتابو ں کا ذکر کیا ہے۔

حضرت شیخ کی چند اہم تصانیف کچھ اس طرح سے ہیں ۔(۱) البرھان المؤید (۲) الحکم الرفاعیہ (۳) الاحزاب الرفراعیہ  (۴)  النظام الخاص لاھل ا لاختصاص  (۵)  الصراط المستقیم فی تفسیرمعانی بسم اللہ الرحمن الرحیم (۶) الرؤیۃ (۷) الطریق الی اللہ العقائد الرفعیہ (۸) المجالس الاحمدیہ (۹) تفسیرسورۃ القدر (۰۱) حالۃ اھل الحقیقۃمع اللہ (۱۱) الاربعین(۲۱) شرح التنبیہ (۳۱) رحیق الکوثر (۴۱) البھجۃ فی الفقہ(۵۱) مسند امام رفاعی وغیرہ۔   مضمون انٹرنیٹ کے مطابق اس میں کچھ مطبوعہ ہیں اور بعض مخطوطہ کی شکل میں مو جود ہیں اور اکثر فتنہئ تاتاریہ کی نذر ہو گئیں۔

         ۔ ”مسند امام رفاعی“جو امام رفاعی علیہ الرحمہ کی سند سے بیان کر دہ احادیث مصطفی ﷺ کا مجموعہ ہے۔جس کے اولین محقق عبد السلام بن محمد بن حبوس صاحب نے اس کی تخریج فرمائی ہے اور بیابانی اسلامک ریسرچ اینڈ نالج سنٹر نے درگاہ قاضی پیٹ ورنگل تحقیق و تخریج کے علاوہ مولانا حافظ محمد خان بیانی رفاعی القادری، کامل الحدیث جامعہ نظامیہ کے ترجمہ کے ساتھ اس اہم مجموعہئ احادیث کو سنہ ۷۱۰۲ء میں شائع کر وایا ہے

تاکہ اس کے مطالعے سے حضرت شیخ رفاعی علیہ الرحمہ کی علمی شان، حدیث دانی اور درجہ فقاہت سے قارئین بھی روشناس ہو سکیں۔”مسندامام رفاعی“ دس ابواب پر مشتمل ہے جس میں (۶۰۲)  احادیث جمع کیے گئے ہیں۔

۔۱۲ احادیث کتاب العلم۱
۔۱۴ احادیث فی فضل الرحلۃ فی طلب العلم۲
۔۱۴ احادیث کتاب التوحید والاعتقاد۳
۔۳۹ احادیث کتاب الایمان۴
۔۳۶ احادیث کتاب الاسلام۵
۔۲۵ احادیث کتاب الآدابِ والمعاملات والکتب و احقالالمعیشۃ والرزق۶
۔۲۶ احادیثبابُ فی فضل الجھاد والغزو والرباط فی سبیل اللہ تعالیٰ۷
۔۱۵ احادیث کتاب الفضائل۸
۔۱۹ احادیث کتاب الذکر والدعاء۹
۔۶ احادیث کتاب السمعیات و احوال القیامۃ۱۰
۶۰۲    احادیث جملہ

مسند رفاعی سے ایک حدیث مثالاً ملاحظہ ہو :۔

          اخبرنا الشیخ الثقۃ ابو طالب بن ابی الازھر قال اخبرنا ابو منصور عبد المحسن الشیخی، قال اخبرنا ابو بکر الخطیب، قال اخبرنا ابو بکر احمد بن جعفر القطیعی، حدثناعبداللہ حدثنی ابی حدثنا یزید انبأنا حمید عن انس، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،قال انصر اخاک ظالماً او مظلوماً قیل یا رسول اللہ ھذا ننصرہ مظلوماً فکیف ننصرہ ظالما قال تمنعہ من الظلم   (مسند احمد)۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ عرض کیا گیا یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم کی مدد تو ہم کرتے ہیں، ظالم کی (مدد) کیسے کریں،فرمایا اس کو ظلم سے منع کرو۔

          سید الاولیاء شیخ الکبیر حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ بروزِ جمعرات یکم رجب کو  ۲۱۵ ؁ھ  میں مسترشد باللہ عباسی کے زمانہئ خلافت میں مقامِ ام عبیدہ(واسط و بصرہ) کے حسن نامی ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے انصاری مذہباً شافعی واسطی سلسلہئ رفاعیہ کے بانی تھے۔ اتباعِ سنت و شریعت کی پیروی نے انہیں اپنے زمانے کا ایک معروف اور بلندیوں والا بزرگ بنا دیا تھا۔جیسا کہ حضرت شیخ نے خو د ارشاد فرمایا ہے :۔

۔” طریقی دین بلا بدعۃ، وھمۃ بلا کسل، و عمل بلا ریاء، وقلب بلا شغل، و نفس بلا شھوۃ“۔

یعنی میرے طریقہئ دینی میں بدعت شامل نہیں اور ہمت بغیر کاہلی و سستی کے، اور عمل ریا ء کے بغیر، اور قلب کسی دنیا وی اغراض میں مشغول نہیں،اور نفس بلا شہوت۔ (دیگر کدورتوں سے مبرا)۔  ساری زندگی آپ نے خدمتِ خلق میں گذاری اگرکسی شخص کے بیمار ہونے کا اُنہیں علم ہوتا تو

حضرت شیخ رفاعی علیہ الرحمہ دور ہو یا نزدیک اس کی پرواہ کیے بغیر اس بیمار کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور کبھی دو  تین  دن کے بعد بھی واپس لَوٹتے

کبھی ایسا بھی ہو تا کہ آپ نا بینا افراد کے منتظر رہتے تا کہ اُنہیں اطمنان کے ساتھ اُن کی رہائش گاہ تک پہنچا سکیں اور جب کبھی کسی ضعیف العمر آدمی کو دیکھتے انہیں ان کے علاقے تک پہنچا آتے اوراُس علاقے کے لوگوں کے نصیحت فرماتے کہ لوگو ان کا خیال رکھو کیونکہ میرے حضور رحمت عالم ﷺ نے فر مایا ہے کہ جس نے کسی بوڑھے مسلمان کی خدمت و تکریم بجا لائی اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ اُس کے اپنے بڑھاپے میں کسی سہارے کا انتظام فر ما دے گا۔

          حضرت شیخ احمد کبیر علیہ الرحمہ نے علمی، دینی،عرفانی اور  رفاہی اُمو ر انجام دیتے ہوئے ۶۶ سال کی عمر پا کر جمعرات ۲۱ /جُمادی الاولیٰ ۸۷۵ ؁ھ کو یہ آفتابِ شریعت و ماہ تابِ طریقت اہلِ ظواہر پر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔آپ کی تدفین آپ کے دادا محترم حضرت شیخ یحییٰ بخاری علیہ الرحمہ کے روضہئ انور میں بمقام اُم عبیدہ  (عراق)  عمل میں آئی،حضرت شیخ رفاعی علیہ الرحمہ کا مزار پُر انوار زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہو ا ہے۔

ماہِ عرب کے ہالے میرا سلام لیجئےام عبیدہ والے میرا سلام لیجئے
بے مثل شان والے میرا سلام لیجئےاحمد کبیر ہو تم، روشن ضمیر ہو تم

ترتیب کار :  پروفیسر محمد عبد الحمید اکبر

سابق ڈین  و  سابق صدرشعبہ اُردو  و  فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی

گلبرگہ شریف۔

Amazon Havells Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن