تحریر: طارق امور مصباحی مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہشتم
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہشتم
کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں یہ اس بحث کی سب سے اہم دلیل ہے۔کفر کلامی کے صحیح فتویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ ملزم کافر کلامی ہے اور دین اسلام سے بالکل خارج ہے۔ اگر بعد میں کسی سبب سے کوئی مفتی اس کفر کا انکار کرے تو دوصورت ہوگی
۔(۱)پہلا فتویٰ کسی سبب سے غلط ہے
۔(۲)دوسرا فتویٰ کسی سبب سے غلط ہے۔
اگر دونوں فتویٰ کو صحیح مانا جائے تو اجتماع متضادین لازم آئے گا،یعنی ملزم کا مومن وکافر دونوں ہونا۔
ایما ن وکفر ایک دوسرے کی نقیض ہیں،لہٰذا بیک وقت ایک ہی انسان کا ایمان وکفر دونوں سے متصف ہونا محال ہے۔ اب اگر وہ انسان مومن ہے تو کافر نہیں۔اگر کافر ہے تو مومن نہیں۔
دونوں فتویٰ میں سے ایک فتویٰ ضرورغلط ہے،ورنہ محال لازم آئے گا اور جو امر مستلزم محال ہو،وہ خود محال ہوتا ہے،لہٰذا دونوں فتویٰ کا صحیح ہونا محال ہوگا۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں میں سے کون سا فتویٰ شرائط کے مطابق ہے اور کون سا مسئلہ شرائط کے خلاف ہے۔ظنی اور اجتہادی مسائل اگر متضادبھی ہوں تو چوں کہ مجتہد نے اپنے اصول کی مکمل رعایت کی ہے،اس لیے عمل کے حق میں ان مختلف فیہ مسائل کو حق تسلیم کیا گیا،لیکن وہاں بھی عند اللہ ایک ہی حق ہے۔
قطعی عقائد میں ایک حق اس کے علاوہ سب باطل
قطعی عقائد میں اجتماع متضادین کی صورت نہیں۔متضادین میں سے ایک حق اوراس کے علاوہ سب باطل ہوگا۔منقولہ ذیل عبارت میں عقلیات سے مراد اعتقادیات ہیں۔ مذہب اسلام میں اعتقاد یات کوعقلیات کہنا مشہور اصطلاح ہے۔منقولہ ذیل عبارت میں یہ وضاحت ہے کہ قطعیات میں متضاد امور کا وجود باطل ہے۔
قال بحر العلوم الفرنجی محلی
۔((المصیب)من المجتہدین ای الباذلین جہدہم (فی العقلیات واحد-و الا اجتمع النقیضان)لکون کل من القدم والحدوث مثلًا مطابقًا للواقع(وخلاف العنبری)المعتزلی فیہ (بظاہرہ غیر معقول)بل بتاویل کما سیجئ ان شاء اللّٰہ تعالٰی(وَالمُخطِئُ فِیہَا)ای فی العقلیات(اِن کَانَ نَافِیًا لِمِلَّۃِ الاسلام فکافرٌواٰثِمٌ علٰی اختلاف فی شرائطہ کَمَا مَرَّ)من بلوغ الدعوۃ عند الاشعریۃ ومختارالمصنف-وَمضیء مُدَّۃِ التَّأمُّل والتمییز عند اکثرالماتریدیۃ(وَاِن لَم یکن)نافیًا لِمِلَّۃِ الاسلام(کخَلقِ القراٰن)ای القول بہ ونفی الرویۃ والمیزان وامثال ذلک(فَاٰثِمٌ لَاکَافِرٌ) (وَالشَّرعیات القطعیات کذلک)ای مثل العقلیات(فمنکر الضروریات) الدینیۃ (مِنہَا کَالاَرکَانِ)الاربعۃ الَّتِی بُنِیَ الاسلامُ عَلَیہَا-الصَّلٰوۃِ والزَّکَاۃِ وَالصَّومِ وَ الحَجِّ (وحجیۃ القراٰن ونَحوِ ہِ مَاکافرٌ اٰثِمٌ- وَمُنکِرُ النَّظریات)منہا(کحجیۃ الاجماع وخبر الواحد)وَعَدُّوا مِنہَا حجیۃَ القیاس اَیضًا(اٰثِمٌ فقط)غَیرُ کَافِرٍ-والمراد بالقطع المعنی الاخص-وہومَا لَا یَحتَمِلُ النَّقیض وَلَو اِحتَمَالًا بعیدًا-وَلَوغَیرَ نَاشٍ عن الدلیل)۔
۔(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص377)۔
توضیح :بحرالعلوم کے کلام سے واضح ہوگیا کہ اعتقادیات میں متضاد اقوال کی گنجائش نہیں۔فقہی امور ظنی ہوتے ہیں۔ان میں متخالف امور کو اجتہاد کے اعتبار سے صحیح مانا جاتا ہے۔
جب ایک نے کسی کوکافر کلامی کہا اور دوسرے نے کا فر کلامی نہیں کہا تو یہاں کفر کلامی کا وجود وعدم مجتمع ہورہا ہے۔ یہ تضاد ہے۔
ایک ہی شئ کاایک ہی وقت میں وجودوعدم محال ہے،کیوں کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شئ کے وجود وعدم کے اجتماع سے اجتماع متضادین لازم آتا ہے اوراجتماع متضادین عقلاً باطل ہے،اور جو امر عقلاً باطل ہو، وہ شرعاً بھی باطل ہوتا ہے۔ شریعت عقل کے خلاف نہیں جا سکتی کیوں کہ شریعت کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے۔
شریعت کا ثبوت عقل سے
قال العلامۃ البدایونی ناقلًا عن ابن ابی شریف رحمہ اللّٰہ تعالٰی:(اِنَّ الشَّرعَ اِنَّمَا یَثبُتُ بالعقل فان ثبوتہ یتوقف علٰی دلالۃ المعجزۃ علٰی صدق المُبَلِّغِ وانما تثبتُ ہذہ الدلالۃُ بالعقل-فَلَو اَتَی الشَّرعُ بما یُکَذِّبُ العَقلَ وہو شَاہِدُہ لَبَطَلَ الشَّرعُ والعقل معًا)(المعتقد المنتقد ص73-استنبول: ترکی)۔
توضیح : شریعت کا ثبوت عقل سے ہوتا ہے۔ اگر شریعت کوئی ایسا حکم لائے،جس سے عقلی حکم باطل ہوجائے تو اس صورت میں عقل وشریعت دونوں کا بطلان ہوجائے گا،اسی لیے جب عقلی حکم وشرعی حکم میں اختلاف ہوتو شرعی حکم کوعقلی حکم کے موافق کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ حکم اعتقادیات سے متعلق ہے۔فقہی وعملی احکام کا ثبوت عقل سے نہیں ہوتا،نہ ہی وہاں عقلی حکم سے مطابقت کی ضرورت ہے۔مزید تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔
عربی عبارتوں کے تراجم مرقوم نہیں،لیکن اہل علم کو دلائل فراہم کردئیے جارہے ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی ترجمہ بھی رقم کردیا جائے گا۔
اعتقادیات میں حکم عقلی کا بطلان دلیل سمعی سے نہیں ہوگا
قال صدرالشریعۃ البخاری
۔(لایمکن ابطال العقل بالعقل ولابالشرع وہو مَبنِیٌّ علیہ)ای الشرع مبنی علی العقل-لانہ ۔مبنی علٰی معرفۃ اللّٰہ تعالٰی-والعلم بوحدانیتہ-و العلم بان المعجزۃ دالۃ علی النبوۃ-وہذہ الامور لا تعرف شرعًا-بل عقلًا،قطعًا للدور)۔
۔(التوضیح شرح النتقیح جلددوم: ص160)۔
قال التفتازانی
۔(قولہ(قطعًا للدور)یعنی ان ثبوت الشرع موقوف علٰی معرفۃ اللّٰہ تَعَالٰی وکلامہ وبعثۃ الانبیاء بدلالۃ المعجزات-فلو توقفت معرفۃ ہٰذہ الامورعلی الشرع لزم الدور)۔
۔(التلویح حاشیۃ التوضیح جلددوم: ص161)۔
توضیح : اعتقادیات میں حکم عقلی کابطلان دلیل سمعی سے نہیں ہوتا،بلکہ دلیل سمعی کی ایسی توضیح کی جاتی ہے کہ وہ عقلی حکم کے موافق ہو جائے۔کافر کلامی کو مومن یا محض گمراہ ماننے سے اجتماع متضادین لازم آتا ہے،اور اجتماع متضادین عقلا محال ہے،لہٰذا کافرکلامی کا مومن یا محض گمراہ ہونا محال ہوا۔
یہاں پر دلیل عقلی کے بالمقابل دلیل سمعی نہیں ہے،بلکہ مذبذبین کا استدلال فاسد ہے۔جب دلیل عقلی کے بالمقابل شرعی دلیل آئے تو شرعی دلیل میں تاویل ہو گی۔
اور جب عقلی دلیل کے مقابل مذبذبین کا استدلال فاسد آ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔جب دلیل عقلی ودلیل سمعی میں تضادہوتوکس پر عمل ہوگا؟قال الجصاص:(وَمِمَّا یُرَدُّ بِہٖ اَخبَارُ الاٰحَادِ مِنَ العِلَلِ-اَن ینافی موجبات احکام العقول-لِاَنَّ العُقُولَ حُجَّۃٌ لِلّٰہِ تَعَالٰی-وَغَیرُ جَاءِزٍ اِنقَاضُ مَا دَلَّت عَلَیہِ وَاَوجَبَتہُ-وَکُلُّ خَبَرٍ یُضَادُّہُ حُجَّۃٌ لِلعَقلِ،فہو فاسد غیر مقبول- وَحُجَّۃُ العَقلِ ثَابِتَۃٌ صَحِیحَۃٌ-اِلَّا اَن یَکُونَ الخَبَر مُحتَمِلًا لِوَجہٍ لَا یُخَالِفُ بِہٖ اَحکَامُ العُقُولِ-فَیَکُونُ مَحمُولًاعَلٰی ذٰلِکَ الوَجہِ)۔
۔(الفصول فی الاصول جلدسوم:ص 122-وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیہ:کویت)۔
توضیح :خبرواحد کے عدم قبول کی علتوں میں سے ایک علت خبرواحد کا حجت عقلیہ کے خلاف ہونا ہے۔ اس مخالفت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس خبر واحد کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔ ہاں،اگر خبر واحد کی کوئی ایسی تاویل ہوجو عقل کے خلاف نہ ہوتو اس تاویل کے سبب اس کوقبول کیا جا ئے گا،اوروہی مفہوم مراد لیا جائے گا جوعقل کے خلاف نہیں ہے۔نصوص قطعیہ کا مفہوم بھی بظاہر عقل کے خلاف ہوتو عقل کے موافق تاویل کرنی ہوگی،کیوں کہ جوعقلاً محال ہو،وہ شرعاً بھی محال ہوگا۔
مندرجہ ذیل بحث میں تفصیل مرقوم ہے
جوعقلاً محال ہو،وہ شرعاً بھی محال ہوگا
قال العلامۃ البدایونی:(فی الارشاد لامام الحرمین:اعلموا وَفَّقَکُمُ اللّٰہُ:ان اصول العقائد تنقسم الٰی ما یدرک عقلًا ولَا یَسُوغُ تقدیرادراکہ سَمعًا-والٰی ما یدرک سمعًا وَلَا یَتَقَدَّرُ ادراکہ عقلًا-والٰی ما یجوز ادراکہ سمعًا وعقلًا
۔(۱)فَاَمَّا مَا لَا یُدرَکُ اِلَّا عَقلاً-فکل قاعدۃ فی الدین تَتَقَدَّمُ عَلَی العِلم بکلام اللّٰہ تَعَالٰی-ووجوب اتصافہ بکونہ صدقًا-اذ السمعیات تستند الٰی کَلاَم اللّٰہ تَعَالٰی-وما سبق ثُبُوتُہٗ فِی المرتبۃ ثبوتَ الکلام وجوبًا- فیستحیل ان یکون مدرکہ السمع
۔(۲)واما ما لا یدرک الاسمعًا فہوالقضاء بوقوع ما یجوز فی العقل وقوعہ ولا یجب-فلا یتقرر الحکم بثبوت الجائز ثبوتُہ فیما غاب عَنَّا اِلَّا بسمع-ویتصل بہٰذا القسم عندنا جملۃُ احکام التکلیف
۔(۳)واما ما یجوز ادراکہ عقلًا وسمعًا فہو الذی تدل علیہ شواہد العقول ویتصورثبوت العلم بکلام اللّٰہ تَعَالٰی مُقَدَّمًا عَلَیہِ-فہذا القسم یتوصل الٰی ادراکہ بالسمع والعقل{ (المعتقدالمنتقدص179)قال امام الحرمین بعد کلام وتفصیل:}فاذا ثبت ہذہ المقدمۃ یتعین بعدہا علٰی کل معتن واثق بعقدہ- ان ینظر فیما تعلقت بہ الادلۃ السمعیۃ:۔
۔(۱)فان صادفہ غیر مستحیل فی العقل-وکانت الادلۃ السمعیۃ قاطعۃً فی طرقہا- لامجال لاحتمال فی ثبوت اصولہا-وفی تاویلہا-فما ہذا سبیلہ فلا وجہ الا القطع بہ
۔(۲)وان لم یثبت بطرق قاطعۃ-ولم یکن مضمونہا مستحیلۃ فی العقل
۔(۳)او ثبت اصولہا-ولکن طرق التاویل تجول فیہا-فَلَا سَبِیلَ الی القطع-ولکن المتدین یغلب علٰی ظنہ ثبوت مَا ظَہَرَ الدَّلیِلُ السَّمعِیُّ عَلٰی ثُبُوتِہ-وان لم یکن قاطعًا
۔(۴) وان کان مضمون الشرع المتصل بنا مخالفًا لقضیۃ العقل-فہو ای المضمون المفہوم مردود قَطعًا -فان الشرع لا یخالف العقل-ولا یتصور فی ہذا القسم ثبوت سمع قاطع بلاخفاء بہ-فہذہ مقدمۃ للسمعیات-لا بد من الاحاطۃ بہا-انتہی)(المعتقد المنتقد ص180)۔
توضیح :دلیل سمعی کا جومفہوم عقل کے خلاف ہو،وہ قبول نہیں کیا جائے گا،بلکہ ایسی تاویل کی جائے گی جوعقل کے موافق ہو،اس لیے کہ شریعت عقل صحیح کی مخالفت نہیں کرتی۔
قال العلامۃ البدایونی ناقلا عن الامام عبد اللّٰہ بن اسعد الیمنی-وقد سئل منہ عن کون اللّٰہ تَعَالٰی قَادِرًا علٰی جمیع الممکنات-فَاَجَابَ مُفَصَّلًا-وہو طویل-وفیہ:(ان المستحیلات ثلٰثۃ-(۱)مستحیل عقلًا (۲)ومستحیل شرعًا(۳)ومستحیل عادۃً- وقد رأیتہا-یرجع کل واحد منہا فی التقسیم العقلی الٰی ثلثۃ -فیکون المجموع تسعۃ- حاصلۃ من ضرب ثلٰثۃ فی ثلٰثۃ- فالمستحیل العقلی-اما ان یستحیل ایضًا شرعًا وعادۃً-او شرعًا دون عادۃٍ-اوعادۃً دون شرع-وہکذا-وہذہ الاقسام التسعۃ بعضہا ساقط لعدم اجتماع بعض المذکورات مع بعض)(المعتقد المنتقد ص28)۔
قال الامام احمد رضا القادری
۔(قولہ(فیکون المجموع تسعۃ)اقول:بل سبعۃ لسقوط البعض بالتکرار وذلک ان المستحیل اما ان یستحیل (۱)عقلاً-او(۲) شرعًا -او(۳) عادۃً- او(۴)عقلًاوشرعًا-او(۵) عقلًا وعادۃً-او(۶)شرعًا وعادۃً -او(۷) عقلًا و شرعًا وعادۃً جمیعًا-والباطل منہا-الاولان والرابع والخامس- فتبقی ثلٰثۃ)(المعتمد المستند ص28)۔
قال الامام الیمنی فی توضیح تلک المستحیلات:(وایضاح ذلک-ان کل مستحیل عقلی مستحیل شرعًا وعادۃً علٰی وجہ الاطراد-غیر قابل لاستثناء مراد-ولہٰذا نقول-ان جمیع الظواہر التی یحیل العقل اجراۂا علٰی ظواہرہا یجب تاویلہا علٰی ما یلیق بہا فی مواطنہا۔
ذلک انہ اذا تعارض الدلیلان -فاما ان یکونا قطعیین-او ظنیین-او احدہما قطعیًّا والاٰخرظنیًّا-ولا یجوز ان یکونا قطعیین الا ان یکون احد مدلولیہما مؤولًا-او منسوخًا ان کان فی الاحکام متراخیًا عنہ بشیء من الازمان-فان کان احدہما قطعیا دون الاٰخر-ترجح القطعی عقلیًّا کان اوشرعیًّا-وان کان ظنیین یترجح الشرعی علی العقلی۔وکل مستحیل شرعًا یستحیل وجودہ عادۃً-لوجوب متابعۃ الشرع-وعدم مباینۃ العادۃ العامۃ لہ-ولا یستحیل ذلک عقلًا-لجواز مخالفۃ العقل لِمَا وَرَدَ بہ الشَّرعُ- ولہذا لا یجب تخلید الکافر فی النار عقلًا-وان وجبت شرعًا-والرجوع فی سائر الاحکام الٰی ما یثبت فی الشرع المنقول-لا،الٰی مَا جَوَّزَتہُ العُقُولُ-نعم ما اوجبہ العقل من الاعتقاد-فالعدول عنہ من جملۃ الالحاد-لان خلافہ ان کان قطعیًّا کان مؤولًا-وان لَم یَکُن قَطعِیًّا کان باطلًا۔وکل مستحیل عادۃً،لا یستحیل عقلًا وشرعًا)۔
۔(المعتقد المنتقد ص30)۔
توضیح :جوعقلاً محال ہو، وہ شرعا ً بھی محال ہوگا۔
کافرکلامی کامومن اور محض گمراہ ہونا عقلاً محال ہے تو شرعاً بھی محال ہے۔
صحیح برہان عقلی کے خلاف سواد اعظم کا اتفاق محال
امام احمد رضاقادری نے تحریر فرمایا کہ کسی صحیح برہان عقلی کے خلاف سواد اعظم اہل سنت وجماعت کا اتفاق محال ہے۔جب صحیح برہان عقل سے ثابت ہے کہ اجتماع متضادین محال ہے،اور کافرکلامی کو مومن یا محض گمراہ ماننے سے اسلام وکفر کا اجتماع لازم آتا ہے،اور یہ اجتماع متضادین ہے اور اجتماع متضادین محال ہے توکسی شخص کاایک ہی وقت میں کافر کلامی اورمومن ہونا, یا کافر کلامی اور محض گمراہ ہونا محال ہوگا۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی تحریر مندر جہ ذیل ہے
للہ الحمد فقہ میں جس طرح اجماع اقوی الادلہ ہے کہ اجماع کے خلاف کا مجتہد کو بھی اختیار نہیں۔اگرچہ وہ اپنی رائے میں کتاب وسنت سے اس کا خلاف پاتاہو،یقیناً سمجھا جائے گاکہ یا فہم کی خطا ہے،یا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔اگرچہ مجتہد کو اس کا ناسخ نہ معلوم ہو۔
یوں ہی اجماع امت تو شئی عظیم ہے۔ سواد اعظم یعنی اہل سنت کا کسی مسئلہ عقائد پر اتفاق یہاں اقوی الادلہ ہے۔ کتاب وسنت سے اس کا خلاف سمجھ میں آئے توفہم کی غلطی ہے۔حق سواد اعظم کے ساتھ ہے۔اور ایک معنی پر یہاں اقوی الادلہ عقل ہے کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی سے ظاہر ہوئی ہے، مگر محال ہے کہ سواد اعظم کا اتفاق کسی برہان صحیح عقلی کے خلاف ہو“۔
۔(فتاوی رضویہ ج11ص56-57-رضا اکیڈمی ممبئی)۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے ؟ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع