از : طارق انور مصباحی امام احمد رضا قادری مجدد اعظم
امام احمد رضا قادری مجدد اعظم
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
امام اہل سنت،مجدد دین وملت،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری(1856-1921)نے ہرشعبہ حیات میں قوم کی صالح رہ نمائی فرمائی ۔اعتقادیات وفقہیات ودیگر دینیات میں بھی۔سیاسیات ومعاشیات اور سماجیات و اخلاقیات میں بھی ۔
یقیناآپ کی ذات بابرکات ایک مینارئہ نور ہے ۔ہرضروری موضوع پر آپ کی تحریریں ارباب علم ودانش کویہ ترغیب دیتی ہیں کہ ہرمحاذپر قوم کی قیادت ورہبری کی جائے ۔آج بھی ہمیں ہر چہار جانب نظر رکھنی چاہئے اورعملی اقدام کرنا چاہئے۔
اس موقع پر جیسے عالم دین کی ضرورت تھی ،اللہ تعالیٰ امام احمدرضا قادری کو ویسا ہی عالم دین بنایا اور وہ علوم وفنون اور اوصاف وکمالات عطافرمائے کہ قوم مسلم کی ہرقسم کی قیادت وامامت آپ نے فرمائی ۔آج ہم نے خودکو دینیات کے دائرہ تک محدودکرلیا ہے ۔یہ ہمارے لیے نقصان دہ اورمضر ہے۔
تعجب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی خوبیاں عطا فرمائیںکہ اس وقت درجنوں محاذپر مسلمانوں کو غلط راہ پر ڈالنے کے لیے بے شمار لوگ میدان میںآئے ۔آپ نے سب کو پیچھے دھکیل دیا ،سب کا تعاقب فرمایا اور صحیح سمت کی جانب قوم مسلم کی رہنمائی فرمائی ۔ا س وقت بھارت میں مختلف جہات سے اسلام اور مسلمانوں پر حملے ہورہے تھے۔دین اکبری کی طرح ایک مخلوط مذہب بنانے کی بات بھی ہورہی تھی ۔
ایسے مشکل حالات میں آپ ایک شمع فروزاں بن کر جلوہ گرہوئے اورآپ کے وجودمسعودسے ہرقسم کی تاریکیاں دورہوتی گئیں ۔ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ امام احمدرضا قادری تمام مجددین اسلام میں علم وفضل اور تقویٰ وبزرگی میں سب سے بڑھ کر ہیں ،بلکہ ان کے عہد میں ہرچہارجانب سے مذہب اسلام پر حملے ہورہے تھے اورآپ نے تنہا ہر فتنے کی سرکوبی فرمائی ۔
ہنودونصاریٰ کے اعتراضات کے بھی جواب دیئے اور گمراہ فرقوں کی ضلالت وگمرہی کوبھی آشکارا فرمایا ۔ حق کو حق اور باطل کوباطل ثابت کردکھایا ،یہاں تک کہ تمام مخالفین کی کمر ٹوٹ گئی اور جن کو توفیق خداوندی سے حصہ میسر آیا ،وہ حق کے اجالے کی طرف لپک پڑے ۔امام اہل سنت نے ایک شعرمیں حالات کی ترجمانی فرمائی ہے ۔
کلک رضا ہے خنجرخوںخوار برق بار
اعدا سے کہہ دو خیر منائیں نہ شرکریں
مجدد ین کی بعثت وضرورت
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیامیں سکونت کی بجائے شرف حضوری کو پسند فرمایا تو رب تعالیٰ نے دین اسلام کی حفاظت کا یہ انتظام فرمایا کہ ہرصدی میں مجددپیدا فرماتا ہے ، جو بدعات اعتقادیہ وبدعات عملیہ کو اکھاڑپھینکتا اورسنتوں کوزندہ فرماتاہے،یہی تجدید دین واحیائے اسلام ہے ۔
ایک صدی میں ایک مجددبھی ہوسکتے ہیں اور ایک سے زائدبھی۔مجدد ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک صدی کا آخری حصہ اورمابعدصدی کا اول حصہ پائے ، اوران دونوں حصوں میں ان کی تجدیدو احیائے دین کا شہرہ ہو۔
علماے اسلام نے الف اول (ہزاراول) تک جس صدی میں مجددکی ولادت واقع ہو ،انہیںاسی صدی کا مجدد تسلیم کیا، پھر الف ثانی(ہزاردوم) سے یہ طریقہ بدل گیا۔اب جس صدی میں مجددکی وفات واقع ہو،اس صدی کا مجدد تسلیم کرتے ہیں ۔
اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقادری نے سیدالمکاشفین محی الدین ابن عربی محمدبن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵۶۰ھ – ۶۳۸ھ ) کے کلام سے اخذ کر کے فرمایاکہ شاید ۱۸۳۷ھ تک کوئی اسلامی سلطنت نہ رہے اور ۱۹۰۰ھ میں امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظہورہو۔ (الملفوظ ج۱ص۱۰۴ ، ۱۰۵ – حیات اعلیٰ حضرت ج ۱ص۲۶۲)۔
شاید الف دوم میں اختتام عالم ہوگا ،اس لیے شعوری یا لاشعوری طور پر مجددین کا شمار ان کی وفات کے اعتبار سے ہونے لگا :واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
حدیث بعثت مجددین
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ فِیْمَا اَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأسِ کُلِّ مِأَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم-معرفۃ الآثارو السنن للبیہقی ج۱ ص ۲۰۸)۔
(المستدرک علی الصحیحین ج۲کتاب الفتن والملاحم-المعجم الکبیرللطبرانی ج۱۹ ص ۶۷ ۴ )
۔(ت) حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ رب تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صد ی کے اخیرمیں ایسے کومبعوث فرمائے گاجواس امت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
سند حدیث مجددین
امام شمس الدین محمدبن عبدالرحمن بن محمدسخاوی(۸۳۱ھ-۹۰۲ھ)نے حدیث مذکورہ بالا کی سندسے متعلق تحریرفرمایا
}وَسَنَدُہٗ صَحِیْحٌ وَرِجَالُہٗ کُلُّہُمْ ثِقَاتٌ-وَکَذَا صَحَّحَہُ الْحَاکِمُ فَاِنَّہٗ اَخْرَجَہٗ فِیْ مُسْتَدْرَکِہٖ مِنْ حَدِیْثِ اِبْنِ وَہَبٍ{(المقاصدالحسنہ ج۱ص۲۰۳) (ت)اس حدیث کی سند صحیح ہے اوراس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری (۳۲۱ھ-۴۰۵ھ)نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ،کیونکہ انہوں نے مستدرک علی الصحیحین میں اس کی تخریج ابن وہب کی حدیث سے کی ۔
بعثت مجددین کا سبب
امام عبدالرؤف مناوی شافعی(۹۵۲ھ- ۱۰۳۱ھ) نے رقم فرمایا:۔
(اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ)اِلٰی اٰخِرِہٖ-وَ ذٰلِکَ لِاَنَّہٗ سُبْحَانَہٗ لَمَّا جَعَلَ الْمُصْطَفٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاتِمَۃَ الْاَنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ وَکَانَتْ حَوَادِثُ الْاَیَّامِ خَارِجَۃً عَنِ التَّعْدَادِ وَمَعْرِفَۃُ اَحْکَامِ الدِّیْنِ لَازِمَۃٌ اِلٰی یَوْمِ التَّنَادِ-وَلَمْ تَفِ ظَوَاہِرُ النُّصُوْصِ بِبَیَانِہَا بَلْ لَابُدَّ مِنْ طَرِیْقٍ وَافٍ بِشَانِہَا اِقْتَضَتْ حِکْمَۃُ الْمَلِکِ الْعَلَّامِ ظُہُوْرَقَوْمٍ مِنَ الْاَعْلَامِ فِیْ غُرَّۃِ کُلِّ قَرْنٍ لِیَقُوْمَ بِاِعْبَائِ الْحَوَادِثِ اِجْرَائً لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ مَعَ عُلَمَائِہِمْ مَجْرَی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ مَعَ اَنْبِیَائِہِمْ-فَکَانَ فِی الْمِأَۃِ الْاُوْلٰی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ{(فیض القدیر ج ۱ ص ۱۴ )۔
۔(ت) رب تعالیٰ ہرصدی کے اخیرمیں مجدد بھیجے گا۔ایسا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوحضرات انبیا ومرسلین علیہم الصلوٰۃوالسلام کا خاتم قراردیااورزمانے کے حوادث (نوپید مسائل)تعدادوشمارسے باہرہیں اوردینی احکام کی معرفت یوم قیامت تک واجب ہے،اورظاہری نصوص ان کے بیان کوکافی نہیں،پس نوپید مسائل کے حکم کوبتانے والا طریقہ ضروری ہے تورب تعالیٰ کی حکمت کاتقاضاہوا،ہرصدی کے شروع میںعلما میں سے ایک جماعت کے ظہور کا، تاکہ حوادث کے احکام بتانے کو مستعد ہو (تبلیغ وہدایت کے امور میں ) ،
اس امت کواپنے علما کے ساتھ بنی اسرائیل کواپنے انبیائے کرام کے ساتھ (والی کیفیت پر) جاری کرتے ہوئے ،پس پہلی صدی میں عمربن عبد العزیز مجدد ہوئے۔
توضیح :آخری رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بعثت ہوچکی ۔اب کسی نئے نبی ورسول کی آمد کا سلسلہ موقوف ہوچکا، اس لیے مجددین کی آمدکا سلسلہ رب تعالیٰ نے جاری فرمایا۔
بعثت کا مفہوم ووقت
امام مناوی نے لکھا:}وَہُنَا تَنْبِیْہٌ یَنْبَغِی التَّفَطُّنُ لَہٗ وَہُوَاَنَّ کُلَّ مَنْ تَکَلَّمَ عَلٰی حَدِیْثِ ’’اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ:الخ‘‘اِنَّمَا یُقَرِّرُہٗ بِنَائً عَلٰی اَنَّ الْمَبْعُوْثَ عَلٰی رَأسِ الْقَرْنْ یَکُوْنُ مَوْتُہٗ عَلٰی رَأسِہٖ-وَاَنْتَ خَبِیْرٌ بِاَنَّ الْمُتَبَادِرَ مِنَ الْحَدِیْثِ اِنَّمَا ہُوَ اَنَّ الْبَعْثَ وَہُوَالْاِرْسَالُ یَکُوْنُ عَلٰی رَأسِ الْقَرْنِ اَیْ اَوَّلِہٖ وَمَعْنَی اِرْسَالِ الْعَالِمِ تَأَہَّلُہٗ لِلتَّصَدِّیِ لِنَفْعِ الْاَنَامِ وَاِنْتِصَابُہٗ لِنَشْرِ الْاَحْکَامِ وَمَوْتُہٗ عَلٰی رَأسِ الْقَرْنِ اَخْذٌ،لَا بَعْثٌ-فَتَدَبَّرْ بِاِنْصَافٍ{(فیض القدیر شرح الجامع الصغیرج۱ص۱۷)۔
۔(ت) یہاں ایک تنبیہ ہے جس کوسمجھنا ضروری ہے،وہ یہ کہ جن حضرات نے حدیث ’’ان اللہ یبعث الخ‘‘ پر گفتگوکی،وہ اس کی توضیح اس طرح کرتے ہیںکہ مبعوث علیٰ رأس القرن کی وفات رأس قرن(اختتام صدی ) پر ہوگی،اورآپ باخبرہیں کہ حدیث سے متبادرہے کہ بعثت یعنی ارسال ،رأس قرن (اختتام صدی ) میں ہو گا اورعالم کے ارسال کا معنی عالم کا عوام کو فائدہ پہنچا نے کا اہل ہونااوراحکام شرعیہ کے نشر و اشاعت کے لیے تیارہونا ہے، اوررأس قرن (اختتام صدی ) پراس کی موت اخذ(واپس لینا)ہے،نہ کہ بعثت ،پس آپ انصاف کے ساتھ غورکرلو۔
توضیح : عبارت مذکورہ سے ثابت ہواکہ رأس قرن(اختتام صدی) پرمجددکوبھیجا جاتا ہے ،تاکہ اس صدی میں پیدا ہونے والے مفاسد کووہ دور کرسکے۔
اسمائے گرامی مجددین اسلام
صدی یکم
۔(۱) خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز (۹ھ- رجب ۱۰۱ھ )۔
صد ی دوم
۔(۱)امام مجتہدمحمدبن ادریس شافعی (۱۵۰ھ-۲۰۴ھ)۔
۔(۲)امام حسن بن زیاد لؤلؤحنفی( م۲۰۴ھ)۔
۔(۳) امام احمدبن محمدبن حنبل(۱۶۴ھ-۲۴۱ھ)۔
صدی سوم
۔(۱) قاضی ابوالعباس احمدبن عمر بن سریج بغدادی شافعی (۲۴۹ھ – ۳۰۶ھ)۔
۔(۲)امام اہل السنۃابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری(۲۶۰ھ-۳۲۴ھ)۔
۔(۳)امام ابو جعفرمحمدبن جریر طبری شافعی (۲۲۴ھ -۳۱۰ھ)۔
۔(۴)امام ابوجعفراحمدبن محمدبن سلامہ طحاوی حنفی مصری (۲۳۸ھ- ۳۲۱ھ)۔
۔(۵)علم الہدی امام ابومنصور محمدبن محمدبن محمود ماتریدی (م ۳۳۳ ھ)۔
صدی چہارم
۔(۱)قاضی ابوبکرباقلانی اصولی شافعی:محمدبن طیب بصری بغد ادی (۳۳۸ھ- ۴۰۳ھ)۔
۔(۲)امام ابوحامداحمدبن محمدبن احمداسفرائینی شافعی(۳۴۴ھ- ۴۰۶ھ )۔
۔(۳) امام ابوالحسین احمدبن محمد بن احمد قدوری حنفی (۳۶۲ھ- ۴۲۸ھ)۔
صد ی پنجم
۔(۱)امام محمدبن محمدبن محمدغزالی شافعی(۴۵۰ھ-۵۰۵ھ)۔
۔(۲)غوث اعظم محی الدین عبد القادرجیلانی(۴۷۰ھ-۵۶۰ھ)۔
۔(۳)قاضی القضاۃ قاضی ابوبکر فخرالد ین محمدبن حسین بن محمد حنفی ارسابندی مروزی (م۵۱۲ ھ )۔
صدی ششم
۔(۱)امام فخرالدین محمدبن عمررازی شافعی صاحب التفسیرالکبیر (۵۴۴ھ- ۶۰۶ھ )۔
صدی ہفتم
۔(۱) امام تقی الدین بن دقیق العید شافعی (۶۲۵ھ -۷۰۲ھ)۔
صدی ہشتم
۔(۱)محدث زین الدین عراقی شافعی (۷۲۵ھ-۸۰۸ھ)۔
۔(۲) امام شمس ا لدین محمدبن محمدبن محمددمشقی شیرازی شافعی الشہیربابن الجزری مؤلف الحصن الحصین (۷۵۱ھ- ۸۳۳ھ)۔
۔(۳)سراج الدین عمر بن رسلان عسقلانی بلقینی مصری شافعی (۷۲۴ھ -۸۰۵ھ)۔
۔(۴) میرسید علی بن محمدبن علی شریف جرجانی حنفی (۷۴۰ھ – ۸۱۶ھ)۔
صدی نہم
۔(۱)امام جلال الدین سیوطی شافعی (۸۴۹ھ -۹۱۱ھ)۔
۔(۲)امام شمس ا لدین سخاوی شافعی (۸۳۱ھ -۹۰۲ھ)۔
۔(۳)شیخ الاسلام زکریا بن محمدبن احمدبن زکریا انصاری مصری شافعی (۸۲۳ھ – ۹۲۶ھ )۔
صدی دہم
۔(۱) امام شمس الدین محمدبن احمدبن حمزہ رملی مصری شافعی (۹۱۹ھ-۱۰۰۴ھ)۔
۔(۲) محدث ملاعلی بن سلطان محمد قاری حنفی ہروی مکی (۹۳۰ھ-۱۰۱۴ھ)۔
صدی یازدہم
۔(۱)مجددالف ثانی شیخ احمدسرہندی (۹۷۱ھ-۱۰۳۴ھ)۔
۔(۲)محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی (۹۵۸ھ-۱۰۵۲ھ)۔
۔(۳) میرعبدالواحد بلگرامی مؤلف سبع سنابل (۹۱۵ھ-۱۰۱۷ھ)۔
صدی دوازدہم
۔(۱) سلطان اورنگ زیب عالمگیرباشاہ ہند (۱۰۲۸ھ- ۱۱۱۷ھ)۔
۔(۲) حضرت شاہ کلیم اللہ چشتی دہلوی( م۱۱۲۳ھ)۔
۔(۳)شیخ غلام نقشبند لکھنوی (م۱۱۲۶ھ)۔
۔(۴) صدر الصدور علامہ محب اللہ بہار ی مؤلف مسلم الثبوت وسلم العلوم(م ۱۱۱۹ھ)۔
۔(۵)امام عبدالغنی بن اسماعیل نابلسی حنفی دمشقی (۱۰۵۰ھ -۱۱۴۳ ھ)۔
صدی سیزدہم
۔(۱)شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی (۱۱۵۹ھ -۱۲۳۹ھ)۔
صدی چہاردہم
۔(۱)اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمدرضا قادری(۱۲۷۲ھ-۱۳۴۰ھ)۔
(ماخوذ ازتحفۃ المہتدین باخبارالمجددین للسیوطی الشافعی-مرقاۃ المفاتیح للقاری ج۱ص ۲۴۷ – فیض القدیرشرح الجامع الصغیر للمناوی ج۱ص۱۴ ج۲ص۳۵۸-حیات اعلیٰ حضرت ج۲ ص ۱۰۷ تا ۱۱۶ -امام احمدرضا اکیڈمی بریلی شریف – سوانح اعلیٰ حضرت ص۱۳۰ – خلاصۃالاثرفی اعیان القرن الحادی عشر ج۲ ص ۳۳۰تا ۳۳۳- عون المعبود شرح سنن ابی داؤدج ۹ ص ۱۳۴۶ – جامع الاصول ج۱۱ص ۳۱۹ – طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للسبکی ج۱ص۲۰۰)۔
ملک العلماقدس سرہ العزیزنے ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ (ج۲ ص ۱۰۷)میںحافظ ابن حجر عسقلانی شافعی (۷۷۳ھ-۸۵۲ھ ) کے رسالہ}الفوائد البہجۃ فی من یبعثہ اللہ لہٰذہ الامۃ{،امام سیوطی شافعی(۸۴۹ھ-۹۱۱ھ) کے رسالہ} التنبئۃ بمن یبعثہ اللہ علیٰ رأس کل مأۃ سنۃ{ ودیگر کتب ورسائل سے اخذ فرماکر چودھویں صدی ہجری تک کے مجددین اسلام کی فہرست تیار فرمائی ہے۔ملک ہندمیں مجددین کی یہی فہرست رائج ہے ۔
اسی بحث میں ملک العلمانے امام اہل سنت ، اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مجدد ہونے کی علامتوں اور نشانیوںکوتحریر فرمایاہے۔دراصل امام احمدرضا کی خدمات یہ ثابت کرتی ہیں کہ آپ نہ صرف ایک عالم ومفتی تھے ،بلکہ نوع بہ نوع فتنوں کی آندھی اور طوفان میں شمع حق بن کر مسلمانان عالم کے ایمان وعقائد کا تحفظ فرمانے والے خداوندی نعمت تھے۔ کئی علما مل کر جوکام نہیں کرسکتے ،امام احمد رضا قادری نے اپنی قوت خداداد سے تنہا اتنی خدمات انجام دی ہیں ۔
وادی رضا کی ہے کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے
اگلوں نے تو لکھا ہے بہت کچھ علم دین پر
جوکچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)۔
اعزازی مدیر: افکار رضا
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع