از قلم مفتی محمد احتشام الحق رضوی مصباحی تعزیہ داری شعار اسلام نہیں
تعزیہ اگر ہو بہو حضور سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے روضۂ پاک کی نقل ہو، اس کے ساتھ محرمات و خرافات نہ ہو جائز ہے ـ
لیکن موجودہ تعزیہ جس طرح بنائی جاتی ہے کسی سے مخفی نہیں ــ
بہت پیسہ خرچ کرکے تعزیہ بنائی جاتی ہے، پھر اس کو توڑ فوڑ کر ندی نالے میں پھینک دیا جاتا ہے یا دفن کردیا جاتا ہے، بلاشبہ یہ تضییعِ مال ہے اور تضییعِ مال حرام و گناہ ہے ـ
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ان اللہ لایحب المسرفین
دوسری جگہ ارشاد ہوا: ۔
ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطٰن لربہ کفورا
ونھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قیل وقال امرا وکثرۃ السوال واضاعۃ المال
تعزیہ کے ساتھ سینہ کوبی و نوحہ زنی ہوتی ہے جو کہ سخت غضبِ الٰہی کا باعث اور بد ترین جرم ہےــ
ابو داؤد شریف میں ہے: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:۔
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم النائحۃ والمستمعۃ
بخاری و مسلم کی حدیث شریف میں ہے لیس منا من ضرب الخدود و شق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیۃ
نیز موجودہ زمانے میں تعزیے کے جو نقشے بنائے جاتے ہیں وہ صحیح نقشے نہیں، نہ تو تعزیہ بنانے والوں نے کربلا معلیّٰ جاکر وہاں کا روضہ دیکھا ہے اور نہ وہاں کا صحیح نقشہ دیکھ کر اس کی نقل کی ہے بلکہ ہر تعزیہ دار علٰحِدہ فیشن کا تعزیہ بناتا ہے، اب اس غلط نقشے کو روضۂ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی تصویر سمجھ کر اس کی تعظیم کرنا حرام ہے ـ
جیساکہ جس درخت کے نیچے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعتُ الرضوان لی تھی، وہ اصل درخت تو گم ہوگیا تھا ، لوگوں نے غلطی سے دوسرے درخت کی زیارت کرنا شروع کردی یہ سمجھ کر کہ یہ وہ ہی بیعت والا درخت ہے، حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ درخت کٹوا دیا تھا تاکہ غلط فہمی دور ہو، وہ بھی غلط چیز ہی کی زیارت کرتے تھے اور موجودہ بے پڑھے لکھے مسلمان بھی غلط نقشہ بنا کر اس کی زیارت اور تعظیم کرتے ہیں یہ بھی اسی طرح واجب الھلاک ہے ــ
ماضی قریب کے مقتدر اور جیِّد علمائے دین محققین رحمھم اللہ نے مروجہ تعزیہ داری کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا ہے ــ
ان میں سرِ فہرست امامِ اہلِ سنت مجدد دین و ملت ماحی شرک و بدعت قالعِ کفر و ضلالت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز ہیں اس سلسلے میں آپ کا ایک مستقل رسالہ مبارکہ بنام “ اعالی الافادہ فی تعزیۃ الھند و بیان شہادۃ” موجود و مرقوم ہےـــ
حضور سیدی سرکار مفتئ اعظمِ ھند رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:۔
تعزیہ داری جو شرعاً نا جائز ہے اس کے لیے جبراً چندہ لینا کس قدر شنیع بات ہے
(فتاویٰ مصطفویہ ص ۵۳۵)
حضور سرکارِ کلاں تاجدارِ کچھوچھہ مقدسہ سید مختار اشرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.۔
اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک تعزیہ داری کہہ کر جن مراسم کو مراد لیا جاتا ہے ان کے منکرات امرِ منکر ہی ہیں مثلاً اضاعتِ مالِ مسلم و اسبابِ تعیش و تفریح وبیانِ مکذوبات و اوہامِ فاسدہ وغیر ذالک اور یہ وہ منکرات ہیں جن کا منکر ہونا منصوص ہے نیز مسجد و فنائے مسجد کو ہر طرح کے تعیش و تفریح کے آلات سے پاک رکھنا ضروری ہے ــ
مولانا حمشت علی بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:تعزیے بنانا، انہیں باجے تاشے کے ساتھ دھوم دھام سے اٹھانا، ان کی زیارت کرنا، ان کا ادب اور تعظیم کرنا، انہیں سلام کرنا، انہیں چومنا، ان کے آگے جھکنا اور آنکھوں سے لگانا، بچوں کو ہرے کپڑے پہنانا ، گھر گھر بھیک منگوانا شرعاً ناجائز و گناہ ہیں ــ
(شمعِ ہدایت ج ۳ ص ۳۰)
واضح رہے کہ علمائے اہلِ سنت نے مروجہ تعزیہ داری کو تشبُّہِ روافض کی بنیاد پر نا جائز و حرام نہیں کہا ہے بلکہ کثیر واہیات و خرافات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نا جائز وحرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے ، لہذا اگر تعزیہ کو واہیات و خرافات سے پاک کرلیا جائے اور ہو بہو روضۂ پاک نقشہ اتار لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا یہی اہلِ سنت و جماعت کا موقف ہے ،
لیکن سچائی یہ ہے کہ کسی امر ابتداعی کو جو فی نفسہ مذموم نہ ہو، شرائط کے ساتھ اگر حکمِ جواز ملے بھی تو عوام کالانعام شرطوں کو گول کر جاتے ہیں، اور من مانی شروع ہو جاتی ہے،آپ تعزیہ ہی کو دیکھ لیں کہ اصلا مع چند شرائط جواز کا حکم تو دیا گیا لیکن پھر بنانے والوں اور رکھنے والوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، مفاسد کا سدِّ باب کرنے کے لیے اگر اصل سے احتراز کیا جائے تو بہتر ہے ـــ
الاشباہ والنظائر میں ہے: درء المفاسد اولیٰ من جلب المصالح
یعنی خرابیوں کو دور کرنا حصولِ منافع سے بہتر ہے
اسی لیے امامِ اہلِ سنت الشاہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے فرمایا:۔
اگر اہلِ اسلام صرف جائز طور پر حضراتِ شہدائے کربلا علیہم الرضوان التام کی ارواحِ طیبہ کو ایصالِ ثواب کی سعادت پر اقتصار کرتے تو کس قدر خوب و محبوب تھا اور اگر نظرِ شوق و محبت میں نقلِ روضۂ انور کی بھی حاجت تھی تو اوسی قدرِ جائز پر قناعت کرتے کہ صحیح نقل بغرضِ تبرُّک و زیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعتِ غم و تصنُّعِ الم و نوحہ زنی و ماتم کنی و دیگر امورِ شنیعہ و بدعات قطعیہ سے بچتے اس قدر میں بھی کوئی حرج نہ تھا
مگر اب ایسی نقل میں بھی اہلِ بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی ایک تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہلِ اعتقاد کے لیے ابتلائے بدعات کا اندیشہ ہے اور حدیث میں آیا “اتقوا مواضع التھم” اور وارد ہوا: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلایقف موقف التھم” ۔
لہذا روضۂ اقدس حضور سید الشہداء کی ایسی تصویر بھی نہ بنائے بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اوسے بقصدِ تبرُّک بے آمیزشمنہیات اپنے پاس رکھے جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضۂ عالیہ کے نقشے آتے ہیں یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پر نور کے نقشے لکھے ہیں والسلام علی من اتبع الھدیٰ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ۹ نصف اول ص ۳۶)۔
جب مقتدر اور جید علمائے اہلِ سنت و جماعت تعزیہ داری کو نا جائز و حرام کہہ رہے ہیں تو شعارِ اہلِ سنت کیسے ہو سکتا ہے؟
بہت سے لوگ جوازِ تعزیہ کے لیے اکثریت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثریت بناتی ہے اس لیے جائز ہے، یہ سراسر جہالت اور بد دیانتی ہے،
کیا اکثریت مناطِ حکمِ شرع ہے؟ |
اکثریت گالی بکنے والوں کی ہے، کیا گالی بکنا جائز ہو جائے گا، |
اکثریت شریعت سے نا واقفی کی ہے ، کیا شریعت سے جہالت صحیح ہوجائے گا ؟ |
بتاؤ! آج مسلمان میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے، کیا ترکِ نماز درست ہوجائے گا؟ |
ھذا لایقولہ الامن لیس لہ عقل و شعور ـــــ |
اہلِ سنت و جماعت کے علمائے جہابذہ جب واضح انداز میں مروجہ تعزیہ داری کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا ہے اسی پر عمل کرنا چاہیے اور جواز کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے بنانے سے اجتناب و احتراز چاہیے ــــــ
اور جہاں تک تعزیہ کو شریف کہنے کا مسئلہ ہے، یہ اگر نظرا الی الاصل ہے تب بھی احتراز اولیٰ ہے اولا ہمارے کسی معتمد نے نظرا الی الاصل بھی شریف نہیں کہا ثانیا اہلِ بدعت سے تشبہ ہے اور اگر نظرا الی المروجۃ ہے تو درست نہیں کما ھو الظاھر ــ
اللہ جملہ اہلِ سنت و جماعت کو بدعات و خرافات سے محفوظ فرمائے ــــــ آمین یارب العٰلمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ــــ
احــتشـــام الـــــــــحق رضـــــــــــــوی مصــــــــباحی
اس کو بھی پڑھیں : کچھ اندھیرا اور بڑھا
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع