Sunday, September 8, 2024
Homeاحکام شریعتاختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط پنجم

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط پنجم

از قلم: طارق انور مصباحی اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط پنجم

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط پنجم

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

باب فقہ وعقائد کے غیرمنصوص مسائل کا حل اصول وقواعد کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ کبھی اصول وقوانین کے استعمال میں خطا بھی واقع ہوجاتی ہے۔

اصول وضوابط کی روشنی میں مسئلہ حاضرہ کا تجزیہ مر قومہ ذیل ہے۔

۔(1)بعض امور کو کفر یا ضلالت وگمرہی کے لیے شعارتسلیم کیا گیا ہے۔ شعارمیں کبھی تبدیلی بھی ہوجاتی ہے۔ترک نماز کو عہد صحابہ میں شعار کفر مانا جاتا تھا،پھر عہد مجتہدین میں ترک نمازکو شعا رکفر تسلیم نہیں کیا گیا۔
اسی طرح عہد صحابہ کے بعدحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی وایذارسانی رافضیت کی علامت اور اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی وایذارسانی ناصبیت کی علامت تسلیم کی گئی۔شہادت عثمانی میں جو شریک تھے،ان کو گمراہ یا رافضی تسلیم نہیں کیا گیا،کیوں کہ صحابہ کرام کی بے ادبی اس وقت شعاررافضیت نہیں تھی،بلکہ اس وقت روافض کا وجود ہی نہیں تھا۔واقعہ کربلا کے وقت اہل بیت کرام کی بے ادبی ناصبیت کی علامت نہیں تھی،اسی لیے واقعہ کربلا کے مجرمین کوگمراہ یا ناصبی تسلیم نہیں کیا گیا۔

۔(2)”مومن بہ“ کی تصدیق کا نام ایمان ہے۔ وہ تمام امور جو تصدیق کے منافی ہیں،ان کے سبب ایمان متأثر ہوجاتا ہے۔ بے ادبی بھی تصدیق کے منافی ہے،لہٰذا”مومن بہ“کی بے ادبی کے سبب بھی ایمان پر اثر آتا ہے۔ اگر تصدیق کے منافی کوئی امر صریح متعین ہوتو کفر کلامی ہے۔ اگر صریح متبین ہے تو کفر فقہی ہے اور متکلمین اس کو ضلالت وگمرہی کا نام دیتے ہیں۔اگر وہ محتمل ہوتو وہ ناجائزوحرام ہے۔احتمال جس قدر ضعیف ہوگا، اسی قدر حکم میں تخفیف ہوتی جائے گی۔

۔(3)مومن (غیرمومن بہ) کی دوحالت ہے۔اگر مومن کی بے ادبی،تذلیل وتحقیر یا ایذا رسانی وغیرہ اس نیت سے کی جائے کہ اس کا تعلق ”مومن بہ“ سے ہے،یا اسلام سے ہے تو یہاں بھی حکم کفر عائد ہوتا ہے۔

اگر مومن کی بے ادبی،تذلیل وتحقیر،ایذا رسانی وغیرہ کسی دوسرے سبب سے کی جائے تو حکم کفر یا حکم ضلالت نہیں،بلکہ خاص اس امرممنوع کا جو حکم ہے،وہی حکم نافذہوگا،جیسے کسی کوقتل کرنا حرام ہے تو مومن کے قتل پر حرمت کا حکم عائد ہوگا اور اس جرم کا مرتکب فاسق وفاجراور گنہ گار قرار پائے گا۔

خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام الشہدا حضرت سیدناامام حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلین گناہ کبیرہ اور حرام کے مرتکب اور فاسق وفاجر ہیں۔گمراہ یا کافر نہیں ہیں۔

شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل ابن ملجم خوارج میں سے تھا۔وہ اپنے غلط عقائد کے سبب گمراہ ہے اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو شہید کرنے سبب صرف فاسق وفاجر ومرتکب کبیرہ وگنہ گار ہے۔

مذکورہ بالا تینوں ظالمانہ حادثات کا سبب نسبت نبوی نہیں ہے،بلکہ دیگر اسباب ہیں۔حضرت خلیفہ سوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سبب وہ خط بن گیا جن پر آپ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ نہ جانے کس نے یہ خیانت کی تھی۔ آپ یقینی طورپر اس سے بری الذمہ تھے۔

حضرت شہید کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سبب یزید کے فسق وفجور کے سبب اس کی بیعت سے اپ کا انکار تھا۔ حضر ت خلیفہ چہارم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سبب واقعہ تحکیم بن گیا۔اسی سبب سے خوارج آپ سے جدا ہوگئے،پھر آپ نے ان سے جنگ بھی فرمائی۔

مومن کی بے ادبی یا تذلیل نسبت کے سبب

اگر کسی صحابی یا اہل بیت کی بے ادبی یا ان کی ایذارسانی اس نیت سے کی جائے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابی یااہل بیت ہیں تو اس نسبت کے سبب ایذا یا بے ادبی پر حکم کفر اورکبھی حکم ضلالت ہوگا۔

امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”مجمع الانہر میں ہے:(من قال لعالم عویلم علی وجہ الاستخفاف کفر)جوکسی عالم دین کو تحقیر کے طورپر مولویا کہے،کافر ہوجائے“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص12-رضا اکیڈمی ممبئ)۔

توضیح:شہادت عثمانی اور واقعہ کربلا کے مجرمین کافر نہیں،لیکن عالم دین کو مولویا کہنے والا کافر ہے۔اس کا سبب وہی اصول وقانون ہے جو بیان ہواکہ مومن (غیر مومن بہ)کے احکام دوقسم کے ہیں۔

عالم کی تذلیل اس سبب سے کرنا کہ وہ مذہب اسلام کا عالم ہے،یہ کفر کا سبب ہے۔

اگر کسی اختلاف یا ذاتی عداوت کے سبب عالم کی تذلیل وتحقیر کی جائے تویہ ناجائز وحرام ہے،لیکن کفر نہیں۔

اسی طرح کسی سبب دیگر کی بنیاد پر کسی صحابی کی بے ادبی بھی کفر نہیں۔ چوں کہ عہد صحابہ کے بعد صحابی کی بے ادبی شعار رافضیت قرار دی گئی ہے،اس لیے ضلالت وگمرہی کا حکم ہوگا۔اگر بے ادبی شعار قرارنہ دی جاتی توحکم ضلالت نہیں ہوتا۔ صرف حرمت کا حکم ہوتا۔

قال الامام عبد اللّٰہ بن محمود بن مودود الموصلی الحنفی:}وسب احد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفرًا لکن یضلل-فان علیا رضی اللّٰہ عنہ لم یکفر شاتمہ حتی لم یقتلہ (الاختیار لتعلیل المختار:کتاب السیرج۴ص۰۶۱-دار الکتب العلمیہ بیروت)۔

توضیح :اگر نسبت نبوی کے علاوہ کسی دوسرے سبب سے صحابی کی بے ادبی ہوتو کفر نہیں،بلکہ ناجائزوحرام ہے،اور شعار رافضیت ہونے کے سبب گمرہی کا سبب بھی ہے،لیکن کفرنہیں۔ اگرکسی صحابی کی بے ادبی اس نیت سے کی گئی کہ وہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابی ہیں توکفر ہے۔

قال الہیتمی:وعبارۃ البغوی:من انکر خلافۃ ابی بکر یبدع ولا یکفر-ومن سب احدًا من الصحابۃ ولم یستحل،یفسق-واختلفوا فی کفر من سب الشیخین-قال الزرکشی کالسبکی:وینبغی ان یکون الخلاف اذا سبہما لامر خاص بہ-اما لو سبہما لکونہما صحابیین فینبغی القطع بتکفیرہ-لان ذلک استخفاف بحق الصحبۃ-وفیہ تعریض بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الاعلام بقواطع الاسلام ص۳۹-مکتبہ شاملہ)۔

توضیح :حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی اور سب وشتم کرنے والا فاسق ہے۔ حضرات شیخین کریمین (صدیق وفاروق)رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بے ادبی کو بعض نے کفر کہا،لیکن یہ ضعیف قول ہے۔اگر صحابی رسول ہونے کے سبب حضرات شیخین کریمین کوسب وشتم کیا تو کفر یقینی ہونا چاہئے، کیوں کہ یہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حق صحبت کی بے ادبی ہے،اوریہ لزومی طورپرخود حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی ہے،اور لزومی طورپربھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی ہوتویہ فقہا کے یہاں کفر ہے،گرچہ متکلمین لازم مذہب کومذہب نہیں مانتے۔

حضرات شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سب وشتم کوبعض فقہا نے کفر لکھا ہے،لیکن یہ ضعیف قول ہے،اورمتون وشروح کے بھی خلاف ہے۔تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
قال الشامی:نقل فی البزازیۃ عن الخلاصۃ ان الرافضی اذا کان یسب الشیخین ویلعنہما فہوکافر-وان یفضل علیًّا علیہما فہو مبتدع-الخ (رد المحتارج۴ص۲۲۴)۔

ثم قال بعد التفصیل:فعلم ان ما ذکرہ فی الخلاصۃ من انہ کافر-قول ضعیف مخالف للمتون والشروح -بل ہومخالف لاجماع الفقہاء کما سمعت
(رد المحتار ج۴ ص ۳۲۴)

حاصل کلام

کسی صحابی کی بے ادبی کفر نہیں،یہاں تک کہ حضرات شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بے ادبی بھی کفر نہیں،بلکہ ناجائزوحرام ہے۔

طعن صحابہ کرام کوبعد کے زمانے میں شعاررافضیت تسلیم کیا گیا تو اس اعتبار سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سب وشتم پر گمرہی کا حکم ہوگا۔

حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی ناصبیت کی علامت ہے تویہ بے ادبی بھی سبب ضلالت ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ کسی مومن کی بے ادبی فی نفسہ کفر وگمر ہی نہیں۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی علامت رافضیت ہونے کے سبب،اورحضرات اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بے ادبی شعارناصبیت ہونے کے سبب ضلالت وگمرہی تسلیم کی گئی ہے۔

مسئلہ حاضرہ یعنی لفظ خطا کے مسئلہ میں متکلم کی طرف سے بالقصدبے ادبی کرنا ثابت نہیں،کیوں کہ متکلم کا قصد روافض کے نظریہ کا رد وابطال تھا،نیز متکلم کا سنی ہونا بھی قرینہ ہے کہ یہاں اہل بیت کی بے ادبی مقصود نہیں۔

الغرض بے ادبی کرنا ثات نہیں اوربے ادبی ہونا ثابت ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔

یہاں ضلالت کا حکم لگانے سے قبل دوباتوں کی تحقیق کرنی ہوگی
۔(۱)اولاًمذکورہ لفظ کا استعمال بے ادبی ہے یانہیں؟

۔(۲)ثانیاً صحابہ واہل بیت کی بے ادبی کرنا تو شعاررافضیت وناصبیت ہے،لیکن بلا قصد بے ادبی ہو جانا شعاررافضیت وناصبیت ہے یا نہیں؟

حکم ضلالت نافذکرنے والے ان دونوں امر کی تحقیق پیش کریں۔
ایمان اور تصدیق کے منافی امور کو بالقصد کرنا اورقصداً انجام دینا بھی کفر ہے۔اسی طرح بلاقصد ایمان کے منافی امور کا صادرہوجانا بھی کفر ہے۔صرف بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں۔

دوسری جانب اس پر نظررکھیں کہ حضرات صحابہ واہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بالقصد بے ادبی کرنے کو رافضیت وناصبیت کا شعارمانا گیا ہے،لیکن کہیں یہ صراحت نہیں مل سکی کہ بلاقصدبے ادبی ہوجانے کو بھی رافضیت وناصبیت کا شعار مانا گیا ہو۔حکم لگانے والے محققین کے پاس ایسی صراحت موجود ہوتوپیش کریں۔

مذکورہ دونوں امورکے حل کے بغیر حکم نہیں لگایا جاسکتا۔

اگرحضرات انبیا ئے کرام علیہم الصلوٰۃالسلام کے لیے لفظ خطا کا مطلق استعمال نا جائز ہوتو اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے لیے بھی اس کا استعمال ناجائز ہی ہو،کیوں کہ”مومن بہ“اور مومن کے احکام میں بہت فرق ہوتا ہے۔

مومن کوقتل کرناحرام ہے،لیکن کفر یا ضلالت نہیں، لیکن حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک کی بے ادبی بھی کفر ہے۔مومن کو قتل کرنا بھی کفرنہیں،لیکن”مومن بہ“کے اسم مبارک کی بے ادبی بھی کفر ہے۔
فریق دوم نے اپنی تحقیقات میں بہت سے مقامات پر مرجوح اقوال کو پیش کیا ہے۔اگر اپنا مدعا ثابت کرنے کے واسطے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے تو یہ غیر مناسب حرکت ہے۔
اگر لا شعوری طور پرایساہو گیا تو اپنی تحریر پر نظر ثانی کریں۔

تحریر: طارق انور مصباحی

مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت دہلی

اعزازی مدیر: افکار رضا

www.afkareraza.com

اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اور قسطوں پڑھنے کے لیے کلک کریں

قسط اول کے لیے کلک کریں

قسط دوم کے لیے کلک کریں

قسط سوم کے لیے کلک کریں

قسط چہارم کے لیے کلک کریں

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن