علماے کرام کے تئیں قوم کا نظریات از : عبدالامین برکاتی قادری
علماے کرام کے تئیں قوم کا نظریات
علماے کرام کی خستہ حالی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، دل خون کے آنسو روتا ہے، “مستقبل” کا سورج غروب نظر آتا ہے، اور جو حالات بیوہ عورت کے نہیں اس سے زیادہ برے حالات علماے کرام کے نظر آتے ہیں، محدود تنخواہ میں مقید نظر آتے ہیں، پھر بھی اپنے حصے کا کام کیے جاتے ہیں، سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ علماے کرام کا نظر آتا ہے، معاشی اور اقتصادی طور پر سب سے زیادہ پامال علما نظر آتے ہیں
وہی علما جن کا مقام اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا، جن کو وارثین انبیاء کا خطاب دیا گیا، وہی علما جن کے دم سے علم کا وجود ہے، وہی علما جن کے وجود سے احکام شرع محفوظ ہیں، وہی علما جن کے وجود سے اسلام کے قلعے محفوظ ہیں، آج وہی علما پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
آج مدارس و مساجد سے صرف اتنی تنخواہیں دی جاتی ہیں جس سے صرف زندگی بسر ہوسکے ـ جس کے چلتے علما صحیح سے اپنے بچوں کی نہ کفالت کر سکتے ہیں، نہ صحیح سے زندگی بسر کر سکتے ہیں بلکہ ان کو اتنا محتاج بنا دیا جاتا ہے کہ صدقہ و خیرات کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں. جو حالات علما کے ہیں وہ علما ہی محسوس کرسکتے ہیں
آج یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ علما کیا کرتے ہیں؟؟
مگر میں کہوں گا آپ کیا کرتے ہیں؟ علما کے تئیں آپ اپنے نظریات کو درست کریں اور علماے کرام وہی کرتے ہیں جس کا حکم اللہ و رسول ﷺ نے دیا ہے اور روکھی سوکھی کھاکر دین اسلام کی خدمت کرتے ہیں ، ورنہ چھے ہزار کی تنخواہ میں آپ کی اور مقتدیوں کی غلامی نہیں کرتے، بلکہ وہ بھی ماہانہ ہزاروں روپیے کماکر سکون کی زندگی بسر کرتے
مگر کیا کریں علما مجبور ہیں. اسلام کے سپائی ہیں اس لیے بھوکے رہ کر بھی دین پر پہرہ دیتے ہیں اور دینی تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری رکھتے ہیں
آج جماعت اہل سنت میں سب سے زیادہ مال دار طبقہ پیران عظام، قوال گویے اور جنّاتی نعت خوانوں کا ہے، اور ہمارے یہاں پیر کا بیٹا پیر ، قوال کا بیٹا قوال ضرور نظر آے گا مگر کسی بھی عالم کا بیٹا عالم نظر نہیں آئےگا، الا ماشاء اللہ
علما کی جماعت مفلوج قوم ہے
یہ بات آج سے تقریباً ۲۵ سال قبل کی ہے ہمارے یہاں ایک پیر صاحب گزرے ہیں جنہوں نے مرنے سے پہلے ہی ۱۵ /۲۰ لاکھ کا اپنا مزار بنا لیا تھا
تو ایک عالم صاحب نے پیر صاحب سے کہا کہ اتنا روپیہ یہاں فضول خرچ کیا ہے اگر آپ اس سے بہتر اپنے نام سے ایک مدرسہ قائم کر دیتے تو یہاں سے دین کے سپاہی نکلتے اور اسلام و سنیت کی خدمت کرتے تو پیر صاحب برانگیختہ ہوتے ہوئے کہتے ہیں، میں مدرسہ قائم کرکے مفلوج قوم پیدا نہیں کرنا چاہتا،
جب راقم نے یہ سنا تو آنکھیں بھر آئیں اور کہا کہ علما کی جماعت مفلوج پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس جماعت کو جیتے جی مفلوج کر دیا گیا، ان کے حقوق چھینے گئے، ان پر ظلم کیے گئے، پھر بھی اپنے حقوق کو پسِ پشت ڈال کر اسلام کے سپاہی پیدا کرتے رہے اور دین متین کی خدمت کرتے رہے۔
آج اسی قوم کو مفلوج کہا گیا جس نے پیر سے بیعت ہونے کے فضائل بتائے ، اسی کو مفلوج کہا گیا جس نے قرآن و سنت کی تعلیمات گھر گھر پہنچائی، اور آج وہی علما کی جماعت کو ہم مفلوج کہہ رہے ہیں
جتنا ظلم و ستم اپنے علما و ائمہ پر کیا گیا، ایسا ظلم و ستم کسی اور مذہب والوں نے اپنے رہنماوں پر نہیں کیا، بلکہ وہ اپنے رہنماؤں کے آگے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
مگر ہمارے یہاں اتنا ظلم و ستم کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، خاص کر متولیانِ مسجد و مدرسہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں! الا ماشاء اللہ
علما و ائمہ پر ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھ کر حضرت علامہ عبدالمصطفٰی اعظمی علیہ الرحمہ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ اگر مسجد و مدرسہ کے ٹرسٹی (متولی) بخش دیے گئے تو جتنی بھی فاحشہ طوائف عورتیں ہیں وہ بلا حساب و کتاب بخش دی جائیں گی
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زِیاں جاتا رہا
از : عبدالامین برکاتی قادری
ویراول گجرات الہند
+91 90332 63692
اس مضمون کو بھی پڑھیں: مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع